بینکوں کا ایل سی کھولنے سے انکارروسی گندم کی درآمد کھٹائی میں پڑگئی
روس پر عائد مغربی پابندیوں کے تناظر میں بینکوں کو امریکی تادیبی کارروائی کا خوف لاحق
پاکستانی بینکوں نے روس سے گندم درآمد کرنے کے لیے لیٹرز آف کریڈٹ کھولنے سے انکار کردیا کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ یوکرین جنگ کے باعث روس پر عائد مغربی پابندیوں کے تناظر میں ایسا کرنے کی صورت میں امریکا کی جانب سے ان پر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی بینکوں نے روس سے گندم درآمد کرنے کے لیے لیٹرز آف کریڈٹ کھولنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس صورت حال میں روس سے گندم منگوانے کے لیے ایک متبادل آپشن پر کام ہورہا ہے۔ سیلاب سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے پاکستان کو گندم درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں ایک وفد نے ماسکو کا دورہ کرکے خام تیل درآمد کرنے کے لیے بھی بات چیت کی تھی، جس کے بعد بتایا گیا تھا کہ روس نے پاکستان کو رعایتی داموں تیل فروخت کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ تاہم روس سے گندم کی درآمد کے معاملے میں بینکوں کی ہچکچاہت کے باعث روسی تیل کی درآمد کے امکان پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایک پاکستانی ریفائنری نے بھی گزشتہ دنوں روس سے تیل خریدنے کی کوشش کی تھی، جو امریکا اور روس کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث کامیاب نہیں ہوسکی کیونکہ اس کے لیے بھی پاکستانی بینکوں نے لیٹرز آف کریڈٹ کھولنے سے انکار کردیا تھا۔
واضح رہے کہ ریگولیٹری خلاف ورزیوں پر دو پاکستانی بینکوں پر امریکا میں پہلے ہی جرمانہ عائد کیا جاچکا ہے۔ اگرچہ امریکا نے پاکستان کی روس کے ساتھ تجارت پر پابندی نہیں لگائی، اس کے باوجود روس سے تجارت کے لیے ایل سیز کھولنے کے معاملے میں بینک بہت زیادہ محتاط دکھائی دے رہے ہیں۔
وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی گزشتہ دنوں روس سے حکومت سے حکومت کی سطح پر معاہدے کے تحت تین لاکھ ٹن اور ساڑھے چار لاکھ ٹن گندم کی درآمد کیلیے دو علیحدہ علیحدہ پیشکشوں کی منظوری دے چکی ہے۔
یاد رہے کہ سیلاب سے گندم کی فصل کو شدید نقصان پہنچنے کے علاوہ سرکاری گوداموں میں موجود گندم کے ذخائر کو سیلابی وبرساتی پانی سے پہنچنے والے نقصانات کے باعث بھی اس کی قلت پیدا ہوئی، اس کے علاوہ کھاد، بجلی اور دیگر ضروری اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث بھی کسان گندم اگانے سے دامن بچا رہے ہیں.
دوسری جانب گندم کی بڑے پیمانے پر افغانستان اسمگلنگ کے باعث صورت حال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ ایسے میں کاٹن جننگ فیکٹریز نے بھی کاشتکاروں سے کپاس خریدنے سے انکار کردیا ہے، جس کے نتیجے میں کسانوں کے پاس اب گندم کی بوائی کے لیے مناسب سرمایہ ہی موجود نہیں۔ گندم کی کاشت میں بڑے پیمانے میں کمی کے باعث ملک میں فوڈ سیکورٹی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی بینکوں نے روس سے گندم درآمد کرنے کے لیے لیٹرز آف کریڈٹ کھولنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس صورت حال میں روس سے گندم منگوانے کے لیے ایک متبادل آپشن پر کام ہورہا ہے۔ سیلاب سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے پاکستان کو گندم درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں ایک وفد نے ماسکو کا دورہ کرکے خام تیل درآمد کرنے کے لیے بھی بات چیت کی تھی، جس کے بعد بتایا گیا تھا کہ روس نے پاکستان کو رعایتی داموں تیل فروخت کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ تاہم روس سے گندم کی درآمد کے معاملے میں بینکوں کی ہچکچاہت کے باعث روسی تیل کی درآمد کے امکان پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایک پاکستانی ریفائنری نے بھی گزشتہ دنوں روس سے تیل خریدنے کی کوشش کی تھی، جو امریکا اور روس کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث کامیاب نہیں ہوسکی کیونکہ اس کے لیے بھی پاکستانی بینکوں نے لیٹرز آف کریڈٹ کھولنے سے انکار کردیا تھا۔
واضح رہے کہ ریگولیٹری خلاف ورزیوں پر دو پاکستانی بینکوں پر امریکا میں پہلے ہی جرمانہ عائد کیا جاچکا ہے۔ اگرچہ امریکا نے پاکستان کی روس کے ساتھ تجارت پر پابندی نہیں لگائی، اس کے باوجود روس سے تجارت کے لیے ایل سیز کھولنے کے معاملے میں بینک بہت زیادہ محتاط دکھائی دے رہے ہیں۔
وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی گزشتہ دنوں روس سے حکومت سے حکومت کی سطح پر معاہدے کے تحت تین لاکھ ٹن اور ساڑھے چار لاکھ ٹن گندم کی درآمد کیلیے دو علیحدہ علیحدہ پیشکشوں کی منظوری دے چکی ہے۔
یاد رہے کہ سیلاب سے گندم کی فصل کو شدید نقصان پہنچنے کے علاوہ سرکاری گوداموں میں موجود گندم کے ذخائر کو سیلابی وبرساتی پانی سے پہنچنے والے نقصانات کے باعث بھی اس کی قلت پیدا ہوئی، اس کے علاوہ کھاد، بجلی اور دیگر ضروری اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث بھی کسان گندم اگانے سے دامن بچا رہے ہیں.
دوسری جانب گندم کی بڑے پیمانے پر افغانستان اسمگلنگ کے باعث صورت حال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ ایسے میں کاٹن جننگ فیکٹریز نے بھی کاشتکاروں سے کپاس خریدنے سے انکار کردیا ہے، جس کے نتیجے میں کسانوں کے پاس اب گندم کی بوائی کے لیے مناسب سرمایہ ہی موجود نہیں۔ گندم کی کاشت میں بڑے پیمانے میں کمی کے باعث ملک میں فوڈ سیکورٹی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔