اقتصادی ترقی قوم کے لیے بہت ضروری
ہم کسی بھی طور وزیراعظم شہباز شریف کی عملی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے
وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں آئی ٹی کے شعبے کو مزید فروغ دینے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس شعبے کی برآمدات سالانہ 5 ارب ڈالر تک فوری لے جا سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں ایشیائی پیسفک آئی سی ٹی الائنس کی ایوارڈز تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ آئی ٹی فیلڈ میں پاکستان کے پاس بہت زیادہ قابلیت ہے، میں طلبہ، آئی ٹی ماہرین اور وزیر آئی ٹی کو دعوت دیتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کوئی منصوبہ تشکیل دیں جو کہ آسانی سے ممکن ہو سکتا ہے۔
ہم کسی بھی طور وزیراعظم شہباز شریف کی عملی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے، جوکہ وہ حکومتی سطح پر معاشی واقتصادی کی بحالی کے لیے کررہے ہیں۔
درحقیقت آئی ٹی سیکٹر میں ترقی کے بے پناہ امکانات ہیں اور یہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومت آئی ٹی کے شعبے کو اس کی حقیقی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر توجہ دے رہی ہے اور اس شعبے کی برآمدات کی حوصلہ کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے دن رات کام کر رہی ہے۔
پاکستان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تکنیکی مہارت کی کمی کی وجہ سے بے روزگار ہے، رسمی تعلیم کے ساتھ تکنیکی تعلیم مزدور قوت کی کارکردگی اور پیداواری صلاحیت کو بہتر بناتی ہے جس سے معاشی ترقی میں مزید اضافہ ہوتا ہے، تکنیکی تعلیم کا لازمی کردار تجرباتی، سیاق و سباق اور سماجی طریقوں کے ذریعے علم کی تعمیر کو آسان بنانا ہے۔
پیشہ ورانہ تعلیم اور اساتذہ کی ترقی میں سرمایہ کاری کے ساتھ تربیت جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) میں اضافہ کا باعث بنتی ہے، ایسے اقدامات پر قائم رہنے سے نہ صرف قومی خودمختاری میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ قرضوں اور امداد پر انحصار بھی کم ہوتا ہے۔
ایک ایسے ملک کے لیے جس کے پاس سب سے زیادہ افرادی قوت ،کاروباری افراد، پیشہ ور، ہنرمند، اختراع کار اور سائنس دان ہوں، عالمی سطح پر مسابقتی انسانی وسائل سب سے اوپر ہیں، قدرتی وسائل کی بہت زیادہ مانگ ہے، یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وہ پیش قدمی سے گریزاں کیوں رہا ہے۔
پاکستان میں افراط زر مالی سال 2023 میں تقریباً 23 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے، جو خوراک اور دیگر اشیا کی فراہمی میں سیلاب سے متعلقہ رکاوٹوں، توانائی کی بلند قیمتوںاور مشکل بیرونی حالات بشمول سخت عالمی مالیاتی حالات کی عکاسی کرتی ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق تباہ کن سیلابوں، سخت مالیاتی موقف، بلند افراط زر اور کم سازگار عالمی ماحول کے درمیان رواں مالی سال میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو صرف 2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔سیلاب سے معاشی نقطہ نظر اور زائد المیعاد ایڈجسٹمنٹ کے امکانات نمایاں طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ کپاس، کھجور، گندم، چاول کی فصلوں اور مویشیوں کے نقصانات کے ساتھ زرعی پیداوار میں تیزی سے کمی متوقع ہے۔
کپاس کے نقصانات کا وزن گھریلو ٹیکسٹائل، ہول سیل اور ٹرانسپورٹیشن سروس انڈسٹری پر متوقع ہے۔ عوامی ریلیف اور بحالی کی کوششوں سے سرگرمی میں ہونے والے نقصان کو جزوی طور پر پورا کرنے کی توقع ہے۔ اس لیے حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو مالی سال 23میں 2.0 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
ورلڈ بینک کے اکتوبر 2022 کے پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ نے کہا گیا ہے کہ معیشت کی بحالی بتدریج ہوگی، مالی سال 2024 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.2 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ حالیہ سیلاب کے تناظر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں غربت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ غریبوں کی مدد کے لیے فیصلہ کن امداد اور بحالی کی کوششوں کے بغیر قومی غربت کی شرح 2.5 سے 4 فیصد پوائنٹس تک بڑھ سکتی ہے، جس سے 9ملین افراد سطح غربت تک جا سکتے ہیں۔
میکرو اکنامک خطرات بھی زیادہ ہیں کیونکہ پاکستان کو کرنٹ اکاؤنٹ کے بڑے خسارے، بلند عوامی قرضوں، اور اپنی روایتی برآمدی منڈیوں سے کم مانگ عالمی نمو کے درمیان چیلنجز کا سامنا ہے۔قدرتی وسائل کا معاشی نمو پر دہرا اثر پڑتا ہے کیونکہ ان کا استعمال پیداوار میں اضافہ کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی ان میں بتدریج کمی آتی جاتی ہے۔ قدرتی وسائل پیداواری عمل میں ایک کلیدی اِن پٹ ہیں، جو معاشی ترقی کو تحریک دیتے ہیں۔
لہٰذا وسائل کا دانشمندانہ استعمال پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ماحولیاتی اثرات کو کم کرنا مارکیٹ کی معیشت سے باہر حاصل ہونے والی بہبود میں بھی حصہ ڈالتا ہے۔ پیداوار، پیداوار کی تقسیم اور معیار زندگی، معیشت کے تین اجزاء ہیں۔ اس کا اہم ترین حصہ پیداوار ہے جب کہ باقی دو شعبوں کا عمل شروع ہی اس وقت ہوتا ہے جب پیداوار موجود ہو، اگر پیداوار ہو گی تو اس کی تقسیم (منصفانہ یا غیر منصفانہ) بھی ہوگی اور وہ خرچ بھی ہو گی۔
بغیر پیداوار کے نہ پیداوار کی تقسیم (دولت) کا سوال پیدا ہوتاہے، نہ شہریوں کے پیداوار کو خرچ کرنے کا۔ معاشرے کی کل پیداوار ہی اس کی آمدن ہوتی ہے، دنیا میں آج وہی معاشرے ترقی یافتہ ہیں جن کی پیداوار ترقی یافتہ ٹیکنالوجی پر مبنی اور حجم میں بہت زیادہ ہے اور جدید کی سب سے بڑی قدر بھی پیداوار ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک معاشرہ اپنی پیداوار میں کیسے اضافہ کرے کہ نہ صرف اس کی ضروریات پوری ہوں بلکہ وہ اردگرد کے دوسرے معاشروں کے لیے بھی بہتری کا سامان کر سکے؟ ہر وہ عمل جس سے پیداوار میں اضافہ ہو، اچھا سمجھا جاتا ہے۔ ایسا اضافہ جو لوگوں کی ضرورت پوری کرے اور انھیں راحت پہنچائے۔
ہم اس وقت تیسرے صنعتی انقلاب سے گزر کر چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہوچکے ہیں اور ہمارے پاس اعلیٰ درجے کی جدید ترین مشینری ہے جس نے پیداوار کے عمل کو انتہائی تیز رفتار اور معیار میں شاندار بنا رکھا ہے مگر اس کے باوجود معاشی عمل کا کلی انحصار معاشرے کی معیشت میں کام کرنے والے تمام افراد کے معاشی فیصلوں اور معاشی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔
پیداوار میں اضافہ یا معاشی ترقی کا حقیقی سفر اس وقت شروع ہوتا ہے جب تمام افراد میں محنت، مثبت معاشی فیصلوں اور سرگرمیوں کی تحریک پیدا کی جائے۔پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ ساؤتھ ایشیا اکنامک فوکس کا ایک حصہ ہے، جو کہ سال میں دو بار عالمی بینک کی رپورٹ اور تجزیہ کرتا ہے جس میں جنوبی ایشیا کے خطے میں اقتصادی ترقی اور امکانات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ممالک کو درپیش معاشی چیلنجوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی سمیت حالیہ بڑے عالمی اور علاقائی تغیرات کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں نمو کم ہو رہی ہے۔ عالمی خوراک، کھاد اور ایندھن کی قلت کے اثرات؛ سری لنکا میں اقتصادی بحران اور پاکستان میں تباہ کن سیلاب، اس سے پہلے COVID-19 کے اثرات نے معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
عظیم قومیں ہمیشہ اپنے حال اور ماضی پر توجہ دیتی ہیں اور اپنے مستقبل کی فکر کرتی ہیں، ہمارے اردگرد بے پناہ رکاوٹیں ہیں، ہمیں ان سے پوری طرح نمٹنا ہے، چیلنجز سے نمٹنے اور معیشت میں استحکام لانے کے لیے پاکستان کو اپنی توجہ زراعت سے صنعت کاری کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت ہے،اپنے اخراجات کو کم کرنا ہوگا تاکہ ترجیحات کا تعین کیا جاسکے، پروٹوکول جیسے غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا ہوگا اور فضول درآمدات پر پابندی لگانا ہوگی کیونکہ صرف ڈیوٹیز میں اضافہ کرنا سازگار نہیں ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی سالانہ اربوں ڈالر کی ترسیلات زر بغیر کسی شرط کے پاکستان بھیجتے ہیں اگر حکومت پاکستان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جائیدادوں کو تحفظ فراہم کرے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے تو یہ ترسیلات زربڑھ سکتی ہیں اگر ترسیلات زر بڑھ جائیں تو قرض لینے کی ضرورت نہیں،لوگوں کو اپنا کاروبار بنانے کی اجازت دینا اہم ہے کیونکہ اس سے انھیں فرد اور ایک قوم کے طور پر خود انحصار بننے میں مدد ملتی ہے۔
مقامی کاروبار کو سپورٹ کرنے سے معیشت مضبوط ہوتی ہے، زیادہ ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں، ٹیکس کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور کمیونٹی میں جدت آتی ہے اور یہ کاروبار کم دیکھ بھال کے ہوتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان کے غیر ملکی اقتصادی تعلقات کو جیو پولیٹکس کی بجائے جیو اکنامکس کی طرف تبدیل کرنے کے لیے پاکستان کی ملکی اقتصادی پالیسیوں کو مستحکم اور پیش قیاسی، نظم و نسق اور گورننس کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام، پالیسیوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال اور مسلسل معاشی بحران موجودہ جمود سے کوئی تبدیلی نہیں لائے گا۔ ہم مسلسل امداد مانگ کر اپنی عزت کھونے والے ایک معمولی کھلاڑی رہیں گے۔
آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے ہمہ وقت مدد کے لیے رجوع کرنا مذکورہ بالا تجاویز پر پانی پھیر دے گا۔ ہمیں جس بڑے مسئلے کا سامنا ہے وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تشخیص یا نسخوں کی کمی نہیں ہے بلکہ سوچ کی تنگ نظری ہے جہاں طریق کار کو نتائج پر فوقیت دی جاتی ہے۔
جب تک ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت کسی بھی غیر ملکی کے لیے اندرونی نفرت کو دور نہیں کرتے،ہم ترقی کی اس لہر سے مزید دور ہوتے جائیں گے جس سے دوسرے ترقی پذیر ممالک کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہمیں دنیا کی مفلوج معیشتوں کی بجائے جنوبی کوریا، چین، انڈونیشیا، ملائیشیا اور ویتنام کو رول ماڈل کے طور پر اپنا نا چاہیے۔