ہمارا کراچی
تحریک انصاف کے نمایندوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے الزام تراشیوں کے کلچر کو فروغ دیا
عروس البلاد کراچی، ملک کے بانی قائداعظم کا شہر۔ جہاں الیکشن 2018 کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) میں اتحاد ہوا اور متحدہ کو وفاقی حکومت میں نمائندگی بھی ملی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور لاء منسٹری جیسی اہم وزارتیں ہونے کے باوجود بھی متحدہ والے کراچی کی نمائندگی نہیں کرسکے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کو مضبوط ہونے کا مزید موقع دیا گیا، یوں تحریک انصاف سندھ کی دوسری بڑی جماعت بن گئی اور اپوزیشن لیڈر بھی اس جماعت کا سندھ اسمبلی میں رہا۔ تحریک انصاف کے نمایندوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے الزام تراشیوں کے کلچر کو فروغ دیا۔
جب بھی کارکردگی کی بات ہوئی تو کردار کشی کی گئی یا جھوٹے کیسز کرکے چپ کروا دیا گیا۔ عمران خان کے لاڈلے ہونے کا پورا فائدہ ان کی جماعت نے اٹھایا۔ ایم کیو ایم تماشائی بن کر دیکھتی رہی یہ سب، اورکراچی کو لاوارث چھوڑدیا۔ پاکستان تحریک انصاف حکومت میں ہونے کے باوجود کراچی کی عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کرسکی۔
ان کی حکومت میں آدھے سے زیادہ سابق کابینہ جیل گئی یا کورٹ میں کیسز کا سامنا کرتی رہی۔ خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی اس کردارکشی والے کلچر کو نوجوانوں نے بھی اپنایا شاید یہ وہ نوجوان ہیں جنھیں سچائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک ان کو یا ان کے کسی عزیز کو اسی تکلیف سے گزرنا نہ پڑے۔ ہمیں دوسروں کو دکھ ، تکلیف میں دیکھ کر مزہ آتا ہے بالخصوص ان وزراء یا سیاسی مخالفین پر جو کسی کے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کی بنیاد پر جھوٹے کیسز کا سامنا کر رہے ہوں۔
ویسے تو کئی کیسز ہیں لیکن میں ان کی بات اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ کراچی کے ترقیاتی کاموں سے منسلک ان کا ایک منصوبہ باقی سو منصوبوں پر غالب ہے۔ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شرجیل انعام میمن کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ انھیں سیاسی طور پر پہلے سے طے شدہ اختراعی کیس میں جیل جانا پڑا ۔ یوں سابقہ حکومتوں کے 22 لوگ 2 سال سے زائد عرصے کے لیے جیل میں چلے جاتے ہیں۔ جیل کیسے زندگی بدلتا ہے یہ آپ جانتے نہیں ہیں۔
ایک طاقتور وزیر جس کے جیل جانے سے پہلے پارٹی لیڈرشپ وزیراعلیٰ جیسے اعلیٰ منصب کے لیے انھیں منتخب کرنے کا سوچ رہی تھی اور ان کی زندگی پر تھوڑی روشنی ڈالیں تو انھوں نے عملی سیاست کی شروعات پیپلز پارٹی میڈیا سیل کے سربراہ کی حیثیت سے کی۔
انھیں جو ملا ان کی قابلیت کی وجہ سے ملا۔ میڈیا انڈسٹری کو اس وقت ڈیل کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں کئی نئے چینلز آئے میڈیا انڈسٹری سے منسلک لوگوں کو روزگار کے مواقعے فراہم ہوئے۔ شرجیل انعام میمن کافی عرصے تک بطور پیپلز پارٹی میڈیا سیل کے سربراہ اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
زمینی حقائق کو جانتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے انھیں وزیر اطلاعات بنایا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے محکمہ اطلاعات میں میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کے حق میں کئی اصلاحات ان کے دور میں کی گئیں۔ اس کے بعد کئی محکموں میں بطور وزیر وہ فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر ایک نیب کا کیس ہوتا ہے اور انھیں 22 دیگر لوگوں کے ساتھ جیل جانا پڑتا ہے۔
کچھ عرصے بعد انتخابات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور جیل سے مہم چلانا مشکل ہوتی ہے لیکن کسی طرح کاغذات نامزدگی داخل کروائے جاتے ہیں۔
اس پوری مہم میں کوشش کی جاتی ہے کہ ان کو ہرایا جائے لیکن ان کے بیٹے راول میمن اپنے والد کی مہم چلاتے ہیں لوگ الزام لگاتے ہیں، کردارکشی کی جاتی ہے پھر بھی بھاری اکثریت سے وہ جیت کر اپنے مخالفین کو اپنے مضبوط ہونے کا پیغام دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ جیل میں کچھ کاروباری شخصیات اور کچھ سرکاری آفیسرز بھی موجود تھے۔
سیاسی شخصیات ہونے کی وجہ سے شاید ان کا جیل جانا پھر بھی ٹھیک تھا کیونکہ پیپلز پارٹی کے ورکرز اور ارکان نے کئی جیلیں کاٹی ہیں لیکن ان 22 لوگوں کا کیا قصور؟ یہاں کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو معاشرے میں ان کو برا سمجھا جاتا ہے۔
جو بے قصور ہونے کے باوجود جیل جائے اس کے ساتھ کیا ہوا ہوگا کبھی سوچا ہے؟ سرکاری آفیسرز اور کاروباری شخصیات جو کہ اسی شعبے سے منسلک ہوں اور وہ یا ان کے عزیز جب ٹی وی پر ان کے جیل جانے کی خبر دیکھتے ہیں تو کیسا لگتا ہوگا کبھی سوچا ہے؟ جیل میں جانے کے بعد ان سرکاری افسران کے پروموشن نہیں ہوتے اور کاروباری شخصیات کا کاروبار پہلے جیسا نہیں رہتا۔ نیازی کے پیروکار بنیں لیکن پہلے صحیح اورغلط میں فرق جانیں۔
خیر کراچی پر واپس آتے ہیں حال ہی میں کابینہ میں کی گئی تبدیلیوں میں شرجیل انعام میمن کو بطور وزیر محکمہ ٹرانسپورٹ اور اطلاعات کی اہم ذمے داری دینے کے بعد کراچی کی سیاست اور ترقیاتی کاموں میں بڑا واضح فرق نظر آیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ، شرجیل انعام میمن، سعید غنی، وقار مہدی، ناصر حسین شاہ اور مرتضی وہاب کی مشترکہ کاوشوں سے کراچی والوں سے وزیر خارجہ اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کا وعدہ پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
بلاول بھٹو اس بار اپنی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ ملکی، مقامی سیاسی و ترقیاتی پالیسی کو ساتھ لے کر چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس بار پوری امید ہے کہ ان کی جماعت بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر جیتے کی، کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ پہلے ہی ان کے ساتھ اتحاد میں ہے۔ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا پرانا بیانیہ اس بار نہیں چلے گا کیونکہ کراچی کے عوام انھیں سمجھ چکے ہیں۔
اس پاکستان پیپلز پارٹی کا نام اور کام دونوں بولتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خاص طور پر سندھ حکومت کا پبلک ٹرانسپورٹ منصوبہ ''پیپلز بس سروس'' کو کراچی کے عوام نے کافی سراہا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے اس اقدام سے لوگ خوش نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں ہوئی ایک پریس بریفنگ کے دروان شرجیل انعام میمن نے کراچی کے عوام کو ایک اور خوش خبری سناتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت ایک ٹیکسی منصوبہ لیکر آنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ نجی کار سروسز کے مقابلے زیادہ سستا ہوگا -
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور لاء منسٹری جیسی اہم وزارتیں ہونے کے باوجود بھی متحدہ والے کراچی کی نمائندگی نہیں کرسکے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کو مضبوط ہونے کا مزید موقع دیا گیا، یوں تحریک انصاف سندھ کی دوسری بڑی جماعت بن گئی اور اپوزیشن لیڈر بھی اس جماعت کا سندھ اسمبلی میں رہا۔ تحریک انصاف کے نمایندوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے الزام تراشیوں کے کلچر کو فروغ دیا۔
جب بھی کارکردگی کی بات ہوئی تو کردار کشی کی گئی یا جھوٹے کیسز کرکے چپ کروا دیا گیا۔ عمران خان کے لاڈلے ہونے کا پورا فائدہ ان کی جماعت نے اٹھایا۔ ایم کیو ایم تماشائی بن کر دیکھتی رہی یہ سب، اورکراچی کو لاوارث چھوڑدیا۔ پاکستان تحریک انصاف حکومت میں ہونے کے باوجود کراچی کی عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کرسکی۔
ان کی حکومت میں آدھے سے زیادہ سابق کابینہ جیل گئی یا کورٹ میں کیسز کا سامنا کرتی رہی۔ خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی اس کردارکشی والے کلچر کو نوجوانوں نے بھی اپنایا شاید یہ وہ نوجوان ہیں جنھیں سچائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک ان کو یا ان کے کسی عزیز کو اسی تکلیف سے گزرنا نہ پڑے۔ ہمیں دوسروں کو دکھ ، تکلیف میں دیکھ کر مزہ آتا ہے بالخصوص ان وزراء یا سیاسی مخالفین پر جو کسی کے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کی بنیاد پر جھوٹے کیسز کا سامنا کر رہے ہوں۔
ویسے تو کئی کیسز ہیں لیکن میں ان کی بات اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ کراچی کے ترقیاتی کاموں سے منسلک ان کا ایک منصوبہ باقی سو منصوبوں پر غالب ہے۔ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شرجیل انعام میمن کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ انھیں سیاسی طور پر پہلے سے طے شدہ اختراعی کیس میں جیل جانا پڑا ۔ یوں سابقہ حکومتوں کے 22 لوگ 2 سال سے زائد عرصے کے لیے جیل میں چلے جاتے ہیں۔ جیل کیسے زندگی بدلتا ہے یہ آپ جانتے نہیں ہیں۔
ایک طاقتور وزیر جس کے جیل جانے سے پہلے پارٹی لیڈرشپ وزیراعلیٰ جیسے اعلیٰ منصب کے لیے انھیں منتخب کرنے کا سوچ رہی تھی اور ان کی زندگی پر تھوڑی روشنی ڈالیں تو انھوں نے عملی سیاست کی شروعات پیپلز پارٹی میڈیا سیل کے سربراہ کی حیثیت سے کی۔
انھیں جو ملا ان کی قابلیت کی وجہ سے ملا۔ میڈیا انڈسٹری کو اس وقت ڈیل کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں کئی نئے چینلز آئے میڈیا انڈسٹری سے منسلک لوگوں کو روزگار کے مواقعے فراہم ہوئے۔ شرجیل انعام میمن کافی عرصے تک بطور پیپلز پارٹی میڈیا سیل کے سربراہ اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
زمینی حقائق کو جانتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے انھیں وزیر اطلاعات بنایا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے محکمہ اطلاعات میں میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کے حق میں کئی اصلاحات ان کے دور میں کی گئیں۔ اس کے بعد کئی محکموں میں بطور وزیر وہ فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر ایک نیب کا کیس ہوتا ہے اور انھیں 22 دیگر لوگوں کے ساتھ جیل جانا پڑتا ہے۔
کچھ عرصے بعد انتخابات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور جیل سے مہم چلانا مشکل ہوتی ہے لیکن کسی طرح کاغذات نامزدگی داخل کروائے جاتے ہیں۔
اس پوری مہم میں کوشش کی جاتی ہے کہ ان کو ہرایا جائے لیکن ان کے بیٹے راول میمن اپنے والد کی مہم چلاتے ہیں لوگ الزام لگاتے ہیں، کردارکشی کی جاتی ہے پھر بھی بھاری اکثریت سے وہ جیت کر اپنے مخالفین کو اپنے مضبوط ہونے کا پیغام دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ جیل میں کچھ کاروباری شخصیات اور کچھ سرکاری آفیسرز بھی موجود تھے۔
سیاسی شخصیات ہونے کی وجہ سے شاید ان کا جیل جانا پھر بھی ٹھیک تھا کیونکہ پیپلز پارٹی کے ورکرز اور ارکان نے کئی جیلیں کاٹی ہیں لیکن ان 22 لوگوں کا کیا قصور؟ یہاں کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو معاشرے میں ان کو برا سمجھا جاتا ہے۔
جو بے قصور ہونے کے باوجود جیل جائے اس کے ساتھ کیا ہوا ہوگا کبھی سوچا ہے؟ سرکاری آفیسرز اور کاروباری شخصیات جو کہ اسی شعبے سے منسلک ہوں اور وہ یا ان کے عزیز جب ٹی وی پر ان کے جیل جانے کی خبر دیکھتے ہیں تو کیسا لگتا ہوگا کبھی سوچا ہے؟ جیل میں جانے کے بعد ان سرکاری افسران کے پروموشن نہیں ہوتے اور کاروباری شخصیات کا کاروبار پہلے جیسا نہیں رہتا۔ نیازی کے پیروکار بنیں لیکن پہلے صحیح اورغلط میں فرق جانیں۔
خیر کراچی پر واپس آتے ہیں حال ہی میں کابینہ میں کی گئی تبدیلیوں میں شرجیل انعام میمن کو بطور وزیر محکمہ ٹرانسپورٹ اور اطلاعات کی اہم ذمے داری دینے کے بعد کراچی کی سیاست اور ترقیاتی کاموں میں بڑا واضح فرق نظر آیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ، شرجیل انعام میمن، سعید غنی، وقار مہدی، ناصر حسین شاہ اور مرتضی وہاب کی مشترکہ کاوشوں سے کراچی والوں سے وزیر خارجہ اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کا وعدہ پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
بلاول بھٹو اس بار اپنی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ ملکی، مقامی سیاسی و ترقیاتی پالیسی کو ساتھ لے کر چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس بار پوری امید ہے کہ ان کی جماعت بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر جیتے کی، کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ پہلے ہی ان کے ساتھ اتحاد میں ہے۔ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا پرانا بیانیہ اس بار نہیں چلے گا کیونکہ کراچی کے عوام انھیں سمجھ چکے ہیں۔
اس پاکستان پیپلز پارٹی کا نام اور کام دونوں بولتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خاص طور پر سندھ حکومت کا پبلک ٹرانسپورٹ منصوبہ ''پیپلز بس سروس'' کو کراچی کے عوام نے کافی سراہا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے اس اقدام سے لوگ خوش نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں ہوئی ایک پریس بریفنگ کے دروان شرجیل انعام میمن نے کراچی کے عوام کو ایک اور خوش خبری سناتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت ایک ٹیکسی منصوبہ لیکر آنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ نجی کار سروسز کے مقابلے زیادہ سستا ہوگا -