چند رفتگانِ سیاست
لاہور ہر کسی کو قبول نہیں کر لیتا سوچ سمجھ کر یہ کام کرتا ہے ...
KARACHI:
جب بھی فرصت ملتی ہے اور نقل و حرکت کو ہمت پڑتی ہے تو میں لاہور شہر کے ان مقامات کی طرف نکل جاتا ہوں جن سے میری یادیں اور جذبات وابستہ ہیں۔ میں عنفوانِ شباب میں لاہور آیا، اس شہر نے مجھے قبول کر لیا جب کہ منیرؔ نیازی کا قول ہے کہ لاہور ہر کسی کو قبول نہیں کر لیتا سوچ سمجھ کر یہ کام کرتا ہے چنانچہ اب میں ایک مدت سے اس شہر میں مقیم ہوں یک گونہ لاہوری بن چکا ہوں۔ گھر ہے، بچے یہاں زیر تعلیم ہیں اور اسی شہر میں روزگار ہے۔ میرا گاؤں صحیح سلامت ہے جو یہاں سے کوئی چار پانچ گھنٹے کے فاصلے پر ہے اور میں اسی گاؤں کی زمین کی پیداوار گندم کھاتا ہوں لیکن قحط کے ایسے سال بھی آ سکتے ہیں جب جب خشک سالی کی وجہ سے گندم کی فصل پیدا نہیں ہوتی جیسے کوئی دو برس پہلے اور اس سال بھی نہیں ہوئی۔ اگرچہ ٹیوب ویل والی زمین پر فصل اُگتی ہے لیکن میں خالص بارانی گندم کھاتا ہوں نہ ہو تو پھر آبپاشی والی سہی۔ اسی طرح گاؤں کی شادی غمی کے علاوہ کھانے کا تعلق بھی قائم ہے جو بہت بڑا تعلق ہے۔زندگی بھر کا تعلق۔
بات لاہور کی ہو رہی تھی۔ جب میں تعلیم وغیرہ کی غرض سے لاہور میں رہنے کے لیے آ رہا تھا جس کی چند وجوہات تھیں تو میری والدہ اداس ہو گئیں اور انھوں نے لاہور شہر کے بارے میں ایک پرانی کہاوت بیان کی کہ جاؤ بیٹی راوی جہاں نہ کوئی آئے نہ جائے ''ونج نی دھیے راوی نہ کوئی ونجی نہ کوئی آوسی'' میں نے جب گھر بنا لیا تو ایک بار والدہ کو بھی لاہور لے آیا۔ یہاں انھوں نے زندگی میں پہلی بار ٹونٹی سے پانی نکلتے دیکھا تو تعجب ہوا کہ وہ عمر بھر گھڑوں سے پانی لیتی رہیں۔ اس کے بعد جب وہ اپنے بھائی خان بہادر ملک نور محمد کے ہاں سرگودھا آتی جاتی رہیں تو بجلی اور ایسی کئی جدید سہولتوں سے بھی تعارف ہوا۔ میں آپ کو اپنے دور افتادہ پہاڑی گاؤں اور شہروں کا فرق بتا رہا ہوں جن کی زندگی بہت مختلف تھی۔ پاکستان کی برکت سے اب میرے گاؤں میں بجلی بھی ہے پانی کے نل سے پانی بھی آتا ہے اور شہروں والی کئی دوسری سہولتیں بھی موجود ہیں۔ سڑکیں ہیں جن پر دن رات نئی کاریں اور موٹرسائیکل بھاگتے رہتے ہیں۔ اس بدلتی ہوئی دنیا کے تماشے۔
بات لاہور کی ہو رہی تھی، میں چند دن ہوئے انار کلی کی طرف نکل گیا جہاں مال روڈ پر ٹی ہاؤس اور اس سے پہلے کا کافی ہاؤس اور شینیز لنچ ہوم تھے۔ کافی ہاؤس لاہور کے اونچے درجے کے دانشوروں کا اڈا تھا، شینیز خوش حال سیاسی کارکنوں کا اور ٹی ہاؤس ادیبوں کا مرکز تھا اور اب بھی ہے جب کہ دوسرے دونوں اڈے بند ہو چکے ہیں۔ مال روڈ کے اس حصے کے سامنے کمرشل بلڈنگ ہے جس کے ایک فلیٹ میں میاں فاروق الطاف کا دفتر تھا۔ اسی دفتر کے اندر صوبائی مسلم لیگ کا دفتر بھی تھا اور اسی فلیٹ کے ایک حصے پر میرا قبضہ تھا جہاں سے میں ایک ہفت روزہ افریشیا شایع کرتا تھا۔ یہاں مسلم لیگ کے دفتر میں چند اونچے عہدوں والے مسلم لیگی آتے جاتے تھے۔ اب ذرا ملاحظہ فرمایئے، خواجہ صفدر ہیں جو سیالکوٹ سے بذریعہ بس لاہور اور پھر کسی دوسری بس سے مال روڈ پر اپنے آفس میں آتے تھے۔ خواجہ صاحب آج کے ایک وفاقی وزیر کے والد تھے۔ اسی طرح چوہدری محمد حسین چٹھہ بھی بسوں پر سفر کر کے اس دفتر میں آتے تھے۔
ان حضرات کے پاس ایک چھوٹا سا بیگ یا بریف کیس ہوتا تھا جس میں قلم کاغذ اور سگریٹ ہوتے تھے۔ یہ وہ بے لوث لوگ تھے جن کے خون میں مسلم لیگ تھی اور جو مسلم لیگ کو زندہ رکھتے تھے۔ بسوں پر سفر کرتے تھے، جلوسوں کی قیادت کرتے تھے اور ملک کی سیاست کی رہنمائی کرتے تھے۔ یہ وہ کارکن تھے جو تھے تو لیڈر لیکن ان کی زندگی ایک سیاسی کارکن کی تھی۔ یہ خوشحال لوگ تھے مگر بہت ہی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ ایک بار میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی گاڑی شیخوپورہ کے قریب خراب ہو گئی، میں بھی ان کے ساتھ تھا، میں نے کہا چوہدری صاحب کے ہاں سے گاڑی منگوا لیتے ہیں۔ میاں صاحب نے جواب دیا کہ اس کے پاس تو سائیکل بھی نہیں ہے۔ چوہدری محمد حسین ایک بڑے زمیندار تھے، بنیان تک غیر ملکی پہنتے تھے لیکن انتہائی سادہ زندگی۔ یہی حال خواجہ صفدر کا تھا۔ سیالکوٹ کے مصدقہ لیڈر مگر دیانت و امانت میں یکتا۔
اسی مسلم لیگ کے لیڈر اقبال احمد خان تھے مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل۔ میں نے ان سے کچھ پیسے لے کر انھیں اپنا پرانا موٹر سائیکل دے دیا جس پر ان کی وکالت اور مسلم لیگ چلتی رہی۔ ذرا غور کیجیے پاکستان مسلم لیگ کا سیکریٹری جنرل ایک پرانی پھٹپھٹی پر سوار لیکن ملک کے اعلیٰ ترین لوگوں میں شمار۔ آج جب میں ان لوگوں کو یاد کرتا ہوں اور ان کی جماعتوں کے دوسرے درجے کے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ آج ان دیانت و امانت کے پُتلوں اور انتہائی باوقار لیڈروں کے جانشین جو زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لیڈر اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کی جائز آمدنی اور رزق حلال میں ان سہولتوں کی گنجائش نہیں تھی۔ سیاست دانوں کے اسی قبیلے کے ایک فرد خواجہ محمد رفیق شہید بھی تھے۔ خواجہ صاحب کو حسین شہید سہروردی صاحب نے اپنی جماعت میں قابو کر رکھا تھا۔ لاہور کے لوہاری دروازے کے اندر ان کی رہائش اور باہر سرکلر روڈ پر ایک پریس جس کی آمدنی میں بڑا حصہ ان کے دوستوں کا تھا جو یہاں مفت کام کرانے آتے تھے۔
لاہور سے نکلنے والے جلوس خواجہ صاحب کی شرکت کے بغیر نہیں نکل سکتے تھے۔ ایسے ہی ایک جلوس کے اختتام پر جب وہ دوستوں کے ہمراہ گھر کی طرف جا رہے تھے تو شہید کر دیے گئے۔ میں اس جلوس کی رپورٹنگ کر رہا تھا اور اس کے خاتمے پر دفتر جا رہا تھا کہ راستے میں خواجہ صاحب کا پتہ چلا لیکن ہمارا یہ مہربان دوست جا چکا تھا ایک نہایت ہی باوقار، باعزت اور بابرکت موت کے منہ میں۔ لاہور کی سیاسی زندگی اجڑ گئی کیونکہ سیاست دفتروں یا عمارتوں کا نام نہیں، خواجہ صاحب جیسے کارکنوں کا نام ہے۔ خواجہ صاحب کے ایک مستقل دوست ڈاکٹر اللہ دتہ تھے لاہور کے ایک مسلم لیگی جو ہر وقت خواجہ صاحب کے ساتھ رہتے تھے خواجہ صاحب کے بعد پھر ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ یہ دھوپ آفتاب سیاست خواجہ رفیق کے ساتھ ہی چلی گئی۔ خواجہ صاحب کے صاحبزادے وزیر اور مشیر ہیں۔
میاں فاروق الطاف کی زندگی مسلم لیگ میں گزر گئی۔ وہ لاہور میں آنے والے مسلم لیگ کے لیڈروں کے میزبان تھے اور ایک دفتر کے مالک۔ اب بھی وہ مسلم لیگ کے ایک نئے شعبے تحریک پاکستان میں شامل ہیں۔ مسلم لیگ کے اس کمرشل بلڈنگ والے دفتر کے خادم خاص بارے خان، معلوم نہیں وہ کہاں گئے۔ میں اس وقت یاد آنے والے دو چار سیاسی کارکنوں جو درحقیقت لیڈر تھے کے ذکر کی سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا اور نئے سیاسی کارکنوں سے ان کا تعارف کرانا چاہتا تھا۔ کارکن کی اتنی عزت تھی کہ بڑے بڑے لیڈر بھی اپنے آپ کو اپنی جماعت کے کارکن کہتے تھے۔ ایسے یادگار سیاسی کارکنوں کا ذکر بھی ایک اعزاز اور سیاسی ثواب ہے۔