بلوچستان کابینہ کا تمام اضلاع میں محکمانہ بھرتیوں کا فیصلہ
بلوچستان میں دو افراد کے مابین سود پر قرض دینا یا کاروبار کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا
بلوچستان کابینہ نے صوبے کے تمام علاقوں میں روزگار کو یقینی بنانے کے لئے مختلف محکموں میں بھرتیاں ضلع کی بنیاد پر پرُ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کابینہ نے یہ فیصلہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں کیا، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملازمتوں پر کوئی پابندی نہیں اور متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ گریڈ ایک سے 16تک جو آسامیاں پبلک سروس کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں ان پر بھرتی کے لیے متعلقہ محکموں کی اپنی کمیٹی تشکیل دی جائے اور ضلع کی بنیاد پر بھرتیاں کی جائیں تاکہ صوبہ کے مختلف اضلاع میں میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں ہوں اور عام لوگوں کو اپنے علاقے میں ملازمتوں کے حصول کے لیے بھی کوئٹہ کے چکر نہ کاٹنے پڑیں، انہوں نے محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کو ہدایت کی کہ وفاقی محکمہ خود مختار و نیم خودمختار اداروں میں ملازمتوں کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ساتھ رابطہ کر کے ان سے کہا جائے کہ ملازمتوں پر عائد پابندی کم از کم بلوچستان کے لیے فوری طور پر ختم کی جائے تاکہ صوبے میں تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو ان کی اہلیت کے مطابق برسرروزگار کیا جا سکے۔کابینہ نے مسافر بسوں پر پٹرول ، ڈیزل، گیس اوردیگر فوری آگ پکڑنے والی اشیاء لانے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا، اور اس حوالے سے پولیس اور لیویز حکام کو سختی سے ہدایات جاری کی ہیں کہ مسافر بسوں کو پٹرول لانے اور لے جانے سے روکنے کو یقینی بنایاجائے۔
کابینہ نے یہ فیصلہ حب کے قریب گزشتہ دنوں افسوسناک واقعے پر کیا جس میں مسافر بس کی چھت پر رکھے پٹرول کی وجہ سے حادثے کی صورت میں آگ بھڑک اٹھنے کے نتیجے میں عورتوں، بچوں سمیت بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھی۔ کابینہ کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ترقیاتی فنڈ کسی صورت ضائع نہیں کیا جائے گا اگر کسی بھی محکمے نے مختص کردہ رقم خرچ نہیں کی تو اس کی پوچھ گچھ کی جائے گی۔کابینہ کے اجلاس میں عیسائی برادری کے لئے دو رہائشی سکیموں کا بھی معاملہ زیر بحث آیا، اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ مذکورہ سکیموں میں سے ایک پر وفاقی اور صوبائی حکومت کی مشترکہ فنڈنگ سے 80فیصد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ دوسرے منصوبے پر صوبائی حکومت نے کام کیا ہے دونوں سکیموں کی تکمیل کے لئے پی ایس ڈی پی سے مزید فنڈ فراہم کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں دونوں اسکیموں کی تکمیل کے لئے متعلقہ وزیرکی سربراہی میں کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ کابینہ نے بلوچستان پرائیویٹ منی لینڈنگ بل کی بھی منظوری دی، جسے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس کے تحت بلوچستان میں دو افراد کے مابین سود پر قرض دینا یا کاروبار کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے ۔کابینہ دوہری شہریت سے متعلق مجوزہ آئینی ترمیم پر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ دوہری شہریت کا قانون برقرار رہنا چاہیے اور اس کا اطلاق ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ افسران اور ججوں پر بھی ہونا چاہیے، کابینہ نے بلوچستان کے سرکاری ریکارڈ اور قدیم تاریخی دستاویزات کو تحویل میں لینے اور دیکھ بھال کے بل کی بھی منظوری دی، نوادرات کو تحویل میں لینے اور دیکھ بھال کے لیے بورڈ بنانے کی بھی منظوری دی گئی، کابینہ نے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے مختلف جاری منصوبوں کی تکمیل اور مشینوں کے آلات کی خریداری کے لیے ضروری فنڈز کی فراہمی کی منظوری بھی دی ۔
کابینہ کا اجلاس اگلے روز بھی جاری رہا۔ کابینہ نے سرکاری ارکان پر زوردیا کہ وہ حکومتی پالیسی پر دیانتداری اورمستعدی کے ساتھ عمل کریں اورحکومت کے تمام ترقیاتی منصوبوں کی بروقت اورمعیار کے مطابق تکمیل کو یقینی بنایا جائے، ان منصوبوں پر عملدرآمد میں تاخیر یا رکاوٹ کے ذمہ دار حکام کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔کابینہ نے وفاقی پی ایس ڈی پی، ایم پی اے اسکیموں اور صوبائی پی ایس ڈی پی پر فنڈ کے اجراء اور کام کی رفتار کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ اجلاس میں وفاقی پی ایس ڈی پی کی اسکیموں کے لئے مختص کردہ فنڈ میں سے صرف25 فیصد رقم ملنے پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کا ایک وفد اسلام آباد جا کر اس مسئلے پر بھی بات کرے گا اور فنڈ کے اجراء کو یقینی بنایا جائے گا۔
سیاسی حلقوں نے بلوچستان کابینہ کے ان فیصلوں کو ایک مثبت اور خوش آئند اقدام قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل قریب میں اور آئندہ مالی سال کے بجٹ سے قبل ان مثبت فیصلوں کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ خصوصاً بجٹ سے قبل بلوچستان میں بیروزگار نوجوانوں کے لئے روزگار کی فراہمی کا فیصلہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اور عوام کو موجودہ سیاسی حکومت سے جو توقعات تھیں اس پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے ان مثبت اقدامات سے جہاں حکومت کو تقویت ملے گی وہاں عوامی سطح پر بھی حکومت میں شامل جماعتوں کو بھرپور پذیرائی ملے گی۔ بلوچستان حکومت کی جانب سے سپورٹس فیسٹیول کا انعقاد بھی ایک تاریخی اورامن وامان کی ناگفتہ بہ حالت میں موجودہ حکومت کیلئے ایک اہم پیشرفت تصور کیاجا رہا ہے، دوسری جانب بلوچستان اسمبلی کا موجودہ سیشن بھی اپنی آب وتاب کے ساتھ جاری وساری ہے جہاں پر مختلف قراردادوں کی منظوری کے علاوہ مختلف اہم موضوع پر بحث ومباحثہ کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں نصیرآباد کو (بی) ایریا میں شامل کرنے کی قرارداد بھی منظورکر لی ہے اس کے علاوہ کوئٹہ تھرمل پاورسٹیشن کو فعال بنانے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی لانے جیسی اہم قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کی گئیں جبکہ اس قرارداد پر عملدرآمد کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔
جبکہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے انتقامی کارروائیاں بند کرنے اور فنڈ نہ جاری کرنے پر نہ صرف واک آؤٹ کیا بلکہ احتجاج کرتے ہوئے اس بات کی دھمکی دی ہے کہ حکومت اپوزیشن کو اہمیت نہیں دے رہی اوراپوزیشن کی کسی تجویز کردہ سکیم پر غور نہیں کیا جا رہا اگر ان انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو عدالت سے رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں احتجاج کیا جائے گا۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومتی ارکان کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود ان کے حلقہ انتخاب کے فنڈ ریلیز نہیں کئے جا رہے۔ اپوزیشن جماعت اے این پی کے واحد رکن انجینئر زمرک خان اچکزئی نے اس حوالے سے اپنی آئینی درخواست عدالت میں دائر کردی ہے۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو بھی عوام نے منتخب کیا ہے جس طرح حزب اقتدار کے نمائندوں کو منتخب کیا ہے ۔ فنڈز کو روکنا اپوزیشن حلقوں کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے اس سے ان لوگوں کا کیا قصور ہے۔گزشتہ حکومت میں اپوزیشن نہیں تھی جس کی وجہ سے تمام علاقوں کے عوام کو ترقی کے یکساں مواقع ملے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق آج اگر حکومت اقتدار میں ہے تو کل اپوزیشن میں بھی ہو سکتی ہے اور ماضی میں بھی اپوزیشن کے فنڈز کو روکنے کی روایت نہیں ملتی۔
کابینہ نے یہ فیصلہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں کیا، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملازمتوں پر کوئی پابندی نہیں اور متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ گریڈ ایک سے 16تک جو آسامیاں پبلک سروس کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں ان پر بھرتی کے لیے متعلقہ محکموں کی اپنی کمیٹی تشکیل دی جائے اور ضلع کی بنیاد پر بھرتیاں کی جائیں تاکہ صوبہ کے مختلف اضلاع میں میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں ہوں اور عام لوگوں کو اپنے علاقے میں ملازمتوں کے حصول کے لیے بھی کوئٹہ کے چکر نہ کاٹنے پڑیں، انہوں نے محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کو ہدایت کی کہ وفاقی محکمہ خود مختار و نیم خودمختار اداروں میں ملازمتوں کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ساتھ رابطہ کر کے ان سے کہا جائے کہ ملازمتوں پر عائد پابندی کم از کم بلوچستان کے لیے فوری طور پر ختم کی جائے تاکہ صوبے میں تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو ان کی اہلیت کے مطابق برسرروزگار کیا جا سکے۔کابینہ نے مسافر بسوں پر پٹرول ، ڈیزل، گیس اوردیگر فوری آگ پکڑنے والی اشیاء لانے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا، اور اس حوالے سے پولیس اور لیویز حکام کو سختی سے ہدایات جاری کی ہیں کہ مسافر بسوں کو پٹرول لانے اور لے جانے سے روکنے کو یقینی بنایاجائے۔
کابینہ نے یہ فیصلہ حب کے قریب گزشتہ دنوں افسوسناک واقعے پر کیا جس میں مسافر بس کی چھت پر رکھے پٹرول کی وجہ سے حادثے کی صورت میں آگ بھڑک اٹھنے کے نتیجے میں عورتوں، بچوں سمیت بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھی۔ کابینہ کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ترقیاتی فنڈ کسی صورت ضائع نہیں کیا جائے گا اگر کسی بھی محکمے نے مختص کردہ رقم خرچ نہیں کی تو اس کی پوچھ گچھ کی جائے گی۔کابینہ کے اجلاس میں عیسائی برادری کے لئے دو رہائشی سکیموں کا بھی معاملہ زیر بحث آیا، اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ مذکورہ سکیموں میں سے ایک پر وفاقی اور صوبائی حکومت کی مشترکہ فنڈنگ سے 80فیصد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ دوسرے منصوبے پر صوبائی حکومت نے کام کیا ہے دونوں سکیموں کی تکمیل کے لئے پی ایس ڈی پی سے مزید فنڈ فراہم کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں دونوں اسکیموں کی تکمیل کے لئے متعلقہ وزیرکی سربراہی میں کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ کابینہ نے بلوچستان پرائیویٹ منی لینڈنگ بل کی بھی منظوری دی، جسے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس کے تحت بلوچستان میں دو افراد کے مابین سود پر قرض دینا یا کاروبار کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے ۔کابینہ دوہری شہریت سے متعلق مجوزہ آئینی ترمیم پر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ دوہری شہریت کا قانون برقرار رہنا چاہیے اور اس کا اطلاق ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ افسران اور ججوں پر بھی ہونا چاہیے، کابینہ نے بلوچستان کے سرکاری ریکارڈ اور قدیم تاریخی دستاویزات کو تحویل میں لینے اور دیکھ بھال کے بل کی بھی منظوری دی، نوادرات کو تحویل میں لینے اور دیکھ بھال کے لیے بورڈ بنانے کی بھی منظوری دی گئی، کابینہ نے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے مختلف جاری منصوبوں کی تکمیل اور مشینوں کے آلات کی خریداری کے لیے ضروری فنڈز کی فراہمی کی منظوری بھی دی ۔
کابینہ کا اجلاس اگلے روز بھی جاری رہا۔ کابینہ نے سرکاری ارکان پر زوردیا کہ وہ حکومتی پالیسی پر دیانتداری اورمستعدی کے ساتھ عمل کریں اورحکومت کے تمام ترقیاتی منصوبوں کی بروقت اورمعیار کے مطابق تکمیل کو یقینی بنایا جائے، ان منصوبوں پر عملدرآمد میں تاخیر یا رکاوٹ کے ذمہ دار حکام کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔کابینہ نے وفاقی پی ایس ڈی پی، ایم پی اے اسکیموں اور صوبائی پی ایس ڈی پی پر فنڈ کے اجراء اور کام کی رفتار کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ اجلاس میں وفاقی پی ایس ڈی پی کی اسکیموں کے لئے مختص کردہ فنڈ میں سے صرف25 فیصد رقم ملنے پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کا ایک وفد اسلام آباد جا کر اس مسئلے پر بھی بات کرے گا اور فنڈ کے اجراء کو یقینی بنایا جائے گا۔
سیاسی حلقوں نے بلوچستان کابینہ کے ان فیصلوں کو ایک مثبت اور خوش آئند اقدام قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل قریب میں اور آئندہ مالی سال کے بجٹ سے قبل ان مثبت فیصلوں کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ خصوصاً بجٹ سے قبل بلوچستان میں بیروزگار نوجوانوں کے لئے روزگار کی فراہمی کا فیصلہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اور عوام کو موجودہ سیاسی حکومت سے جو توقعات تھیں اس پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے ان مثبت اقدامات سے جہاں حکومت کو تقویت ملے گی وہاں عوامی سطح پر بھی حکومت میں شامل جماعتوں کو بھرپور پذیرائی ملے گی۔ بلوچستان حکومت کی جانب سے سپورٹس فیسٹیول کا انعقاد بھی ایک تاریخی اورامن وامان کی ناگفتہ بہ حالت میں موجودہ حکومت کیلئے ایک اہم پیشرفت تصور کیاجا رہا ہے، دوسری جانب بلوچستان اسمبلی کا موجودہ سیشن بھی اپنی آب وتاب کے ساتھ جاری وساری ہے جہاں پر مختلف قراردادوں کی منظوری کے علاوہ مختلف اہم موضوع پر بحث ومباحثہ کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں نصیرآباد کو (بی) ایریا میں شامل کرنے کی قرارداد بھی منظورکر لی ہے اس کے علاوہ کوئٹہ تھرمل پاورسٹیشن کو فعال بنانے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی لانے جیسی اہم قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کی گئیں جبکہ اس قرارداد پر عملدرآمد کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔
جبکہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے انتقامی کارروائیاں بند کرنے اور فنڈ نہ جاری کرنے پر نہ صرف واک آؤٹ کیا بلکہ احتجاج کرتے ہوئے اس بات کی دھمکی دی ہے کہ حکومت اپوزیشن کو اہمیت نہیں دے رہی اوراپوزیشن کی کسی تجویز کردہ سکیم پر غور نہیں کیا جا رہا اگر ان انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو عدالت سے رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں احتجاج کیا جائے گا۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومتی ارکان کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود ان کے حلقہ انتخاب کے فنڈ ریلیز نہیں کئے جا رہے۔ اپوزیشن جماعت اے این پی کے واحد رکن انجینئر زمرک خان اچکزئی نے اس حوالے سے اپنی آئینی درخواست عدالت میں دائر کردی ہے۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو بھی عوام نے منتخب کیا ہے جس طرح حزب اقتدار کے نمائندوں کو منتخب کیا ہے ۔ فنڈز کو روکنا اپوزیشن حلقوں کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے اس سے ان لوگوں کا کیا قصور ہے۔گزشتہ حکومت میں اپوزیشن نہیں تھی جس کی وجہ سے تمام علاقوں کے عوام کو ترقی کے یکساں مواقع ملے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق آج اگر حکومت اقتدار میں ہے تو کل اپوزیشن میں بھی ہو سکتی ہے اور ماضی میں بھی اپوزیشن کے فنڈز کو روکنے کی روایت نہیں ملتی۔