بلاول بھٹو کو دورہ پنجاب سے قبل دھمکی آمیز خط
بلاول بھٹو زرداری عام شخصیت نہیں، وہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں ۔۔۔
FAISALABAD:
گزشتہ دنوں میں پنجاب کی حد تک دو اہم واقعات سامنے آئے، ان میں ایک ایکسپریس نیوز چینل کے اینکر پرسن رضارومی پر قاتلانہ حملہ ہے جس میں وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے تاہم ان کا ڈرائیور شہید اور ایک گارڈ زخمی ہوا۔
دوسرا واقعہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو دھمکی آمیز خط کا موصول ہونا ہے۔ اس خط کا ذکر بلاول بھٹونے ٹویٹر پر کیا، اسے انتہائی سنیجیدگی سے لیاجانا ضروری ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی لیڈر شپ نے اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ن لیگی رہنماؤں کے بیانات اس امر کا ثبوت ہیں کہ وہ اس انتہائی سنجیدہ واقعے کو ہنسی مذاق میں اڑانا چاہتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری عام شخصیت نہیں ہیں، وہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور انہیں لاحق خطرات بھی خیالی یا غیر سنجیدہ نہیں بلکہ حقیقی ہیں ۔ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی میں دہشت گردی کا شکار ہو چکی ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے اہم رہنماء شہباز بھٹی بھی دہشت گردی کا شکار ہوئے اور سانحہ کار ساز میں پیپلزپارٹی کے 150 کے قریب کارکن ہلاک ہوئے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹے پنجاب سے اغواء ہوئے ۔
یوں دیکھا جائے تو بلاول بھٹو ہی نہیں پیپلزپارٹی کی دوسری قیادت کو بھی خطرات لاحق ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری کو سب سے زیادہ خطرات درپیش ہیں، اس لئے ان کی بات کو بہت غور اور توجہ سے لیا جانا چاہئے۔ بلاول بھٹو لاہور آنے کا عندیہ دے چکے ہیں ۔ پنجاب پیپلزپارٹی کیلئے کبھی بھی آسان محاذ نہیں رہا، پنجاب میں پیپلزپارٹی کے کئی لیڈر قتل ہوئے ہیں۔ عدلیہ بحالی تحریک کے دوران پیپلزپارٹی کے کیمپ پر حملہ ہوا جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں ۔ اب اگر بلاول بھٹو زرداری لاہور آنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی سیاسی مجبوری ہے، انہیں پورے پاکستان کا لیڈر بننے کے لیے لاہور اور پنجاب میں ہر صورت آنا ہے، لاہور آمد پر انہیں لازمی طور پر غیر معمولی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہوگی جو لا محالہ حکومت پنجاب کی ہی ذمہ داری بنتی ہے۔
ایسا ممکن نہیں ہے کہ بلاول بھٹو لاہور نہ آئیں کیونکہ پیپلزپارٹی نے پنجاب میں کسی نہ کسی طرح اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کرنی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور حکومت پنجاب کو بھی اس کا لازمی ادراک ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پنجاب حکومت بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزپارٹی کی دوسری قیادت کو حقیقی سکیورٹی فراہم کرنے کیلئے سنجیدہ ہے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جو کچھ ہوا اس تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پنجاب میں سکیورٹی ایجنسیوں کے کرتا دھرتا پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کی حفاظت کیلئے اتنے متحرک اور سنجیدہ نہیں ہوتے جتنے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے ہوتے ہیں۔
پنجاب کی صورتحال کے بارے میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہاں انتہا پسندی موجود نہیں یا یہاں کوئی انتہا پسند تنظیم سرگرم عمل نہیں ہے تو یہ حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ راقم سمیت تقریباً ہر مکتبۂ فکر کے صحافیوں اور دانشوروں نے اس کی حمایت کی ہے، کسی نے تحفظات کا اظہار کیا بھی ہے تو یہ لازمی کہا ہے کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے امن قائم ہو سکتا ہے تو اس آپشن کو ہی استعمال کرنا چاہئے۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان میں بہت سے بے نام گروپ بھی کام کر رہے جن کا شاید طالبا ن کو بھی علم نہیں ہے کیونکہ وہ کئی واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔ لاہور میں رضا رومی پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری کسی تنظیم، گروہ یا فرد نے تاحال قبول نہیں کی، یہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
حکومتی ایجنسیاں بھی خاموش ہیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ حملہ آور کون تھے، یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ پولیس کی تحقیقات کس رخ پر ہو رہی ہیں، ہر چیز پراسراریت کے پردے میں لپٹی ہوئی ہے ۔ پنجاب میں انتہا پسندی کو محض دوسروں کا سیاسی پراپیگنڈاکہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا، پنجاب حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس انہتا پسندی سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہے تو انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر پیپلزپارٹی اور ملک کی دیگر لبرل سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، صحافیوں اور دانشوروں کی آواز خاموش ہوگئی تو پھر وہ بھی نہیں بچیں گے۔ مسلم لیگ(ن) ہو یا تحریک انصاف یہ اپنے اقدامات سے انتہا پسندوں کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں لیکن ان جماعتوں کی قیادت کا طرز زندگی سیکولر بنیادوں پر استوار ہے، اپنے اس تضاد کا انہیں جتنی جلدی ادراک ہو جائے اس ملک و قوم کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان میں اقلیتوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت آل پاکستان مینارٹیز الائنس نے ''اسلام اور اقلیتوں کے حقوق'' کے موضوع پر ایک قومی سیمینار کا اہتمام کیا۔ آل پاکستان مینیارٹیز الائنس کے سربراہ اور سابق انچارج وفاقی وزیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی ڈاکٹر پال بھٹی ، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف، امیر اہلسنت والجماعت مولانا محمداحمد لدھیانوی، ڈائریکٹر انسانی حقوق کمیشن پاکستان آئی اے رحمان، وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، بشپ عرفان جمیل، بشپ روفن انتھونی، چیئرمین پاکستان بیت المال بیرسٹر عابد وحید، خطیب بادشاہی مسجد لاہور مولانا عبدالخبیر آزاد، مولانا روح اللہ مدنی سمیت دیگر نے خطاب کیا۔ فرانس ، امریکہ، اٹلی، ویٹی کن، ناروے، یمن ، عمان، آسٹریلیا سمیت 15ممالک کے سفارتکار بھی اس سیمینار میں شریک ہوئے۔ اس پروگرام میں امیر اہلسنت والجماعت محمد احمد لدھیانوی کی شرکت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
وہ پہلی بار اس طرح کی کسی تقریب میں شریک ہوئے ہیںجس پر ڈاکٹر پال بھٹی نے خصوصی طور پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ مقررین نے دہشت گردی، فرقہ واریت کے خاتمہ اور پاکستان کو پرامن خوشحال ملک بنانے کیلئے بین المذاہب ہم آہنگی پر زور دیا ۔ ڈاکٹر پال بھٹی نے اس موقع پر ریلیجس کونسل بنانے کی تجویز دی۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف، امیر جماعت اہلسنت والجماعت مولانا محمد احمد لدھیانوی اور دیگر شرکاء نے اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ اس کونسل میں ایسی شخصیات کو شامل کیا جائے جنہیں نچلی سطح تک حمایت حاصل ہو، اس میں اقلیتوں کے نمائندے بھی ہوں۔ سردار یوسف اور مولانا محمد احمد لدھیانوی نے بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ڈاکٹر پال بھٹی کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے کہا کہ ہم اقلیتوں کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی ہوگی وہاں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار ہیں۔ ڈاکٹر پال بھٹی کا کہنا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خاتمے اور بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے پارٹی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی سیمینار کیا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں چودھری اعتزاز احسن اور جہانگیر بدر سمیت دیگر کو بھی مدعو کیا گیا تھا مگر وہ ذاتی مصروفیات کے باعث نہیں شریک نہیں ہوسکے ۔
ڈاکٹر پال بھٹی کچھ عرصے سے دھمکیوں اور دباؤ کے باعث بیرون مللک چلے گئے تھے۔ وہ گزشتہ دنوں پاکستان آئے اور ایک ہفتہ تک قیام کے بعد دوبارہ بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ بعض حکومتی شخصیات اور اداروں نے انہیں سکیورٹی فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اس دوران اچانک پھر ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ انہیں ملک ے باہر جانا پڑگیا۔ پاکستان میں اقلیتیں سمجھتی ہیں کہ ڈاکٹر پال بھٹی کے بیرون ملک چلے جانے سے ان کی نمائندگی متاثر ہوئی ہے اور وہ ڈاکٹر پال بھٹی کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر پال خود بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا ملک میں رہنا ضروری ہے ۔ پنجاب حکومت اور مسلم لیگ ن کو چاہئے کہ انتہا پسندی کا خاتمہ کریں کیونکہ اسی طرح پاکستان کو مہذب ملک بنایا جاسکتا ہے، حالیہ دنوں میں جہاں مایوس کرنے والے واقعات ہوئے ہیں وہاں اسلام اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قومی سیمینار امید کی کرن بھی ہے۔
گزشتہ دنوں میں پنجاب کی حد تک دو اہم واقعات سامنے آئے، ان میں ایک ایکسپریس نیوز چینل کے اینکر پرسن رضارومی پر قاتلانہ حملہ ہے جس میں وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے تاہم ان کا ڈرائیور شہید اور ایک گارڈ زخمی ہوا۔
دوسرا واقعہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو دھمکی آمیز خط کا موصول ہونا ہے۔ اس خط کا ذکر بلاول بھٹونے ٹویٹر پر کیا، اسے انتہائی سنیجیدگی سے لیاجانا ضروری ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی لیڈر شپ نے اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ن لیگی رہنماؤں کے بیانات اس امر کا ثبوت ہیں کہ وہ اس انتہائی سنجیدہ واقعے کو ہنسی مذاق میں اڑانا چاہتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری عام شخصیت نہیں ہیں، وہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور انہیں لاحق خطرات بھی خیالی یا غیر سنجیدہ نہیں بلکہ حقیقی ہیں ۔ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی میں دہشت گردی کا شکار ہو چکی ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے اہم رہنماء شہباز بھٹی بھی دہشت گردی کا شکار ہوئے اور سانحہ کار ساز میں پیپلزپارٹی کے 150 کے قریب کارکن ہلاک ہوئے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹے پنجاب سے اغواء ہوئے ۔
یوں دیکھا جائے تو بلاول بھٹو ہی نہیں پیپلزپارٹی کی دوسری قیادت کو بھی خطرات لاحق ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری کو سب سے زیادہ خطرات درپیش ہیں، اس لئے ان کی بات کو بہت غور اور توجہ سے لیا جانا چاہئے۔ بلاول بھٹو لاہور آنے کا عندیہ دے چکے ہیں ۔ پنجاب پیپلزپارٹی کیلئے کبھی بھی آسان محاذ نہیں رہا، پنجاب میں پیپلزپارٹی کے کئی لیڈر قتل ہوئے ہیں۔ عدلیہ بحالی تحریک کے دوران پیپلزپارٹی کے کیمپ پر حملہ ہوا جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں ۔ اب اگر بلاول بھٹو زرداری لاہور آنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی سیاسی مجبوری ہے، انہیں پورے پاکستان کا لیڈر بننے کے لیے لاہور اور پنجاب میں ہر صورت آنا ہے، لاہور آمد پر انہیں لازمی طور پر غیر معمولی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہوگی جو لا محالہ حکومت پنجاب کی ہی ذمہ داری بنتی ہے۔
ایسا ممکن نہیں ہے کہ بلاول بھٹو لاہور نہ آئیں کیونکہ پیپلزپارٹی نے پنجاب میں کسی نہ کسی طرح اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کرنی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور حکومت پنجاب کو بھی اس کا لازمی ادراک ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پنجاب حکومت بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزپارٹی کی دوسری قیادت کو حقیقی سکیورٹی فراہم کرنے کیلئے سنجیدہ ہے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جو کچھ ہوا اس تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پنجاب میں سکیورٹی ایجنسیوں کے کرتا دھرتا پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کی حفاظت کیلئے اتنے متحرک اور سنجیدہ نہیں ہوتے جتنے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے ہوتے ہیں۔
پنجاب کی صورتحال کے بارے میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہاں انتہا پسندی موجود نہیں یا یہاں کوئی انتہا پسند تنظیم سرگرم عمل نہیں ہے تو یہ حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ راقم سمیت تقریباً ہر مکتبۂ فکر کے صحافیوں اور دانشوروں نے اس کی حمایت کی ہے، کسی نے تحفظات کا اظہار کیا بھی ہے تو یہ لازمی کہا ہے کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے امن قائم ہو سکتا ہے تو اس آپشن کو ہی استعمال کرنا چاہئے۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان میں بہت سے بے نام گروپ بھی کام کر رہے جن کا شاید طالبا ن کو بھی علم نہیں ہے کیونکہ وہ کئی واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔ لاہور میں رضا رومی پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری کسی تنظیم، گروہ یا فرد نے تاحال قبول نہیں کی، یہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
حکومتی ایجنسیاں بھی خاموش ہیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ حملہ آور کون تھے، یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ پولیس کی تحقیقات کس رخ پر ہو رہی ہیں، ہر چیز پراسراریت کے پردے میں لپٹی ہوئی ہے ۔ پنجاب میں انتہا پسندی کو محض دوسروں کا سیاسی پراپیگنڈاکہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا، پنجاب حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس انہتا پسندی سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہے تو انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر پیپلزپارٹی اور ملک کی دیگر لبرل سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، صحافیوں اور دانشوروں کی آواز خاموش ہوگئی تو پھر وہ بھی نہیں بچیں گے۔ مسلم لیگ(ن) ہو یا تحریک انصاف یہ اپنے اقدامات سے انتہا پسندوں کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں لیکن ان جماعتوں کی قیادت کا طرز زندگی سیکولر بنیادوں پر استوار ہے، اپنے اس تضاد کا انہیں جتنی جلدی ادراک ہو جائے اس ملک و قوم کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان میں اقلیتوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت آل پاکستان مینارٹیز الائنس نے ''اسلام اور اقلیتوں کے حقوق'' کے موضوع پر ایک قومی سیمینار کا اہتمام کیا۔ آل پاکستان مینیارٹیز الائنس کے سربراہ اور سابق انچارج وفاقی وزیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی ڈاکٹر پال بھٹی ، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف، امیر اہلسنت والجماعت مولانا محمداحمد لدھیانوی، ڈائریکٹر انسانی حقوق کمیشن پاکستان آئی اے رحمان، وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، بشپ عرفان جمیل، بشپ روفن انتھونی، چیئرمین پاکستان بیت المال بیرسٹر عابد وحید، خطیب بادشاہی مسجد لاہور مولانا عبدالخبیر آزاد، مولانا روح اللہ مدنی سمیت دیگر نے خطاب کیا۔ فرانس ، امریکہ، اٹلی، ویٹی کن، ناروے، یمن ، عمان، آسٹریلیا سمیت 15ممالک کے سفارتکار بھی اس سیمینار میں شریک ہوئے۔ اس پروگرام میں امیر اہلسنت والجماعت محمد احمد لدھیانوی کی شرکت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
وہ پہلی بار اس طرح کی کسی تقریب میں شریک ہوئے ہیںجس پر ڈاکٹر پال بھٹی نے خصوصی طور پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ مقررین نے دہشت گردی، فرقہ واریت کے خاتمہ اور پاکستان کو پرامن خوشحال ملک بنانے کیلئے بین المذاہب ہم آہنگی پر زور دیا ۔ ڈاکٹر پال بھٹی نے اس موقع پر ریلیجس کونسل بنانے کی تجویز دی۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف، امیر جماعت اہلسنت والجماعت مولانا محمد احمد لدھیانوی اور دیگر شرکاء نے اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ اس کونسل میں ایسی شخصیات کو شامل کیا جائے جنہیں نچلی سطح تک حمایت حاصل ہو، اس میں اقلیتوں کے نمائندے بھی ہوں۔ سردار یوسف اور مولانا محمد احمد لدھیانوی نے بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ڈاکٹر پال بھٹی کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے کہا کہ ہم اقلیتوں کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی ہوگی وہاں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار ہیں۔ ڈاکٹر پال بھٹی کا کہنا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خاتمے اور بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے پارٹی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی سیمینار کیا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں چودھری اعتزاز احسن اور جہانگیر بدر سمیت دیگر کو بھی مدعو کیا گیا تھا مگر وہ ذاتی مصروفیات کے باعث نہیں شریک نہیں ہوسکے ۔
ڈاکٹر پال بھٹی کچھ عرصے سے دھمکیوں اور دباؤ کے باعث بیرون مللک چلے گئے تھے۔ وہ گزشتہ دنوں پاکستان آئے اور ایک ہفتہ تک قیام کے بعد دوبارہ بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ بعض حکومتی شخصیات اور اداروں نے انہیں سکیورٹی فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اس دوران اچانک پھر ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ انہیں ملک ے باہر جانا پڑگیا۔ پاکستان میں اقلیتیں سمجھتی ہیں کہ ڈاکٹر پال بھٹی کے بیرون ملک چلے جانے سے ان کی نمائندگی متاثر ہوئی ہے اور وہ ڈاکٹر پال بھٹی کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر پال خود بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا ملک میں رہنا ضروری ہے ۔ پنجاب حکومت اور مسلم لیگ ن کو چاہئے کہ انتہا پسندی کا خاتمہ کریں کیونکہ اسی طرح پاکستان کو مہذب ملک بنایا جاسکتا ہے، حالیہ دنوں میں جہاں مایوس کرنے والے واقعات ہوئے ہیں وہاں اسلام اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قومی سیمینار امید کی کرن بھی ہے۔