ووٹرز کا قومی دن ووٹ سب کا بنیادی حق خواتین کا اندراج ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہوگا
الیکشن کمیشن، نادرا اور سول سوسائٹی کی کاوشوں سے رجسٹرڈ ووٹوں میں جینڈر گیپ 11 فیصد سے کم ہوکر 8 فیصد رہ گیا ہے
7 دسمبر کو 'ووٹرز کا قومی دن'' منایا جاتا ہے جس کا مقصد شہریوں کو ووٹ کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دینا،ووٹر رجسٹریشن کو بہتر بنانا اور تمام شہریوں کے حق رائے دہی کو یقینی بنانا ہے۔
اس اہم دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ہدیٰ علی گوہر
( ڈپٹی ڈائریکٹر میڈیا کووارڈینیشن صوبائی الیکشن کمیشن پنجاب )
آئین پاکستان تمام شہریوں کو ووٹ کا حق دیتا ہے۔ 18 برس عمر کے تمام شہریوں کو ماسوائے ذہنی معذورافراد کے، یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے آزادی کے ساتھ ووٹ کاسٹ کریں۔ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اور ہماری ذمہ داری صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد کروانا ہے۔
یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہرمرد،عورت، خواجہ سرائ، خصوصی افراد، مذہبی اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کو ان کا حق رائے دہی حاصل ہو اور سب کی انتخابی عمل میں شمولیت ہو۔ ہم اس حوالے سے کاوشیں کرتے ہیں اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔
الیکشن کمیشن مختلف سروے بھی کرتا ہے اور پھر اس کے نتائج کی روشنی میں لائحہ عمل تیار کرتا ہے کہ کس طرح آگے بڑھا جائے اور ووٹرز کے مسائل کو کم کیا جائے۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹوں کی کم تعداد ہے۔
ہم اس گیپ کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے پانچ سالہ منصوبے کا حصہ ہے کہ ہم نے اگلے الیکشن تک رجسٹرڈ ووٹوں میں جینڈر گیپ کا ہر ممکن خاتمہ کرنا ہے۔ اس وقت کل ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 96 لاکھ ہے۔
2018ء میں خواتین اور مردوں کے رجسٹرڈ ووٹوں میں 11 فیصد گیپ تھا جو ہماری مسلسل جاری مہم کی وجہ سے 8 فیصد رہ گیا ہے، یہ یقینا حوصلہ افزا ہے، اسے کم کرنے کیلئے مزید کام جاری ہے۔ اس مہم میں الیکشن کمیشن، نادرا، سول سوسائٹی سب مل کر کام کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن میں جینڈر گیپ اینڈ سوشل انکلوژن کا الگ ونگ موجود ہے۔ ہم خواتین کو ووٹ کے اندراج اور کاسٹ کرنے کیلئے ہر ممکن سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔
پولنگ سٹیشنز کو بھی پہلے سے محفوظ اور سازگار بنایا جارہا ہے تاکہ خواتین اور خصوصی افراد کو اپنے آئینی حق ادا کرنے میں کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہم مہم کے ذریعے ووٹر رجسٹریشن اور ووٹر ٹرن آؤٹ بہتر بنانے کیلئے بھی کام کر رہے ہیں۔
ملک میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ انہیں آگاہی دینے اور موبلائز کرنے کیلئے ہم مختلف تعلیمی ادروں میں آگاہی سمینارز منعقد کرواتے ہیں تاکہ ان کے ووٹ کا اندراج ہوسکے، ہم طالبات پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔
ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ آفیسر موجود ہیں ، ضلعی ووٹر ایجوکیشن کمیٹیاں بھی موجود ہیں، جن کی ماہانہ میٹنگز ہوتی ہیں، ہر ضلع کی ڈیمانڈ کے مطابق پروگرامز ترتیب دیئے جاتے ہیں، جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ لاہور، گوجرانوالہ، قصور، شیخوپورہ، سرگودھا جیسے علاقوں کے ووٹرز میں 6 سے 9 فیصد تک جینڈر گیپ ہے۔
الیکشن کمیشن کی ایس ایم ایس سروس 8300 بہترین ہے جسے عالمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے، شہری اس پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیج کر ووٹ کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں، اس میں مختلف سروسز کے حوالے سے ویب سائٹ کا لنک بھی بھیج دیا جاتا ہے، شہری ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے نمبر پر کال کے ذریعے بھی معلومات لے سکتے ہیں۔
آن لائن ووٹر رجسٹریشن پر کام ہو رہا ہے، جلد اسے لانچ کر دیا جائے گا۔ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرز کو یہ ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ 2023ء کے انتخابات سے قبل تمام پولنگ سٹیشنز کا خود دورہ کریں، مسائل دور کریں اور انہیں تمام ووٹرز بشمول خواتین اور خصوصی افراد، سب کے لیے قابل رسائی بنائیں۔ تمام علاقوں میں فارم کولیکشن سینٹرز قائم کر دیے گئے ہیں۔ ووٹ کا اندراج بہتر بنانے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اسماء عامر
(نمائندہ سول سوسائٹی)
7 دسمبر کو ووٹرز کا قومی دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو ووٹ کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دی جائے اور اس بات پر توجہ دی جائے کہ ووٹ کا اندراج لازمی ہو اور کوئی بھی شہری اپنے اس حق سے محروم نہ رہے۔ دنیا بھر میں مرد، خواتین، خواجہ سرائ، خصوصی افراد، مذہبی اقلیتوں سمیت تمام انسانوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے ۔
آئین پاکستان بھی تمام شہریوں کو حق رائے دہی دیتا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس حوالے سے صورتحال کیا ہے۔ افسوس ہے کہ لوگوں کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے ووٹ کا اندراج نہیں ہوتا اور وہ اس حق سے محروم رہتے ہیں۔
شناختی کارڈ کیلئے اہلیت کی عمر 18برس ہے مگر ہم نے دیکھا ہے کہ 90برس کی عمر کی خاتون کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں۔خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جس کا شناختی کارڈ نہیں بنا۔ ایسی خواتین اپنی شناخت سے محروم ہیں۔
انہیں ووٹ کا حق حاصل نہیں۔ وراثت، شادی، احساس پروگرام سمیت دیگر حکومتی سکیموں، کاروبار، بینک اکاؤنٹ سمیت دیگر انسانی حقوق سے محروم رہتی ہیں۔اس سے کم عمری کی شادی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، خاتون حج، عمرہ جیسی عادت سے محروم رہتی ہے، پاسپورٹ نہیں بنتا۔ مختصراََ یہ کہ بیسیوں ایسے حقوق ہیں جن سے خواتین محروم رہتی ہیں اور وجہ صرف شناختی کارڈ کا نہ ہونا ہے۔
لوگوں کے شناختی کارڈ بنوانے اور ووٹ رجسٹر کروانے کے حوالے سے سول سوسائٹی، الیکشن کمیشن اور نادرا نے اہم کردار ادا کیا جس کے بعد سے پنجاب میں کافی بہتری آئی ہے۔ہمارے ادارے نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے۔
صرف ننکانہ صاحب میں ہم نے 22 ہزار 280 خواتین کے شناختی کارڈ بنوائے، اگر ملک میں اسی طرح کام جاری رہے تو مزید موثر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ضلع لاہور کی بات کریں تو یہاں خواتین اور مرد ووٹرز کی تعداد میں 11 لاکھ کا فرق تھا جو اب کم ہو کر 5 لاکھ رہ گیا ہے، یہ حوصلہ افزاء ہے تاہم ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کی جانب سے جاری کی گئی سال2021ء کی رپورٹ کے مطابق خواتین کے شناختی کارڈ بنوانے کی شرح میں38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
خواجہ سرا کی بات کریں تو اس رپورٹ کے مطابق 67 شناختی کارڈ بنے جبکہ 18 ہزار 632 خصوصی خواتین کو خصوصی افراد کے 'لوگو' والے شناختی کارڈ جاری کیے گئے۔ خواتین کو نکاح کی رجسٹریشن کا مسئلہ بھی ہے۔
جن کے پاس نکاح نامہ موجود ہے ،ا س کے کاغذ کی کوالٹی کا مسئلہ ہے ، تحریر مٹ جاتی ہے اور خواتین کو شناختی کارڈ بنوانے میں مسئلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح شناختی کارڈ کیلئے خونی رشتے کو ساتھ لانا پڑتا ہے، اگر کوئی دودراز علاقے میں رہتا ہو تو اس کا الگ مسئلہ ہوتا ہے لہٰذا اس جدید دور میں بائیومیٹرک تصدیق آن لائن ہی کر لینی چاہیے یا پھر قریبی نادرا سینٹر میں ایسی سہولت دینی چاہیے کہ جس علاقے میں خونی رشتہ موجود ہو وہ وہاں جا کر تصدیق کروالے اور ڈیٹا شیئر کر لیا جائے، اس سے کافی حد تک آسانی ہوجائے گی۔
یہ اتنا مشکل کام نہیں ہے کیونکہ اگر اوورسیز پاکستانیوں کے لیے سہولت دی جاسکتی ہے تو وہی طریقہ کار یہاں بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ نادرا کی طرف سے خواتین کو کچھ معاملات میں رعایت دی جاتی ہے، سہولت فراہم کی جاتی ہے مگر اکثر اوقات فیلڈ سٹاف تک یہ انفارمیشن نہیں پہنچتی یا پھر ان کے رویے کی وجہ سے خواتین کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
ہم خواتین کو مشکل سے موبلائز کرکے لاتے ہیں جس خاتون کو واپس بھیج دیا جاتا ہے، اسے دوبارہ لانا زیادہ مشکل ہوتا ہے اور کچھ خواتین تو آتی ہی نہیں ہیں۔ نادرا کا کام بہترین ہے۔ نادرا کی جانب سے 24 گھنٹے کھلنے والے سینٹرز بنائے گئے، دن رات کام کیا جارہا ہے، چھٹی والے دن بھی دفاتر کھولے گئے۔
خواتین کے الگ دن مختص کیا گیا جس سے خواتین کے ووٹ کے اندراج میںاضافہ ہوا تاہم جہاں بہتری کی گنجائش موجود ہے،ا سے بہتر کرنا ہوگا اور فیلڈ سٹاف کی کپیسٹی بلڈنگ بھی کرنا ہوگی۔نادرا، الیکشن کمیشن اور سول سوسائٹی کی کوارڈینیشن مثالی ہے، ہر ماہ میٹنگ بھی ہوتی ہے، سب اپنی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہے ہیں۔
ہمارے ہاں پیدائش کا اندراج لازمی نہیں بلکہ رضاکارانہ ہے، اسے لازمی کرنا چاہیے، اس سے 18برس کی عمر میں پہنچے پر شناختی کارڈ بنانے میں مدد ملے گی۔ معاشرتی رویے خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ کے اندراج میں رکاوٹ ہیں، ہمیں اس پر کام کرنا ہوگا۔
شہناز رفیق
(نمائندہ سول سوسائٹی )
حق رائے دہی اہم ہے مگر اس حوالے سے لوگوں میں دلچسپی کی کمی ہے۔ خواتین ووٹ کی اہمیت کو سمجھ نہیں رہی، آگاہی کا مسئلہ بھی ہے لہٰذا ہمیں خواتین کو ووٹ کی اہمیت اور فوائد کے بارے میں آگاہی دینا ہوگی۔ الیکشن کمیشن، سول سائٹی سمیت مختلف اداروں نے اس حوالے سے کافی کام کیا ہے، خواتین کو موبلائز کیا جس سے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
بلوچستان میں 14فیصد، سندھ اور خیبر پختونخوا میں 10 فیصد، پنجاب میں 8 فیصد جبکہ اسلام آباد میں 6 فیصد جینڈر گیپ ہے، مجموعی طور پر ملک میں 8 فیصد جیڈر گیپ ہے۔
اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پنجاب میں مرد ووٹرز کی تعداد 3 کروڑ 75 لاکھ 65 ہزار437ہے جبکہ خواتین کی تعداد 3 کروڑ20 لاکھ 70 ہزار111ہے۔ سندھ میں مرد ووٹرزکی تعداد1 کروڑ40 لاکھ8 ہزار265ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 1کروڑ 16لاکھ 55ہزار674ہے۔
بلوچستان میں مرد ووٹرز کی تعداد 28لاکھ 78ہزار32ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد22 لاکھ 12 ہزار 825 ہے۔
خیبرپختونخوا میں مرد ووٹرز کی تعداد 1کروڑ 14لاکھ 36 ہزار 241ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 93 لاکھ 85 ہزار 60 ہے۔ اسلام آباد میں مرد ووٹرز کی تعداد5 لاکھ 18 ہزار193ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 66 ہزار284ہے۔ فافن کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں لاہور کے 37 پولنگ سٹیشنزمیں خواتین کے کم ووٹ کاسٹ ہوئے۔
ان علاقوں میں رجسٹریشن کی مہم جاری ہے،نادرا اور الیکشن کمیشن کی 'خصوصی وین' وہاںسول سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ کم ووٹ کاسٹ ہونے کے پیچھے مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک وجہ پولنگ سٹیشن سے دور ہونا، شادی کے بعد ووٹ کا ٹرانسفر نہ ہونا، خصوصی افراد کیلئے پولنگ سٹیشن قابل رسائی نہ ہونا سمیت دیگر وجوہات شامل ہیں۔
اس میں ہماری معاشرتی سوچ اور خاندانی دباؤ بھی ایک مسئلہ ہے۔ اکثر تو خواتین کو ووٹ ڈالنے نہیں جاتا یا پھر خاندان کا سربراہ جو فیصلہ کرتا ہے، اس کو ہی سب ووٹ ڈال دیتے ہیں۔ تمام شہریوں خصوصاََ خواتین کا حق رائے دہی یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن بہت اچھا اور اہم کام کر رہا ہے جو قابل تعریف ہے۔ میرے نزدیک الیکشن کمیشن اور عوام میں ایک گیپ ہے جسے دور کرنا ہوگا۔خواتین کے ووٹ کا حق یقینی بنانے کیلئے آئینی اور قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017ء میں خواتین کو حق رائے دہی میں سپورٹ کیا گیا، سیکشن 47 کے تحت الیکشن کمیشن پابند ہے کہ خواتین کے ووٹ رجسٹر کروانے میں خصوصی اقدامات کرے۔ سیکشن 170(A) مطابق کوئی بااثر شخص کسی خاتون کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتا، سیکشن206کے مطابق الیکشن میں 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دیے جائیں گے، سیکشن 9 کے مطابق اگر کسی جگہ خواتین کے10 فیصد سے کم ووٹ کاسٹ ہوں تو اسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے، یہ یقینا بہت بڑے اقدام ہیں۔
ان سے انتخابی عمل میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید ہوگا۔ رجسٹرد ووٹوں میں جینڈر گیپ ایک بڑا مسئلہ ہے جسے ختم کرنے کیلئے کام جاری ہے۔ لاہور جیسے بڑے ضلع میں خواتین اور مرد ووٹرز کی تعداد میں بہت فرق ہے۔ 2018میں یہ فرق 11 لاکھ تھا۔ الیکشن کمیشن، نادرا اور سول سوسائٹی نے مل کر پوری توجہ کے ساتھ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ گیپ کم ہو کر اب صرف 5 لاکھ رہ گیا ہے جو بڑی کامیابی ہے۔
سرکاری سکولوں اور کالجوں میں پولنگ سٹیشن بھی بنتے ہیں اور فارم کولیکشن سینٹرز بھی۔وہاں کے پرنسپل ہی اسسٹنٹ رجسٹرار کے طور پر کام کرتے ہیں مگر ان ڈسپلے سینٹرز کی مناسب تشہیر نہیں ہوپاتی جس کے باعث مسائل رہ جاتے ہیں۔ ووٹ کی سب سے زیادہ مانگ سیاسی جماعتیں کرتی ہیں مگر اس کے اندراج کے حوالے سے ان کا کام انتہائی کم ہے۔
صرف الیکشن کے قریب متحرک ہوتی ہیں اور پورا سال توجہ نہیں دیتی۔ میرے نزدیک سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے بڑے پیمانے پر کام کرنا چاہیے۔ ووٹ بنیادی انسانی حق ہے، تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر اس کے لیے کام کرنا ہوگا۔
ووٹ کی اہمیت کے بارے میں نویں اور دسویں جماعت کے نصاب میں مضامین کوشامل کرنا ہوگا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر مختلف کالجوں میں آگاہی سیشنز منعقد کیے جاتے ہیں۔ ہم خواتین پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔
اس اہم دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ہدیٰ علی گوہر
( ڈپٹی ڈائریکٹر میڈیا کووارڈینیشن صوبائی الیکشن کمیشن پنجاب )
آئین پاکستان تمام شہریوں کو ووٹ کا حق دیتا ہے۔ 18 برس عمر کے تمام شہریوں کو ماسوائے ذہنی معذورافراد کے، یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے آزادی کے ساتھ ووٹ کاسٹ کریں۔ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اور ہماری ذمہ داری صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد کروانا ہے۔
یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہرمرد،عورت، خواجہ سرائ، خصوصی افراد، مذہبی اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کو ان کا حق رائے دہی حاصل ہو اور سب کی انتخابی عمل میں شمولیت ہو۔ ہم اس حوالے سے کاوشیں کرتے ہیں اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔
الیکشن کمیشن مختلف سروے بھی کرتا ہے اور پھر اس کے نتائج کی روشنی میں لائحہ عمل تیار کرتا ہے کہ کس طرح آگے بڑھا جائے اور ووٹرز کے مسائل کو کم کیا جائے۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹوں کی کم تعداد ہے۔
ہم اس گیپ کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے پانچ سالہ منصوبے کا حصہ ہے کہ ہم نے اگلے الیکشن تک رجسٹرڈ ووٹوں میں جینڈر گیپ کا ہر ممکن خاتمہ کرنا ہے۔ اس وقت کل ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 96 لاکھ ہے۔
2018ء میں خواتین اور مردوں کے رجسٹرڈ ووٹوں میں 11 فیصد گیپ تھا جو ہماری مسلسل جاری مہم کی وجہ سے 8 فیصد رہ گیا ہے، یہ یقینا حوصلہ افزا ہے، اسے کم کرنے کیلئے مزید کام جاری ہے۔ اس مہم میں الیکشن کمیشن، نادرا، سول سوسائٹی سب مل کر کام کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن میں جینڈر گیپ اینڈ سوشل انکلوژن کا الگ ونگ موجود ہے۔ ہم خواتین کو ووٹ کے اندراج اور کاسٹ کرنے کیلئے ہر ممکن سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔
پولنگ سٹیشنز کو بھی پہلے سے محفوظ اور سازگار بنایا جارہا ہے تاکہ خواتین اور خصوصی افراد کو اپنے آئینی حق ادا کرنے میں کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہم مہم کے ذریعے ووٹر رجسٹریشن اور ووٹر ٹرن آؤٹ بہتر بنانے کیلئے بھی کام کر رہے ہیں۔
ملک میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ انہیں آگاہی دینے اور موبلائز کرنے کیلئے ہم مختلف تعلیمی ادروں میں آگاہی سمینارز منعقد کرواتے ہیں تاکہ ان کے ووٹ کا اندراج ہوسکے، ہم طالبات پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔
ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ آفیسر موجود ہیں ، ضلعی ووٹر ایجوکیشن کمیٹیاں بھی موجود ہیں، جن کی ماہانہ میٹنگز ہوتی ہیں، ہر ضلع کی ڈیمانڈ کے مطابق پروگرامز ترتیب دیئے جاتے ہیں، جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ لاہور، گوجرانوالہ، قصور، شیخوپورہ، سرگودھا جیسے علاقوں کے ووٹرز میں 6 سے 9 فیصد تک جینڈر گیپ ہے۔
الیکشن کمیشن کی ایس ایم ایس سروس 8300 بہترین ہے جسے عالمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے، شہری اس پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیج کر ووٹ کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں، اس میں مختلف سروسز کے حوالے سے ویب سائٹ کا لنک بھی بھیج دیا جاتا ہے، شہری ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے نمبر پر کال کے ذریعے بھی معلومات لے سکتے ہیں۔
آن لائن ووٹر رجسٹریشن پر کام ہو رہا ہے، جلد اسے لانچ کر دیا جائے گا۔ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرز کو یہ ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ 2023ء کے انتخابات سے قبل تمام پولنگ سٹیشنز کا خود دورہ کریں، مسائل دور کریں اور انہیں تمام ووٹرز بشمول خواتین اور خصوصی افراد، سب کے لیے قابل رسائی بنائیں۔ تمام علاقوں میں فارم کولیکشن سینٹرز قائم کر دیے گئے ہیں۔ ووٹ کا اندراج بہتر بنانے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اسماء عامر
(نمائندہ سول سوسائٹی)
7 دسمبر کو ووٹرز کا قومی دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو ووٹ کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دی جائے اور اس بات پر توجہ دی جائے کہ ووٹ کا اندراج لازمی ہو اور کوئی بھی شہری اپنے اس حق سے محروم نہ رہے۔ دنیا بھر میں مرد، خواتین، خواجہ سرائ، خصوصی افراد، مذہبی اقلیتوں سمیت تمام انسانوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے ۔
آئین پاکستان بھی تمام شہریوں کو حق رائے دہی دیتا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس حوالے سے صورتحال کیا ہے۔ افسوس ہے کہ لوگوں کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے ووٹ کا اندراج نہیں ہوتا اور وہ اس حق سے محروم رہتے ہیں۔
شناختی کارڈ کیلئے اہلیت کی عمر 18برس ہے مگر ہم نے دیکھا ہے کہ 90برس کی عمر کی خاتون کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں۔خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جس کا شناختی کارڈ نہیں بنا۔ ایسی خواتین اپنی شناخت سے محروم ہیں۔
انہیں ووٹ کا حق حاصل نہیں۔ وراثت، شادی، احساس پروگرام سمیت دیگر حکومتی سکیموں، کاروبار، بینک اکاؤنٹ سمیت دیگر انسانی حقوق سے محروم رہتی ہیں۔اس سے کم عمری کی شادی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، خاتون حج، عمرہ جیسی عادت سے محروم رہتی ہے، پاسپورٹ نہیں بنتا۔ مختصراََ یہ کہ بیسیوں ایسے حقوق ہیں جن سے خواتین محروم رہتی ہیں اور وجہ صرف شناختی کارڈ کا نہ ہونا ہے۔
لوگوں کے شناختی کارڈ بنوانے اور ووٹ رجسٹر کروانے کے حوالے سے سول سوسائٹی، الیکشن کمیشن اور نادرا نے اہم کردار ادا کیا جس کے بعد سے پنجاب میں کافی بہتری آئی ہے۔ہمارے ادارے نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے۔
صرف ننکانہ صاحب میں ہم نے 22 ہزار 280 خواتین کے شناختی کارڈ بنوائے، اگر ملک میں اسی طرح کام جاری رہے تو مزید موثر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ضلع لاہور کی بات کریں تو یہاں خواتین اور مرد ووٹرز کی تعداد میں 11 لاکھ کا فرق تھا جو اب کم ہو کر 5 لاکھ رہ گیا ہے، یہ حوصلہ افزاء ہے تاہم ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کی جانب سے جاری کی گئی سال2021ء کی رپورٹ کے مطابق خواتین کے شناختی کارڈ بنوانے کی شرح میں38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
خواجہ سرا کی بات کریں تو اس رپورٹ کے مطابق 67 شناختی کارڈ بنے جبکہ 18 ہزار 632 خصوصی خواتین کو خصوصی افراد کے 'لوگو' والے شناختی کارڈ جاری کیے گئے۔ خواتین کو نکاح کی رجسٹریشن کا مسئلہ بھی ہے۔
جن کے پاس نکاح نامہ موجود ہے ،ا س کے کاغذ کی کوالٹی کا مسئلہ ہے ، تحریر مٹ جاتی ہے اور خواتین کو شناختی کارڈ بنوانے میں مسئلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح شناختی کارڈ کیلئے خونی رشتے کو ساتھ لانا پڑتا ہے، اگر کوئی دودراز علاقے میں رہتا ہو تو اس کا الگ مسئلہ ہوتا ہے لہٰذا اس جدید دور میں بائیومیٹرک تصدیق آن لائن ہی کر لینی چاہیے یا پھر قریبی نادرا سینٹر میں ایسی سہولت دینی چاہیے کہ جس علاقے میں خونی رشتہ موجود ہو وہ وہاں جا کر تصدیق کروالے اور ڈیٹا شیئر کر لیا جائے، اس سے کافی حد تک آسانی ہوجائے گی۔
یہ اتنا مشکل کام نہیں ہے کیونکہ اگر اوورسیز پاکستانیوں کے لیے سہولت دی جاسکتی ہے تو وہی طریقہ کار یہاں بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ نادرا کی طرف سے خواتین کو کچھ معاملات میں رعایت دی جاتی ہے، سہولت فراہم کی جاتی ہے مگر اکثر اوقات فیلڈ سٹاف تک یہ انفارمیشن نہیں پہنچتی یا پھر ان کے رویے کی وجہ سے خواتین کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
ہم خواتین کو مشکل سے موبلائز کرکے لاتے ہیں جس خاتون کو واپس بھیج دیا جاتا ہے، اسے دوبارہ لانا زیادہ مشکل ہوتا ہے اور کچھ خواتین تو آتی ہی نہیں ہیں۔ نادرا کا کام بہترین ہے۔ نادرا کی جانب سے 24 گھنٹے کھلنے والے سینٹرز بنائے گئے، دن رات کام کیا جارہا ہے، چھٹی والے دن بھی دفاتر کھولے گئے۔
خواتین کے الگ دن مختص کیا گیا جس سے خواتین کے ووٹ کے اندراج میںاضافہ ہوا تاہم جہاں بہتری کی گنجائش موجود ہے،ا سے بہتر کرنا ہوگا اور فیلڈ سٹاف کی کپیسٹی بلڈنگ بھی کرنا ہوگی۔نادرا، الیکشن کمیشن اور سول سوسائٹی کی کوارڈینیشن مثالی ہے، ہر ماہ میٹنگ بھی ہوتی ہے، سب اپنی اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہے ہیں۔
ہمارے ہاں پیدائش کا اندراج لازمی نہیں بلکہ رضاکارانہ ہے، اسے لازمی کرنا چاہیے، اس سے 18برس کی عمر میں پہنچے پر شناختی کارڈ بنانے میں مدد ملے گی۔ معاشرتی رویے خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ کے اندراج میں رکاوٹ ہیں، ہمیں اس پر کام کرنا ہوگا۔
شہناز رفیق
(نمائندہ سول سوسائٹی )
حق رائے دہی اہم ہے مگر اس حوالے سے لوگوں میں دلچسپی کی کمی ہے۔ خواتین ووٹ کی اہمیت کو سمجھ نہیں رہی، آگاہی کا مسئلہ بھی ہے لہٰذا ہمیں خواتین کو ووٹ کی اہمیت اور فوائد کے بارے میں آگاہی دینا ہوگی۔ الیکشن کمیشن، سول سائٹی سمیت مختلف اداروں نے اس حوالے سے کافی کام کیا ہے، خواتین کو موبلائز کیا جس سے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
بلوچستان میں 14فیصد، سندھ اور خیبر پختونخوا میں 10 فیصد، پنجاب میں 8 فیصد جبکہ اسلام آباد میں 6 فیصد جینڈر گیپ ہے، مجموعی طور پر ملک میں 8 فیصد جیڈر گیپ ہے۔
اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پنجاب میں مرد ووٹرز کی تعداد 3 کروڑ 75 لاکھ 65 ہزار437ہے جبکہ خواتین کی تعداد 3 کروڑ20 لاکھ 70 ہزار111ہے۔ سندھ میں مرد ووٹرزکی تعداد1 کروڑ40 لاکھ8 ہزار265ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 1کروڑ 16لاکھ 55ہزار674ہے۔
بلوچستان میں مرد ووٹرز کی تعداد 28لاکھ 78ہزار32ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد22 لاکھ 12 ہزار 825 ہے۔
خیبرپختونخوا میں مرد ووٹرز کی تعداد 1کروڑ 14لاکھ 36 ہزار 241ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 93 لاکھ 85 ہزار 60 ہے۔ اسلام آباد میں مرد ووٹرز کی تعداد5 لاکھ 18 ہزار193ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 66 ہزار284ہے۔ فافن کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں لاہور کے 37 پولنگ سٹیشنزمیں خواتین کے کم ووٹ کاسٹ ہوئے۔
ان علاقوں میں رجسٹریشن کی مہم جاری ہے،نادرا اور الیکشن کمیشن کی 'خصوصی وین' وہاںسول سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ کم ووٹ کاسٹ ہونے کے پیچھے مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک وجہ پولنگ سٹیشن سے دور ہونا، شادی کے بعد ووٹ کا ٹرانسفر نہ ہونا، خصوصی افراد کیلئے پولنگ سٹیشن قابل رسائی نہ ہونا سمیت دیگر وجوہات شامل ہیں۔
اس میں ہماری معاشرتی سوچ اور خاندانی دباؤ بھی ایک مسئلہ ہے۔ اکثر تو خواتین کو ووٹ ڈالنے نہیں جاتا یا پھر خاندان کا سربراہ جو فیصلہ کرتا ہے، اس کو ہی سب ووٹ ڈال دیتے ہیں۔ تمام شہریوں خصوصاََ خواتین کا حق رائے دہی یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن بہت اچھا اور اہم کام کر رہا ہے جو قابل تعریف ہے۔ میرے نزدیک الیکشن کمیشن اور عوام میں ایک گیپ ہے جسے دور کرنا ہوگا۔خواتین کے ووٹ کا حق یقینی بنانے کیلئے آئینی اور قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017ء میں خواتین کو حق رائے دہی میں سپورٹ کیا گیا، سیکشن 47 کے تحت الیکشن کمیشن پابند ہے کہ خواتین کے ووٹ رجسٹر کروانے میں خصوصی اقدامات کرے۔ سیکشن 170(A) مطابق کوئی بااثر شخص کسی خاتون کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتا، سیکشن206کے مطابق الیکشن میں 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دیے جائیں گے، سیکشن 9 کے مطابق اگر کسی جگہ خواتین کے10 فیصد سے کم ووٹ کاسٹ ہوں تو اسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے، یہ یقینا بہت بڑے اقدام ہیں۔
ان سے انتخابی عمل میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید ہوگا۔ رجسٹرد ووٹوں میں جینڈر گیپ ایک بڑا مسئلہ ہے جسے ختم کرنے کیلئے کام جاری ہے۔ لاہور جیسے بڑے ضلع میں خواتین اور مرد ووٹرز کی تعداد میں بہت فرق ہے۔ 2018میں یہ فرق 11 لاکھ تھا۔ الیکشن کمیشن، نادرا اور سول سوسائٹی نے مل کر پوری توجہ کے ساتھ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ گیپ کم ہو کر اب صرف 5 لاکھ رہ گیا ہے جو بڑی کامیابی ہے۔
سرکاری سکولوں اور کالجوں میں پولنگ سٹیشن بھی بنتے ہیں اور فارم کولیکشن سینٹرز بھی۔وہاں کے پرنسپل ہی اسسٹنٹ رجسٹرار کے طور پر کام کرتے ہیں مگر ان ڈسپلے سینٹرز کی مناسب تشہیر نہیں ہوپاتی جس کے باعث مسائل رہ جاتے ہیں۔ ووٹ کی سب سے زیادہ مانگ سیاسی جماعتیں کرتی ہیں مگر اس کے اندراج کے حوالے سے ان کا کام انتہائی کم ہے۔
صرف الیکشن کے قریب متحرک ہوتی ہیں اور پورا سال توجہ نہیں دیتی۔ میرے نزدیک سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے بڑے پیمانے پر کام کرنا چاہیے۔ ووٹ بنیادی انسانی حق ہے، تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر اس کے لیے کام کرنا ہوگا۔
ووٹ کی اہمیت کے بارے میں نویں اور دسویں جماعت کے نصاب میں مضامین کوشامل کرنا ہوگا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر مختلف کالجوں میں آگاہی سیشنز منعقد کیے جاتے ہیں۔ ہم خواتین پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔