ارشد شریف کے قتل پر جے آئی ٹی
اس کے قتل کو سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کرنا بھی افسوسناک ہے
سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے ارشد شریف کے قتل کی شفاف تحقیقات کے لیے ایک جے آئی ٹی بنا دی ہے۔ ویسے تو پاکستان میں جے آئی ٹی کا ماضی کوئی اچھا نہیں۔ ان کے ذریعے کوئی بڑا کیس آج تک منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا ہے۔
اس لیے کیا ارشد شریف کے قتل پر بننے والی جے آئی ٹی کیس کی گتھی سلجھا سکے گی۔ ویسے بھی جو کیس سیاسی بیانیوں کی نذر ہو جائے اس کی گتھی سلجھانا مشکل سے مشکل ہو جاتا ہے۔ بہر حال ایک بھاری بھرکم جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔ اور اب ہم امید کرتے ہیں کہ اس کیس کی شفاف تحقیقات ہوں۔
ارشد شریف کی والدہ کے سپریم کورٹ میں بیان کا بہت شور ہے۔ کچھ دوستوں کی رائے ہے کہ انھوں نے جن لوگوں کو نامزد کیا ہے ان پر ایف آئی آر درج ہونی چاہیے تھی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ درست موقف نہیں ہے۔ ویسے تو قتل کینیا میں ہوا ہے۔
پاکستان میں ایف آئی آر اپنی جگہ ایک سوال ہے۔ دوسرا اس طرح ذمے دار لوگوں کی نامزدگی پاکستان میں کوئی حوصلہ افزا رجحان نہیں ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں بلا ثبوت یا جھوٹی ایف آئی آر کٹوانے کا ایک رجحان ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ارشد شریف کی والدہ ایسی کوئی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن جو نام وہ لے رہی ہیں کیا ان کے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت ہیں۔ کسی بھی کیس میں آپ بغیر ثبوت کے لوگوں کو نامزد نہیں کر سکتے۔ اس میں عام اور خاص سب برابر ہیں۔ صرف اختلاف رائے کی بنیاد پر لوگوں کو قتل میں نامزد کرنا کوئی مثبت روایت نہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ معاملے کو سیاسی بنانے کی وجہ سے الجھاؤ پیدا ہوا ہے۔ ایک رائے یہ بھی بنی ہے کہ سیاسی اسی لیے بنایا گیا ہے کچھ لوگوں کو بچایا جائے اور کچھ لوگوں کو پھنسایا جائے۔ ارشد شریف جن کے مہمان تھے کیا ان کو بچانے کے لیے بھی معاملات کا رخ موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اگر ایسا ہے تو یہ کوئی اچھی کوشش نہیں ہے۔تفتیش شروع وہیں سے ہونی چاہیے جہاں ارشد شریف موجود تھے جن کے وہ مہمان تھے، جو موقع واردات پر موجود تھے۔بالفرض اگر ان کو بچانے کی کوشش کر کے معاملے کو دوسری طرف لیجانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ ارشد شریف کیس کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ ارشد شریف پر ایف آئی آر درج تھیں اس لیے ان کو ملک سے باہر جانا پڑا۔یہ کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ ویسے تو ارشد شریف کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا تھا۔ ایف آئی آر ملک سے باہر جانے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہیں۔
ملک میں روزانہ ہزاروں لاکھوں لوگوں پر ایف آئی آر کٹتی ہیں۔ ان میں سچی بھی ہوتی ہیں جھوٹی بھی ہوتی ہیں۔ کیا سب ملک چھوڑ جائیں گے۔ ارشد شریف کے علاوہ دیگر صحافیوں پر بھی ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ وہ تو ملک چھوڑ کر نہیں گئے ہیں۔ بلکہ اس ملک میں صحافیوں کے ساتھ بہت بہت زیادتی ہوئی ہے، تشدد ہوا ہے، گولیاں ماری گئی ہیں۔
وہ تب بھی ملک چھوڑ کر نہیں گئے۔ اغوا ہوئے ہیں پھر بھی ملک چھوڑ کر نہیں گئے۔ اس لیے ایف آئی آر ملک چھوڑ کر جانے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے۔میرے خیال میں ویسے بھی ارشد شریف کی ساری صحافت کی بنیاد اسی بات پر تھی کہ ملک میں کچھ بھی حالات ہو جائیں ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے۔
وہ ملک سے باہر جانے والے سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ ان کا موقف رہا کہ ملک میں رہ کر مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔
ایسے میں سوال ہے کہ وہ بے ضرر ایف آئی آر جن میں انھیں عدالتی ریلیف بھی مل چکا تھا کی بنیاد پر ملک سے باہر کیوں چلے گئے۔ جہاں تک اس تھریٹ الرٹ کا تعلق ہے جس کی بنیاد پر پشاور سے انھیں چوری چھپے ملک سے باہر بھیجنے کا ڈرامہ کیا گیا۔
اس پر بھی بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ وہ تھریٹ الرٹ کیوں جاری کروایا گیا۔ اور کون ارشد شریف کو فوری ملک سے باہر بھیجنا چاہتا تھا۔ کہیں نہ کہیںایسا بھی لگتا ہے کہ کوئی انھیں زبردستی ملک سے باہر بھیجنا چاہتا تھا۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ ملک میں واپس آناچاہتے تھے اس لیے ملک کے اداروں سے رابطے میں تھے۔
اس بات کے بھی شواہد سامنے آئے ہیں کہ وہ واپس آنے کی تیاری کر رہے تھے۔ایک ٹی وی چینل بھی اس بات کا دعویدار ہے کہ اس نے ان کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا۔ اور وہ اس ٹی وی پر شو شروع کرنے جا رہے تھے۔
یقیناً ملک میں واپس آکر ہی شو شروع کرنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔ اس لیے یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ کون انھیں ملک میں واپس آنے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان کی واپسی سے کس کو نقصان تھا۔ کون ان کو بیرون ملک ہی رکھنا چاہتا تھا۔
یہ سوال بھی اہم ہے کینیا کیوں گئے۔ وہ لندن کیوں نہیں گئے۔ یہ جواز بھی کمزور ہے کہ ان کے پاس کسی اور ملک کا ویزہ نہیں تھا۔ ارشد شریف جتنے بڑے صحافی تھے ان کے لیے برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کا ویزہ حاصل کرنا کونسا مشکل کام تھا۔
اگر وہ ملک سے باہر جانے کی پلاننگ کر رہے ہوتے تو چند دن میں ویزہ لگوا لیتے۔ اب تو ایک دن میں بھی ویزہ لگ جاتا ہے۔ اس لیے میرے نزدیک یہ کوئی مضبوط دلیل نہیں کہ ان کے پاس کسی اور ملک کا ویزہ نہیں تھا۔ اس لیے کینیا جانا مجبوری تھی۔
کوئی انھیں کینیا بھیجنا چاہتا تھا۔ کسی کے گیم پلان میں انھیں کینیا بھیجنا شامل تھا۔ یقیناً پاکستان کے ادارے اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ انھیں کینیا بھیجنے پر قائل کر لیتے۔ جنھوں نے انھیں کینیا بھیجا ان سے ہی تفتیش شروع ہو تو بات آگے بڑھے گی ۔
ارشدشریف کی والدہ کے جذبات کا سب کو احترام ہونا چاہیے۔ انھوں نے بیٹا کھویا ہے۔ ان کا نقصان کوئی پورا نہیں کر سکتا۔ ان کے جذبات اور ان کے نقصان کے سامنے سب کے سر جھکے ہونے چاہیے۔ وہ قوم کا بیٹا تھا۔ اس لیے وہ قوم کی ماں ہیں۔ لیکن میری رائے میں ان تک غلط معلومات پہنچائی جا رہی ہیں۔ درخواست دینا ان کا حق ہے۔
قانون نے بھی انھیں یہ حق دیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف ان کا کہنا کافی نہیں ہے، ثبوت بھی چاہیے۔ اس لیے جو دوست یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انھوں نے جن کو نامزد کیا ہے وہ ملزمان ہو گئے ہیں۔ درست نہیں ہے۔ ان کی نامزدگی بغیر ثبوت کے ہے۔ ان کے پاس ارشد شریف کا بھی ایسا کوئی بیان نہیں جو بتا سکے۔
اس لیے ملک کے اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش میں اس حد تک آگے نہیں جانا چاہیے۔ میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ ارشد شریف کی والدہ کو اپنا قانونی حق استعمال کرنے کا پورا حق ہے۔ لیکن ملک میں ایک تفتیش کا نظام موجود ہے۔ کسی کے کہنے سے کوئی ملزم نہیں ہوجاتا اور نہ کسی پر الزام ثابت ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں ایک دوسرے پر الزام لگانا کوئی اچھی روایت نہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک شخص نے لندن میں الزام لگا دیا کہ ارشد شریف کے قتل کی سازش لندن میں تیار ہوئی ہے۔
لیکن کیا لندن میں اس الزام لگانے کے بعد جن پر الزام لگایا انھیں ملزم بنا دیا گیا۔ لندن کی پولیس اگلے دن انھیں گرفتار کرنے پہنچ گئی، نہیں۔ نہیں ایسے نہیں ہوتا۔ اس لیے یہاں بھی ایسا نہیں ہو سکتا۔ ارشد شریف کے قتل کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔
ان کے قاتل سامنے آنے چاہیے۔ لیکن اس کے قتل کو سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کرنا بھی افسوسناک ہے۔ کچھ ملزمان کو بچانے کی کوشش بھی افسوسناک ہے۔ باہر سے بیٹھ کر تحقیقات پر اثر انداز ہونا بھی افسوسناک ہے۔