کراچی مسیحا کا منتظر

چند سال میں کراچی کا حلیہ بگاڑ کر رکھنے والے آج کراچی کو سنوارنے کی بات کررہے ہیں

کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کب ختم ہوگا؟ (فوٹو: فائل)

نئے ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے چارج سنبھال لیا ہے۔ جمعہ کو ان کا آفس میں پہلا دن تھا۔ وقت پردفتر پہنچے اور فوری ایک اجلاس طلب کرلیا۔ جس میں خبروں کے مطابق سب سے پہلے کراچی کے شہریوں کےلیے عذاب بنے ہوئے پارکنگ مافیا سے متعلق احکامات جاری کیے اور کہا کہ فوری طور پر کراچی کے تمام پارکنگ کے ٹھیکے ختم کردیے جائیں اور جب تک نئے ٹھیکے الاٹ نہیں ہوتے تب تک کسی شہری سے پارکنگ فیس وصول نہ کی جائے۔ دوسرا فیصلہ کراچی کی سڑکوں کی استرکاری اور گرین بیلٹ کا تھا۔ نرسریوں سے پھول اور پودے لے کر سڑکوں کے کناروں پر لگائے جائیں تاکہ شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہو۔

کچھ نہ کرنے سے کچھ کرلینا بہتر ہے۔ کراچی کے زخموں کا علاج اس سے ممکن تو نہیں، مگر اس سے کراچی کے زخموں کو کچھ راحت ضرور ملے گی۔ نئے ایڈمنسٹریٹر کراچی، شہر قائد کےلیے مسیحا بن کر آئے ہیں یا پھر کراچی کو مزید زخم دینے, یہ فیصلہ وقت پر چھوڑتے ہیں۔ مگر آتے ہی جو انٹری دی ہے اس سے لگتا ہے کہ شاید کراچی کے زخموں کا علاج نہ سہی مگر کچھ مرہم پٹی کرکے کراچی کے شہریوں کو ٹھنڈک ضرور پہنچائی جائے گی۔

کراچی کو جس بے دردی سے نوچ نوچ کر کھایا گیا اور سیاسی اشرافیہ نے جس طرح اپنے محل بنائے، اس کا حساب کوئی بھی دینے کو تیار نہیں۔ عدلیہ کے سوموٹو ایکشن آج بھی سرکار کی ردی کی ٹوکریوں میں پڑے ہیں، جن پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ چائنا کٹنگ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات پر شروع کیا جانے والا آپریشن آج کمائی کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف دیے گئے فیصلے پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ کراچی کی حلقہ بندیوں کو اپنی مرضی سے تتر بتر کردیا گیا، مگر کسی نے ایکشن نہیں لیا۔ کراچی کے لوگوں کو آج بھی پینے کا پانی میسر نہیں، خرید کر پیا جانے والا پانی ہمارا ہی ہے جو غیر مقامی لوگوں کے قبضے میں دیا ہوا ہے اور وہ ہمیں اپنی مرضی کے مطابق فروخت کرتے ہیں۔

دنیا چاند سے آگے کی بات کررہی ہے، روز نت نئی ٹیکنالوجیز ہمارا منہ چڑا رہی ہیں، مگر ہم کراچی والے آج بھی چندہ کرکے سیوریج لائنیں ڈلواتے ہیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت گلیوں کی صفائی کرتے ہیں، گراؤنڈ صاف کرواتے ہیں تاکہ ہمارے بچے کھیل سکیں۔ واٹر بورڈ کے افسران اپنی روزی روٹی میں جتے رہتے ہیں جنہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ باہر کیا ہورہا ہے، انہیں صرف اپنی ذات سے مطلب ہے۔ دنیا تیز ترین سواریوں میں جتی ہوئی ہے، روز کسی نہ کسی ملک سے تیز ترین سواریوں کی خبریں سامنے آتی ہیں، جب کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے تیسرے بڑے شہر کی جان آج بھی چنگ چی اور غیر معیاری لوکل مزدا کوچز ہیں۔ رکشوں کی بھرمار اتنی ہے کہ سڑکوں پر چلنا دوبھر ہوگیا ہے۔ مگر پھر بھی کراچی چل رہا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا آج تک کوئی نظام وضع نہیں ہوسکا۔ غیرمقامی لوگوں کے ہاتھوں کراچی کو روزانہ ذلیل کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی کراچی آنکھوں میں آنسوں لیے جی رہا ہے۔

ہمارے لوگوں کو اپاہج بناکر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ امداد مل سکے۔ اور جب امداد مل جاتی ہے تو پھر وہ کہیں اور جاکر خرچ کی جاتی ہے لیکن پھر بھی کراچی خاموش ہے۔ کراچی کےلیے مختلف دسترخوان سجائے جاتے ہیں جہاں سے عزت دار خاندان جاکر اپنے پیٹ کے دوزخ کی آگ بجھاتا ہے، لیکن سرکار وہاں بھی پہنچ جاتی ہے اور اس میں بھی اپنا حصہ تلاش کرلیتی ہے۔


ہمیں اندھیروں کی نذر کرکے اجالوں کی تلاش کرنے والے سیاستدان شاید یہ بھول رہے ہیں کہ کراچی بھی اپنے منہ میں زبان رکھتا ہے، جو بدقسمتی سے آج کل خاموش ہے۔ ہمارے بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں کے حوالے کردیا گیا ہے، اور سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہیں ہماری جیبوں سے نکالی جارہی ہیں۔ کراچی یہ سب بھی دیکھ رہا ہے، مگر اس نے بھائی چارگی کی خاطر اپنے لب سی رکھے ہیں۔

''ہم کراچی کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں'' یہ ڈائیلاگ کراچی روزانہ سنتا ہے اور اب اس کے دماغ کے رگیں پھٹنے کو آتی ہیں۔ پھلتا پھولتا دیکھنے والے ہی کراچی کو نوچ نوچ کر کھا گئے ہیں اوریہ ہی آج کراچی کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں۔ کراچی نے سب کو باری باری موقع دیا کہ آؤ مجھے سنبھال لو، میں گر رہا ہوں، میں مر رہا ہوں، میرے زخم ناسور ہوتے جارہے ہیں۔ مگر اس کی آواز پر کسی نے کان نہیں دھرے۔ سب نے اپنے اپنے حصے کی باریاں لیں اور چلتے بنے۔ کراچی کا کسی نے نہیں سوچا۔ کراچی کے لوگوں کو دیوار سے لگا کر انہیں بھکاری بنادیا گیا۔ اس شہر کے پڑھے لکھے نوجوان آج بھی رائیڈر بنے ہوئے ہیں، ٹھیلا لگا رہے ہیں۔ یہ نوجوان جن کے ہاتھوں میں کراچی کی باگ ڈور ہونی چاہیے تھی، وہ آج پرائیوٹ اداروں میں پیون کی نوکریاں کرکے ان پڑھ لوگوں کی ٹیبلیں صاف کررہے ہیں اور غیرمقامی افراد اس شہر کے اَن داتا بنے پھر رہے ہیں۔

کراچی کے اجڑنے کی داستان اتنی طویل نہیں جتنی بنادی گئی۔ چند سال میں کراچی کا حلیہ بگاڑ کر رکھنے والے آج کراچی کو سنوارنے کی بات کررہے ہیں۔ دنیا کے بڑے شہروں کی فہرست میں شامل کراچی کو غلاظت سے بھردیا گیا۔ اس شہر کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ دنیا گواہ ہے جب جب پاکستان کے کسی بھی حصے میں کوئی مصیبت آئی تو سب سے پہلے کراچی ہی مدد کے لیے آگے آیا۔ آج بھی کراچی سب سے زیادہ فنڈ دینے والا شہر ہے لیکن اس کے باوجود کراچی کو کرچی کرچی کیا گیا۔ کراچی کی صرف ایک مارکیٹ آج ٹیکس دینا بند کردے تو پورے ملک کا نظام جام ہوسکتا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ اگر پورا کراچی ٹیکس دینا بند کردے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟

کراچی کو تعلیم چاہیے، کراچی کو پینے کا صاف پانی چاہیے، کراچی کو بہتر سڑکیں چاہئیں، کراچی کو ٹرانسپورٹ کا ایک معقول نظام چاہیے۔ کراچی آپ سے زیادہ کچھ نہیں مانگتا۔ کراچی اپنے لوگوں کےلیے بہتر روزگار چاہتا ہے۔ کراچی پاکستان کا مستقبل ہے، اسے سرراہ رسوا کرنے کے بجائے اسے اس کا حق دو۔ کراچی چاہتا ہے کہ دنیا بھر سے لوگ اسے دیکھنے آئیں، اس کی خوبصورتی پر کتابیں لکھیں۔ کراچی چاہتا ہے کہ اسے اندھیروں سے نکال کر اجالوں کی طرف لایا جائے، کراچی چاہتا ہے اسے غیرمقامی اور غیر ملکیوں کے ہاتھوں رسوا نہ کیا جائے۔ کراچی چاہتا ہے اس پر حکمرانی کرنے والا کراچی سے ہو، جو اس کا دکھ درد سمجھ سکے۔ کراچی چاہتا ہے کہ یہاں قانون نافذ کرنے والے اس کے اپنے ہوں تاکہ فوری انصاف میسر ہوسکے۔ یہ سب کراچی کا حق ہے جو اسے ملنا چاہیے۔

کراچی زیادہ کچھ نہیں مانگ رہا، بلکہ وہ مانگ رہا ہے جو دیگر شہروں کو اول روز سے میسر ہے۔ تو پھر اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کب ختم ہوگا؟ کراچی امید کرتا ہے کہ نیا ایڈمنسٹریٹر اس کے دکھ درد سمجھتے ہوئے اس کے زخم بھرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story