مسیحاؤں کے روپ میں بھیڑیے

پاکستان میں نجی اسپتال عوام کی کھال ادھیڑنے اور لوٹنے میں مصروف ہیں

محکمہ صحت میں موجود بھیڑیا نما ڈاکٹروں کا خاتمہ کیا جائے. (فوٹو: فائل)

کمرے میں گہری خاموشی کا راج تھا، وقت جیسے ٹھہر گیا تھا۔ زندگی کا یہ رخ میرے لیے نیا تھا۔ مجھے لگا کہ میں اب تک مشکل کے مفہوم سے ناآشنا تھا۔ ہم تو ڈیوٹی پر آنے والی مشکلات کو ہی مشکل سمجھتے تھے، ہمارے نزدیک تو غربت، بھوک، افلاس اور مہنگائی ہی بڑے مسائل تھے، لیکن اس دن احساس ہوا کہ مسئلہ کیا ہوتا ہے۔ اور پھر اس گہری خاموشی کو اسپتال کے ڈاکٹر کی آواز نے توڑا۔ ''آپ کے پاس وقت کم ہے، اپنی فیملی سے مشورہ کرکے فیصلہ کرلیجئے کہ آپ کو اپنے والد صاحب کے گردے واش کروانے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ گردے واش کروانے میں بھی خطرہ ہے اور نہ کروانے میں اس سے بھی زیادہ خطرہ ہے۔''

''یہ عمل کب تک مکمل ہوجائے گا؟''

''ہم ابھی 8 بجے تک شروع کریں گے اور صبح تین بجے تک مکمل ہوگا۔''

''اس کے بعد ہم گھر جاسکیں گے؟''

''جی ہاں صبح دوسرے ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے کے بعد کل دوپہر تک آپ گھر جاسکیں گے۔''

کچھ دیر بعد ہونے والی دوسری ملاقات، جس میں ہم نیم رضامند ہوچکے تھے، ڈاکٹر کے بیان نے مجھے چونکنے پر مجبور کردیا کیونکہ وہ اپنے بیان سے یوٹرن لے چکا تھا اور اس کے بقول یہ عمل تین حصوں میں مکمل ہوگا، آج، کل اور اگلے ہفتے۔

ایک بار پھر مشوروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سے پہلے کہ ہم والد صاحب کے گردے واش کروانا شروع کرتے، میرا چھوٹا بھائی ایک دوسری مستند لیب کا بلڈ رزلٹ لے کر پہنچ گیا، جہاں سے ہم نے حفظ ماتقدم کے طور پر الگ سے ٹیسٹ کروائے تھے۔ جس اسپتال میں والد جہاں زیر علاج تھے اس کے صبح کے خون کے نتائج اور شام کے وقت لیے گئے ہمارے ٹیسٹ میں واضح فرق تھا، یہیں سے صورت حال تبدیل ہوگئی۔


ہم نے فیصلہ 12 گھنٹے تک موخر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ براہِ کرم دوائیں تبدیل کریں کیونکہ خون کے نمونے کے نتائج سے ظاہر ہورہا تھا کہ بہتری آرہی ہے۔ دوائیں موجودہ صورتحال کے مطابق تبدیل ہوئیں۔ اگلی صبح تک اللہ کے فضل وکرم سے مزید بہتری آئی اور دو دن کے بعد ہم والد صاحب کے گردے واش کروائے بغیر گھر پہنچ گئے۔

اس مشکل کی گھڑی نے جہاں بہت کچھ سکھایا، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے شعبہ طب میں کرپشن کی بھرمار ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں معلوم ہوا کہ گردے واش کروانے کے دوران اسپتال والے بے تحاشا دوائیں منگواتے ہیں جن میں سے اکثر چور دروازے سے ری سیل کردی جاتی ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر کی بات پر یقین کرکے فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے طور پر بلڈ سیمپل لے کر کسی دوسری لیب سے ٹیسٹ کروا لیں، کیونکہ عین ممکن ہے ڈاکٹر اسپتال کی کاروباری پالیسی یا اپنی نااہلی کی وجہ سے آپ کو موت کا راستہ دکھانے پر مجبور ہو۔

ایک رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں 80 ہزار سے زائد جعلی ڈاکٹر یا اتائی موجود ہیں۔ گردے ایک بار واش ہوجائیں تو پھر ہوتے رہتے ہیں، یہاں تک مریض دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طبی شعبہ سرکار کی عدم توجہ کی بدولت کاروبار کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت بجٹ کی کمی سے انتہائی ناگفتہ بہ ہے، جس کی وجہ سے نجی شعبے کا راج ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت میں صحت کے بجٹ پر صفر اعشاریہ پانچ سے ایک فیصد تک خرچ کیا جاتا ہے جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق شعبہ صحت پر جی ڈی پی کا کم از کم 6 فیصد خرچ ہونا چاہیے۔ عالمی درجہ بندی میں ہم 195 ممالک میں 154 ویں نمبر پر کھڑے نظر آتے ہیں یعنی انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھوٹان بھی ہم سے آگے ہیں۔

ایک جائزے کے مطابق ہمارے ہاں پیدا ہونے والے 1000 بچوں میں سے 88 بچے ماں کے پیٹ میں ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق سالانہ 216000 بچے پیدائش کے پہلے ماہ ہی اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ سرکاری شعبہ صحت کی انتہائی ناگفتہ بہ حالت کی بدولت ساتویں ایٹمی طاقت کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں لوگوں کو اپنی جیب سے علاج خریدنے کےلیے بھاری رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں۔ یہ صورت حال من حیث القوم ہمارے لیے شرمندگی کا باعث ہے کیونکہ ایسا صرف افریقی ممالک میں ہی ہوتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت شعبہ صحت میں بہتری لاتے ہوئے صحت کی ایمرجنسی نافذ کرے۔ صحت کا بجٹ عالمی ادارہ صحت کی تجویز کے مطابق 6 فیصد تک کیا جائے۔ محکمہ صحت میں موجود کالی بھیڑوں کا خاتمہ کیا جائے۔ جعلی ادویہ، کرپٹ نجی اسپتالوں کے خلاف سخت اقدامات کرتے ہوئے اس شعبے کو کرپشن سے پاک کیا جائے۔

آخر میں عوام سے بھی گزارش ہے کہ ڈاکٹرز کی بات کو آسمانی صحیفہ نہ سمجھیں۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے کسی سمجھدار سے مشورہ ضرور کرلیں۔ اور بڑا فیصلہ جیسے گردے واش کروانے سے پہلے اللہ سے مشورہ یعنی استخارہ، دوسری لیب سے بلڈ ٹیسٹ اور ڈاکٹر سے مشورہ اور دیگر ضروری اقدامات ضرور کرلیں۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ آپ بھی مسیحا کے روپ میں کسی لٹیرے کے ہاتھ چڑھ جائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story