علی گڑھ تحریک

سرسید نے دن بدن مسلمانوں کی پسماندہ صورت حال کے باعث اس تحریک کا آغاز1857 کی جنگ آزادی سے قبل ہی کردیا تھا

علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کی پسماندگی سیاسی انداز میں دور کی،ایم اے او کالج کا قیام اور رسالہ تہذیب الاخلاق نے مسلمانوں کی سیاسی اور تمدنی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔

سرسید نے مذہب کا خول توڑنے کے بجائے اسے اور فعال بنایا۔قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ہی جس میں رہتی دنیا تک کہ تمام پوشیدہ انسانی مسائل کا حل موجود ہے اس سے رہنمائی حاصل کرکے مسلمانان ہند کی فکری رہنمائی کی۔بقول ڈاکڑعلامہ محمد اقبال ؒ۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملکوں و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے ہے مستحکم جمعیت تری

سقوط دہلی اور 1857کی جنگ آزادی میں مسلمانان ہند کی ناکامی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کی فلاح و ترقی کے لیے جو کوشش کی گئیں عرف عام میں وہ علی گڑھ تحریک کے نام سے مشہور ہوئیں۔

سرسید نے دن بدن مسلمانوں کی پسماندہ صورت حال کے باعث اس تحریک کا آغاز1857 کی جنگ آزادی سے قبل ہی کردیا تھا،غازی پور سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔سقوط دلی کے واقعے نے ان کی فکری اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کردیا تھااور یوں سرسید احمدایک مصلح کے روپ میں دنیا کے سامنے آئے اور قومی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔

ہندوؤں کے متعصبانہ رویے نے ان کی فکری جہت کو سوچنے پر مجبور کیااور اسی رویے نے ان کے دل میں مسلمانان ہندکی الگ جداگانہ قومی حیثیت کا خیال پیدا کیاجو کالج کے قیام کا پیش خیمہ بھی بنااور اپنی تحریروں سے یہ بات اجاگر کی کہ مسلمانان ہند کو بھی ترقی کے اس دھارے میں شامل کیاجائے۔

1869 میں سرسید انگلستان گئے انھوں نے وہاں کے طرزمعاشرت،رہن سہن اور تعلیمی سرگرمیوں کا مطالعہ بڑی انہماک سے کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان میں کیمبرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے، وہاں کے اخبارات سے متاثر ہو کر سرسید نے مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اخبار نکالے اور رسالہ تہذیب الاخلاق کا اجراء کیا،اس رسالے نے سرسید کے نظریات اور مقاصد کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔

اس تحریک کے مقاصد میں نئے علوم کا حصول،مذہبی تفہیم سے سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی سربلندی شامل تھی۔اس تحریک کا سیاسی پہلو یہ تھا کہ جنگ آزادی کے بعد اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکا تھا جب کہ ہندوؤں نے انگریزوں سے مفاہمانہ پالیسی اختیار کرلی اور حکومت کے اہم امور میں بھی شامل ہوگئے اور یوں مسلمانوں کو حکومتی ذمے داریوں سے تقریبا بے دخل کردیا گیا تھا۔


دوسرا اہم ترین پس منظر اس تحریک کا یہ بھی تھا کہ ایک ایسے زمانے میں جب مذہب کے روایتی تصور نے ذہن کو انتہائی قدامت پسندی اور ذہنی پسماندگی کی طرف مائل کردیا تھا وہاں سرسید نے عقل کے ذریعے اسلام کے حقیقی تصور کو پیش کیا کہ دین برحق نئے زمانے کے تقاضوں کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ نئے حقائق کی واضحات بھی اس کی آفاقی تعلیمات میں موجود ہے۔

اس تحریک کا تیسرا فعال زاویہ ادبی ہے جس نے نہ صرف اردو زبان کو وسعت دی بلکہ اس کے موضوعات کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر بھی کیا کیونکہ اس کا دائرہ تصوف،تاریخ اور تذکرے تک محددود تھا جب کہ سرسید نے طبعی علوم ،ریاضیات اور فنون لطیفہ اور سب سے اہم تکنیکی تعلیم کی طرف توجہ مبذول کرائی۔

اس تحریک کے لیے تدبراور شعور کو پروان چڑھانا لازمی تھااور اردو نثر ہی ان مقاصد میں زیادہ معاونت کرسکتی تھی چنانچہ ادبی سطح پر علی گڑھ تحریک نے اردو نثر کو ایک باوقار،سنجیدہ اور متوازن معیار قائم کیا جو سادگی اور متانت کا لبادہ پہنے ادب کی افادی اور مقصدی حیثیت کو ابھار سکی۔

اس تحریک نے سائنسی نقطہ نظر اور اظہار کی صداقت کو بھی فروغ دیا جس کا اثر سیرت نگاری کی صنف پر بھی پڑا چونکہ علی گڑھ تحریک مسلمانوں کی نشاہ ثانیہ کو فروغ دے رہی تھی اور یوں اس تحریک نے مذہبی حوالے سے تاریخی صداقتوں کو بھی پیش کیا۔سرسید نئی تعلیم کے حامی اور جدیدیت کے علمبردار تھے اور نبی پاکﷺ کی اخلاق حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اخلاقیات کی خالص قدروں کو بھی فروغ دیا۔

اس تحریک نے قومی زندگی میں جو ولولہ پیدا کیا اور اسے بیدار کرنے کے لیے ملی تاریخ سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔اس تحریک نے اس فلسفے حیات کو بھی زندگی بخشی کہ تاریخ کے اوراق میں قوم اور معاشرے کا دھڑکتا ہوا دل محفوظ ہوتا ہے جس کا آہنگ دریافت کرلینے سے مستقبل کو سنوارا اور ارتقاء کے تسلسل کو برقرار رکھا جاسکتا ہے،اسی نقطہ نظر سے آپ نے آئین اکبری ،تزک جہانگیری اورمرادآبادمیں قیام کے دوران ضیاء الدین بارانی کی تاریخ فیروز شاہی مرتب کیں۔

علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی قصیدہ خوانی نہیں کی اور نہ ہی اسلاف کی عظمت سے قوم کو مسحور کیا بلکہ سرسید کی فکر یہ تھی ان کے پیچھے کہ بزرگوں کے یادگار کارناموں کو یاد رکھنا ایک ایسی اچھائی جوش و جذبے کو فروغ دیتی ہے جس سے قوموں کی تاریخ بھی مرتب ہوتی ہے اور مستقبل کی مایوسی ختم ہوجاتی ہے اور یوں علی گڑھ تحریک نے تاریخ کی ایک جداگانہ بنیاد رکھی۔

سرسیدنے انتہائی غیر جانبداری سے تاریخ نگاری کی اور حاصلات قارئین کے شعور پر چھوڑ دیں،آپ تاریخ کو کسی افسانے یا ناول بنانے کے حق میں ہرگز نہیں تھے اور وہ شخصیت پرستی کے اثرات کو بالائے طاق رکھ کر واقعات کی سچی عکس بندی کرنا چاہتے اس لیے انھوں نے سادہ انداز بیاں کو فروغ دیا اور یوں1847 میں آثار الصنادید منظر عام پر آئی۔

اس تحریک نے مادی قدروں کو اجاگر کرنے کی کوشش بھی کی اور ادب کو ایسا مفید وسیلہ قرار دیا جو مادی زندگی کو بدلنے اور اس سے اس کے ارتقاء کی طرف مائل رکھنے کی صلاحیت رکھتا اور یوں بیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ بنااوراس تحریک نے ادب کو عین زندگی بنا دیاکیونکہ اعلیٰ تحریر وہی ہوتی ہے جس میں سچائی ہو جو دل سے نکلے اور دل میں اثر کر جائے اور یہی تمام تصورات کی اساس ہے۔

سرسید نے عبارت آرائی اور قافیہ پیمائی کو اعلیٰ نثر قرار دیا۔ علی گڑھ تحریک سے قبل تنقید صرف ذاتی تاثرات پر مبنی ہوتی تھی بعدازاں سرسید نے ادب کو بھی زندگی کے مماثل قرار دیا اور نظری اور عملی زاویوں سے ہمیشہ تنقید کی جس میں عوام الناس کی فلاح پنہاں ہوتی۔علی گڑھ تحریک بہت فکری اور ادبی تحریک تھی ۔اس تحریک کی بدولت اسلوب بیاں اور روح مضمون میں بلکہ ادبی انواع کے معاملے میں بھی بہت کام ہوا۔

اس فقیدالمثال تحریک کا ہراول دستہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء تھے جنھوں نے سرسید کی فکر کی ترجمانی کرنے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔جامعہ علی گڑھ مسلم طلباء کا سب سے بڑا مرکزتھااور قومی معاملات میں مرکزی کردار ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا تھا۔
Load Next Story