پاکستان زرعی ملک تو ہے
ایک زرعی ملک کہلایا جانے والا پاکستان ان دنوں مسائل کا شکار ہے
''پیاز تو ایک مہینے کے اندر ہی تیار ہو جاتی ہے، ہم جہاں رہتے ہیں وہاں تو اسے تیار کیا جاتا ہے، ہمارے سامنے ہی (گاؤں) سے تو انڈین بارڈر نظر آتا ہے۔ یہ سب پتا نہیں کیا کر رہے ہیں، پیاز کراچی میں اتنی مہنگی کیوں ہے؟'' وہ خاتون گلہ کر رہی تھیں جن کا تعلق پنجاب سے تھا اور ذہن میں سوالات ابھر رہے تھے کہ آخر وجہ کیا ہے؟
پاکستان کا ایک بڑا حصہ زراعت کے پیشے سے منسلک ہے، ایک زرعی ملک کہلایا جانے والا پاکستان ان دنوں مسائل کا شکار ہے۔
آخرکیا وجوہات ہیں کہ پچھتر فیصد سے زائد آبادی والا حصہ زراعت سے وابستہ ہے اور زرعی اجناس اس قدر مہنگی ہیں نہ صرف کراچی بلکہ لاہور اور دوسرے صوبوں میں بھی۔ سننے میں یہی آیا ہے کہ زرعی اجناس کی قیمتیں اوپر کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ خاص کر وہ اجناس جن کا تعلق باورچی خانے سے ہو اور بات پیٹ کی ہو تو سوالات ابھرنا ناگزیر ہیں۔
روس کا عالمی سطح پر زرعی مصنوعات درآمد کرنے کے حوالے سے تیرہواں نمبر ہے۔ یہ مختلف ممالک سے درآمد کرتا ہے جن میں ترکی، برازیل، فرانس اور جرمنی وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا میں کھاد برآمد کرنے والا سب سے بڑے ملک پر نظر ڈالیے تو روس کا نام سرفہرست ہے۔
یہ کھاد میں استعمال ہونے والے کیمیکل اجزا جن میں امونیا یوریا اور پوٹاش وغیرہ شامل ہے دوسرے نمبر پر ہے۔ یعنی عالمی حوالے سے یہ دوسرے ممالک کو اہم کیمیائی اجزا فراہم کرتا ہے جو کھاد بنانے میں بہترین مدد گار ہیں۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگی صورت حال نے جہاں ان دونوں ممالک میں حالات بگاڑے ہیں ، وہیں عالمی حوالے سے بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان جنگ نے کھاد کی عالمی منڈی میں گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
کھادوں کی پیداوار اور قدرتی گیس کی فراہمی بھی اس صورت حال سے متاثر ہوئی ہے۔ ان میں شمالی امریکا جوکہ روس سے بیس فیصد کھاد منگواتا ہے متاثر ہے۔ اسی طرح برازیل، جنوبی افریقہ وغیرہ اس فہرست میں پہلے نمبرز پر ہیں۔
پوری دنیا میں زراعت سے منسلک ممالک کھاد کی اس غیر متوقع صورت حال کی وجہ سے متاثر ہیں ، صرف یہی نہیں بلکہ وہ ممالک جو کیمیائی کھاد سے منسلک مختلف اجزا برآمد کرتے ہیں وہ بھی اس ماحول میں متاثر ہو رہے ہیں۔ اس طرح زرعی کاروبار سے منسلک بڑے بیوپاریوں سے لے کر عام کسان بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
یہ مسئلہ اس وقت گمبھیر صورت حال اختیار کر گیا تھا جب کسانوں کو گندم کی بوائی کے لیے دوسری بار کھاد کی ضرورت تھی۔ یہ ایک انتہائی تشویش ناک ماحول تھا جس میں کسانوں نے اپنی فصلوں کے لیے دستیاب کھاد کے لحاظ سے کام کیا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا ؟
ملک میں آٹے کا بحران اس قدر بڑھا کہ حکومت کو عوام کے لیے سرکاری نرخ پر آٹا فراہم کرنے کے لیے ایک الگ سے اسکیم شروع کرنا پڑی ، جس سے عوام کی صرف ایک مخصوص مقدار ہی مستفید ہو رہی ہے۔
دراصل بازاروں اور سڑکوں کے گرد کھڑے عام بازار میں فروخت ہونے والے آٹے کی بوری کے مقابلے میں نصف قیمت پر تو دستیاب ہیں لیکن یہ بہارکبھی اور پتا نہیں کے شکوک میں لپٹی رہتی ہے۔
کھاد کے بازار پر نظر رکھنے والوں نے پہلے ہی ذخیرہ اندوزی پر خاصا کام کر لیا تھا ، کہا جاتا ہے کہ کھاد بنانے والی کمپنیوں کے مطابق انھوں نے کھاد کی مطلوبہ مقدار تیار کر کے حسب معمول روانہ کردی تھی لیکن اس کے بعد یہ کھاد کہاں گئی؟
اب آتے ہیں آج کے منظرنامے میں جہاں ذخیرہ اندوزوں کی کھاد کا بھی کیا کوئی کمال نظر آتا ہے۔ یقینا انھوں نے اسے اپنے حساب سے سونے کے بھاؤ فروخت کیا ہوگا ، لیکن زرعی اشیا کی کمیابی نے پورے ماحول مہنگائی کا ایک ایسا تناؤ پیدا کردیا ہے ، جس نے ملک کی معاشی صورت حال پر سنگین نتائج مرتب کیے ہیں۔ آئے دن اخبارات و نیوز چینلز پر اسی مہنگائی اورکھانے پینے کی قلت سے متعلق جرائم نظر آتے ہیں یہ ایک تشویش ناک ایشو ہے۔
کسانوں کے لیے ابھی کھاد کے مسائل درپیش تھے کہ سیلاب نے بھی اس منظر نامے کو مزید سخت کردیا جب سیلاب کی تباہ کاریوں نے شوشہ ابھارا۔ اس قدرتی آفت نے عوام کو اور کسانوں کو بوکھلا کر رکھ دیا جہاں کھڑی فصلیں اس سیلابی ریلے کی زد میں آئیں وہیں غریب عوام کے گھر اور مال مویشی برباد ہوگئے۔
یہ بات اب اس لیے بھی سنگین ہے کہ کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی بہت سے علاقے پانیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں وہ زمین جو قابل کاشت تھی اب کئی مہینوں سے پانی میں ڈوبی ہے۔ اسے کب تک قابل کاشت کیا جاسکے گا ؟ اس سوال کا جواب تاحال مشکل ہے۔
اس سیلابی آفت ، عالمی منڈی میں ہوش ربا قیمتیں اور ملکی صورت حال کے تحت ہم کس طرح ایک زرعی ملک کو جو اس وقت بد ترین معاشی شکنجے میں ہے نکال سکتے ہیں؟
اس وقت وزیر اعظم شہباز شریف نے زراعت اور کسانوں کی حالت کو سدھارنے میں توجہ تو دی ہے۔ یہ ایک کسان پیکیج 2022 ہے۔ اس کی منظوری کے بعد کسانوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ ، معیاری بیجوں کی فراہمی ، ڈی اے پی کھاد کی قیمت میں نمایاں کمی جیسے احکامات تو جاری کیے ہیں۔
یہ بھی کہ ایک اعشاریہ چھ لاکھ ملین میٹرک ٹن یوریا کھاد کو درآمد کرنے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ ایک لاکھ پچیس ہزار میٹرک ٹن یوریا کھاد چین سے اور پینتیس ہزار میٹرک ٹن آذربائیجان سے درآمد کی جائے گی۔
یوریا کھاد کی بقیہ مقدارکی درآمد کو قابل عمل طریقے اور ذرائع تلاش کرنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ یقینا یہ ہمارے کسان بھائیوں کے لیے اور عام عوام کے لیے ایک خوش آیند پروگرام ہے کہ شاید اس طرح ڈبل قیمت پر عام دکان سے ملنے والا آٹا سرکاری نرخ پر ملنے والے آٹے کے یکساں آجائے ۔
شاید پیاز دو سو اور ڈھائی سو روپے فی کلو کے مقابلے میں پہلے کی طرح پچاس سے پچھتر روپے کلو دستیاب ہو، ٹماٹر اور آلو بھی سو کے دو کلو ملنے لگیں۔ ویسے یہ خواب ابھی دور نہیں، بس ہمیں ان طریقوں ، نظریوں اور نیتوں پر بھی ازسر نو سوچنا پڑے گا کہ جس کے باعث ایک زرعی ملک اس قدر زراعتی الجھنوں کا شکار ہوا ہے۔ پھر بھی ہم تو اچھا ہی سوچتے ہیں۔
پاکستان کا ایک بڑا حصہ زراعت کے پیشے سے منسلک ہے، ایک زرعی ملک کہلایا جانے والا پاکستان ان دنوں مسائل کا شکار ہے۔
آخرکیا وجوہات ہیں کہ پچھتر فیصد سے زائد آبادی والا حصہ زراعت سے وابستہ ہے اور زرعی اجناس اس قدر مہنگی ہیں نہ صرف کراچی بلکہ لاہور اور دوسرے صوبوں میں بھی۔ سننے میں یہی آیا ہے کہ زرعی اجناس کی قیمتیں اوپر کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ خاص کر وہ اجناس جن کا تعلق باورچی خانے سے ہو اور بات پیٹ کی ہو تو سوالات ابھرنا ناگزیر ہیں۔
روس کا عالمی سطح پر زرعی مصنوعات درآمد کرنے کے حوالے سے تیرہواں نمبر ہے۔ یہ مختلف ممالک سے درآمد کرتا ہے جن میں ترکی، برازیل، فرانس اور جرمنی وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا میں کھاد برآمد کرنے والا سب سے بڑے ملک پر نظر ڈالیے تو روس کا نام سرفہرست ہے۔
یہ کھاد میں استعمال ہونے والے کیمیکل اجزا جن میں امونیا یوریا اور پوٹاش وغیرہ شامل ہے دوسرے نمبر پر ہے۔ یعنی عالمی حوالے سے یہ دوسرے ممالک کو اہم کیمیائی اجزا فراہم کرتا ہے جو کھاد بنانے میں بہترین مدد گار ہیں۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگی صورت حال نے جہاں ان دونوں ممالک میں حالات بگاڑے ہیں ، وہیں عالمی حوالے سے بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان جنگ نے کھاد کی عالمی منڈی میں گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
کھادوں کی پیداوار اور قدرتی گیس کی فراہمی بھی اس صورت حال سے متاثر ہوئی ہے۔ ان میں شمالی امریکا جوکہ روس سے بیس فیصد کھاد منگواتا ہے متاثر ہے۔ اسی طرح برازیل، جنوبی افریقہ وغیرہ اس فہرست میں پہلے نمبرز پر ہیں۔
پوری دنیا میں زراعت سے منسلک ممالک کھاد کی اس غیر متوقع صورت حال کی وجہ سے متاثر ہیں ، صرف یہی نہیں بلکہ وہ ممالک جو کیمیائی کھاد سے منسلک مختلف اجزا برآمد کرتے ہیں وہ بھی اس ماحول میں متاثر ہو رہے ہیں۔ اس طرح زرعی کاروبار سے منسلک بڑے بیوپاریوں سے لے کر عام کسان بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
یہ مسئلہ اس وقت گمبھیر صورت حال اختیار کر گیا تھا جب کسانوں کو گندم کی بوائی کے لیے دوسری بار کھاد کی ضرورت تھی۔ یہ ایک انتہائی تشویش ناک ماحول تھا جس میں کسانوں نے اپنی فصلوں کے لیے دستیاب کھاد کے لحاظ سے کام کیا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا ؟
ملک میں آٹے کا بحران اس قدر بڑھا کہ حکومت کو عوام کے لیے سرکاری نرخ پر آٹا فراہم کرنے کے لیے ایک الگ سے اسکیم شروع کرنا پڑی ، جس سے عوام کی صرف ایک مخصوص مقدار ہی مستفید ہو رہی ہے۔
دراصل بازاروں اور سڑکوں کے گرد کھڑے عام بازار میں فروخت ہونے والے آٹے کی بوری کے مقابلے میں نصف قیمت پر تو دستیاب ہیں لیکن یہ بہارکبھی اور پتا نہیں کے شکوک میں لپٹی رہتی ہے۔
کھاد کے بازار پر نظر رکھنے والوں نے پہلے ہی ذخیرہ اندوزی پر خاصا کام کر لیا تھا ، کہا جاتا ہے کہ کھاد بنانے والی کمپنیوں کے مطابق انھوں نے کھاد کی مطلوبہ مقدار تیار کر کے حسب معمول روانہ کردی تھی لیکن اس کے بعد یہ کھاد کہاں گئی؟
اب آتے ہیں آج کے منظرنامے میں جہاں ذخیرہ اندوزوں کی کھاد کا بھی کیا کوئی کمال نظر آتا ہے۔ یقینا انھوں نے اسے اپنے حساب سے سونے کے بھاؤ فروخت کیا ہوگا ، لیکن زرعی اشیا کی کمیابی نے پورے ماحول مہنگائی کا ایک ایسا تناؤ پیدا کردیا ہے ، جس نے ملک کی معاشی صورت حال پر سنگین نتائج مرتب کیے ہیں۔ آئے دن اخبارات و نیوز چینلز پر اسی مہنگائی اورکھانے پینے کی قلت سے متعلق جرائم نظر آتے ہیں یہ ایک تشویش ناک ایشو ہے۔
کسانوں کے لیے ابھی کھاد کے مسائل درپیش تھے کہ سیلاب نے بھی اس منظر نامے کو مزید سخت کردیا جب سیلاب کی تباہ کاریوں نے شوشہ ابھارا۔ اس قدرتی آفت نے عوام کو اور کسانوں کو بوکھلا کر رکھ دیا جہاں کھڑی فصلیں اس سیلابی ریلے کی زد میں آئیں وہیں غریب عوام کے گھر اور مال مویشی برباد ہوگئے۔
یہ بات اب اس لیے بھی سنگین ہے کہ کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی بہت سے علاقے پانیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں وہ زمین جو قابل کاشت تھی اب کئی مہینوں سے پانی میں ڈوبی ہے۔ اسے کب تک قابل کاشت کیا جاسکے گا ؟ اس سوال کا جواب تاحال مشکل ہے۔
اس سیلابی آفت ، عالمی منڈی میں ہوش ربا قیمتیں اور ملکی صورت حال کے تحت ہم کس طرح ایک زرعی ملک کو جو اس وقت بد ترین معاشی شکنجے میں ہے نکال سکتے ہیں؟
اس وقت وزیر اعظم شہباز شریف نے زراعت اور کسانوں کی حالت کو سدھارنے میں توجہ تو دی ہے۔ یہ ایک کسان پیکیج 2022 ہے۔ اس کی منظوری کے بعد کسانوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ ، معیاری بیجوں کی فراہمی ، ڈی اے پی کھاد کی قیمت میں نمایاں کمی جیسے احکامات تو جاری کیے ہیں۔
یہ بھی کہ ایک اعشاریہ چھ لاکھ ملین میٹرک ٹن یوریا کھاد کو درآمد کرنے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ ایک لاکھ پچیس ہزار میٹرک ٹن یوریا کھاد چین سے اور پینتیس ہزار میٹرک ٹن آذربائیجان سے درآمد کی جائے گی۔
یوریا کھاد کی بقیہ مقدارکی درآمد کو قابل عمل طریقے اور ذرائع تلاش کرنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ یقینا یہ ہمارے کسان بھائیوں کے لیے اور عام عوام کے لیے ایک خوش آیند پروگرام ہے کہ شاید اس طرح ڈبل قیمت پر عام دکان سے ملنے والا آٹا سرکاری نرخ پر ملنے والے آٹے کے یکساں آجائے ۔
شاید پیاز دو سو اور ڈھائی سو روپے فی کلو کے مقابلے میں پہلے کی طرح پچاس سے پچھتر روپے کلو دستیاب ہو، ٹماٹر اور آلو بھی سو کے دو کلو ملنے لگیں۔ ویسے یہ خواب ابھی دور نہیں، بس ہمیں ان طریقوں ، نظریوں اور نیتوں پر بھی ازسر نو سوچنا پڑے گا کہ جس کے باعث ایک زرعی ملک اس قدر زراعتی الجھنوں کا شکار ہوا ہے۔ پھر بھی ہم تو اچھا ہی سوچتے ہیں۔