غزل
ٹھٹھرتی صبحوں کو لے کر دسمبر آیا ہے
دکھا بہار کے تیور دسمبر آیا ہے
ہمارے جذبے نہ یخ بستگی میں دب جائیں
جمے نہ برف دلوں پر دسمبر آیا ہے
فسردہ پیڑ ہیں، ویرانیاں ہیں باغوں میں
اداس کرتا ہے منظر، دسمبر آیا ہے
فضا میں ٹھنڈی ہواؤں کی سرسراہٹ ہے
اڑھا دے پیار کی چادر دسمبر آیا ہے
تمہاری سرد روی کا چھڑا ہوا تھا ذکر
یقیں کرو کہ لبوں پر دسمبر آیا ہے
ملال لے کے گذشتہ کی رائیگانی کا
چبھونے زخم میں نشتر دسمبر آیا ہے
گیارہ ماہ بھی کچھ کم نہ تھے جدائی کے
اکیلا سب کے برابر دسمبر آیا ہے
برستی بھیگتی شاموں میں ان دنوں جاذبؔ
ہے گرم یاد کا بستر دسمبر آیا ہے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)
۔۔۔
غزل
یہ آج کیسا ایک بڑاحادثہ ہوا
اُس شخص سے دوبارہ مرا سامنا ہوا
تیرا خیال میرے لیے سائبان تھا
وہ سائبان بھی مرے سر سے جدا ہوا
یادوں کا اک ہجوم مرے آس پاس ہے
تنہائیوں کا میلہ ہے دل میں لگا ہوا
وقتِ جدائی جو مری آنکھوں میں آ گیا
پلکوں پہ میری ہے وہی آنسو رکا ہوا
اے گردشِ حیات ذرا دیر تو ٹھہر
ہوں انتظار یار میں رہ پر کھڑا ہوا
تیرے بغیر روشنی کی اب طلب نہیں
گھر میں مرے چراغ ہے اب بھی بجھا ہوا
دنیا میں رہ کے دنیا سے میں دور ہوں شہابؔ
دنیا کے عشق میں نہ کبھی مبتلا ہوا
(شہاب اللہ شہاب۔منڈا، دیرلوئر، خیبرپختون خوا)
۔۔۔
غزل
مدد کے نام پر لینے لگا تھا
سبھی الزام سر لینے لگا تھا
نہ جانے کس گلی میں جا بسا تو
میں گھر کے ساتھ گھر لینے لگا تھا
تجھے پا کر ہوا احساس رب سے
میں پہلے کس قدر لینے لگا تھا
عدو سے مشورہ لینا کسی کا
نہیں بنتا مگر لینے لگا تھا
ان آنکھوں کو نظر انداز کر کے
میں دریا کی خبر لینے لگا تھا
(اشرف کھوکھر ۔ چنیوٹ)
۔۔۔
غزل
سہے زمیں پہ زمیں کے عذاب، کیا کرتے
کف ِ نجوم و رخ ِماہتاب کیا کرتے
اگر میں بیچ بھی دیتی تو کم نگاہ یہ لوگ
خرید کر مری آنکھوں کے خواب کیا کرتے
جو راہزن نہ ہوئے دشت ِ بے اماں میں تو کیا
میں جانتی ہوںمرے ہم رکاب کیا کرتے
وہ زخم پہلی وفاؤں کے بھر نہیں پائے
وفا کے تازہ بہ تازہ نصاب کیا کرتے
تمہارے وصل کے لمحے تو انگلیوں پر ہیں
جو ہجر ہوگئے اُن کا حساب کیا کرتے
خراب ِ کوچہ و بازار ہم ہوئے تو ہیں
زیادہ اس سے بھی حالت خراب کیا کرتے
مٹا نہ پایا اندھیروں کو آفتاب جہاں
وہاں ستارے،فلک، ماہتاب کیا کرتے
وہ چہرہ سامنے رہتا تھا صبح و شام حیاؔ
بھلا ہم ایسے میں کوئی کتاب کیا کرتے
(حیاؔ حیات۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
بزمِ رنداں میں کسی بھی سر چڑھے کا حل نہیں
جس طرح دنیائے طب میں لبلبے کا حل نہیں
ضعفِ دل ہے قابلِ حل، دل جَلے کا حل نہیں
باؤلے کا حل ہے لیکن، سر پھرے کا حل نہیں
مسئلے کا حل ہے طاقت، گفتگو اور جنگ میں
ہاں مگر طاقت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں
قربتوں کے اصل معنی ہیں دلوں کی قربتیں
پاس آ کر بیٹھ جانا فاصلے کا حل نہیں
اک طرف ہے سوزِ دل اور اک طرف سوزِ جگر
ایک حل ہو بھی گیا تو دوسرے کا حل نہیں
لاکھ ڈھونڈے شیشہ گر اور لاکھ تدبیریں کرے
ٹوٹ کر جب تک نہ بکھرے، آئنے کا حل نہیں
اس سے بڑھ کر اور بھی کیا بد نصیبی ہے جمیلؔ
جس کا حل ہے وہ نہیں، اور سامنے کا حل نہیں
(قاضی جواد جمیلؔ ۔ڈی آئی خان)
۔۔۔
غزل
اس لیے ہم کو نکالاکسی حجت کے بغیر
دل میں رکھا تھا قدم اس کی اجازت کے بغیر
اس نے بھی سیکھ لیا ہوگا زمانے کا چلن
یاد کرتا ہی نہیں ہم کو ضرورت کے بغیر
اتنی آسانی سے پھل ہاتھ نہیں آسکتا
شعر تو شعر نہیں ہوتا ریاضت کے بغیر
اسے احساس کے رشتوں سے نہیں کچھ مطلب
اس نے تو عمر گزاری ہے محبت کے بغیر
اس لیے قدر نہیں ہے تمھیں اس کی کوئی
دل تمھیں ہم نے دیا ہے کسی قیمت کے بغیر
میں تو یہ سوچ کے ہلکان ہوا جاتا ہوں
لوگ جیتے ہیں یہاں کس طرح عزت کے بغیر
ہم زمانے کو خفا کر کے چلے آئے ہیں
جینا دشوار تھا صادقؔ تری قربت کے بغیر
(محمد امین صادق ۔اوگی، مانسہرہ)
۔۔۔
غزل
ہتھیلی پہ ہر اک لمحہ نہ تم جلتا دیا رکھنا
محبت بانٹنا لیکن نہ امید و صلہ رکھنا
ہیں نازک آبگینے یہ نہ ان کو ٹھیس لگ جائے
ذرا سا سیکھ لو خوابوں کو آنکھوں میں چھپا رکھنا
ابھی آغاز الفت ہے ابھی سے تھک گئے ہو تم
بڑی پر پیچ راہیں ہیں ذرا سا حوصلہ رکھنا
کسی بے فیض انساں کے لیے انکو لٹانا مت
گہر اشکوں کے بے قیمت نہیں انکو بچا رکھنا
یہ کیوں خود کو اندھیروں کے حوالے کر دیا تم نے
تمہی نے مجھکو سکھلایا تھا راہوں میں دیا رکھنا
(شاہانہ ناز۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
وہ نظر جس سے ہم کلام نہیں
اس کا محفل میں کوئی کام نہیں
میرا دن بھی سفر میں گزرا تھا
میرے حصے میں کوئی شام نہیں؟
جا رے قاصد! تجھے خدا پوچھے
ایک خط بھی ہمارے نام نہیں
میں ترے نام سے جڑا ہوا ہوں
سو مجھے فکر انہدام نہیں
تھوڑا ٹھہراؤ آ گیا لیکن
یہ کہانی کا اختتام نہیں
(سبحان خالد۔ تلہ گنگ، چکوال)
۔۔۔
غزل
تمہاری قید سے باہر اگر نکل آئے
رہائی کوسے گی! کیا سوچ کر نکل آئے
وہ اس کے لمس کی توقیر تھی یا کیا تھا مگر
وہ آ رہا تھا تو دستک کو در نکل آئے
مسافروں کی ہے فطرت میں سوچنا سرِ شام
یہ رات کاٹ کے ممکن ہے گھر نکل آئے
حریف پر بھی جو ترکش سے نہ نکلتے تھے
تمہارے تیر مجھے دیکھ کر نکل آئے
کچھ اس طرح کا تعلق رہا پرندوں سے
کہ ان کے بعد درختوں کے پر نکل آئے
(نوشاداکبر ۔ لیہ)
۔۔۔
غزل
ہونا چاہوں بھی مرا دل نہیں ہونے دیتا
مجھ کو اک یاد میں پاگل نہیں ہونے دیتا
میں ہی بیٹھا ہوں مری راہ میں پتھر لے کر
میں ہی گھر میں مجھے داخل نہیں ہونے دیتا
آئینہ آج بھی کوشش تو بہت کرتا ہے
میں ہی اُس کو کسی قابل نہیں ہونے دیتا
ایسا ہمدرد ملا ہے کہ کوئی کام مرا
ہو بھی سکتا ہو تو بالکل نہیں ہونے دیتا
تو مجھے مل نہیں سکتا تو کسی اور کا بھی
اب ٹھکانہ تیرا آنچل نہیں ہونے دیتا
(انس سلطان ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
ہر کھنکتی ہوئی پازیب سے ڈر لگتا ہے
اس قدر عشق کے آسیب سے ڈر لگتا ہے
خود سے ملنے کے لیے جب بھی پکارا خود کو
چیخ اٹھا ہے کوئی غیب سے ڈر لگتا ہے
جانے کس موڑ پہ دوران سفر آنکھ لگے
موت کی خیر! ہمیں جیب سے ڈر لگتا ہے
کیا خبر کون کہاں کس پہ عیاں ہوجائے
خود میں تحلیل کئی عیب سے ڈر لگتا ہے
ہر خوشی میں نظر آتا ہے کوئی رنج اثرؔ
مجھ کو ہر ساعتِ دل زیب سے ڈر لگتا ہے
(اسامہ اثر ۔کوہستان )
۔۔۔
غزل
خود کو سمجھا دیا نہیں روتے
پھر بھی ہوتے نہیں تھے سمجھوتے
رنج و غم درد جھیلنے والے!
یہ بتادیں کسے نہیں ہوتے
داغ دل نے ہمیں یہ بتلایا
داغ مٹتے نہیں، رہو دھوتے
نفس کا بوجھ اب نہیں اٹھتا
خوب گزری ہے بوجھ کو ڈھوتے
زندگی! تجھ پہ موت رقصاں ہے
سب نے دیکھی ہے زندگی کھوتے
(نازیہ نزی۔ نوشہرہ)
۔۔۔
غزل
طبیعت اپنی بازاری نہ کرنا
مَفاسِد سے کبھی یاری نہ کرنا
امیرِ شہر کی صحبت میں رہ کر
غریبوں کی دل آزاری نہ کرنا
بنایا جن حَسیں جذبوں نے گلشن
انھیں جذبوں سے غدّاری نہ کرنا
ہمارے پھُول سے نازک دِلوں میں
تعّصب کی شجرکاری نہ کرنا
لبادہ اوڑھ کر پِیرِ حَرمَ کا
تقدّس، وقفِ عیّاری نہ کرنا
غلط سوچوں کے بہکاوے میں آکر
وطن میں تم ستم کاری نہ کرنا
فراست کا عَلَم ہاتھوں میں لے کر
جہالت کی طرف داری نہ کرنا
جو چاہو عُمر میں اپنی درازی
غموں سے زندگی بھاری نہ کرنا
(ایس۔ مُغنی حیدر، کراچی)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی