چین سعودی عرب دوستی اور امریکی پریشانی

امریکا کو خلیج اور مشرق وسطیٰ میں چین کی سرگرمیوں پر تشویش ہے


وجیہ احمد صدیقی December 11, 2022

چین کے صدر شی جن پنگ سعودی عرب کے تین روزہ دورے پر مشرق وسطیٰ میں تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو گہرا کرنے کی امید لے کر گئے تھے، لیکن امریکا کو خلیج اور مشرق وسطیٰ میں چین کی سرگرمیوں پر تشویش ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکا نے سعودی عرب کو چین کے ساتھ روابط بڑھانے پر دھمکی دی ہے کیونکہ چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب سے امریکا اور مغربی ممالک خوفزدہ ہیں۔

چینی صدرشی جن پنگ کے سعودی عرب پہنچنے پر امریکی ایوان صدر وہائٹ ہاؤس میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربائی نے بدھ کو دورے پر ردعمل دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ چین کی جانب سے دنیا بھر میں اثر و رسوخ پھیلانے کی کوشش بین الاقوامی نظام کے لیے ''سازگار نہیں'' ہے، جب کہ سعودی عرب کی جانب سے امریکیوں کی دھمکی کے جواب میں انھیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہم اپنے معاملات میں اب تم سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔

سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے سعودی خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل کیا ہے، چینی صدر کے اس دورے میں سعودی عرب اور چین کے درمیان 30 ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کی پٹرولیم مصنوعات کی کل فروخت کا 25 فیصد صرف چین خریدتا ہے۔ باقی 75 فیصد دنیا کے دوسرے ممالک کو فروخت کی جاتی ہیں۔ چین کی ان بڑھتی تجارتی سرگرمیوں سے امریکا پریشان ہے اس نے چین کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی ہے۔

امریکا کی طرف سے یہ بیان وہائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربائی کے ذریعے سے دیا گیا ہے، اس موقع پر انھوں نے کہا کہ سعودی عرب ان کا نازک اتحادی ہے لیکن ہم نے اسے چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر خبردار کیا ہے۔ (گویا یہ ایک طرح کی دھمکی ہے) امریکا اپنے مفادات کی تکمیل میں اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ دوسروں کے مفادات اس کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

2004 میں اس وقت کے سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صحافی ڈیوڈ اٹاویسے سے کہا تھا کہ ''امریکی سعودی تعلقات کیتھولک عقیدے کی شادی نہیں ہے جس میں صرف ایک بیوی کی اجازت ہے، یہ تعلقات مسلم شادی ہے جہاں بیک وقت 4 بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ سعودی عرب امریکا کو طلاق نہیں دے گا لیکن دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بھی رکھے گا'' لیکن امریکا مشرق وسطیٰ میں صرف اور صرف اسرائیل کے مفادات کا نگران ہے، لیکن اس کے برعکس مشرق وسطیٰ کی سیاست کروٹ بدل رہی ہے اور اب وہاں امریکی اور مغربی اثر ورسوخ ختم ہو رہا ہے۔

شاہ سلمان نے چینی صدر شی جن پنگ کو سعودی عرب کے دورے کی دعوت دی، اس سہ روزہ دورے کے آغاز میں ہی دونوں ممالک کے درمیان 34 مختلف نوعیت کے معاہدے ہوئے۔ یہ تمام معاہدے اسٹرٹیجک نوعیت کے ہیں۔پاکستان کے تناظر میں بھی چینی صدر کا دورہ سعودی عرب بہت اہمیت کا حامل ہے۔

سعودی عرب کے ساتھ جن معاملات پر معاہدے ہوئے ہیں ان میں گرین انرجی، گرین ہائیڈروجن، فوٹو وولٹک انرجی انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹیشن، لاجسٹک، میڈیکل انڈسٹریز اور ہاؤسنگ کے شعبوں میں مزید تعاون ہو گا۔ گزشتہ سال یعنی 2021 میں چین اور سعودی عرب کے درمیان تجارتی حجم 80 ارب ڈالر تھا جب کہ 2022 کے اختتام تک دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 270 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ چین سعودی عرب کے ایک نئے شہر نیوم کو آباد کرنے میں تعاون کریگا جو بحر مردار (ڈیڈ سی) اور مصری شہر شرم الشیخ کے قریب ہو گا، اس شہر کی تعمیر پر تقریباً ایک کھرب ڈالر خرچ ہوں گے۔ توقع ہے کہ اس شہر کو مکمل طور پر آباد ہونے میں تقریباً 50 سال لگیں گے۔ اس شہر کی تعمیر میں چین 500 ارب ڈالر خرچ کریگا۔

اس شہر کی خوبی یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں آئینے استعمال کیے جائیں گے 120 کلو میٹر تک آئینوں پر مشتمل دیواریں ہوں گی، گویا یہ آئینوں کا شہر ہو گا۔ بلند و بالا عمارتیں ہوں گی جو اپنی بلندی میں نیویارک شہر کی عمارتوں کو مات کریں گی، یہ شہر صحرا میں تعمیر کا ایک شاہکار ہو گا۔

امریکا ایک طویل عرصے تک دنیا کی واحد سپر پاور کے مزے لوٹنے کے بعداب چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور عسکری قوت سے خوفزدہ ہے، اگر چین سعودی تعلقات مزید مستحکم ہوتے ہیں تو امریکا کا اوپیک پر کنٹرول کم ہو جائے گا اور عالمی طور پر پٹرولیم کا کنٹرول امریکا کے ہاتھ سے نکل جائے گا، کیونکہ اوپیک کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہے۔ اسی لیے امریکی سمجھتے ہیں کہ چین اور سعودی عرب کے تعلقات سے امریکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگا۔

حال ہی میں جاری ہونے والی پینٹا گون کی رپورٹ میں امریکی محکمہ دفاع نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ دنیا بھر میں تجارتی اور اقتصادی روابط بڑھانے کے ساتھ ساتھ چین اپنے ہتھیار بھی مشرق وسطیٰ کے ممالک کو فروخت کریگا۔ پینٹاگون کا اندازہ ہے کہ 2035 تک چین کے پاس 1500 نیوکلیئروار ہیڈ یعنی ایٹمی جنگی ہتھیار ہوں گے، جب کہ اس وقت چین کے پاس 400 ایٹمی جنگی ہتھیار ہیں۔ چین سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت آگے بڑھ رہا ہے۔

اس وقت ڈیجیٹل سلک روڈ، بیلٹ روڈ انی شیٹیو، کے علاوہ ڈرون، آب دوز، گن شپ بوٹس، زمین سے فضا میں مار کرنیوالے میزائیل سسٹم اور فائٹر جیٹ طیارے نہ صرف سعودی عرب کو فروخت کر رہا ہے بلکہ اس کے خریداروں میں، سربیا، انڈونیشیا، قازقستان عراق اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ چین کی دفاعی تجارت سے دنیا پر حکومت کرنے کے امریکی ایجنڈے کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ امریکا اس بات سے بھی خوفزدہ ہے کہ جبوتی میں چین نے اپنا پہلا غیر ملکی فوجی اڈہ قائم کر لیا ہے، یہ صورتحال امریکیوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

دراصل امریکا کو چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی، اقتصادی اور عسکری قوت سے خوف ہے۔ چین کی ایک اور خوبی بھی ہے جو امریکا کے پاس نہیں ہے، چین اپنی ٹیکنالوجی کو منتقل کرنے میں کسی کنجوسی سے کام نہیں لیتا وہ اپنے کلائنٹ ممالک کو بخوشی ٹیکنالوجی منتقل کر رہا ہے۔ اپنی تجارت کے لیے ان ممالک پر کوئی شرائط عائد نہیں کرتا نہ ہی چین ان ممالک کے اندرونی سیاسی اور سماجی و ثقافتی معاملات میں امریکا کی طرح مداخلت نہیں کرتا۔

امریکا اپنا کلچر اپنا طرز سیاست اور بسا اوقات اپنا مذہب بھی ''دوست ممالک'' پر تھوپنے اور مسلط کرنے سے باز نہیں آتا۔ اس کے برعکس چین یہ سب کچھ نہیں کرتا، اس لیے وہ سعودی عرب کے لیے بھی قابل قبول ہے، ایران کو بھی پسند ہے اور پاکستان کے لیے بھی باعث اطمینان ہے۔ امریکا اپنے نظریاتی مخالف ممالک پر انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا الزام لگا کر انھیں بلیک میل کرتا رہتا ہے یہ اس کی عادت بن گئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے اپنا رخ امریکا سے موڑا ہے۔ خاص کر جمال خشوگی کے قتل کے معاملے کے بعد سے امریکا سعودی تعلقات میں تلخی کا عنصر شامل ہو گیا تھا۔ اس سال اگرچہ امریکا نے سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کا نام جمال خشوگی کے قتل کے معاملے سے الگ کیا ہے، لیکن اس امریکی اقدام کا کوئی خوشگوار اثر امریکا سعودی تعلقات پر نہیں پڑا۔

امریکا کا سعودی عرب پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مسلسل دباؤ تھا جس کے نتیجے میں کئی خلیجی ممالک نے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی غیر معمولی حد تک بڑھائے۔ لیکن سعودی عرب نے اس معاملے میں ابھی تک امریکی دباؤ قبول نہیں کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں