مشرف کیس اور غلطیوں کا خمیازہ
جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف دونوں نے غلطیاں کی ہیں جن کا خمیازہ یہ دونوں اور پورا نظام بھگت رہا ہے۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین توڑنے سے بھی زیادہ سزا بے وقوفی کی ملنی چاہیے۔ کس حکیم نے کہا تھا کہ ملک میں واپس آ جائیں۔ اچھا بھلا ا نتظام موجود تھا۔ چند لوگ عزت بھی کرتے تھے۔ ایک آدھ دعوت پر بھی بلا لیتا تھا۔ نہ آمد ورفت پر پابندی تھی اور نہ ہی بلند و بانگ دعوے کرنے پر۔ اب موصوف تین ماہ سے فوجی اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں بوریا بستر لگائے ہوئے ہیں۔ پورا ایک فلور ان کی سیوا کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ صحت کے شعبے میں اس قسم کا منظر شاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو جب ہشاش بشاش فرد کسی خطرناک مگر فرضی مرض میں مبتلا ہونے سے داخل ہوا ہو۔ پھر تمام ڈاکٹرز صاحبان اور اسپتال کا عملہ انھیں برداشت کرنے پر مجبور ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ جنرل مشرف نے اپنے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ پرسوں عدالت میں جلوہ افروز ہونے کے بعد اپنی غلطیوں کو تصوف آمیز تقریر کی صورت میں بیان نہ کرتے۔ مگر بے وقوفیوں کی سزا حکومت کو بھی کم نہیں ملنی چاہیے۔
اس مقدمے کو جس محنت کے ساتھ نواز لیگ کی قیادت نے خراب کیا ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ یہ کیس وہ چھپکلی ہے جسے نہ تو اگل سکتے ہیں اور نہ ہی نگل کر ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہترین راستہ سادہ سا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ہاتھوں حل ہونے دیتے۔ وہ جو بھی فیصلہ کرتے اس پر عدالت کی مستند مہر ہوتی اور اس میں سے نکلنے والے تمام اثرات عدالت خود ہی نپٹا لیتی مگر اس وقت نواز لیگ کی قیادت جسٹس افتخار چوہدری کو اپنے لیے سب سے بڑا چیلنج سمجھ رہی تھی۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار نے جرنیلوں کے ساتھ کئی میٹنگز میں جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کو جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سائے سے بچانے کی با قاعدہ تجاویز پر غور کیا۔ باخبر حلقے کہتے ہیں کہ آخر میں یہ طے کیا کہ سابق چیف جسٹس کے منظر سے ہٹتے ہی اس معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کر دیا جائے گا۔
اس پر عسکری قیادت بھی رضا مند ہو گئی اور متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، واشنگٹن اور لندن نے بھی صبرکر لیا مگر بعد میں میاں نواز شریف اس تمام عمل پر حاوی ہو گئے جس کا وعدہ کیا گیا تھا اور جس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کو عدالتوں میں گھسیٹنے اور جیل میں ڈالنے کے امکانات محدود کرتے ہوئے ملک سے باہر نکالنے کا بندو بست کرنا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کو دی جانے والی تسلی کچھ اور ہے۔ فوج کو بتایا جا رہا ہے کہ نواز لیگ کی قیادت انتقامی کارروائیاں نہیں کرے گی۔ عدالت سے متضاد توقعات یہ ہیں کہ ایک طرف وہ پرویز مشرف کو سزا دے گی اور دوسری طرف بیرون ملک سفر کرنے کی ممانعت کو اپنے قلم سے ختم بھی کرے گی۔ پارٹی کے اندر ایک طرف اس مسئلے کو طول نہ دینے کی منطق سے اتفاق کیا ہوا ہے اور دوسری طرف مخالف گروپ (جس کو میں تُن کے رکھو گروپ کہتا ہوں) کی ہاں میں ہاں بھی ملا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کا دل جنرل پرویز مشرف کو سزا دلوانے کو کر رہا ہے مگر دماغ کے کسی کونے میں سے احتیاط کی صدائیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔
میڈیا میں من پسند حلقوں کے ذریعے مشرف کی سزا کو جمہوریت کی بقاء سے جوڑا جا رہا ہے۔ بعض کالم نگاروں کو یہ شہہ بھی دی جا رہی ہے کہ حکومت کے لیے کوئی بیچ کا رستہ ڈھونڈا جائے۔ ایسی کھچڑی پکائی ہے کہ کھانا تو درکنار اس کو دیکھ کر ہی طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ میاں نواز شر یف کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم، جنرل مشرف کو عدالتی کاروائی کے ذریعے سزا پانے کے بعد صدر کے توسط معافی کا بندو بست کر دیں گے۔ بظاہر یہ اس مسئلے کا عقلمندانہ حل نظر آتا ہے۔ بد قسمتی سے حکومت کے متضاد وعدوں نے اس حل کو قابل عمل نہیں چھوڑا۔ جنرل راحیل شریف کی نئی قیادت فوج کو سویلین طاقت کے سامنے کھڑا نہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ویسے بھی ان کے شریف خاندان کے ساتھ تعلقات اتنے قریبی ہیں کہ بد مزگی کی گنجائش نہیں بنتی مگر آرمی بطور ادارہ سپہ سالار کی ترجیحات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ سوچنا خود فریبی کے مترادف ہوگا کہ ملک کی فوج جنرل پرویز مشرف کے مقدمے سے خوش ہے۔ شعبہ امراض دل جنرل مشرف کی جائے پناہ بنا ہوا ہے۔
وہاں کا نظم و نسق وزیر اعظم سیکریٹریٹ نہیں جنرل ہیڈ کوارٹر چلا رہا ہے۔ جس طریقے سے پرویز مشرف خاص حفاظتی اقدامات میں اس اسپتال سے نکالے اور پھر کمرہ عدالت سے گھما کر واپس لے جائے گئے ثابت کرتا ہے کہ ان کے سر پر آرمی کا سایہ کتنا گھنا اور گہرا ہے۔ یہ سب کچھ مرضی سے کیا جا رہا ہے یا با امر مجبوری یہ ایک علیحدہ بحث ہے مگر یہ کہنا کہ فوج اور موجودہ حکومت جنرل پرویز مشرف کے معاملے پر اتفاق رائے رکھتے ہیں درست نہیں ہو گا۔ اگر حکومت جی کڑا کر کے سابق آمر کے خلاف مقدمے میں سنجیدگی کے ساتھ یکسوئی اپناتے ہوئے اس کو سزا دینے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہوتی تو بہت سی مشکلات خود سے سیدھی ہو جاتیں مگر چونکہ نواز لیگ ہر سنجیدہ معاملے پر ہاکی کا میچ شروع کر دیتی ہے جس میں گیند کبھی اِدھر کبھی اُدھر اچھال کر تماشا کھڑا کیاجاتا ہے لہذا یہ سیدھا راستہ اب بند گلی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس بند گلی سے حکومت کیسے نکلے گی؟ اپنی بنائی ہوئی دیوار میں نقب لگائے گی، پچھلا دروازہ کھولے گی یا تہہ خانے میں جا کر ٹکریں مارے گی۔ یہ فیصلہ جلد یا بدیر ہو جائے گا۔ فی الحال ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف دونوں نے غلطیاں کی ہیں۔ جن کا خمیازہ یہ دونوں اور پورا نظام بھگت رہا ہے۔
اس مقدمے کو جس محنت کے ساتھ نواز لیگ کی قیادت نے خراب کیا ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ یہ کیس وہ چھپکلی ہے جسے نہ تو اگل سکتے ہیں اور نہ ہی نگل کر ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہترین راستہ سادہ سا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ہاتھوں حل ہونے دیتے۔ وہ جو بھی فیصلہ کرتے اس پر عدالت کی مستند مہر ہوتی اور اس میں سے نکلنے والے تمام اثرات عدالت خود ہی نپٹا لیتی مگر اس وقت نواز لیگ کی قیادت جسٹس افتخار چوہدری کو اپنے لیے سب سے بڑا چیلنج سمجھ رہی تھی۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار نے جرنیلوں کے ساتھ کئی میٹنگز میں جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کو جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سائے سے بچانے کی با قاعدہ تجاویز پر غور کیا۔ باخبر حلقے کہتے ہیں کہ آخر میں یہ طے کیا کہ سابق چیف جسٹس کے منظر سے ہٹتے ہی اس معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کر دیا جائے گا۔
اس پر عسکری قیادت بھی رضا مند ہو گئی اور متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، واشنگٹن اور لندن نے بھی صبرکر لیا مگر بعد میں میاں نواز شریف اس تمام عمل پر حاوی ہو گئے جس کا وعدہ کیا گیا تھا اور جس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کو عدالتوں میں گھسیٹنے اور جیل میں ڈالنے کے امکانات محدود کرتے ہوئے ملک سے باہر نکالنے کا بندو بست کرنا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کو دی جانے والی تسلی کچھ اور ہے۔ فوج کو بتایا جا رہا ہے کہ نواز لیگ کی قیادت انتقامی کارروائیاں نہیں کرے گی۔ عدالت سے متضاد توقعات یہ ہیں کہ ایک طرف وہ پرویز مشرف کو سزا دے گی اور دوسری طرف بیرون ملک سفر کرنے کی ممانعت کو اپنے قلم سے ختم بھی کرے گی۔ پارٹی کے اندر ایک طرف اس مسئلے کو طول نہ دینے کی منطق سے اتفاق کیا ہوا ہے اور دوسری طرف مخالف گروپ (جس کو میں تُن کے رکھو گروپ کہتا ہوں) کی ہاں میں ہاں بھی ملا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کا دل جنرل پرویز مشرف کو سزا دلوانے کو کر رہا ہے مگر دماغ کے کسی کونے میں سے احتیاط کی صدائیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔
میڈیا میں من پسند حلقوں کے ذریعے مشرف کی سزا کو جمہوریت کی بقاء سے جوڑا جا رہا ہے۔ بعض کالم نگاروں کو یہ شہہ بھی دی جا رہی ہے کہ حکومت کے لیے کوئی بیچ کا رستہ ڈھونڈا جائے۔ ایسی کھچڑی پکائی ہے کہ کھانا تو درکنار اس کو دیکھ کر ہی طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔ میاں نواز شر یف کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم، جنرل مشرف کو عدالتی کاروائی کے ذریعے سزا پانے کے بعد صدر کے توسط معافی کا بندو بست کر دیں گے۔ بظاہر یہ اس مسئلے کا عقلمندانہ حل نظر آتا ہے۔ بد قسمتی سے حکومت کے متضاد وعدوں نے اس حل کو قابل عمل نہیں چھوڑا۔ جنرل راحیل شریف کی نئی قیادت فوج کو سویلین طاقت کے سامنے کھڑا نہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ویسے بھی ان کے شریف خاندان کے ساتھ تعلقات اتنے قریبی ہیں کہ بد مزگی کی گنجائش نہیں بنتی مگر آرمی بطور ادارہ سپہ سالار کی ترجیحات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ سوچنا خود فریبی کے مترادف ہوگا کہ ملک کی فوج جنرل پرویز مشرف کے مقدمے سے خوش ہے۔ شعبہ امراض دل جنرل مشرف کی جائے پناہ بنا ہوا ہے۔
وہاں کا نظم و نسق وزیر اعظم سیکریٹریٹ نہیں جنرل ہیڈ کوارٹر چلا رہا ہے۔ جس طریقے سے پرویز مشرف خاص حفاظتی اقدامات میں اس اسپتال سے نکالے اور پھر کمرہ عدالت سے گھما کر واپس لے جائے گئے ثابت کرتا ہے کہ ان کے سر پر آرمی کا سایہ کتنا گھنا اور گہرا ہے۔ یہ سب کچھ مرضی سے کیا جا رہا ہے یا با امر مجبوری یہ ایک علیحدہ بحث ہے مگر یہ کہنا کہ فوج اور موجودہ حکومت جنرل پرویز مشرف کے معاملے پر اتفاق رائے رکھتے ہیں درست نہیں ہو گا۔ اگر حکومت جی کڑا کر کے سابق آمر کے خلاف مقدمے میں سنجیدگی کے ساتھ یکسوئی اپناتے ہوئے اس کو سزا دینے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہوتی تو بہت سی مشکلات خود سے سیدھی ہو جاتیں مگر چونکہ نواز لیگ ہر سنجیدہ معاملے پر ہاکی کا میچ شروع کر دیتی ہے جس میں گیند کبھی اِدھر کبھی اُدھر اچھال کر تماشا کھڑا کیاجاتا ہے لہذا یہ سیدھا راستہ اب بند گلی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس بند گلی سے حکومت کیسے نکلے گی؟ اپنی بنائی ہوئی دیوار میں نقب لگائے گی، پچھلا دروازہ کھولے گی یا تہہ خانے میں جا کر ٹکریں مارے گی۔ یہ فیصلہ جلد یا بدیر ہو جائے گا۔ فی الحال ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف دونوں نے غلطیاں کی ہیں۔ جن کا خمیازہ یہ دونوں اور پورا نظام بھگت رہا ہے۔