صنفی استحصال کا شکار خواتین
پاکستان کے شہری علاقوں میں بسنے والی پسماندہ خواتین تشدد کا شکار تو نظر آتی ہی ہیں
25 نومبر سے 10 دسمبر تک سرگرمی کے سولہ دن ((16 Days of Activism صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف ایک مہم کا دورانیہ ہے۔ اس دورانیے میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے مختلف پروگرامز ترتیب دیے جاتے ہیں ، یہ پروگرامز صنفی استحصال کا سامنا کرتی شہری خواتین کے لیے بھی ہوتے ہیں اور بدترین تشدد کو برداشت کرتی ، دیہی عورتوں کے لیے بھی!
پاکستان کے شہری علاقوں میں بسنے والی پسماندہ خواتین تشدد کا شکار تو نظر آتی ہی ہیں ، دیہی علاقوں میں موجود عورتوں کی تعداد اُن سے کئی گُنا زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے رورل ایریاز میں موجود عورتیں رول ماڈل ہیں، عزم و ہمت ، برداشت ، حوصلے اور صبر کا مجسم پیکر ہیں۔ دیہی علاقوں میں موجود زیادہ تر خواتین کھیتی ، باڑی اور سینے پرونے کے کام سے وابستہ رہتی ہیں ، پسماندہ طبقات میں شامل یہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کام کرتی نظر آتی ہیں ، بچوں کو بھی سنبھالتی ہیں اور گھر، گرہستی کو بھی!
دوسری جانب دیہی علاقوں میں موجود مردوں کی اکثریت بے روزگاری کا شکار نظر آتی ہے ،یا پھر اُن میں بہت سے شاید خود ہی کام ، کاج کرنا نہیں چاہتے ، ہمہ وقت ہوٹلوں میں بیٹھے چائے ، سگریٹ اور گٹکا وغیرہ کھانے اور گلی ، کوچوں اور چوراہوں پر ہر وقت کی گپ ،شپ لگانے میں مصروف نظر آتے ہیں، یہ بہر حال ان کا اپنافعل ہے جس پر انھیں صرف سمجھایا ہی جاسکتا ہے ، یہ احساس دلایا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشی اور معاشرتی نظام میں ہر فرد اپنے اوپر عائد ذمے داریوں کو بہ احسن وخوبی ادا کرتا ہوا ہی اچھا لگتا ہے ، صرف عورتیں ہی محنت ، مشقت کریں ، گھر سنبھالیں، بچوں کی پرورش کریں اور پھر تشدد کو بھی برداشت کریں تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔
حق اور انصاف سے متعلق بات کو آگے بڑھایا جائے تو معلوم ہوگا کہ پسماندہ علاقوں میں بسنے والی خواتین شروع ہی سے حقوق کی فراہمی کے معاملے میں بڑی بدقسمت ثابت ہوئی ہیں ۔ یہ بدقسمتی ہی تو ہے کہ اسکول جانے کی عمر میں غریب و لاچار بچیاں بنگلوں اور کوٹھیوں میں کام کررہی ہوتی ہیں ، ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں ،فرسودہ سوچ کے حامل گھرانوں میں بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت حاصل رہتی ہے ، نہ لڑکیاں اچھا کھا ، پی پاتی ہیں نہ انھیں بہتر ماحول میسر آتا ہے ، بچیوں کو یا تو تعلیم دلوائی ہی نہیں جاتی یا پھر چار ،چھ کلاسیں پڑھوا کر چھوٹے پن میں ہی اُن کی شادیاں کر دی جاتی ہیں اور پھر ہر سال بچوں کو جنم دیتی یہ دیہی خواتین خون کی کمی ، اور سرکاری اسپتالوں میں بدانتظامی کی زیادتی کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہتی ہیں۔
سرکاری اسپتالوں کا ذکر یہاں اس لیے بھی ضروری ہے کہ غربت زدہ علاقوں میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے ، دیہی علاقوں میں موجودکلینک نما اسپتال کھانسی، نزلہ ، بخار کا علاج تو شاید کردیتے ہوں لیکن بڑی ، بڑی جان لیوا بیماریاں غریبوں کی جان لے کر ہی ٹلتی ہیں، خطر ناک بیماریوں کا علاج صوبائی پسماندہ اضلاع میں ہوتا ،ممکن نظر نہیں آتا ، اسی لیے مریضوں کو بڑے شہروں میں جانے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے اور پھر شہروں کے سرکاری اسپتالوں میں ان بیچاروں پر کیا گزرتی ہے ، یہ تو غریب مریض یا ان کے ورثا ہی بتا سکتے ہیںلیکن میڈیا جب صحت کے شعبے کو جاری اربوں ، کھربوں کے فنڈز کے بارے میں بتاتا ہے ، تو یقین کرنا مشکل سا ہوجاتا ہے ۔
اسی بے یقینی کی سی کیفیت میں رہتے ہوئے کچھ بات پاکستان میں حالیہ بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب، اور پھر صنفی تشدد پر کی جائے تو باور ہو گا کہ سیلاب سے پسماندہ دیہی علاقوں میں ہزاروں مکان زمین بوس ہوگئے، بے گھر مکین سڑکوں پر آگئے ، سیلاب متاثرین کی بھوک ، بیماریوں اور اموات وغیرہ سے متعلق تو سننے میں آہی رہا تھا ، لیکن اب کم عمر بچے ، بچیوں کی شادیاں کروائے جانے کی خبریں بھی گردش میں ہیں ، لڑکیوں کے بیچے جانے سے متعلق افسوناک خبروں نے پڑھنے والوں کو افسردہ کر رکھا ہے ، سیلاب سے متاثرہ عورتوں کو کسی قسم کا تحفظ ملتا نظر نہیں آتا ، اب بھی کئی ہزار عورتیں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، انھیں واٹر ، سینی ٹیشن اور ہائی جین کے زمرے میں آنے والے تمام تر معاملات کا سامنا ہے۔
بھوک اور بیماریوں نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ، کتنے بچے بھوک کی شدت اور بیماری کے کرب کو برداشت نہ کر سکے اور دم توڑ گئے ، حاملہ خواتین کو صحت سے متعلق شدید خطرات لاحق ہیں، عورتیں سیلاب زدہ علاقوں سے نقل مکانی بھی نہیں کر سکتیں کیونکہ فرسودہ رسم و رواج اور حاکمانہ اور ظالمانہ سوچ اور طرز عمل ان کے پائوں کی بیڑیاں بنے ہوئے ہیں ، لیکن یہاں بات صرف سیلاب متاثرہ خواتین کی نہیں ، عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جانا ، ان پر تیزاب پھینکنا ، ہاتھ پائوں توڑ کر معذور اور مفلوج کر دیا جانا پورے معاشرے میں عام سی بات بنتی جارہی ہے ۔
خیر یہ سب باتیں تو ہوتی رہیں گی ، لیکن سوچنا یہ ہے کہ اب ہونا کیا چاہیے ؟ سیلاب متاثرہ خواتین کے لیے سب سے پہلے تو اچھی اور معیاری غذا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ فوری طور پر صحت کی سہولتیں بھی فراہم ہو جائیں تو مزید اموات کا سلسلہ تھم سکتا ہے ، خواتین کو لائف سیونگ اسکلز پر تربیت دینا بھی ضروری سمجھا جائے تو کسی بھی آفت اور ایمرجنسی جیسی صورتحال میں وہ سب سے پہلے اپنی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہو جائیں گی اور پھر آگے اور بھی کام ہوتے رہیں، جان ومال، عزت و حرمت کا تحفظ ناگزیر ہے۔
اسی طرح سے حکومتی سطح پر بہت بڑے پیمانے پر ایسے ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جانے کی فوری ضرورت ہے کہ جن سے ہمارے معاشرے میں موجود نہ صرف دیہی بلکہ پسماندگی کا شکار شہری خواتین کو بھی اُن کے تمام تر حقوق با آسانی فراہم ہوں ، صنفی استحصال اور تشدد ختم ہو تو وہ خوش و خرم زندگی بسر کر سکیں ، اور ملکی ترقی میں بھی اپنے ، اپنے حصے کا کردار ادا کر سکیں ۔
پاکستان کے شہری علاقوں میں بسنے والی پسماندہ خواتین تشدد کا شکار تو نظر آتی ہی ہیں ، دیہی علاقوں میں موجود عورتوں کی تعداد اُن سے کئی گُنا زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے رورل ایریاز میں موجود عورتیں رول ماڈل ہیں، عزم و ہمت ، برداشت ، حوصلے اور صبر کا مجسم پیکر ہیں۔ دیہی علاقوں میں موجود زیادہ تر خواتین کھیتی ، باڑی اور سینے پرونے کے کام سے وابستہ رہتی ہیں ، پسماندہ طبقات میں شامل یہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کام کرتی نظر آتی ہیں ، بچوں کو بھی سنبھالتی ہیں اور گھر، گرہستی کو بھی!
دوسری جانب دیہی علاقوں میں موجود مردوں کی اکثریت بے روزگاری کا شکار نظر آتی ہے ،یا پھر اُن میں بہت سے شاید خود ہی کام ، کاج کرنا نہیں چاہتے ، ہمہ وقت ہوٹلوں میں بیٹھے چائے ، سگریٹ اور گٹکا وغیرہ کھانے اور گلی ، کوچوں اور چوراہوں پر ہر وقت کی گپ ،شپ لگانے میں مصروف نظر آتے ہیں، یہ بہر حال ان کا اپنافعل ہے جس پر انھیں صرف سمجھایا ہی جاسکتا ہے ، یہ احساس دلایا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشی اور معاشرتی نظام میں ہر فرد اپنے اوپر عائد ذمے داریوں کو بہ احسن وخوبی ادا کرتا ہوا ہی اچھا لگتا ہے ، صرف عورتیں ہی محنت ، مشقت کریں ، گھر سنبھالیں، بچوں کی پرورش کریں اور پھر تشدد کو بھی برداشت کریں تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔
حق اور انصاف سے متعلق بات کو آگے بڑھایا جائے تو معلوم ہوگا کہ پسماندہ علاقوں میں بسنے والی خواتین شروع ہی سے حقوق کی فراہمی کے معاملے میں بڑی بدقسمت ثابت ہوئی ہیں ۔ یہ بدقسمتی ہی تو ہے کہ اسکول جانے کی عمر میں غریب و لاچار بچیاں بنگلوں اور کوٹھیوں میں کام کررہی ہوتی ہیں ، ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں ،فرسودہ سوچ کے حامل گھرانوں میں بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت حاصل رہتی ہے ، نہ لڑکیاں اچھا کھا ، پی پاتی ہیں نہ انھیں بہتر ماحول میسر آتا ہے ، بچیوں کو یا تو تعلیم دلوائی ہی نہیں جاتی یا پھر چار ،چھ کلاسیں پڑھوا کر چھوٹے پن میں ہی اُن کی شادیاں کر دی جاتی ہیں اور پھر ہر سال بچوں کو جنم دیتی یہ دیہی خواتین خون کی کمی ، اور سرکاری اسپتالوں میں بدانتظامی کی زیادتی کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہتی ہیں۔
سرکاری اسپتالوں کا ذکر یہاں اس لیے بھی ضروری ہے کہ غربت زدہ علاقوں میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے ، دیہی علاقوں میں موجودکلینک نما اسپتال کھانسی، نزلہ ، بخار کا علاج تو شاید کردیتے ہوں لیکن بڑی ، بڑی جان لیوا بیماریاں غریبوں کی جان لے کر ہی ٹلتی ہیں، خطر ناک بیماریوں کا علاج صوبائی پسماندہ اضلاع میں ہوتا ،ممکن نظر نہیں آتا ، اسی لیے مریضوں کو بڑے شہروں میں جانے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے اور پھر شہروں کے سرکاری اسپتالوں میں ان بیچاروں پر کیا گزرتی ہے ، یہ تو غریب مریض یا ان کے ورثا ہی بتا سکتے ہیںلیکن میڈیا جب صحت کے شعبے کو جاری اربوں ، کھربوں کے فنڈز کے بارے میں بتاتا ہے ، تو یقین کرنا مشکل سا ہوجاتا ہے ۔
اسی بے یقینی کی سی کیفیت میں رہتے ہوئے کچھ بات پاکستان میں حالیہ بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب، اور پھر صنفی تشدد پر کی جائے تو باور ہو گا کہ سیلاب سے پسماندہ دیہی علاقوں میں ہزاروں مکان زمین بوس ہوگئے، بے گھر مکین سڑکوں پر آگئے ، سیلاب متاثرین کی بھوک ، بیماریوں اور اموات وغیرہ سے متعلق تو سننے میں آہی رہا تھا ، لیکن اب کم عمر بچے ، بچیوں کی شادیاں کروائے جانے کی خبریں بھی گردش میں ہیں ، لڑکیوں کے بیچے جانے سے متعلق افسوناک خبروں نے پڑھنے والوں کو افسردہ کر رکھا ہے ، سیلاب سے متاثرہ عورتوں کو کسی قسم کا تحفظ ملتا نظر نہیں آتا ، اب بھی کئی ہزار عورتیں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، انھیں واٹر ، سینی ٹیشن اور ہائی جین کے زمرے میں آنے والے تمام تر معاملات کا سامنا ہے۔
بھوک اور بیماریوں نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ، کتنے بچے بھوک کی شدت اور بیماری کے کرب کو برداشت نہ کر سکے اور دم توڑ گئے ، حاملہ خواتین کو صحت سے متعلق شدید خطرات لاحق ہیں، عورتیں سیلاب زدہ علاقوں سے نقل مکانی بھی نہیں کر سکتیں کیونکہ فرسودہ رسم و رواج اور حاکمانہ اور ظالمانہ سوچ اور طرز عمل ان کے پائوں کی بیڑیاں بنے ہوئے ہیں ، لیکن یہاں بات صرف سیلاب متاثرہ خواتین کی نہیں ، عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جانا ، ان پر تیزاب پھینکنا ، ہاتھ پائوں توڑ کر معذور اور مفلوج کر دیا جانا پورے معاشرے میں عام سی بات بنتی جارہی ہے ۔
خیر یہ سب باتیں تو ہوتی رہیں گی ، لیکن سوچنا یہ ہے کہ اب ہونا کیا چاہیے ؟ سیلاب متاثرہ خواتین کے لیے سب سے پہلے تو اچھی اور معیاری غذا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ فوری طور پر صحت کی سہولتیں بھی فراہم ہو جائیں تو مزید اموات کا سلسلہ تھم سکتا ہے ، خواتین کو لائف سیونگ اسکلز پر تربیت دینا بھی ضروری سمجھا جائے تو کسی بھی آفت اور ایمرجنسی جیسی صورتحال میں وہ سب سے پہلے اپنی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہو جائیں گی اور پھر آگے اور بھی کام ہوتے رہیں، جان ومال، عزت و حرمت کا تحفظ ناگزیر ہے۔
اسی طرح سے حکومتی سطح پر بہت بڑے پیمانے پر ایسے ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جانے کی فوری ضرورت ہے کہ جن سے ہمارے معاشرے میں موجود نہ صرف دیہی بلکہ پسماندگی کا شکار شہری خواتین کو بھی اُن کے تمام تر حقوق با آسانی فراہم ہوں ، صنفی استحصال اور تشدد ختم ہو تو وہ خوش و خرم زندگی بسر کر سکیں ، اور ملکی ترقی میں بھی اپنے ، اپنے حصے کا کردار ادا کر سکیں ۔