کراچی کی سرکاری ڈسپنسری حکومتی عدم توجہی سے نشئیوں کا اڈا بن گئی

بلدیہ عظمٰی کراچی اور محکمہ صحت سندھ نے اس ڈسپنسری کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا


دعا عباس December 08, 2022
فوٹو فائل

سائٹ ایریا میں ایسی ڈسپنسری کا انکشاف ہوا ہے جسے صوبائی حکومت یا بلدیہ عظمیٰ کراچی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور جس کی وجہ سے ڈسپنسری مریضوں کے علاج کے بجائے نشے کے عادی افراد کا اڈا بن گئی ہے۔

یہ انکشاف ایکسپریس نیوز کی ٹیم کی جانب سے کیے گئے دورے کے دوران ہوا، اسمٰعیل شہید ڈسپنسری نشے کے عادی افراد کا گڑھ بن چکی ہے، سالوں سے غیر فعال ڈسپنسری کے ڈاکٹرز حاضری لگاکر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

سرکاری سطح پر مختلف علاقوں میں ڈسپنسری قائم کرنے کا مقصد تھا کہ شہری ان سے بنیادی طبی سہولیات حاصل کریں، جس کی وجہ سے شہر کے سرکاری اسپتالوں کا دباؤ کم بھی کیا جاسکے گا، یہ صحت کے مراکز رورل ہیلتھ سینٹرز اور بیسک ہیلتھ سینٹرز کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق شہر میں بیشتر ایسے صحت کے مراکز ہیں جو صرف سرکاری دستاویزات تک ہی محدود ہیں کیوں کے عملی طور پر یہ سینٹرز خستہ حالی کا شکار ہونے کے بعد غیر فعال ہوچکے ہیں اور جو فعال ہیں ان میں ضروری ادویات تک میسر نہیں ہیں۔

بنیادی طبی سہولیات بھی اس ڈسپنسریز میں ناپید ہوچکی ہیں جب کہ ڈسپنسری کی تباہ حالی نے انتظامیہ اور حکام کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔

ضلع غربی میں قائم اسمٰعیل شہید ڈسپنسری کا ماضی کے مثالی صحت کے مراکز میں شمار ہوتا تھا، روزانہ کی بنیاد پر درجنوں افراد صحت کی بنیادی طبی سہولیات کے حصول کے لیئے اس مرکز میں آتے تھے لیکن اب یہ ڈسپنسری منشیات کے عادی افراد کا گڑھ بن چکی ہے، تباہ حال ڈسپنسری میں صبح سے شام تک نشے کے عادی افراد انجیکشن اور سرنجز کا استعمال کرکے ان کو وہی پھنک دیتے ہیں۔

گنجان آباد علاقے میں نشے کے عادی افراد کا ڈیڑا علاقہ مکینوں کو مزید پریشان کررہا ہے، اس ڈسپنسری کا افتتاح یکم دسمبر 1992 کو بلدیہ غربی کے زیر اہتمام کیا گیا تھا۔

علاقہ مکینوں نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ڈسپنسری ماضی کے مثالی صحت کے مراکز میں شمار ہوتی تھی، صبح کے اوقات سے ہی مریض علاج کی غرض سے قطار کی شکل اختیار کرلیا کرتے تھے لیکن حکام کی عدم توجہی اور غیر سنجیدگی، ڈسپنسری کی تباہ حالی کا سبب بنی اور اب یہ ویران عمارت منشیات فروش اور نشے کے عادی افراد کو پناہ فراہم کرتی ہے جب کہ اسپتال کے ڈاکٹرز روزانہ حاضری لگا کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

ڈسپنسری کا صرف ایک کمرا قابل استعمال ہے جس میں سرکاری دستاویزات بھی موجود ہیں، ڈاکٹروں کی جانب سے اس کمرے کو تالا لگا دیا جاتا ہے، نشے کے عادی افراد کی جانب سے اس مرکز کی دیواروں کو مسمار کردیا گیا ہے جس کے باعث مرکز کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے، جگہ جگہ استعمال شدہ سرنجز، خون آلودہ کپڑے سمیت دیگر غلاظت موجود ہونے سے شدید تعفن اٹھ رہا ہے۔

صحت کا مرکز اب علاج کے بجائے مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن چکا ہے، کئی سالوں سے غیر فعال ہونے کے سبب بیشتر افراد اپنی گاڑیاں اس ہی مرکز کی اراضی میں پارک کردیتے ہیں۔

علاقہ مکینوں نے خدشات ظاہر کیے کہ اگر یہ غیر سنجیدگی برقرار رہی تو زمین پر قبضہ کرنے والا مافیا اس سے فائدہ اٹھالے گا۔

علاقہ مکینوں نے کہا کہ اس مرکز کو فعال کیا جائے تاکہ ہمیں ریلیف مل سکے کیوں کہ ہنگامی صورتحال میں مجبوری کے تحت ہم مریضوں کو عباسی شہید اسپتال یا قطر اسپتال منتقل کرواتے ہیں۔

ایکسپریس کی ٹیم نے جب متعلقہ حکام سے مؤقف لینے کی کوشش کی تو کراچی بلدیہ عظمٰی اور محکمہ صحت سندھ نے اس ڈسپنسری کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، رات گئے تک پتا نہ لگایا جاسکا کہ یہ ڈسپنسری کس کے ماتحت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں