قطر۔۔۔ایک منفرد مسلم ملک
غریب مچھیروں کی بستی سے معیشت، ٹیکنالوجی اور عالمی سیاست میں الگ پہچان بنانے تک کا سفر
قطر میں جاری فیفاورلڈکپ نے اس چھوٹے سے ملک کو دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اگرچہ قطر ایک اسلامی اور ہمارا دوست ملک ہے، لیکن اس کے بارے میں ہمارے ہاں بہت کم معلومات پائی جاتی ہیں۔
اس مضمون کے ذریعے ہم نے کوشش کی ہے کہ عالمی سیاست سے معیشت اور ٹیکنالوجی تک مسلم دنیا میں منفرد پہچان رکھنے والے قطر کی بابت حقائق سے قارئین کو روشناس کرایا جائے۔
قطر جزیرہ نمائے عرب میں سعودی عرب کی زمینی سرحد سے متصل جزیرہ نمائے قطر میں واقع ایک ملک ہے۔یہ جزیرہ نما ملک بحرین اور متحدہ عرب امارات کے قریب ہے۔ یہ ایران سے خلیج فارس کے اس پار واقع ہے۔
ایک صدی قبل 1922میں تیس لاکھ باشندوں اور 12ہزار کلومیٹر سے بھی کم رقبے پر مشتمل یہ ایک چھوٹی خلیجی ریاست عملی طور پر غیرآباد سرزمین تھی۔ یہ ماہی گیروں اور موتی جمع کرنے والوں کی ایک پس ماندہ بستی تھی جہاں کے باشندوں کی اکثریت جزیرہ نما عرب کے وسیع صحراؤں سے آنے والے خانہ بدوشوں او ر مسافروں پر مشتمل تھی۔
اس وقت قطر میں چند ہی 90 سال سے زیادہ عمر کے باشندے ہیں جن کو 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں درپیش خوف ناک معاشی مشکلات کا زمانہ یاد ہوگا۔ اس وقت جاپانیوں نے موتیوں کی فارمنگ شروع کر کے اور بڑے پیمانے پر اس کی پیداوار یقینی بنا کر قطری معیشت کو تباہ کردیا تھا۔
پھر قطری معیشت کو ایک معجزے نے بچالیا۔ ہوا یوں کہ یہاں دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک کی دریافت ہوگئی۔ 1950 کے بعد سے قطری خزانہ تیزی سے مالامال ہونا شروع ہوگیا۔
یہ اس کے باشندوں کے لیے دنیا کے چند امیر ترین شہریوں میں شامل ہونے کا نقطہ ٔ آغاز تھا۔ فلک بوس عمارتیں، پر تعیش مصنوعی جزیرے اور جدید ترین اسٹیڈیم کے باعث یہ ملک دنیا بھر میں نمایاں ہوتا چلا گیا۔ یہ ملک فارس، خلیج اور عرب جزیرے میں ایک علاقائی راہ نما کی حیثیت رکھتا ہے جو باقاعدہ قریبی ممالک کے درمیان سیاسی مداخلت بھی کرتا ہے۔
قطر میں شاہی نظام رائج ہے۔ یہاں امیرقطر سربراہ مملکت ہوتا ہے۔ 2003 کے آئینی ریفرنڈم کے بعد ریاست میں بادشاہت کو آئینی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ قطر کے آئین کا ماخذ شریعت ہے۔ قطر کی 29 لاکھ کی آبادی میں سے صرف 10 فی صد ہی اس کے اصل شہری ہیں۔ کسی غیرملکی کو یہاں کی شہریت ملنا تقریباً ناممکن ہے۔
اسلام اور شریعت کی سختی سے پاس داری کے باوجود غیرملکیوں کو شراب نوشی کی اجازت ہے۔ دوحہ کے حکم رانوں نے اپنی قوم کو دنیا کے امیر ترین فی کس آمدنی والے شہریوں میں شامل کرنے کے لیے اپنی وسیع ساحل سے دُور مائع گیس کے ذرائع سے استفادہ کیا ہے۔ قطر نے امریکی فوجیوں کی میزبانی کے لیے ایک بہت بڑا فوجی اڈا بھی تعمیر کیا ہے۔
قطر کا حجم امریکی ریاست ڈیلاوئیر (Delaware) سے تقریباً دو گنا ہے۔ اس کی 2.9 ملین آبادی کی اکثریت اس کے مشرقی ساحل پر واقع دارالحکومت دوحہ کے گرد و نواح میں مقیم ہے۔ قطر بنیادی طور پر ایک ہم وار ریگستانی ملک ہے جہاں گرمیوں میں درجۂ حرارت نمی کے ساتھ 40 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جاتا ہے۔
قطر کے حالیہ حکم راں امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی ہیں۔ 42 سالہ شیخ تمیم نے اپنے والد کی طرف سے حکم رانی چھوڑ دینے کے بعد جون 2013 میں اقتدار سنبھالا۔ ملک میں 45 نشستوں پر مشتمل ایک شوریٰ ہونے کے باوجود قطر کے امیر مطلق العنان حکم راں ہیں۔ قطر میں دیگر خلیجی عرب ممالک کی طرح سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد ہے۔
یونین سازی اور ہڑتال کے حقوق انتہائی محدود ہیں۔ ملک میں انسانی حقوق کی کوئی تنظیم نہیں۔ قطر کی کل آبادی کے صرف 10 فی صد باشندے ہی گود سے گور تک وسیع سرکاری فوائد سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ یہاں نیچرلائزیشن یعنی کسی کو شہریت دینے کا عمل کم یاب ہے۔
الثانی 1847 سے اب تک قطر پر حکومت کرنے والا واحد خاندان ہے۔ قطر پہلے عثمانی سلطنت اور پھر اس کے بعد برطانوی سام راج کے ماتحت رہا۔ 1971 میں برطانیہ کے اس خطے سے نکل جانے کے بعد قطر ایک آزاد ملک بن گیا۔
یہاں تیل کی برآمد دوسری جنگ عظیم کے بعد سے شروع ہوئی۔ تاہم قطر کی جانب سے دنیا کو مائع قدرتی گیس کی ترسیل کا آغاز 1997 میں کیا گیا جس سے اس ملک کی اہمیت کو مزید تقویت ملی۔ قطر قدرتی گیس کی دریافت اور مائع گیس کی برآمدات کی دنیا میں سب سے بڑا ملک ہے۔
1971 میں ماہرین نے قطر کے شمال مشرقی ساحل پر جب قدرتی گیس کے وسیع ذخائر کو دریافت کیا اس وقت کسی کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہ تھا۔ چودہ سال کی محنت اور مسلسل کوششوں کے بعد معلوم ہوا کہ مشرقی ساحل دنیا کا سب سے بڑا ''نان ایسو سی ایٹڈ'' قدرتی گیس فیلڈ تھا، جس میں دنیا کے معلوم گیس ذخائر کا تقریباً 10 فی صد حصہ موجود ہے۔
روس اور ایران کے بعد عملی طور پر قطر کے پاس دنیا کا سب سے بڑا گیس کا ذخیرہ ہے جب کہ یہ دنوں ممالک آبادی اور رقبے کے لحاظ سے قطر سے بہت بڑے ہیں۔ مشرقی ساحل تقریباً 6000 کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے جو پورے قطر کے نصف کے برابر ہے۔
قطر گیس وہ کمپنی ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ مائع قدرتی گیس پیدا کرتی ہے۔ اس صنعت کی ترقی کو قطری اقتصادی ترقی میں ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔ تاہم تیل کی طرح گیس کی برآمدات میں ہونے والا منافع حاصل ہونے میں وقت لگا۔ 90 کی دہائی میں گیس برآمد کرنے اور اسے معیشت کا عظیم انجن بنانے کا آغاز کیا گیا۔
اکیسویں صدی کی آمد کے ساتھ ہی قطری اقتصادی ترقی میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ 2003 اور 2004 کے درمیان GDP 3.7 فی صد کی شرح سے بڑھ کر 19.2 فیصد تک پہنچ گیا۔
دو سال بعد 2006 میں معیشت میں 26.2 فی صد تک اضافہ ہوا۔ دہرے ہندسے کی GDP نمو کئی سالوں سے قطر کی معیشت کی مضبوطی کی علامت رہی ہے اور یہ ایک ایسا رجحان ہے جس کی وضاحت صرف گیس کی قیمت سے نہیں کی جاسکتی۔ اس کی برآمدات میں غیرمعمولی اضافہ بھی اس کا سبب ہے۔
1996 میں قدرتی گیس سے بھرا ایک کارگو جاپان روانہ ہوا۔ یہ قطری گیس کی پہلی بڑی برآمد اور عربوں ڈالر کی صنعت کا آغاز تھا جس نے قطریوں کو دولت کے لحاظ سے عالمی منظر میں نمایاں کردیا۔2021 میں قطر میں فی کس GDP 61,276 ڈالر تھی۔
اگر قوت خرید کو بھی مدنظر رکھا جائے تو عالمی بنک کے مطابق یہ رقم 93,521 امریکی ڈالر تک پہنچ جاتی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
قطر آبادی انتہائی کم ہونے کی وجہ سے فی کس GDP تیزی سے بڑھنے لگا۔ قطری ریاست اعلیٰ اجرتوں کی ضمانت دینے کے علاوہ مضبوط تعلیمی اور صحت کا نظام بھی فراہم کرتی ہے۔ قطر کی معیشت کے مستقبل کے ڈھانچے کا انحصار تیل پر ہے۔ قطر نے مشرق و مغرب کے فضائی سفر کے لیے قطرایئرویز کے نام سے دنیا کی چند بڑی ہوائی کمپنیوں میں سے ایک بڑی ہوائی کمپنی کا اجراء کیا۔
قطر نے الجزیرہ کے نام سے اپنے مشہورومعروف مواصلاتی خبروں کے نظام کی بنیاد رکھی جس نے ذرائع ابلاغ میں ایک عرب نقطۂ نظر پیش کیا۔ یہ عرب دنیا کا جانا پہچانا تسلیم شدہ مواصلاتی خبروں کا چینل ہے۔ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے بیانات نشر کرنے کے وجہ سے دنیا بھر میں الجزیرہ ٹی وی کی شہرت میں یک دم اضافہ ہوا۔
خبروں کے اس ذریعے نے 2011 کی عرب بہار کے احتجاج کو ہوا دینے میں مدد دی۔ قطر کا بین الاقوامی سیاست میں اہم کردار ہے ۔ یہ ملک اسلام کے راسخ العقیدہ رجحان کی پیروی کرتا ہے۔ قطر کے سیاسی کردار میں اس کے عقیدے کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے۔
2011 کی عرب بہار میں قطر اسلام پسندوں کی حمایت کر تے ہوئے مصر کے سابق صدر محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے ساتھ شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف کھڑے ہونے والوں میں شامل تھا۔ قطر نے عسکریت پسند گروہ حماس کی حمایت کے ساتھ میزبان کے طور پر امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر بھی کام کیا جس کے نتیجے میں امریکا کی افواج کا 2021 میں افغانستان سے انخلاء ہوا۔
بحرین، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند گروہوں کی حمایت کے سبب ایک سال تک قطر کا بائیکاٹ کیے رکھا۔ پھر یہ بائیکاٹ صدر جوبائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کی تیاریوں کے دوران ختم ہوا۔
1991میں ہونے والی خلیجی جنگ کے دوران مغربی فوجیوں کو ملک میں قیام کی اجازت دینے کے بعد قطر نے سب سے بڑا العدید ہوائی اڈا تعمیر کیا جس پر ایک بیلین ڈالر سے زیادہ لاگت آئی۔ امریکی فوجیوں نے 11 ستمبر2001 کے دہشت گردانہ حملوں اور اس کے نتیجے میں افغانستان پر حملے کے بعد خفیہ طور پر اس اڈے کا استعمال شروع کردیا تھا۔
مارچ 2002 میں اس اڈے کی مشرق وسطیٰ میں موجودگی امریکا کے اس وقت کے نائب صدر ڈک چینی کے دورے کی وجہ سے منظر عام پر آگئی۔ اس کے بعد امریکا نے 2003 میں امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر کو العدید ہوائی اڈے میں منتقل کر دیا۔
اس کے بعد امریکا نے افغانستان، عراق اور شام میں داعش سمیت دیگر گروہوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کردیں۔ کابل سے امریکی فوجیوں کے انخلاء میں مدد کے لیے اس اڈے کو استعمال کیا گیا۔ اس اڈے پر آج بھی تقریباً 8000 امریکی فوجی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ قطر میں ترکیہ کا بھی ایک فوجی اڈا موجود ہے۔
تعلیم، سائنس اور لوگوں کی فلاح بہبود کے لیے سرکاری سرپرستی میں چلنے والی غیر منافع بخش تنظیم قطر فاؤنڈیشن کی بنیاد 1995 میں اس وقت کے امیر حمد بن خلیفہ الثانی اور اس کی دوسری بیوی عظمت شیخ معزہ بنت نصر المسد نے رکھی ۔
قطر فاؤنڈیشن (QF ) کی سربراہ معزہ بنت نصر نے بذات خود تعلیم سائنس اور قطر کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے اسے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پھیلایا۔
قطر میں بہت سے قابل ذکر یونیورسٹیاں موجود ہیں جو تعلیم و تحقیق کے میدان میں بہت سے کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے قطر یونیورسٹی میں واقع قطر یونیورسٹی اور حماد بن خلیفہ یونیورسٹی ملک میں دست یاب دو قومی یونیورسٹیاں ہیں۔
غیرملکی یونیورسٹیوں میں کارنتی میلان یونیورسٹی، قطر میں واقع HEC پیرس جو ایک بین الاقوامی کاروباری مینجمنٹ اسکول ہے۔ اس کے علاوہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی، ٹیکساس اینڈ ایم یونیورسٹی، کیلگیری یونیورسٹی، یونیورسٹی کالج لندن اور اسٹینڈن یونیورسٹی ہیں۔
قطر جزیرہ نما عرب ملک ہے جس کے منظرنامے میں خشک صحرا اور خلیج فارس (عرب) کے لمبے ساحل اور ٹیلے شامل ہیں۔
یہاں 1973 میں مرد اور خواتین کے لیے پہلا کالج قائم ہوا ۔ جدید کیمپس قطریونیورسٹی باضابطہ طور پر 1985 میں کھولا گیا۔ تعلیمی عملے میں قطر اور عرب اور غیرعرب دونوں ممالک کے ماہرین کی ایک قابل ذکر تعداد شامل ہے۔
قطر میں عوامی تحقیقی یونیورسٹی جامع قطر ہے جو دارالحکومت دوحہ کے شمالی مضافات میں واقع ہے۔ قطر یونیورسٹی میں عربی میں (تعلیم، فنون اور معاشرتی علوم) اور انگریزی میں (قدرتی علوم، انجینئرنگ اور بزنس) پڑھائے جاتے ہیں۔ قطر یونیورسٹی ملک کی واحد سرکاری یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی میں 10 کالج ہیں۔
آرٹس اینڈ سائنس، بزنس اینڈ اکنامکس، ایجوکیشن، انجینئرنگ، قانون، شرعیہ اور اسلامی علوم، فارمیسی، کالج آف ہیلتھ سائنس، کالج آف میڈیسن اور ڈینٹیکل میڈیسن کا کالج جس میں کل 8000 طلبا ہیں۔
قطر میں خواتین سیاسی اور معاشی فیصلہ سازی سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ قطر میں خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں بہترین نمائندگی ملتی ہے۔ قطر میں صنفی مساوات کا نظام خطے کے کسی اور ملک سے کہیں بہتر ہے۔
افرادی قوت میں خواتین کی شرکت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ سرکاری شعبوں میں مساوی تنخواہیں اور یونیورسٹیوں کے پروگراموں میں داخلہ لینے والی خواتین کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔
قطر ایک ایسا ملک ہے جہاں پانی تیل سے زیادہ مہنگا ہے۔ اس نے ورلڈکپ کے دوران پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چین کے تعاون سے ملک بھر میں پانچ مقامات پر 15 انتہائی بڑے ٹینک بنوائے ہیں۔
چینی ساختہ کمپنیاں قطر کی توانائی کی پیداوار کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ الخارصہ نامی 800 میگا واٹ کے شمسی توانائی کے ذرائع جو دارلحکومت دوحہ سے تقریباً 80 کلومیٹر مغرب میں صحرائی علاقے میں واقع ہیں۔
یہ مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑے پلانٹ میں سے ایک ہے۔ قطر شاید مسلم دنیا کا پہلا ملک ہے جو سولر پینل پر پیسٹ ہونے والے سولر سیل تیار کرتا ہے۔ چینی کمپنیوں کے ذریعے تعمیر کردہ پلانٹ میں قطر کی توانائی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس سے قطر کو ورلڈکپ کی میزبانی میں بہترین مدد ملی۔
قطر علم و تحقیق کے میدان میں نمایاں کام یابیاں حاصل کر رہا ہے۔ ان میں صحت، طب، توانائی کو ذخیرہ کرنے کے ذرائع، نیم موصل پانی (Semi Conductor water)، پانی کی صفائی، قابل تجدید توانائی اور حرکیات (Thermodynamics) ان شعبہ جات میں نمایاں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ان تحقیقی مراکز میں دنیا کے بہترین دماغ کام کر رہے ہیں جس میں اسپین ، پاکستان، امریکا، جرمنی اور فلسطین وغیرہ کے سائنس دانوں کا اہم کردار ہے۔
قطر میں منعقد کیے جانے والا فیفاعالمی کپ اس وقت فٹ بال کی دنیا کا سب سے بڑا کھیلوں کا میلہ ہے۔ قطر میں اس کی تیاریوں نے دنیا کی نظریں اس پر مرکوز کر دی ہیں۔ تمام دنیا عالمی کپ کے اس اہم تقریب کے لیے قطر کی انتہائی وسیع مہم سے بھی واقف ہے۔
لیکن ماہرین کہتے ہیں اس مہم کے دوران جتنے انسان جان سے گئے وہ بھی دنیا کے لیے باعث تشویش اور قطر کی ساکھ کے لیے پریشان کن ہے۔ قطر کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔2010 میں جب سے فیفا ورلڈ کپ کی ذمے داری قطر کو سونپی گئی یہ ملک تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس کی تعمیرنو ہو گئی ہے۔
نیا میٹرو، آسمان کو چھوتی ہوئی نئی عمارتیں، نئی یونیورسٹیاں، عجائب گھر اور نئی بندر گاہ اور ان سب کے ساتھ نئے اسٹیڈیم بنے اور ایک کی تعمیرنو بھی ہوئی۔
انسانی حقوق کے گروہوں اور ذرائع ابلاغ کے مطابق ہوسکتا ہے کہ قطر میں تعمیر کے ان تمام وسیع منصوبوں کی تکمیل کے دوران ہزاروں کارکن موت کا شکار ہوئے ہوں، تاہم قطر حکومت نے ان دعوؤں کو شرمناک اور ہتک آمیز قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ وہ ملک کی ساکھ کے دفاع کے لیے قانونی کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے ایک سنیئر محقق اسٹیو کاک برن کے مطابق ورلڈ کپ کے پراجیکٹ ہوں یا کوئی اور منصوبے، گذشتہ دہائی میں ہزاروں ہلاکتوں کی وجوہات سامنے نہیں آئیں۔ ان میں کم از کم سیکڑوں ہلاکتوں کا تعلق کام کے مقامات پر محفوظ انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ ان مزدوروں کا تعلق بھارت، بنگلادیش، نیپال، پاکستان اور سری لنکا سے ہے۔
بین الاقوامی یونین نے خلیج کے اس ملک پر دباؤ ڈالا کہ اسے ان اصلاحات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جو تحفظ کو بہتر بنانے، مناسب اجرت کے تعین اور مزدوروں کو ملازمت چھوڑنے یا تبدیل کرنے کا حق دینے سے متعلق ہیں۔
اسلامی تحریک، جماعتوں اور علماء اکرام جنہیں ان کا اپنا وطن دیس نکالا کر دیتا ہے تو قطر ان کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ امید ہے مستقبل میں اسلامی دنیا میں قطر مزید فعال کردار ادا کرے گا۔
اس مضمون کے ذریعے ہم نے کوشش کی ہے کہ عالمی سیاست سے معیشت اور ٹیکنالوجی تک مسلم دنیا میں منفرد پہچان رکھنے والے قطر کی بابت حقائق سے قارئین کو روشناس کرایا جائے۔
قطر جزیرہ نمائے عرب میں سعودی عرب کی زمینی سرحد سے متصل جزیرہ نمائے قطر میں واقع ایک ملک ہے۔یہ جزیرہ نما ملک بحرین اور متحدہ عرب امارات کے قریب ہے۔ یہ ایران سے خلیج فارس کے اس پار واقع ہے۔
ایک صدی قبل 1922میں تیس لاکھ باشندوں اور 12ہزار کلومیٹر سے بھی کم رقبے پر مشتمل یہ ایک چھوٹی خلیجی ریاست عملی طور پر غیرآباد سرزمین تھی۔ یہ ماہی گیروں اور موتی جمع کرنے والوں کی ایک پس ماندہ بستی تھی جہاں کے باشندوں کی اکثریت جزیرہ نما عرب کے وسیع صحراؤں سے آنے والے خانہ بدوشوں او ر مسافروں پر مشتمل تھی۔
اس وقت قطر میں چند ہی 90 سال سے زیادہ عمر کے باشندے ہیں جن کو 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں درپیش خوف ناک معاشی مشکلات کا زمانہ یاد ہوگا۔ اس وقت جاپانیوں نے موتیوں کی فارمنگ شروع کر کے اور بڑے پیمانے پر اس کی پیداوار یقینی بنا کر قطری معیشت کو تباہ کردیا تھا۔
پھر قطری معیشت کو ایک معجزے نے بچالیا۔ ہوا یوں کہ یہاں دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک کی دریافت ہوگئی۔ 1950 کے بعد سے قطری خزانہ تیزی سے مالامال ہونا شروع ہوگیا۔
یہ اس کے باشندوں کے لیے دنیا کے چند امیر ترین شہریوں میں شامل ہونے کا نقطہ ٔ آغاز تھا۔ فلک بوس عمارتیں، پر تعیش مصنوعی جزیرے اور جدید ترین اسٹیڈیم کے باعث یہ ملک دنیا بھر میں نمایاں ہوتا چلا گیا۔ یہ ملک فارس، خلیج اور عرب جزیرے میں ایک علاقائی راہ نما کی حیثیت رکھتا ہے جو باقاعدہ قریبی ممالک کے درمیان سیاسی مداخلت بھی کرتا ہے۔
قطر میں شاہی نظام رائج ہے۔ یہاں امیرقطر سربراہ مملکت ہوتا ہے۔ 2003 کے آئینی ریفرنڈم کے بعد ریاست میں بادشاہت کو آئینی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ قطر کے آئین کا ماخذ شریعت ہے۔ قطر کی 29 لاکھ کی آبادی میں سے صرف 10 فی صد ہی اس کے اصل شہری ہیں۔ کسی غیرملکی کو یہاں کی شہریت ملنا تقریباً ناممکن ہے۔
اسلام اور شریعت کی سختی سے پاس داری کے باوجود غیرملکیوں کو شراب نوشی کی اجازت ہے۔ دوحہ کے حکم رانوں نے اپنی قوم کو دنیا کے امیر ترین فی کس آمدنی والے شہریوں میں شامل کرنے کے لیے اپنی وسیع ساحل سے دُور مائع گیس کے ذرائع سے استفادہ کیا ہے۔ قطر نے امریکی فوجیوں کی میزبانی کے لیے ایک بہت بڑا فوجی اڈا بھی تعمیر کیا ہے۔
قطر کا حجم امریکی ریاست ڈیلاوئیر (Delaware) سے تقریباً دو گنا ہے۔ اس کی 2.9 ملین آبادی کی اکثریت اس کے مشرقی ساحل پر واقع دارالحکومت دوحہ کے گرد و نواح میں مقیم ہے۔ قطر بنیادی طور پر ایک ہم وار ریگستانی ملک ہے جہاں گرمیوں میں درجۂ حرارت نمی کے ساتھ 40 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جاتا ہے۔
قطر کے حالیہ حکم راں امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی ہیں۔ 42 سالہ شیخ تمیم نے اپنے والد کی طرف سے حکم رانی چھوڑ دینے کے بعد جون 2013 میں اقتدار سنبھالا۔ ملک میں 45 نشستوں پر مشتمل ایک شوریٰ ہونے کے باوجود قطر کے امیر مطلق العنان حکم راں ہیں۔ قطر میں دیگر خلیجی عرب ممالک کی طرح سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد ہے۔
یونین سازی اور ہڑتال کے حقوق انتہائی محدود ہیں۔ ملک میں انسانی حقوق کی کوئی تنظیم نہیں۔ قطر کی کل آبادی کے صرف 10 فی صد باشندے ہی گود سے گور تک وسیع سرکاری فوائد سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ یہاں نیچرلائزیشن یعنی کسی کو شہریت دینے کا عمل کم یاب ہے۔
الثانی 1847 سے اب تک قطر پر حکومت کرنے والا واحد خاندان ہے۔ قطر پہلے عثمانی سلطنت اور پھر اس کے بعد برطانوی سام راج کے ماتحت رہا۔ 1971 میں برطانیہ کے اس خطے سے نکل جانے کے بعد قطر ایک آزاد ملک بن گیا۔
یہاں تیل کی برآمد دوسری جنگ عظیم کے بعد سے شروع ہوئی۔ تاہم قطر کی جانب سے دنیا کو مائع قدرتی گیس کی ترسیل کا آغاز 1997 میں کیا گیا جس سے اس ملک کی اہمیت کو مزید تقویت ملی۔ قطر قدرتی گیس کی دریافت اور مائع گیس کی برآمدات کی دنیا میں سب سے بڑا ملک ہے۔
1971 میں ماہرین نے قطر کے شمال مشرقی ساحل پر جب قدرتی گیس کے وسیع ذخائر کو دریافت کیا اس وقت کسی کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہ تھا۔ چودہ سال کی محنت اور مسلسل کوششوں کے بعد معلوم ہوا کہ مشرقی ساحل دنیا کا سب سے بڑا ''نان ایسو سی ایٹڈ'' قدرتی گیس فیلڈ تھا، جس میں دنیا کے معلوم گیس ذخائر کا تقریباً 10 فی صد حصہ موجود ہے۔
روس اور ایران کے بعد عملی طور پر قطر کے پاس دنیا کا سب سے بڑا گیس کا ذخیرہ ہے جب کہ یہ دنوں ممالک آبادی اور رقبے کے لحاظ سے قطر سے بہت بڑے ہیں۔ مشرقی ساحل تقریباً 6000 کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے جو پورے قطر کے نصف کے برابر ہے۔
قطر گیس وہ کمپنی ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ مائع قدرتی گیس پیدا کرتی ہے۔ اس صنعت کی ترقی کو قطری اقتصادی ترقی میں ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔ تاہم تیل کی طرح گیس کی برآمدات میں ہونے والا منافع حاصل ہونے میں وقت لگا۔ 90 کی دہائی میں گیس برآمد کرنے اور اسے معیشت کا عظیم انجن بنانے کا آغاز کیا گیا۔
اکیسویں صدی کی آمد کے ساتھ ہی قطری اقتصادی ترقی میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ 2003 اور 2004 کے درمیان GDP 3.7 فی صد کی شرح سے بڑھ کر 19.2 فیصد تک پہنچ گیا۔
دو سال بعد 2006 میں معیشت میں 26.2 فی صد تک اضافہ ہوا۔ دہرے ہندسے کی GDP نمو کئی سالوں سے قطر کی معیشت کی مضبوطی کی علامت رہی ہے اور یہ ایک ایسا رجحان ہے جس کی وضاحت صرف گیس کی قیمت سے نہیں کی جاسکتی۔ اس کی برآمدات میں غیرمعمولی اضافہ بھی اس کا سبب ہے۔
1996 میں قدرتی گیس سے بھرا ایک کارگو جاپان روانہ ہوا۔ یہ قطری گیس کی پہلی بڑی برآمد اور عربوں ڈالر کی صنعت کا آغاز تھا جس نے قطریوں کو دولت کے لحاظ سے عالمی منظر میں نمایاں کردیا۔2021 میں قطر میں فی کس GDP 61,276 ڈالر تھی۔
اگر قوت خرید کو بھی مدنظر رکھا جائے تو عالمی بنک کے مطابق یہ رقم 93,521 امریکی ڈالر تک پہنچ جاتی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
قطر آبادی انتہائی کم ہونے کی وجہ سے فی کس GDP تیزی سے بڑھنے لگا۔ قطری ریاست اعلیٰ اجرتوں کی ضمانت دینے کے علاوہ مضبوط تعلیمی اور صحت کا نظام بھی فراہم کرتی ہے۔ قطر کی معیشت کے مستقبل کے ڈھانچے کا انحصار تیل پر ہے۔ قطر نے مشرق و مغرب کے فضائی سفر کے لیے قطرایئرویز کے نام سے دنیا کی چند بڑی ہوائی کمپنیوں میں سے ایک بڑی ہوائی کمپنی کا اجراء کیا۔
قطر نے الجزیرہ کے نام سے اپنے مشہورومعروف مواصلاتی خبروں کے نظام کی بنیاد رکھی جس نے ذرائع ابلاغ میں ایک عرب نقطۂ نظر پیش کیا۔ یہ عرب دنیا کا جانا پہچانا تسلیم شدہ مواصلاتی خبروں کا چینل ہے۔ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے بیانات نشر کرنے کے وجہ سے دنیا بھر میں الجزیرہ ٹی وی کی شہرت میں یک دم اضافہ ہوا۔
خبروں کے اس ذریعے نے 2011 کی عرب بہار کے احتجاج کو ہوا دینے میں مدد دی۔ قطر کا بین الاقوامی سیاست میں اہم کردار ہے ۔ یہ ملک اسلام کے راسخ العقیدہ رجحان کی پیروی کرتا ہے۔ قطر کے سیاسی کردار میں اس کے عقیدے کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے۔
2011 کی عرب بہار میں قطر اسلام پسندوں کی حمایت کر تے ہوئے مصر کے سابق صدر محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے ساتھ شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف کھڑے ہونے والوں میں شامل تھا۔ قطر نے عسکریت پسند گروہ حماس کی حمایت کے ساتھ میزبان کے طور پر امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر بھی کام کیا جس کے نتیجے میں امریکا کی افواج کا 2021 میں افغانستان سے انخلاء ہوا۔
بحرین، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند گروہوں کی حمایت کے سبب ایک سال تک قطر کا بائیکاٹ کیے رکھا۔ پھر یہ بائیکاٹ صدر جوبائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کی تیاریوں کے دوران ختم ہوا۔
1991میں ہونے والی خلیجی جنگ کے دوران مغربی فوجیوں کو ملک میں قیام کی اجازت دینے کے بعد قطر نے سب سے بڑا العدید ہوائی اڈا تعمیر کیا جس پر ایک بیلین ڈالر سے زیادہ لاگت آئی۔ امریکی فوجیوں نے 11 ستمبر2001 کے دہشت گردانہ حملوں اور اس کے نتیجے میں افغانستان پر حملے کے بعد خفیہ طور پر اس اڈے کا استعمال شروع کردیا تھا۔
مارچ 2002 میں اس اڈے کی مشرق وسطیٰ میں موجودگی امریکا کے اس وقت کے نائب صدر ڈک چینی کے دورے کی وجہ سے منظر عام پر آگئی۔ اس کے بعد امریکا نے 2003 میں امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر کو العدید ہوائی اڈے میں منتقل کر دیا۔
اس کے بعد امریکا نے افغانستان، عراق اور شام میں داعش سمیت دیگر گروہوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کردیں۔ کابل سے امریکی فوجیوں کے انخلاء میں مدد کے لیے اس اڈے کو استعمال کیا گیا۔ اس اڈے پر آج بھی تقریباً 8000 امریکی فوجی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ قطر میں ترکیہ کا بھی ایک فوجی اڈا موجود ہے۔
تعلیم، سائنس اور لوگوں کی فلاح بہبود کے لیے سرکاری سرپرستی میں چلنے والی غیر منافع بخش تنظیم قطر فاؤنڈیشن کی بنیاد 1995 میں اس وقت کے امیر حمد بن خلیفہ الثانی اور اس کی دوسری بیوی عظمت شیخ معزہ بنت نصر المسد نے رکھی ۔
قطر فاؤنڈیشن (QF ) کی سربراہ معزہ بنت نصر نے بذات خود تعلیم سائنس اور قطر کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے اسے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پھیلایا۔
قطر میں بہت سے قابل ذکر یونیورسٹیاں موجود ہیں جو تعلیم و تحقیق کے میدان میں بہت سے کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے قطر یونیورسٹی میں واقع قطر یونیورسٹی اور حماد بن خلیفہ یونیورسٹی ملک میں دست یاب دو قومی یونیورسٹیاں ہیں۔
غیرملکی یونیورسٹیوں میں کارنتی میلان یونیورسٹی، قطر میں واقع HEC پیرس جو ایک بین الاقوامی کاروباری مینجمنٹ اسکول ہے۔ اس کے علاوہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی، ٹیکساس اینڈ ایم یونیورسٹی، کیلگیری یونیورسٹی، یونیورسٹی کالج لندن اور اسٹینڈن یونیورسٹی ہیں۔
قطر جزیرہ نما عرب ملک ہے جس کے منظرنامے میں خشک صحرا اور خلیج فارس (عرب) کے لمبے ساحل اور ٹیلے شامل ہیں۔
یہاں 1973 میں مرد اور خواتین کے لیے پہلا کالج قائم ہوا ۔ جدید کیمپس قطریونیورسٹی باضابطہ طور پر 1985 میں کھولا گیا۔ تعلیمی عملے میں قطر اور عرب اور غیرعرب دونوں ممالک کے ماہرین کی ایک قابل ذکر تعداد شامل ہے۔
قطر میں عوامی تحقیقی یونیورسٹی جامع قطر ہے جو دارالحکومت دوحہ کے شمالی مضافات میں واقع ہے۔ قطر یونیورسٹی میں عربی میں (تعلیم، فنون اور معاشرتی علوم) اور انگریزی میں (قدرتی علوم، انجینئرنگ اور بزنس) پڑھائے جاتے ہیں۔ قطر یونیورسٹی ملک کی واحد سرکاری یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی میں 10 کالج ہیں۔
آرٹس اینڈ سائنس، بزنس اینڈ اکنامکس، ایجوکیشن، انجینئرنگ، قانون، شرعیہ اور اسلامی علوم، فارمیسی، کالج آف ہیلتھ سائنس، کالج آف میڈیسن اور ڈینٹیکل میڈیسن کا کالج جس میں کل 8000 طلبا ہیں۔
قطر میں خواتین سیاسی اور معاشی فیصلہ سازی سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ قطر میں خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں بہترین نمائندگی ملتی ہے۔ قطر میں صنفی مساوات کا نظام خطے کے کسی اور ملک سے کہیں بہتر ہے۔
افرادی قوت میں خواتین کی شرکت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ سرکاری شعبوں میں مساوی تنخواہیں اور یونیورسٹیوں کے پروگراموں میں داخلہ لینے والی خواتین کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔
قطر ایک ایسا ملک ہے جہاں پانی تیل سے زیادہ مہنگا ہے۔ اس نے ورلڈکپ کے دوران پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چین کے تعاون سے ملک بھر میں پانچ مقامات پر 15 انتہائی بڑے ٹینک بنوائے ہیں۔
چینی ساختہ کمپنیاں قطر کی توانائی کی پیداوار کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ الخارصہ نامی 800 میگا واٹ کے شمسی توانائی کے ذرائع جو دارلحکومت دوحہ سے تقریباً 80 کلومیٹر مغرب میں صحرائی علاقے میں واقع ہیں۔
یہ مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑے پلانٹ میں سے ایک ہے۔ قطر شاید مسلم دنیا کا پہلا ملک ہے جو سولر پینل پر پیسٹ ہونے والے سولر سیل تیار کرتا ہے۔ چینی کمپنیوں کے ذریعے تعمیر کردہ پلانٹ میں قطر کی توانائی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس سے قطر کو ورلڈکپ کی میزبانی میں بہترین مدد ملی۔
قطر علم و تحقیق کے میدان میں نمایاں کام یابیاں حاصل کر رہا ہے۔ ان میں صحت، طب، توانائی کو ذخیرہ کرنے کے ذرائع، نیم موصل پانی (Semi Conductor water)، پانی کی صفائی، قابل تجدید توانائی اور حرکیات (Thermodynamics) ان شعبہ جات میں نمایاں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ان تحقیقی مراکز میں دنیا کے بہترین دماغ کام کر رہے ہیں جس میں اسپین ، پاکستان، امریکا، جرمنی اور فلسطین وغیرہ کے سائنس دانوں کا اہم کردار ہے۔
قطر میں منعقد کیے جانے والا فیفاعالمی کپ اس وقت فٹ بال کی دنیا کا سب سے بڑا کھیلوں کا میلہ ہے۔ قطر میں اس کی تیاریوں نے دنیا کی نظریں اس پر مرکوز کر دی ہیں۔ تمام دنیا عالمی کپ کے اس اہم تقریب کے لیے قطر کی انتہائی وسیع مہم سے بھی واقف ہے۔
لیکن ماہرین کہتے ہیں اس مہم کے دوران جتنے انسان جان سے گئے وہ بھی دنیا کے لیے باعث تشویش اور قطر کی ساکھ کے لیے پریشان کن ہے۔ قطر کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔2010 میں جب سے فیفا ورلڈ کپ کی ذمے داری قطر کو سونپی گئی یہ ملک تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس کی تعمیرنو ہو گئی ہے۔
نیا میٹرو، آسمان کو چھوتی ہوئی نئی عمارتیں، نئی یونیورسٹیاں، عجائب گھر اور نئی بندر گاہ اور ان سب کے ساتھ نئے اسٹیڈیم بنے اور ایک کی تعمیرنو بھی ہوئی۔
انسانی حقوق کے گروہوں اور ذرائع ابلاغ کے مطابق ہوسکتا ہے کہ قطر میں تعمیر کے ان تمام وسیع منصوبوں کی تکمیل کے دوران ہزاروں کارکن موت کا شکار ہوئے ہوں، تاہم قطر حکومت نے ان دعوؤں کو شرمناک اور ہتک آمیز قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ وہ ملک کی ساکھ کے دفاع کے لیے قانونی کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے ایک سنیئر محقق اسٹیو کاک برن کے مطابق ورلڈ کپ کے پراجیکٹ ہوں یا کوئی اور منصوبے، گذشتہ دہائی میں ہزاروں ہلاکتوں کی وجوہات سامنے نہیں آئیں۔ ان میں کم از کم سیکڑوں ہلاکتوں کا تعلق کام کے مقامات پر محفوظ انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ ان مزدوروں کا تعلق بھارت، بنگلادیش، نیپال، پاکستان اور سری لنکا سے ہے۔
بین الاقوامی یونین نے خلیج کے اس ملک پر دباؤ ڈالا کہ اسے ان اصلاحات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جو تحفظ کو بہتر بنانے، مناسب اجرت کے تعین اور مزدوروں کو ملازمت چھوڑنے یا تبدیل کرنے کا حق دینے سے متعلق ہیں۔
اسلامی تحریک، جماعتوں اور علماء اکرام جنہیں ان کا اپنا وطن دیس نکالا کر دیتا ہے تو قطر ان کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ امید ہے مستقبل میں اسلامی دنیا میں قطر مزید فعال کردار ادا کرے گا۔