حکومت مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے گی

ہربارآمروں اوران کے حواریوں کو بھاگنے کا راستہ فراہم کیا جاتا رہا ...

پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر پہلے بھی عدالتی احکامات کے نتیجے میں ڈالا گیا. فوٹو : این این آئی/فائل

کہنے کو پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ادوار سے کئی بار گزرا مگر 31 مارچ 2014ء کی دوپہر سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویزمشرف پر خصوصی عدالت نے غداری کیس میں فردِ جرم عائد کی تو وہ لمحہ پاکستان کی تاریخ کا اس اعتبار سے اہم ترین اور یادگار رہے گا کہ اس سے پہلے ہمارے ہاں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیاستدانوں اور پارلیمانی حکومتوں کی اپنی غلطیوں، نااہلیوں اور کوتاہیوں کے باعث آمروں نے متعدد بار عوام کی منتخب حکومتوں پر شب خون مارا اور پھر اس وقت تک بلاشرکتِ غیرے اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے جب تک سادہ لوح عوام خوابِ غفلت کی نیند سے دوبارہ جاگ نہ اٹھے۔

ہر بار آمروں اور ان کے حواریوں کو بھاگنے کا راستہ بھی فراہم کیا جاتا رہا۔ مگر اب کی بار تاریخ نے حالات، واقعات اور ان سے متعلق کرداروں کی مجبوریوں کو یوں باہم الجھا دیا ہے کہ کسی کے پاس اپنے ''اصولی'' موقف سے پیچھے ہٹنے، بھاگنے یا بچ جانے کے زیادہ آپشنز موجود نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے بارے میں اگر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کی گئی زیادتی کبھی نہیں بھولتے اور بات دل میں رکھتے ہیں تو پرویز مشرف کئی بار اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ میں ڈرتا ورتا نہیں۔ مملکتِ پاکستان کے اہم ترین اور حساس فیصلوں پر اثرانداز ہونے والی قوتیں بھی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور نئے اور پرانے دو طرفہ ذاتی احسانات کے بوجھ تلے دبی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہیں۔ ہماری ملکی سیاست کا ہر کردار اپنی اپنی دنیا اور اس میں پیدا شدہ مجبوریوں کا ازلی اسیر معلوم ہوتا ہے۔ اس کی ایک ہلکی سی جھلک گزشتہ شام پارلیمنٹ ہاؤس میں جاری قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت نظر آئی جب پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی سابق آرمی چیف پرویز مشرف پر عائد کی گئی فرد جرم کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے اگلے پچھلے تمام شکوے برابر کرنے کے موڈ میں نظر آئے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ایوان میں عدم موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کھل کر اظہار خیال کیا۔ خواجہ سعد رفیق نے بھی موقع غنیمت جانا۔ ہمارے وزیر اطلاعات پرویز رشید اور ان دنوں تحریک انصاف میں استراحت فرمانے والے جاوید ہاشمی نے حسبِ منشاء اپنا حصہ ڈالا۔ عین اسی وقت وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مشاورت میں مصروف تھے۔ خصوصی عدالت نے سابق آمر کے خلاف فرد جرم عائد کرکے پاکستان کی تاریخ میں اپنا نام امر کر دیا مگر اس آمر کو بیرون ملک جانے کے لیے اجازت کا معاملہ آیا تو انہوں نے بال حکومتی کورٹ میں پھینک دی۔

اب حکومتی سیانے سر جوڑے بیٹھے ہیں البتہ اب تک سامنے آنے والا ان کا موقف بڑا واضح ہے کہ پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر پہلے بھی عدالتی احکامات کے نتیجے میں ڈالا گیا اب بھی عدالت کہے گی تو ان کا نام ای سی ایل سے نکال کر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ وفاقی حکومت نے اب تک عدالتی معاملات میں غیر جانبدار رہنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور توقع کی جانی چاہیے کہ وہ آئندہ بھی اس پر کاربند رہیں گے، البتہ عدالتی معاملات پر اثرانداز ہونے والے میڈیا اور دیگر ذمہ داران سے تو پوچھ گچھ ہونی چاہیے مثلاً انٹرنیشنل کمیشن آف جیوریٹس ایشیا کے ڈائریکٹر سام ظریفی سے ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ خصوصی عدالت جو چاہے فیصلہ کرے، سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو بری کرے، عمر قید کی سزا سنائے یا سزائے موت یہ تو عدالت ہی بہتر جانتی ہے کہ سابق آرمی چیف آئین سے غداری کے کس سنگین حد تک مرتکب ہوئے ہیں یا ہوئے ہی نہیں۔ یہ سام ظریفی کس حیثیت میں پاکستان کی آزاد، خود مختار عدلیہ کو ڈکٹیشن دے رہے ہیں کہ پرویز مشرف کو سزائے موت نہیں عمر قید دی جائے۔ خصوصی عدالت کی گزشتہ روز کی کارروائی کے دوران یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے جذباتی وکلاء کی ٹیم کی کارکردگی پر غیر اعلانیہ عدم اعتماد کرتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم کو اپنا وکیل مقرر کر دیا ہے۔




وزیراعظم محمد نواز شریف طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے بھی اہم ترین فیصلے کرنے والے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے امن کی ان کی ذاتی خواہش سنجیدگی کے انتہائی اہم مرحلے کو پہنچ چکی ہے، اب انہیں عسکری قیادت کے ساتھ حتمی مشورہ کرتے ہوئے طالبان کی جانب سے فراہم کی گئی عسکری و غیر عسکری قیدیوں کی فہرست میں سے یہ اہم فیصلہ کرنا ہے کہ کسے رہا کرنا ہے اور کسے رہا نہیں کرنا۔ عام تاثر یہی ہے کہ اگر بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھایا جانا مقصود ہے تو پھر کم از کم غیر عسکری قیدیوں کو تو رہائی دینا ہو گی مگر پہل طالبان کو ہی کرنا ہو گی کیونکہ انہوں نے پروفیسر اجمل جیسے نامور اساتذہ کو اغواء کرکے یہ تاثر دے رکھا ہے کہ ان کے خلاف کوئی ہتھیار اٹھائے یا نہ اٹھائے محض معاشرے کا اہم فرد ہی ہونا کافی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کو امن مذاکرات کا سلسلہ بلاجھجھک آگے بڑھانا چاہیے مگر میڈیا ورکرز اور اداروں پر ہونے والے حملوں کا بھی نوٹس لینا چاہیے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ جیسے انتہائی غیر جانبدار اور متوازن ادارتی پالیسی کے حامل ادارے پر مختصر سے عرصہ میں دہشت گردی کے پانچ حملے اور نہیں تو حکومتی نااہلی کا پردہ چاک ضرور کر رہے ہیں۔ ایکسپریس میڈیا گروپ کے کراچی آفس پر حملے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات پر مشتمل اعلیٰ اختیاراتی دو رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی مگر اس کمیٹی نے توقع کے برعکس کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی۔ البتہ امن کے دشمن اپنے ناپاک عزائم پر عملدرآمد کے حوالے سے مسلسل مصروف ہیں۔ ملک بھر کے صحافی اور صحافتی تنظیموں کے قائدین حکومتی بے حسی کے باعث اب مجبور ہو چکے ہیں کہ وہ حکومتی غیر سنجیدگی کے جواب میں انتہائی سنجیدگی سے ملک بھر کے صحافیوں کی جانب سے قلم چھوڑ یا کام چھوڑ ہڑتال کا اعلان کریں کہ ہم یوں ہر آئے روز اپنے ساتھیوں کو کھونے اور ان کے خون کے دھبے دھونے کا غم برداشت نہیں کر سکتے۔

وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ روز تمام صوبوں کے وزیراعلیٰ کو ایک خط لکھا ہے جس میں بجا طور پر کہا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری کا فائدہ عوام تک ضرور پہنچنا چاہیے۔ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ کرایوں میں کمی اور نقل و حرکت کے اخراجات کم ہونے سے اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کمی یقینی بنائی جائے۔ ہماری وزیراعظم نواز شریف سے درخواست ہو گی کہ وہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے یہ بھی استفسار کریں کہ وہ پٹرول اور ڈیزل کی درآمد کیا علیحدہ علیحدہ قسم کے ڈالروں سے کرتے ہیں کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ایک شرح سے بڑھی اسی شرح سے پٹرول اور ڈیزل کی درآمدی قیمت بھی کم ہوئی ہو گی پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے یہ شرح مختلف کیوں ہو جاتی ہے کہ پٹرول جو عام آدمی کی گاڑی میں استعمال ہوتا ہے اس کی قیمت میں تو محض ایک روپے 72 پیسے فی لٹر کمی کی جائے اور ڈیزل جس سے امیر آدمی کی لینڈ کروزر چلتی ہے اس کی قیمت میں پانچ روپے سولہ پیسے کمی کر دی گئی ہے۔ بہرحال وزیراعظم نواز شریف کا عام آدمی تک فائدہ پہنچانے کا وزرائے اعلیٰ کو دیا جانے والا مشورہ انتہائی خوش آئند ہے توقع کی جانی چاہیے کہ صوبائی حکومتیں اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گی۔
Load Next Story