قرض اور ترسیلات زر
قرض لینے والا منت سماجت پر اتر آیا تھا، لیکن قرض خواہ کا دل نہیں پسیج رہا تھا
قرض لینے والا منت سماجت پر اتر آیا تھا، لیکن قرض خواہ کا دل نہیں پسیج رہا تھا۔ وہ اپنے قرض بمع سود اس کی پوری کی پوری قسط لینے پر مصر تھا۔
قرض ادا کرنے والا اپنا دکھڑا سنا رہا تھا کہ کاروبار نہیں ہے، ملکی حالات شدید سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں، ملکی معیشت آج کل کس قدر ناتواں، نحیف و کمزور ہے، ہر طرف غربت ہی غربت ہے، آمدن کم سے کم اور مہنگائی کے باعث اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ صاحب! اس مرتبہ کی قسط میں کمی کردو، میں آیندہ ادا کردوں گا۔
دوسری طرف کرایہ دار مالک مکان سے التجا کر رہا تھا اس ماہ مزدوری بہت ہی کم ملی ہے کرائے کے پورے پیسے نہیں جوڑ سکا، آدھا کرایہ اس ماہ لے لیں، باقی آیندہ ماہ رقم پوری کر دوں گا۔ تیسری طرف ایک بے روزگار شخص جسے کئی ماہ ہو چکے روزگار نہ ملنے کے سبب فاقے، بچے بیمار ان کے علاج معالجے کے لیے رقم نہیں، انتہائی کسمپرسی میں دن رات گزرتے ہیں۔
کوئی پرسان حال نہیں، کسی کو خبر بھی ہوتی ہے تو اس کی مدد کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ کہیں ایسا بھی ہو رہا ہے کہ کچھ رقم ادھار لے لی اب ساہوکار ہو یا اینٹوں کے بھٹے کا مالک ہو قرض لینے والے کو بھی گروی رکھ لیا اب آیندہ اس کے بچے بھی گروی رکھ لیے جائیں گے۔
قیام پاکستان سے قبل غریب مسلمان کاشتکار ہندو ساہوکاروں سے قرض لیتا پھر سود در سود اس کا قرض بڑھتا چلا جاتا، وہ قرض ادا نہیں کر پاتا پھر اس کے سامنے حساب کتاب کا کھاتہ کھول دیا جاتا، مدت گزر جانے پر عدم ادائیگی قرض کی بنا پر اس کی کچھ زمین ہڑپ کر لی جاتی یا پھر ہندو بنیے کی جانب سے پابندیاں، شرائط اور بہت سی باتیں سہنی پڑتی تھیں اور وہ قرض کے جال میں پھنس جاتا ہے۔
پاکستان عرصہ دراز سے قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ 1960کے اوائل میں ہم نے ایک یورپی ملک جرمنی کو قرض دیا تھا، آج وہ ہم سے کہیں بہت دور آگے نکل چکا ہے، پھر آہستہ آہستہ کچھ ضروری کاموں کے لیے کچھ ترقیاتی کاموں کے لیے کچھ منصوبوں کی تکمیل کے لیے قرض لیتے رہے۔
کچھ عرصے بعد پھر کچھ ضروری خرچوں کے لیے پھر لگژری گاڑیوں کی درآمد کے لیے، پھر آمدن کم اخراجات زیادہ لہٰذا فرق دور کرنے کے لیے قرض کا سہارا لیتے رہے۔ پھر نیا میلینیم شروع، قسطوں کی ادائیگی کے لیے قرض لیتے رہے۔ پھر اس سود کی تباہ کاریاں ایسی پیدا ہوئیں کہ اب تو سود کی ادائیگی کے لیے پھر مزید سود پر بخوشی قرض لے لیتے ہیں لیکن پھر بھی قرض کا بوجھ ہے کہ ہلکا نہیں ہو پا رہا ہے۔ سنتے ہیں کہ اب زرمبادلہ کی اتنی کمی ہوگئی ہے کہ درآمد کردہ پیاز، لہسن، ادرک کے کنٹینر چھڑوانے کے لیے زرمبادلہ کی فراہمی ایک مسئلہ بن چکی ہے۔
اطلاعات کے مطابق کمرشل بینکوں نے اشیائے صرف کی درآمد کے لیے زرمبادلہ کی فراہمی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کمرشل بینکوں کے صنعتی خام مال، موبائل فونز، پرزہ جات، پلانٹ مشینری کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا درآمد کرنے کے لیے بھی زرمبادلہ کی عدم فراہمی کی بنا پر 417کنٹینرز بندرگاہوں پر اپنی کلیئرنس کے انتظار میں کھڑے ہیں، اگرچہ وزیر خزانہ اس بارے میں کافی متحرک بھی ہیں کہ اس مالی سال کے قرضوں کی قسطوں اور ان کے سود کی ادائیگی کا انتظام کرلیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 2025 تک کے لیے 73 ارب ڈالر کا قرض واپسی کا انتظام کرنا ہوگا جب کہ رواں مالی سال 32ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہوگا۔
پاکستانی معیشت کے لیے ایک بڑی ڈھال ترسیلات زر کی صورت میں معیشت کو سہارا مل جایا کرتا ہے، یہ ترسیلات زر گزشتہ کئی برسوں سے سال بہ سال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پانچ سات سال قبل کی بات ہے ترسیلات زر کی مالیت 20 ارب ڈالر تک تھی۔
پھر بڑھتی رہی ابھی گزشتہ مالی سال یہ مالیت 31 ارب ڈالر تک جا پہنچی، لیکن عالمی بینک یہ رپورٹ دے رہا ہے کہ گزشتہ سال کے 31 ارب ڈالر کے مقابلے میں 2022 میں 29 ارب ڈالر کی ترسیلات ہوں گی۔ اس طرح 7.3 فیصد کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
حکومت اس سلسلے میں فوری توجہ دے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ایسی ترغیبات مراعات اور دیگر اسکیمز کا اعلان کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ ملک میں آسکے۔ اس دوران دو اہم خوش آیند خبروں کا تذکرہ کرنا بے جا نہ ہوگا۔
اول جنوبی کوریا نے پاکستان سے مزید افرادی قوت منگوانے کا معاہدہ کیا ہے۔ جنوبی کوریا کو ایمپلائنمنٹ پرمنٹ اسکیم کے تحت مزید افرادی قوت بھیجی جائے گی۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر ساجد طوری کا کہنا ہے کہ اب تک دس ہزار پاکستانی روزگار کے لیے جنوبی کوریا بھیجے جا چکے ہیں لیکن اب زراعت خدمات ماہی گیری آئی ٹی کے شعبوں میں بھی پاکستانی جا سکیں گے۔
جہاں تک زراعت کی بات ہے تو بہت سے پاکستانی جوکہ زرعی شعبے میں مہارت رکھتے ہیں کئی ملکوں میں زراعت کے پیشے سے وابستہ ہو کر وہاں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے دنیا کے کئی ملکوں میں پاکستانیوں کی اس شعبے میں مہارت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں شعبہ زراعت مستقل بے روزگاری کا شکار ہے۔ یعنی ایک خاص رقبے کو اس وقت جو افرادی قوت میسر ہے اس میں 20 یا 30 فیصد کا اخراج بھی ہو جائے پھر بھی زرعی پیداوار میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پہلے ہی فی ایکڑ اتنی کم پیداوار ہے کہ مزید کیا کم ہوگی؟ ان کھیتوں میں کام کرنے والے افراد جوکہ پہلے ہی ضرورت سے زیادہ ہوتے ہیں۔
ان میں کمی ہو جائے جب بھی کچھ بھی فرق نہ پڑے گا۔ اس سے ملک میں بے روزگاری کے باعث جو نقصانات ہو رہے ہیں اس کا ازالہ ہوگا بلکہ شعبہ زراعت سے متعلق ہماری افرادی قوت دیگر ممالک جا کر زرمبادلہ کما کر ترسیلات زر میں اضافہ کر پائیں گے۔
دوسری اہم ترین خبر جسے سرمایہ کاری بورڈ کا کارنامہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ کاری بورڈ نے جاپانی اداروں کے اشتراک سے 40 ہزار پاکستانی آئی ٹی انجینئرز کو ٹریننگ دینے کے منصوبے پر کام کا آغاز کردیا ہے جس سے 40 ہزار پروفیشنلز استفادہ کرسکیں گے۔ تربیت کی کامیاب تکمیل پر جاپانی کمپنیوں میں ملازمت بھی فراہم کی جائے گی۔
کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ جاپان ہو یا کوئی اور ایشیائی ترقی یافتہ ملک جیسے جنوبی کوریا اور اس طرح دیگر ملکوں میں ہمارے انجینئرز کو مختلف شعبوں میں ایسی تربیت فراہم کی جائے کہ وہ ملک یا بیرون ملک اعلیٰ ترین ملازمتوں پر فائز ہو کر زیادہ سے زیادہ ترسیلات زر بھجوانے کا ذریعہ بن سکیں کیونکہ اس طرح قرض کی ادائیگی میں بھی آسانی ہو جاتی ہے۔
قرض ادا کرنے والا اپنا دکھڑا سنا رہا تھا کہ کاروبار نہیں ہے، ملکی حالات شدید سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں، ملکی معیشت آج کل کس قدر ناتواں، نحیف و کمزور ہے، ہر طرف غربت ہی غربت ہے، آمدن کم سے کم اور مہنگائی کے باعث اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ صاحب! اس مرتبہ کی قسط میں کمی کردو، میں آیندہ ادا کردوں گا۔
دوسری طرف کرایہ دار مالک مکان سے التجا کر رہا تھا اس ماہ مزدوری بہت ہی کم ملی ہے کرائے کے پورے پیسے نہیں جوڑ سکا، آدھا کرایہ اس ماہ لے لیں، باقی آیندہ ماہ رقم پوری کر دوں گا۔ تیسری طرف ایک بے روزگار شخص جسے کئی ماہ ہو چکے روزگار نہ ملنے کے سبب فاقے، بچے بیمار ان کے علاج معالجے کے لیے رقم نہیں، انتہائی کسمپرسی میں دن رات گزرتے ہیں۔
کوئی پرسان حال نہیں، کسی کو خبر بھی ہوتی ہے تو اس کی مدد کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ کہیں ایسا بھی ہو رہا ہے کہ کچھ رقم ادھار لے لی اب ساہوکار ہو یا اینٹوں کے بھٹے کا مالک ہو قرض لینے والے کو بھی گروی رکھ لیا اب آیندہ اس کے بچے بھی گروی رکھ لیے جائیں گے۔
قیام پاکستان سے قبل غریب مسلمان کاشتکار ہندو ساہوکاروں سے قرض لیتا پھر سود در سود اس کا قرض بڑھتا چلا جاتا، وہ قرض ادا نہیں کر پاتا پھر اس کے سامنے حساب کتاب کا کھاتہ کھول دیا جاتا، مدت گزر جانے پر عدم ادائیگی قرض کی بنا پر اس کی کچھ زمین ہڑپ کر لی جاتی یا پھر ہندو بنیے کی جانب سے پابندیاں، شرائط اور بہت سی باتیں سہنی پڑتی تھیں اور وہ قرض کے جال میں پھنس جاتا ہے۔
پاکستان عرصہ دراز سے قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ 1960کے اوائل میں ہم نے ایک یورپی ملک جرمنی کو قرض دیا تھا، آج وہ ہم سے کہیں بہت دور آگے نکل چکا ہے، پھر آہستہ آہستہ کچھ ضروری کاموں کے لیے کچھ ترقیاتی کاموں کے لیے کچھ منصوبوں کی تکمیل کے لیے قرض لیتے رہے۔
کچھ عرصے بعد پھر کچھ ضروری خرچوں کے لیے پھر لگژری گاڑیوں کی درآمد کے لیے، پھر آمدن کم اخراجات زیادہ لہٰذا فرق دور کرنے کے لیے قرض کا سہارا لیتے رہے۔ پھر نیا میلینیم شروع، قسطوں کی ادائیگی کے لیے قرض لیتے رہے۔ پھر اس سود کی تباہ کاریاں ایسی پیدا ہوئیں کہ اب تو سود کی ادائیگی کے لیے پھر مزید سود پر بخوشی قرض لے لیتے ہیں لیکن پھر بھی قرض کا بوجھ ہے کہ ہلکا نہیں ہو پا رہا ہے۔ سنتے ہیں کہ اب زرمبادلہ کی اتنی کمی ہوگئی ہے کہ درآمد کردہ پیاز، لہسن، ادرک کے کنٹینر چھڑوانے کے لیے زرمبادلہ کی فراہمی ایک مسئلہ بن چکی ہے۔
اطلاعات کے مطابق کمرشل بینکوں نے اشیائے صرف کی درآمد کے لیے زرمبادلہ کی فراہمی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کمرشل بینکوں کے صنعتی خام مال، موبائل فونز، پرزہ جات، پلانٹ مشینری کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا درآمد کرنے کے لیے بھی زرمبادلہ کی عدم فراہمی کی بنا پر 417کنٹینرز بندرگاہوں پر اپنی کلیئرنس کے انتظار میں کھڑے ہیں، اگرچہ وزیر خزانہ اس بارے میں کافی متحرک بھی ہیں کہ اس مالی سال کے قرضوں کی قسطوں اور ان کے سود کی ادائیگی کا انتظام کرلیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 2025 تک کے لیے 73 ارب ڈالر کا قرض واپسی کا انتظام کرنا ہوگا جب کہ رواں مالی سال 32ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہوگا۔
پاکستانی معیشت کے لیے ایک بڑی ڈھال ترسیلات زر کی صورت میں معیشت کو سہارا مل جایا کرتا ہے، یہ ترسیلات زر گزشتہ کئی برسوں سے سال بہ سال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پانچ سات سال قبل کی بات ہے ترسیلات زر کی مالیت 20 ارب ڈالر تک تھی۔
پھر بڑھتی رہی ابھی گزشتہ مالی سال یہ مالیت 31 ارب ڈالر تک جا پہنچی، لیکن عالمی بینک یہ رپورٹ دے رہا ہے کہ گزشتہ سال کے 31 ارب ڈالر کے مقابلے میں 2022 میں 29 ارب ڈالر کی ترسیلات ہوں گی۔ اس طرح 7.3 فیصد کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
حکومت اس سلسلے میں فوری توجہ دے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ایسی ترغیبات مراعات اور دیگر اسکیمز کا اعلان کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ ملک میں آسکے۔ اس دوران دو اہم خوش آیند خبروں کا تذکرہ کرنا بے جا نہ ہوگا۔
اول جنوبی کوریا نے پاکستان سے مزید افرادی قوت منگوانے کا معاہدہ کیا ہے۔ جنوبی کوریا کو ایمپلائنمنٹ پرمنٹ اسکیم کے تحت مزید افرادی قوت بھیجی جائے گی۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر ساجد طوری کا کہنا ہے کہ اب تک دس ہزار پاکستانی روزگار کے لیے جنوبی کوریا بھیجے جا چکے ہیں لیکن اب زراعت خدمات ماہی گیری آئی ٹی کے شعبوں میں بھی پاکستانی جا سکیں گے۔
جہاں تک زراعت کی بات ہے تو بہت سے پاکستانی جوکہ زرعی شعبے میں مہارت رکھتے ہیں کئی ملکوں میں زراعت کے پیشے سے وابستہ ہو کر وہاں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے دنیا کے کئی ملکوں میں پاکستانیوں کی اس شعبے میں مہارت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں شعبہ زراعت مستقل بے روزگاری کا شکار ہے۔ یعنی ایک خاص رقبے کو اس وقت جو افرادی قوت میسر ہے اس میں 20 یا 30 فیصد کا اخراج بھی ہو جائے پھر بھی زرعی پیداوار میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پہلے ہی فی ایکڑ اتنی کم پیداوار ہے کہ مزید کیا کم ہوگی؟ ان کھیتوں میں کام کرنے والے افراد جوکہ پہلے ہی ضرورت سے زیادہ ہوتے ہیں۔
ان میں کمی ہو جائے جب بھی کچھ بھی فرق نہ پڑے گا۔ اس سے ملک میں بے روزگاری کے باعث جو نقصانات ہو رہے ہیں اس کا ازالہ ہوگا بلکہ شعبہ زراعت سے متعلق ہماری افرادی قوت دیگر ممالک جا کر زرمبادلہ کما کر ترسیلات زر میں اضافہ کر پائیں گے۔
دوسری اہم ترین خبر جسے سرمایہ کاری بورڈ کا کارنامہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ کاری بورڈ نے جاپانی اداروں کے اشتراک سے 40 ہزار پاکستانی آئی ٹی انجینئرز کو ٹریننگ دینے کے منصوبے پر کام کا آغاز کردیا ہے جس سے 40 ہزار پروفیشنلز استفادہ کرسکیں گے۔ تربیت کی کامیاب تکمیل پر جاپانی کمپنیوں میں ملازمت بھی فراہم کی جائے گی۔
کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ جاپان ہو یا کوئی اور ایشیائی ترقی یافتہ ملک جیسے جنوبی کوریا اور اس طرح دیگر ملکوں میں ہمارے انجینئرز کو مختلف شعبوں میں ایسی تربیت فراہم کی جائے کہ وہ ملک یا بیرون ملک اعلیٰ ترین ملازمتوں پر فائز ہو کر زیادہ سے زیادہ ترسیلات زر بھجوانے کا ذریعہ بن سکیں کیونکہ اس طرح قرض کی ادائیگی میں بھی آسانی ہو جاتی ہے۔