پاکستان پالتو کتوں کے معیار میں ابھی عالمی سطح پر نہیں پہنچا
ملک میں جانوروں کے تمام نجی کلینک رجسٹرڈہونے چاہیں، معروف تاجرفرحان انورکے ساتھ کتے پالنے کے شوق پرمعلومات افزاء گفتگو
جانور اور انسان کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ دونوں کی تخلیق کا عرصہ ہے۔
خالق کائنات نے ہزاروں بلکہ لاکھوں اقسام کی مخلوقات پیدا کی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی تخلیق کا مقصد ضرور ہے ،یہ الگ بات کہ ہم اشرف المخلوقات کا لقب پانے کے باوجود اس مقصد سے اکثر لا علم رہتے ہیں۔
انسان اور جنات کے علاوہ جن مخلوقات کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے ان میں سے ایک ''کتا'' بھی ہے۔ سورۃ الکہف میں اصحاب کہف کے ساتھ ان کے کتے کا خصوصی ذکر موجود ہے۔ ہمارے مذہب میں شکاری کتے کے ذریعے شکار کی اجازت دی گئی ہے ۔
ہزاروں سال قبل جب انسان بھی غاروں میں رہتا تھا تب بھی کتا ان کے گھریلو نظام کا ایک جزو تھا اور جب انسان بتدریج مہذب ہوتا چلا گیا تب بھی کتا انسان کا بہترین دوست ثابت ہوا، مویشیوں کے ریوڑ کی نگرانی ہو یا گھر کی حفاظت ، جنگ یا قدرتی آفات کے دوران امدادی سرگرمیاں ہوں یا پھر امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کی روک تھام کیلئے اسلحہ و بارود کی کھوج کا معاملہ ہو ،کتا ہمیشہ وفادار ثابت ہوا ہے۔
برصغیر پاک وہند میں کتوں کو پالنے کا رواج اس وقت زیادہ پروان چڑھا جب انگریز اس خطے میں آتے ہوئے اپنے ساتھ مختلف نسل کے پالتو کتے لیکر آئے ۔انگریزوں کی دیکھا دیکھی مہاراجوں اور دیگر اشرافیہ میں بھی یہ شوق جڑ پکڑ گیااور پھر یہ شوق پھیلتا چلا گیا اور آج ہمارے ملک میں پالتو کتے رکھنے والے لاکھوں لوگ موجود ہیں۔
جن میں سے بعض کے پاس دنیا کی نایاب اقسام کے کتے موجود ہیں، لاہور ،کراچی اور اسلام آباد سمیت کئی بڑے شہروں میں باقاعدگی سے اعلی معیار کے ڈاگ شوز منعقد ہوتے ہیں جن میں یورپ، امریکہ اور برطانیہ سے آئے ہوئے ججز بھی شریک ہوتے ہیں ۔پاکستان پالتوں کتوں سے متعلقہ عالمی کلب''کینل'' سمیت متعدد دیگر کلب کا رکن ہے ۔
پالتو کتوں کے شوق، ان کی اقسام، دیکھ بھال اور خوراک کے بارے میں جاننے کیلئے ''ایکسپریس'' نے نایاب ترین نسل کے پالتو کتے رکھنے والے اور ان کتوں کو ''فائیو سٹار'' سہولیات فراہم کرنے والے معروف تاجر چوہدری فرحان انور سے گفتگو کی ہے جسے قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔
فرحان انور نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں پالتو جانور اور پرندے رکھنا ایک شوق بھی ہے اور سٹیٹس سمبل بھی ۔ ہمارے ملک میں جانوروں کے حقوق اور تحفظ کے حوالے سے اتنی آگاہی نہیں جتنی مغرب میں ہے لیکن یہ درست ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران لوگوں میں پالتو جانور رکھنے کارحجان تیزی سے پروان چڑھا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بہت سے لوگ اب اسے اپنا شوق بنا چکے ہیں ۔
اس کی متعدد وجوہات ہیں پہلی تو یہ کہ اب اعلی نسل کے کتے پاکستان لائے جاتے ہیں ،یہاں ان کی بریڈنگ بھی ہو رہی ہے، ان کے علاج معالجہ کی سہولیات میں بھی نمایاں بہتری آئی ہے ، ڈاگ شوز اب ایک فیملی گیدرنگ ایونٹ بن چکے ہیں جہاں مرد وخواتین ،بچے سب شریک ہوتے ہیں۔
ہر کوئی ایکدوسرے کے پالتو کتے کے بارے دلچسپی کے ساتھ معلومات لیتا ہے، شوقین افراد کے ڈاگ نالج میں اضافہ ہوتا ہے ،معیاری ڈاگ شوز کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی پر PET LOVER ممالک میں پاکستان کا سافٹ امیج مزید بہتر ہوتا ہے ۔
ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بعض بنیادی تبدیلیاں آ رہی ہیں ،مشترکہ خاندان کی جگہ اب انفرادی فیملی جگہ لے رہی ہے ، جس وجہ سے بڑے اور بچے پالتو جانور رکھنے میں کسی روک ٹوک کا شکار نہیں ہوتے۔ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے، ممالک ایک دوسرے کی ثقافت اور معاشرتی رحجانات کو اپنا رہے ہیں۔
پالتو جانور رکھنے کا شوق بھی مغرب سے مشرق میں آیا ہے۔جانور پالنے کا شوق نفسیاتی طور پر انسان کو ''ذمہ داری'' سکھا دیتا ہے،کتا وفادار جانور ہے جب آپ اسے پالتے ہیں تو وہ آپ سے مانو س ہو کر آپ کو مالک کی حیثیت سے ایک منفرد برتاو اور احساس سے روشناس کرواتا ہے۔ موجودہ حالات میں زندگی بہت مصروف اور تیز رفتار ہو گئی ہے۔
ملازمت، کاروبار، تعلیم میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے سے میل ملاقات کیلئے کم وقت میسر ہوتا ہے ایسی صورتحال میں پالتو جانور آپ کی تنہائی کم کرتے ہیں۔ فرحان انور نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے کینل کلب کو 1983 ء میں نواب مظفر حسین نے رجسٹرڈ کروایا تھا اور تب سے ہی اس کلب کے زیر انتظام ڈاگ شوز منعقد ہو رہے ہیں ۔پاکستان میں کتوں کی جن اقسام کو پالتو جانور کے طور پر پسند کیا جاتا ہے۔
ان میں جرمن شیفرڈ سب سے آگے ہے۔بنیادی طور پر کتوں کو مختلف گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے،جن میں ہنٹنگ گروپ، یوٹیلٹی گروپ، کمپینئن گروپ ،ہاونڈ گروپ اور دیگر شامل ہیں،اس کے علاوہ کچھ کتے '' TOY DOG '' کے طور پر پالے جاتے ہیں ۔پاکستان میں ابھی بھی اچھی نسل کے کتے کی بریڈ نہیں ملتی بالخصوص جرمن شیفرڈ کے حوالے سے لوگوں کو اچھی بریڈ نہیں مل رہی جبکہ دھوکہ باز کمتر نسل کو اصل بریڈ ظاہر کر کے فروخت کر رہے ہیں ۔
پہلے کتے امپورٹ کر کے ان کی بریڈنگ کی جاتی تھی لیکن اب لوکل بریڈنگ کافی بڑھ رہی ہے، پاکستان میں سب سے پسندیدہ نسل جرمن شیفرڈ ہے لیکن خالص نسل کا شیفرڈ تلاش کرنا نہایت مشکل ہے ۔ پالتو جانوروں کے حوالے سے سب سے اہم چیز ان کی افزائش نسل (بریڈ) ہوتی ہے ، پاکستان میں کتے پالنا عمومی طور پر امیر طبقے کا شوق سمجھا جاتا ہے۔
جن کے پاس نہایت عمدہ نسل کے جانور موجود ہوتے ہیں لہذا امیر طبقے کو مہنگے داموں پالتو جانور وں کی فراہمی کیلئے بہت سے لوگوں نے بریڈنگ فارم بنا لئے ہیں۔کتوں کی بریڈنگ ہمارے ملک میں ایک بزنس تو بن رہا ہے لیکن اس کا معیار ابھی عالمی سطح تک نہیں پہنچا اور نہ ہی اس میں مکمل ایمانداری موجود ہے۔
عالمی سطح پر جب آپ کسی نسل کے کتے کی بریڈ لیتے ہیں تو آن لائن اس کی سات نسلوں کا آپ کو علم ہوجاتا ہے ،ہمارے یہاں دھوکہ دہی زیادہ ہے ۔یورپ اور برطانیہ کے کتے مہنگے ہوتے ہیں لیکن ازبکستان سے سستے کتے مل جاتے ہیں جن سے بریڈنگ کروائی جا سکتی ہے لیکن ان کتوں کی بریڈنگ کو پاکستان میں جینیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔
پاکستان میں اکادکا بریڈنگ کرنے والوں کے علاوہ کسی کے پاس کتے کے باپ یا ماں کی نسل کا کوئی مصدقہ ریکارڈ دستیاب نہیں ہوتا۔فرحان انور نے کہا کہ اس وقت سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک، یو ٹیوب اور اولکس کے ذریعے پالتو کتوں کی خریدو فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ،فروخت کرنے والے جانور کی بلڈ لائن کو خالص بتا کر بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن جب ان سے کوئی سرٹیفکیٹ یا تصدیقی مواد مانگا جاتا ہے تو وہ ان کے پاس موجود نہیں ہوتا۔
کورونا وائرس کی ابتداء کے بعد جب لاک ڈاون شروع ہوا اور لوگوں کی بڑی تعداد گھروں تک محدود ہوگئی تھی تب پالتو جانوروں کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا اور اس دوران آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے کم تر نسل (ہاف بریڈ) کے جانور وں کو ''پیور بریڈ'' بتاکر بلند قیمتیں وصول کی تھیں۔
فرحان انور نے بتایا کہ جرمن شیفرڈ کے بعد جن کتوں کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ ان میں LABRADORS اورSIBERIAN HUSKY بہت مقبول ہیں حالانکہ پاکستانی ماحول ان کو زیادہ سپورٹ نہیں کرتا۔ ایک نسلGOLDEN RETRIEVER بھی تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔
شکار کیلئے بھی اعلی نسل کے کتے رکھنے کا رحجان بڑھ رہا ہے جبکہ دوڑ لگانے کیلئے بھی اعلی نسل کے کتے اب ترجیح بن چکے ہیں ۔مہنگے اور نایاب نسل کے کتے رکھنے کا شوق جس تیزی سے بڑھ رہا ہے اسی تیزی سے ان کتوں کی چوری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔
اعلی نسل کے کتوں کو چوری کے بعد آن لائن یا براہ راست فروخت کرنے کے علاوہ کسی بریڈنگ فارم کو بھی فروخت کیا جاتا ہے ۔
فرحان انور نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان میں انتہائی نایاب نسل کے کتے بھی امپورٹ کئے جا رہے ہیں خود میں نے بھی اپنے شوق کی تکمیل کیلئے متعدد نایاب نسل کے کتے امپورٹ کئے ہیں لیکن میں یہاں ایک بات ضرور کرنا چاہوں گا کہ جب ہم اپنے شوق کیلئے جانور پالتے ہیں تو ہمیں ان کی دیکھ بھال اور حفاظت بھی غیر معمولی انداز میں کرنا چاہئے ،ان کی رہائش، خوراک ،صحت اور ان کے ماحول کا دھیان رکھنا بہت ضروری ہے ۔
اس وقت پاکستان میں مقامی طور پر پالتو کتوں کی معیاری خوراک کی تیاری بہت کم ہے اور زیادہ تر خوراک امپورٹ کی جا تی ہے۔ بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز میں آپ کو پالتو جانوروں بالخصوص کتوں کی خوراک کے الگ کاونٹر دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور میں ماڈل ٹاون کے علاقہ میں ایک پوری مارکیٹ موجود ہے۔
جہاں ہر قسم کی امپورٹڈ خوراک فروخت ہوتی ہے لیکن اس خوراک کی قیمت بہت زیادہ ہے جبکہ یہ شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں کہ بہت سی خوراکیں جعلی بھی ہوتی ہیں ۔ جعلی یا غیر معیاری غذا سے جانور بیمار ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ اس کی جان بھی خطرے میں چلی جاتی ہے ۔جانوروں کی خوراک کے جعلی برانڈز کی بہتات ہونے کے باوجود ان کے سدباب کیلئے عملی اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔ فرحان انور نے مزید بتایا کہ جس طرح سے ہم انسان جب بیمار ہوتے ہیں تو ہمیں معالج اور دوا کی ضرورت ہوتی ہے بالکل ویسے ہی پالتو جانور جب بیمار ہوتے ہیں تو انہیں بھی فوری علاج معالجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔سرکاری سطح پر ویٹرنری سہولیات کا بہت فقدان ہے۔
کوئی شخص اپنے پالتو جانور کو سرکاری علاج گاہ میں لے جائے تو اسے ذہنی کوفت کا سامنا ہوتا ہے، مایوس کن سہولیات، غیر پیشہ ورانہ برتاو اور ادویات کا فقدان ہے۔ نجی ویٹرنری ڈاکٹرز تسلی بخش تعداد میں موجود ہیں مگر ان کی فیس بہت زیادہ ہے اور ہر PET LOVER اسے افورڈ نہیں کرتا۔ لاہور کی بات کریں تو اچھے ویٹرنری کلینک کی تعداد تو 100 کے لگ بھگ ہے لیکن ان میں سے حقیقی معنوں میں''ایکسپرٹ'' قرار دیئے جانے والے گنتی کے چند لوگ ہیں۔
جانوروں کیلئے اچھی ادویات کی دستیابی بہت بڑی مشکل ہے ، جعلی ویکیسن کی بہتات ہے، جانوروں کیلئے کیڑے مار ادویات نہیں ملتیں۔گرمیوں کے موسم میں کتوں کو بہت زیادہ کیڑے پڑتے ہیں ۔ جانوروں کیلئے مخصوص شیمپو کم تعداد میں لیکن بہت مہنگے داموں ملتے ہیں۔ جانور کو بھی بعض اوقات دل کی تکلیف ہوجاتی ہے ایسی صورتحال میں اس کی بیماری کی مکمل تشخیص، سکین کیلئے انتہائی کم مقامات پر متعلقہ آلات اور معالج دستیاب ہیں،پالتو جانوروں کے تمام نجی کلینک رجسٹرڈ ہونے چاہئیں تا کہ جعلی ویٹرنری ڈاکٹرز کا خاتمہ کیا جا سکے۔
فرحان انور نے ایک دلچسپ بات بتاتے ہوئے کہا کہ جانوروں میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے حوالے سے عادات مختلف ہوتی ہیں، مختلف اقسام کے کتوں کو ایک جگہ رکھا جائے تو اکثر ان میں جھگڑا رہتا ہے ،کچھ پالتو کتے جیسا کہ بل ڈاگ وغیرہ ساتھی جانوروں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔
فرحان انور نے بتایا کہ پاکستان میں مخلوط نسل کی بریڈنگ کو اصل کہہ کر جانور فروخت کرنے کا رحجان بہت خطرناک ہے اس لئے ضروری ہے کہ عالمی معیار کے مطابق تمام انیمل بریڈرز کو پابند کیا جائے کہ وہ کتے کا مکمل شجرہ نسب(PEDIGREE )مرتب کریں کیونکہ اس میں جانور کی کئی نسلوں کے بارے، ان کی موت کے سبب کے بارے سب معلومات محفوظ ہوتی ہیں ۔
خالق کائنات نے ہزاروں بلکہ لاکھوں اقسام کی مخلوقات پیدا کی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی تخلیق کا مقصد ضرور ہے ،یہ الگ بات کہ ہم اشرف المخلوقات کا لقب پانے کے باوجود اس مقصد سے اکثر لا علم رہتے ہیں۔
انسان اور جنات کے علاوہ جن مخلوقات کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے ان میں سے ایک ''کتا'' بھی ہے۔ سورۃ الکہف میں اصحاب کہف کے ساتھ ان کے کتے کا خصوصی ذکر موجود ہے۔ ہمارے مذہب میں شکاری کتے کے ذریعے شکار کی اجازت دی گئی ہے ۔
ہزاروں سال قبل جب انسان بھی غاروں میں رہتا تھا تب بھی کتا ان کے گھریلو نظام کا ایک جزو تھا اور جب انسان بتدریج مہذب ہوتا چلا گیا تب بھی کتا انسان کا بہترین دوست ثابت ہوا، مویشیوں کے ریوڑ کی نگرانی ہو یا گھر کی حفاظت ، جنگ یا قدرتی آفات کے دوران امدادی سرگرمیاں ہوں یا پھر امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کی روک تھام کیلئے اسلحہ و بارود کی کھوج کا معاملہ ہو ،کتا ہمیشہ وفادار ثابت ہوا ہے۔
برصغیر پاک وہند میں کتوں کو پالنے کا رواج اس وقت زیادہ پروان چڑھا جب انگریز اس خطے میں آتے ہوئے اپنے ساتھ مختلف نسل کے پالتو کتے لیکر آئے ۔انگریزوں کی دیکھا دیکھی مہاراجوں اور دیگر اشرافیہ میں بھی یہ شوق جڑ پکڑ گیااور پھر یہ شوق پھیلتا چلا گیا اور آج ہمارے ملک میں پالتو کتے رکھنے والے لاکھوں لوگ موجود ہیں۔
جن میں سے بعض کے پاس دنیا کی نایاب اقسام کے کتے موجود ہیں، لاہور ،کراچی اور اسلام آباد سمیت کئی بڑے شہروں میں باقاعدگی سے اعلی معیار کے ڈاگ شوز منعقد ہوتے ہیں جن میں یورپ، امریکہ اور برطانیہ سے آئے ہوئے ججز بھی شریک ہوتے ہیں ۔پاکستان پالتوں کتوں سے متعلقہ عالمی کلب''کینل'' سمیت متعدد دیگر کلب کا رکن ہے ۔
پالتو کتوں کے شوق، ان کی اقسام، دیکھ بھال اور خوراک کے بارے میں جاننے کیلئے ''ایکسپریس'' نے نایاب ترین نسل کے پالتو کتے رکھنے والے اور ان کتوں کو ''فائیو سٹار'' سہولیات فراہم کرنے والے معروف تاجر چوہدری فرحان انور سے گفتگو کی ہے جسے قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔
فرحان انور نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں پالتو جانور اور پرندے رکھنا ایک شوق بھی ہے اور سٹیٹس سمبل بھی ۔ ہمارے ملک میں جانوروں کے حقوق اور تحفظ کے حوالے سے اتنی آگاہی نہیں جتنی مغرب میں ہے لیکن یہ درست ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران لوگوں میں پالتو جانور رکھنے کارحجان تیزی سے پروان چڑھا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بہت سے لوگ اب اسے اپنا شوق بنا چکے ہیں ۔
اس کی متعدد وجوہات ہیں پہلی تو یہ کہ اب اعلی نسل کے کتے پاکستان لائے جاتے ہیں ،یہاں ان کی بریڈنگ بھی ہو رہی ہے، ان کے علاج معالجہ کی سہولیات میں بھی نمایاں بہتری آئی ہے ، ڈاگ شوز اب ایک فیملی گیدرنگ ایونٹ بن چکے ہیں جہاں مرد وخواتین ،بچے سب شریک ہوتے ہیں۔
ہر کوئی ایکدوسرے کے پالتو کتے کے بارے دلچسپی کے ساتھ معلومات لیتا ہے، شوقین افراد کے ڈاگ نالج میں اضافہ ہوتا ہے ،معیاری ڈاگ شوز کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی پر PET LOVER ممالک میں پاکستان کا سافٹ امیج مزید بہتر ہوتا ہے ۔
ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بعض بنیادی تبدیلیاں آ رہی ہیں ،مشترکہ خاندان کی جگہ اب انفرادی فیملی جگہ لے رہی ہے ، جس وجہ سے بڑے اور بچے پالتو جانور رکھنے میں کسی روک ٹوک کا شکار نہیں ہوتے۔ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے، ممالک ایک دوسرے کی ثقافت اور معاشرتی رحجانات کو اپنا رہے ہیں۔
پالتو جانور رکھنے کا شوق بھی مغرب سے مشرق میں آیا ہے۔جانور پالنے کا شوق نفسیاتی طور پر انسان کو ''ذمہ داری'' سکھا دیتا ہے،کتا وفادار جانور ہے جب آپ اسے پالتے ہیں تو وہ آپ سے مانو س ہو کر آپ کو مالک کی حیثیت سے ایک منفرد برتاو اور احساس سے روشناس کرواتا ہے۔ موجودہ حالات میں زندگی بہت مصروف اور تیز رفتار ہو گئی ہے۔
ملازمت، کاروبار، تعلیم میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے سے میل ملاقات کیلئے کم وقت میسر ہوتا ہے ایسی صورتحال میں پالتو جانور آپ کی تنہائی کم کرتے ہیں۔ فرحان انور نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے کینل کلب کو 1983 ء میں نواب مظفر حسین نے رجسٹرڈ کروایا تھا اور تب سے ہی اس کلب کے زیر انتظام ڈاگ شوز منعقد ہو رہے ہیں ۔پاکستان میں کتوں کی جن اقسام کو پالتو جانور کے طور پر پسند کیا جاتا ہے۔
ان میں جرمن شیفرڈ سب سے آگے ہے۔بنیادی طور پر کتوں کو مختلف گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے،جن میں ہنٹنگ گروپ، یوٹیلٹی گروپ، کمپینئن گروپ ،ہاونڈ گروپ اور دیگر شامل ہیں،اس کے علاوہ کچھ کتے '' TOY DOG '' کے طور پر پالے جاتے ہیں ۔پاکستان میں ابھی بھی اچھی نسل کے کتے کی بریڈ نہیں ملتی بالخصوص جرمن شیفرڈ کے حوالے سے لوگوں کو اچھی بریڈ نہیں مل رہی جبکہ دھوکہ باز کمتر نسل کو اصل بریڈ ظاہر کر کے فروخت کر رہے ہیں ۔
پہلے کتے امپورٹ کر کے ان کی بریڈنگ کی جاتی تھی لیکن اب لوکل بریڈنگ کافی بڑھ رہی ہے، پاکستان میں سب سے پسندیدہ نسل جرمن شیفرڈ ہے لیکن خالص نسل کا شیفرڈ تلاش کرنا نہایت مشکل ہے ۔ پالتو جانوروں کے حوالے سے سب سے اہم چیز ان کی افزائش نسل (بریڈ) ہوتی ہے ، پاکستان میں کتے پالنا عمومی طور پر امیر طبقے کا شوق سمجھا جاتا ہے۔
جن کے پاس نہایت عمدہ نسل کے جانور موجود ہوتے ہیں لہذا امیر طبقے کو مہنگے داموں پالتو جانور وں کی فراہمی کیلئے بہت سے لوگوں نے بریڈنگ فارم بنا لئے ہیں۔کتوں کی بریڈنگ ہمارے ملک میں ایک بزنس تو بن رہا ہے لیکن اس کا معیار ابھی عالمی سطح تک نہیں پہنچا اور نہ ہی اس میں مکمل ایمانداری موجود ہے۔
عالمی سطح پر جب آپ کسی نسل کے کتے کی بریڈ لیتے ہیں تو آن لائن اس کی سات نسلوں کا آپ کو علم ہوجاتا ہے ،ہمارے یہاں دھوکہ دہی زیادہ ہے ۔یورپ اور برطانیہ کے کتے مہنگے ہوتے ہیں لیکن ازبکستان سے سستے کتے مل جاتے ہیں جن سے بریڈنگ کروائی جا سکتی ہے لیکن ان کتوں کی بریڈنگ کو پاکستان میں جینیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔
پاکستان میں اکادکا بریڈنگ کرنے والوں کے علاوہ کسی کے پاس کتے کے باپ یا ماں کی نسل کا کوئی مصدقہ ریکارڈ دستیاب نہیں ہوتا۔فرحان انور نے کہا کہ اس وقت سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک، یو ٹیوب اور اولکس کے ذریعے پالتو کتوں کی خریدو فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ،فروخت کرنے والے جانور کی بلڈ لائن کو خالص بتا کر بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن جب ان سے کوئی سرٹیفکیٹ یا تصدیقی مواد مانگا جاتا ہے تو وہ ان کے پاس موجود نہیں ہوتا۔
کورونا وائرس کی ابتداء کے بعد جب لاک ڈاون شروع ہوا اور لوگوں کی بڑی تعداد گھروں تک محدود ہوگئی تھی تب پالتو جانوروں کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا اور اس دوران آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے کم تر نسل (ہاف بریڈ) کے جانور وں کو ''پیور بریڈ'' بتاکر بلند قیمتیں وصول کی تھیں۔
فرحان انور نے بتایا کہ جرمن شیفرڈ کے بعد جن کتوں کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ ان میں LABRADORS اورSIBERIAN HUSKY بہت مقبول ہیں حالانکہ پاکستانی ماحول ان کو زیادہ سپورٹ نہیں کرتا۔ ایک نسلGOLDEN RETRIEVER بھی تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔
شکار کیلئے بھی اعلی نسل کے کتے رکھنے کا رحجان بڑھ رہا ہے جبکہ دوڑ لگانے کیلئے بھی اعلی نسل کے کتے اب ترجیح بن چکے ہیں ۔مہنگے اور نایاب نسل کے کتے رکھنے کا شوق جس تیزی سے بڑھ رہا ہے اسی تیزی سے ان کتوں کی چوری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔
اعلی نسل کے کتوں کو چوری کے بعد آن لائن یا براہ راست فروخت کرنے کے علاوہ کسی بریڈنگ فارم کو بھی فروخت کیا جاتا ہے ۔
فرحان انور نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان میں انتہائی نایاب نسل کے کتے بھی امپورٹ کئے جا رہے ہیں خود میں نے بھی اپنے شوق کی تکمیل کیلئے متعدد نایاب نسل کے کتے امپورٹ کئے ہیں لیکن میں یہاں ایک بات ضرور کرنا چاہوں گا کہ جب ہم اپنے شوق کیلئے جانور پالتے ہیں تو ہمیں ان کی دیکھ بھال اور حفاظت بھی غیر معمولی انداز میں کرنا چاہئے ،ان کی رہائش، خوراک ،صحت اور ان کے ماحول کا دھیان رکھنا بہت ضروری ہے ۔
اس وقت پاکستان میں مقامی طور پر پالتو کتوں کی معیاری خوراک کی تیاری بہت کم ہے اور زیادہ تر خوراک امپورٹ کی جا تی ہے۔ بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز میں آپ کو پالتو جانوروں بالخصوص کتوں کی خوراک کے الگ کاونٹر دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور میں ماڈل ٹاون کے علاقہ میں ایک پوری مارکیٹ موجود ہے۔
جہاں ہر قسم کی امپورٹڈ خوراک فروخت ہوتی ہے لیکن اس خوراک کی قیمت بہت زیادہ ہے جبکہ یہ شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں کہ بہت سی خوراکیں جعلی بھی ہوتی ہیں ۔ جعلی یا غیر معیاری غذا سے جانور بیمار ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ اس کی جان بھی خطرے میں چلی جاتی ہے ۔جانوروں کی خوراک کے جعلی برانڈز کی بہتات ہونے کے باوجود ان کے سدباب کیلئے عملی اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔ فرحان انور نے مزید بتایا کہ جس طرح سے ہم انسان جب بیمار ہوتے ہیں تو ہمیں معالج اور دوا کی ضرورت ہوتی ہے بالکل ویسے ہی پالتو جانور جب بیمار ہوتے ہیں تو انہیں بھی فوری علاج معالجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔سرکاری سطح پر ویٹرنری سہولیات کا بہت فقدان ہے۔
کوئی شخص اپنے پالتو جانور کو سرکاری علاج گاہ میں لے جائے تو اسے ذہنی کوفت کا سامنا ہوتا ہے، مایوس کن سہولیات، غیر پیشہ ورانہ برتاو اور ادویات کا فقدان ہے۔ نجی ویٹرنری ڈاکٹرز تسلی بخش تعداد میں موجود ہیں مگر ان کی فیس بہت زیادہ ہے اور ہر PET LOVER اسے افورڈ نہیں کرتا۔ لاہور کی بات کریں تو اچھے ویٹرنری کلینک کی تعداد تو 100 کے لگ بھگ ہے لیکن ان میں سے حقیقی معنوں میں''ایکسپرٹ'' قرار دیئے جانے والے گنتی کے چند لوگ ہیں۔
جانوروں کیلئے اچھی ادویات کی دستیابی بہت بڑی مشکل ہے ، جعلی ویکیسن کی بہتات ہے، جانوروں کیلئے کیڑے مار ادویات نہیں ملتیں۔گرمیوں کے موسم میں کتوں کو بہت زیادہ کیڑے پڑتے ہیں ۔ جانوروں کیلئے مخصوص شیمپو کم تعداد میں لیکن بہت مہنگے داموں ملتے ہیں۔ جانور کو بھی بعض اوقات دل کی تکلیف ہوجاتی ہے ایسی صورتحال میں اس کی بیماری کی مکمل تشخیص، سکین کیلئے انتہائی کم مقامات پر متعلقہ آلات اور معالج دستیاب ہیں،پالتو جانوروں کے تمام نجی کلینک رجسٹرڈ ہونے چاہئیں تا کہ جعلی ویٹرنری ڈاکٹرز کا خاتمہ کیا جا سکے۔
فرحان انور نے ایک دلچسپ بات بتاتے ہوئے کہا کہ جانوروں میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے حوالے سے عادات مختلف ہوتی ہیں، مختلف اقسام کے کتوں کو ایک جگہ رکھا جائے تو اکثر ان میں جھگڑا رہتا ہے ،کچھ پالتو کتے جیسا کہ بل ڈاگ وغیرہ ساتھی جانوروں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔
فرحان انور نے بتایا کہ پاکستان میں مخلوط نسل کی بریڈنگ کو اصل کہہ کر جانور فروخت کرنے کا رحجان بہت خطرناک ہے اس لئے ضروری ہے کہ عالمی معیار کے مطابق تمام انیمل بریڈرز کو پابند کیا جائے کہ وہ کتے کا مکمل شجرہ نسب(PEDIGREE )مرتب کریں کیونکہ اس میں جانور کی کئی نسلوں کے بارے، ان کی موت کے سبب کے بارے سب معلومات محفوظ ہوتی ہیں ۔