دیوالیے کا خطرہ حقیقت یا افسانہ
اب یہ عالم ہے کہ وزیر خزانہ کے بارے میں بھی سرگوشیاں شروع ہو گئی ہیں
ہم نے بندوبست کر لیا ہے۔ ایک ارب ڈالرز کے سکوک بانڈز کی ادائیگی کر دی ہے۔ اگلے مالی سال کے دوران جو ادائیگیاں کرنی ہیں، ان پر کام ہو رہا ہے۔
فکر کی کوئی بات نہیں؛ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بات کو درمیان میں کاٹتے ہوئے اینکر نے اصرار کیا کہ آپ کا مؤقف حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
آپ کہہ رہے ہیں کہ فکر کی کوئی بات نہیں جب کہ حالت یہ ہے آئی ایم ایف نے اپنا جائزہ مشن ابھی تک نہیں بھیجا۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، امپورٹس کی ایل سیز نہیں کھل رہیں۔ اوپن مارکیٹ اور انٹربینک کا فرق بڑھ رہا ہے۔
ملک دیوالیہ ہونے کی خبریں اور تبصرے ہو رہے ہیں۔ اینکر سانس لینے کو رکا تو وزیر خزانہ نے جواب دیا کہ آپ میڈیا کے لوگ بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔
اینکر بضد تھا کہ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کا نہ آنا اچھا شگون نہیں ہے۔ بات تکرار کی صورت اختیار کر گئی تو زچ ہو کر اسحاق ڈار نے جواب دیا؛ دیکھیں ہم جائزہ مشن کے لیے بالکل تیار ہیں۔ وہ نہیں آ رہے تو پھر مجھے بھی ان کی پرواہ نہیں یعنیI don't care ۔ آئی ایم ایف کے بغیر ہم نے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی تو مینیج کیا تھا ، اب بھی کر لیں گے۔
وزیرخزانہ کی بحث کا یہ کلپ بہت وائرل ہوا۔ ایک مقولہ کہیں پڑھا تھا؛ اس نے بیان کیا تو میں نے مان لیا۔ اس نے بات پر اصرار کیا تو مجھے شک ہوا۔ اس نے اپنا اصرار بار بار جاری رکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ بات صحیح نہیں ہے۔ حکومت بھی کچھ اسی جھمیلے کا شکار ہے۔
معاشی اور اقتصادی اشارئیے ہیں کہ زبان حال سے فریادی ہیں کہ ہے کوئی جو ہماری بھی سنے۔ افراط زر پچیس فی صد سے نیچے آنے کو تیار نہیں۔ انٹر بینک میں ڈالر 224 کے کھونٹے سے زبردستی بندھا نظر آتا ہے مگر اوپن مارکیٹ میں 142 روپے میں بھی دستیاب نہیں۔
دو ہفتے قبل آئی ٹی کے وزیر بر سر عام شکوہ کناں تھے کہ وزیر خزانہ آئی ٹی سیکٹر پر نظر کرم کریں، گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کی ادائیگی بند ہوگئی تو دنیا بھر میں ہمارا کون اعتبار کرے گا۔ اور یہ کہ آئی ٹی سیکٹر ابھی ابھی تو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا ہے، اسے یوں جھٹکا دے کر نہ گرائیں۔ شکوہ کام آیا اور اجازت دے دی گئی۔
دنیا کے ساتھ ملک کی جڑت اور روزمرہ کا تعلق کچھ اس قدر گہرا اور پل پل کا ہے کہ کہاں کہاں اجازت کے لیے دادفریاد کرنی پڑے گی، کون ایسا ہو جو فریاد کرے تو سننے والا سننے پر آمادہ بھی ہو۔
تازہ ترین یہ ہے کہ عالمی سفر اسفار کے معاملات کے ادارے IATA کے 225 ملین ڈالرز کی ادائیگی بھی موخر کرنی پڑی ہے۔ یعنی بین الاقوامی سفر میں ایک نیا اسپیڈ بریکر۔ ٹریول ایجنٹ پہلے ہی پاکستان سے باہر ادائیگی کرنے کے پاپڑ بیل کر دھندہ چلائے ہوئے ہیں۔
دور کیا جانا، دو تین روز سے ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ پورٹ پر پیاز لہسن ادرک کے کنٹینرز کسٹمز میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ایل سیز کی ادائیگیاں لٹکی ہوئی ہیں۔
نئی ایل سیز کی اجازت اور انتظامی رکاوٹوں کے سبب امپورٹس میں مصنوعی اور وقتی کمی ہوئی ہے جسے وزارت خزانہ ایک کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے کہ دیکھا تجارتی خسارہ اب سکڑ رہا ہے!
دو روز قبل مارکیٹ میں جاری افواہوں اور خبروں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک نے خود وضاحت کرنے کی ٹھانی۔ لب لباب یہ تھا کہ سکوک بانڈز کی ادائیگی کر دی ہے۔
پچھلے واجب الادا قرضے بھی ادا کر دیے۔ اب باقی ماندہ مالی سال کے دوران تجارتی خسارے اور ادائیگیوں کے لیے بندوبست کر رہے ہیں۔ کچھ قرض رول اوور ہوں گے کچھ نئے ، تجارتی خسارہ کم ہو رہا ہے۔ سو؛ صاحبو گذر جائے گی یہ شام کہ ایک شام ہی تو ہے۔
اسی ہفتے کاروباری اعتماد کا سروے جاری ہوا ہے۔ سروسز، زراعت اور انڈسٹری کا حاصل جمع اعتماد منفی چار تک جا گرا۔ یہی انڈکس مارچ میں پھر بھی مثبت تھا، پہلے کی نسبت کم مگر بہرحال مثبت تھا مگر اس سہ ماہی میں تو انڈکس اندھیرے میں جا گرا۔
کیوں؟ وجہ بہت سادہ سی ہے سیاسی عدم استحکام نے معاشی اور انتظامی فیصلہ سازی کو جام کر دیا ہے جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ فیصلے معاشی بنیادوں پر کم اور سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں پر زیادہ استوار ہیں۔ ایسے میں کنفیوژن اور انتشار کا غبار جمع ہو رہا ہے۔
صبح شام ملک دیوالیہ ہونے کی خبروں نے عام آدمی کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ ایک محفل میں ایک صاحب نے پوچھا کہ ملک اگر ڈیفالٹ کر گیا تو کیا ہوگا۔ عرض کیا کہ شب و روز کے معمولات درہم برہم ہو جائیں گے۔ دو تین چیزوں کو ہی لے لیں۔ملک میں بجلی کی پیداوار تین چوتھائی سے بھی زائد درآمدی فیول کی مرہون منت ہے۔
لوڈشیڈنگ کا عذاب مسلط ہوا تو موبائل فون کے چارج کرنے اور وائی فائی کی عیاشی تک موقوف ہو جائے گی۔ انڈسٹری اور معیشت کا پہیہ بھی رکے گا۔ روپے ڈالر کی شرح مبادلہ کو پر لگ جائیں گے تو درآمدات پر استوار معیشت کی چولیں ہل جائیں گی۔
ٹرانسپورٹ کے لیے پٹرول ڈیزل کے لالے پڑے تو ٹرانسپورٹ کا دھڑن تختہ ہوگا۔ افراط زر ساٹھ ستر فیصد سے بھی اوپر جا سکتا ہے۔ سری لنکا اور لبنان کے مناظر سامنے ہیں۔ الغرض دیوالیہ ہونے کا تصور ہی روح فرسا ہے۔
ایک طرف تو یہ عالم ہے ، دوسری طرف باقی ماندہ سال میں ترقیاتی کاموں کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بوریوں کے منہ کھول دیے ہیں۔
دوسری جانب سلمان۔شہباز کی آمد کا راستہ ہموار ہے۔ ایاز صادق خبر لائے ہیں کہ میاں نواز شریف اگلے ماہ تک واپس آ جائیں گے۔ الیکشن مارچ میں ہوں گے یا اپنی پوری مدت پر ، سیاسی بحث اپنی جگہ مگر جس تیزی سے معاشی اشارئیے دگرگوں ہو رہے ہیں، خاکم بہ دہن، سیاسی عدم انتشار اور معاشی استحکام کا خوفناک جوڑ کے سبب معاملات شاید سیاسی فیصلہ سازوں کے ہاتھ سے ہی نہ نکل جائیں۔
کہاں اعتماد کا یہ عالم تھا کہ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد ن لیگ ستے خیراں کا ورد کر رہی تھی مگر اب یہ عالم ہے کہ وزیر خزانہ کے بارے میں بھی سرگوشیاں شروع ہو گئی ہیں۔
سات سالوں میں بیرونی قرضے دوگنا ہو چکے ہیں۔ ادائیگیاں نئے قرضوں یا رول اوور سے بندوبست ہو رہی ہیں۔ ملکی معیشت میں دم خم پہلے بھی مانگے تانگے کا تھا ، ڈر ہے کہ زیادہ دیر یہی صورتحال رہی تو یہ بھرم بھی ٹوٹ نہ جائے۔
فکر کی کوئی بات نہیں؛ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بات کو درمیان میں کاٹتے ہوئے اینکر نے اصرار کیا کہ آپ کا مؤقف حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
آپ کہہ رہے ہیں کہ فکر کی کوئی بات نہیں جب کہ حالت یہ ہے آئی ایم ایف نے اپنا جائزہ مشن ابھی تک نہیں بھیجا۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، امپورٹس کی ایل سیز نہیں کھل رہیں۔ اوپن مارکیٹ اور انٹربینک کا فرق بڑھ رہا ہے۔
ملک دیوالیہ ہونے کی خبریں اور تبصرے ہو رہے ہیں۔ اینکر سانس لینے کو رکا تو وزیر خزانہ نے جواب دیا کہ آپ میڈیا کے لوگ بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔
اینکر بضد تھا کہ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کا نہ آنا اچھا شگون نہیں ہے۔ بات تکرار کی صورت اختیار کر گئی تو زچ ہو کر اسحاق ڈار نے جواب دیا؛ دیکھیں ہم جائزہ مشن کے لیے بالکل تیار ہیں۔ وہ نہیں آ رہے تو پھر مجھے بھی ان کی پرواہ نہیں یعنیI don't care ۔ آئی ایم ایف کے بغیر ہم نے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی تو مینیج کیا تھا ، اب بھی کر لیں گے۔
وزیرخزانہ کی بحث کا یہ کلپ بہت وائرل ہوا۔ ایک مقولہ کہیں پڑھا تھا؛ اس نے بیان کیا تو میں نے مان لیا۔ اس نے بات پر اصرار کیا تو مجھے شک ہوا۔ اس نے اپنا اصرار بار بار جاری رکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ بات صحیح نہیں ہے۔ حکومت بھی کچھ اسی جھمیلے کا شکار ہے۔
معاشی اور اقتصادی اشارئیے ہیں کہ زبان حال سے فریادی ہیں کہ ہے کوئی جو ہماری بھی سنے۔ افراط زر پچیس فی صد سے نیچے آنے کو تیار نہیں۔ انٹر بینک میں ڈالر 224 کے کھونٹے سے زبردستی بندھا نظر آتا ہے مگر اوپن مارکیٹ میں 142 روپے میں بھی دستیاب نہیں۔
دو ہفتے قبل آئی ٹی کے وزیر بر سر عام شکوہ کناں تھے کہ وزیر خزانہ آئی ٹی سیکٹر پر نظر کرم کریں، گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کی ادائیگی بند ہوگئی تو دنیا بھر میں ہمارا کون اعتبار کرے گا۔ اور یہ کہ آئی ٹی سیکٹر ابھی ابھی تو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا ہے، اسے یوں جھٹکا دے کر نہ گرائیں۔ شکوہ کام آیا اور اجازت دے دی گئی۔
دنیا کے ساتھ ملک کی جڑت اور روزمرہ کا تعلق کچھ اس قدر گہرا اور پل پل کا ہے کہ کہاں کہاں اجازت کے لیے دادفریاد کرنی پڑے گی، کون ایسا ہو جو فریاد کرے تو سننے والا سننے پر آمادہ بھی ہو۔
تازہ ترین یہ ہے کہ عالمی سفر اسفار کے معاملات کے ادارے IATA کے 225 ملین ڈالرز کی ادائیگی بھی موخر کرنی پڑی ہے۔ یعنی بین الاقوامی سفر میں ایک نیا اسپیڈ بریکر۔ ٹریول ایجنٹ پہلے ہی پاکستان سے باہر ادائیگی کرنے کے پاپڑ بیل کر دھندہ چلائے ہوئے ہیں۔
دور کیا جانا، دو تین روز سے ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ پورٹ پر پیاز لہسن ادرک کے کنٹینرز کسٹمز میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ایل سیز کی ادائیگیاں لٹکی ہوئی ہیں۔
نئی ایل سیز کی اجازت اور انتظامی رکاوٹوں کے سبب امپورٹس میں مصنوعی اور وقتی کمی ہوئی ہے جسے وزارت خزانہ ایک کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے کہ دیکھا تجارتی خسارہ اب سکڑ رہا ہے!
دو روز قبل مارکیٹ میں جاری افواہوں اور خبروں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک نے خود وضاحت کرنے کی ٹھانی۔ لب لباب یہ تھا کہ سکوک بانڈز کی ادائیگی کر دی ہے۔
پچھلے واجب الادا قرضے بھی ادا کر دیے۔ اب باقی ماندہ مالی سال کے دوران تجارتی خسارے اور ادائیگیوں کے لیے بندوبست کر رہے ہیں۔ کچھ قرض رول اوور ہوں گے کچھ نئے ، تجارتی خسارہ کم ہو رہا ہے۔ سو؛ صاحبو گذر جائے گی یہ شام کہ ایک شام ہی تو ہے۔
اسی ہفتے کاروباری اعتماد کا سروے جاری ہوا ہے۔ سروسز، زراعت اور انڈسٹری کا حاصل جمع اعتماد منفی چار تک جا گرا۔ یہی انڈکس مارچ میں پھر بھی مثبت تھا، پہلے کی نسبت کم مگر بہرحال مثبت تھا مگر اس سہ ماہی میں تو انڈکس اندھیرے میں جا گرا۔
کیوں؟ وجہ بہت سادہ سی ہے سیاسی عدم استحکام نے معاشی اور انتظامی فیصلہ سازی کو جام کر دیا ہے جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ فیصلے معاشی بنیادوں پر کم اور سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں پر زیادہ استوار ہیں۔ ایسے میں کنفیوژن اور انتشار کا غبار جمع ہو رہا ہے۔
صبح شام ملک دیوالیہ ہونے کی خبروں نے عام آدمی کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ ایک محفل میں ایک صاحب نے پوچھا کہ ملک اگر ڈیفالٹ کر گیا تو کیا ہوگا۔ عرض کیا کہ شب و روز کے معمولات درہم برہم ہو جائیں گے۔ دو تین چیزوں کو ہی لے لیں۔ملک میں بجلی کی پیداوار تین چوتھائی سے بھی زائد درآمدی فیول کی مرہون منت ہے۔
لوڈشیڈنگ کا عذاب مسلط ہوا تو موبائل فون کے چارج کرنے اور وائی فائی کی عیاشی تک موقوف ہو جائے گی۔ انڈسٹری اور معیشت کا پہیہ بھی رکے گا۔ روپے ڈالر کی شرح مبادلہ کو پر لگ جائیں گے تو درآمدات پر استوار معیشت کی چولیں ہل جائیں گی۔
ٹرانسپورٹ کے لیے پٹرول ڈیزل کے لالے پڑے تو ٹرانسپورٹ کا دھڑن تختہ ہوگا۔ افراط زر ساٹھ ستر فیصد سے بھی اوپر جا سکتا ہے۔ سری لنکا اور لبنان کے مناظر سامنے ہیں۔ الغرض دیوالیہ ہونے کا تصور ہی روح فرسا ہے۔
ایک طرف تو یہ عالم ہے ، دوسری طرف باقی ماندہ سال میں ترقیاتی کاموں کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بوریوں کے منہ کھول دیے ہیں۔
دوسری جانب سلمان۔شہباز کی آمد کا راستہ ہموار ہے۔ ایاز صادق خبر لائے ہیں کہ میاں نواز شریف اگلے ماہ تک واپس آ جائیں گے۔ الیکشن مارچ میں ہوں گے یا اپنی پوری مدت پر ، سیاسی بحث اپنی جگہ مگر جس تیزی سے معاشی اشارئیے دگرگوں ہو رہے ہیں، خاکم بہ دہن، سیاسی عدم انتشار اور معاشی استحکام کا خوفناک جوڑ کے سبب معاملات شاید سیاسی فیصلہ سازوں کے ہاتھ سے ہی نہ نکل جائیں۔
کہاں اعتماد کا یہ عالم تھا کہ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد ن لیگ ستے خیراں کا ورد کر رہی تھی مگر اب یہ عالم ہے کہ وزیر خزانہ کے بارے میں بھی سرگوشیاں شروع ہو گئی ہیں۔
سات سالوں میں بیرونی قرضے دوگنا ہو چکے ہیں۔ ادائیگیاں نئے قرضوں یا رول اوور سے بندوبست ہو رہی ہیں۔ ملکی معیشت میں دم خم پہلے بھی مانگے تانگے کا تھا ، ڈر ہے کہ زیادہ دیر یہی صورتحال رہی تو یہ بھرم بھی ٹوٹ نہ جائے۔