چورن سب کچھ ہضم
بات چورن کی ہو اور علامہ بریانی عرف برڈفلو کے کان کھڑے نہ ہوں، یہ کیسے ممکن ہے؟
صوبائی حکومت کے معاون خصوصی برائے ''سچ سچ'' اور سچ کے سوا کچھ نا، نے کہا ہے کہ امپورٹڈ حکومت کا ''چورن'' بکنے والا نہیں ہے۔
بات چورن کی ہو اور علامہ بریانی عرف برڈفلو کے کان کھڑے نہ ہوں، یہ کیسے ممکن ہے؟ چنانچہ یہ خبرسن کر نہ صرف اس کے کان کھڑے ہوگئے بلکہ ان پر جوئیں بھی رینگنے لگیں، اگر حکومتوں نے ''چورن سازی'' شروع کی تو اس کا ''چورن اعظم'' پھر کون خریدے گا کہ اس کے سارے خریدار یہی حکومت کے چٹے بٹے تو ہیں۔
علامہ کے اس خاندانی چورن کے بارے میں ہم بتا چکے ہیں لیکن ساتھ ہی آپ کی یادداشت پر بھی ہمیں مکمل بھروسہ ہے کہ وہ فلم گجنی کے عامر خان سے بھی کم ہے، اس لیے ایک مرتبہ پھر بتانے میں کوئی حرج نہیں۔
اپنے والد محترم کی وفات ''مسرت'' آیات اور انتقال خوش خوشحال پر جب اس نے گدی سنبھالی تو اس کے خاندانی توشہ خانہ میں اس خاندانی چورن کا نسخہ بھی تھا جو اس خاندان کے بزرگ جمعہ، جمعرات اور چہلم سے نبردآزما ہونے کے بعد پھانکتے تھے۔
اس وقت اس چورن کا نام صرف خاندانی چورن تھا لیکن گدی سنبھالتے ہی علامہ کے موجدانہ اور ذہن رسا سے اسے ڈویلپ کر کے لکڑ ہضم، پتھر ہضم کے نام سے لانچ کیا تو محکمہ جنگلات اور معدنیات سے متعلق لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور کافی عرصے تک بیسٹ سیلر رہا ہے لیکن جب علامہ نے دیکھا کہ مارکیٹ میں چورن کی خریداری کچھ کم پڑ رہی ہے تو اسے نئے نام سڑک ہضم پل ہضم سے چلا دیا تو تعمیرات وتخریبات کے لوگ اور ٹھیکیدار بھی اس کے گاہک بن گئے جب اس کی مارکیٹنگ بھی کچھ ''ضغف'' کا شکار ہونے لگی تو ایک اور نام بجٹ ہضم فنڈ ہضم کے نام سے چلا دیا، یوں منتخب نمایندے اور اعلیٰ سرکاری افسر بھی اس کے خریدار بن گئے۔
وزیروں، مشیروں، معاونوں کو پتہ چلا تو علامہ سے رجوع ہوئے اور یوں چورن کا نام قرضہ ہضم ملک ہضم کے نام سے مارکیٹ میں اتارا گیا پھرجب علامہ کو پتہ چلا کہ کچھ خاص لوگ اب بھی اس چورن کے دائرے سے باہر ہیں تو اس کا نام، سب کچھ ہضم رکھ کر چلا دیا اور اب اسی نام سے بے پناہ رش لے رہاہے لیکن تازہ دم معاون خصوصی برائے ''سچ سچ'' کے اس بیان نے ان کو بڑی تشویش میں مبتلاکر دیا ہے۔
اگر حکومتوں نے بھی چورن سازی شروع کی تو اس کے تو سارے خریدار ٹوٹ جائینگے کیونکہ اس کے سارے خریدار تو حکومتوں ہی کے لاحق اور سابق لوگ ہیں۔ علامہ کو نہ کسی امپورٹڈ حکومت سے دلچسپی ہے اور نہ ایکسپورٹڈ یا کسی اور ''ٹڈ'' سے، اسے تو اپنے چورن سے تعلق ہے، حکومت کافروں کی ہو یا مسلمانوں کی، سرخوں کی ہو یا سبزوں کی، اس کی بلا سے، بس اس کا چورن کسی طرح بکے۔
اوپر سے علامہ کا جدی پشتی رقیب و حریف قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کورونا وائرس بھی سرگرم بلکہ ''منہ گرم'' زبان گرم ہو کر طرح طرح کی ہوائیاں اڑا رہاہے کہ، بس علامہ کاچورن گیا کہ اس کے سارے خریدار اب چورن کے معاملے میں خودکفیل ہو گئے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں علامہ کی دوڑ مسجد تک ہی ہوتی ہے چنانچہ مسجد میں اس نے ایک زبردست تقریر کی جس میں ہر قسم اور رنگ کی حکومتوں کی دھجیاں اڑا دیں اور ان کے چورنوں کو نقلی اور ملاوٹی ثابت کر کے اپنے چورن کی خوبیاں بیان کی گئی تھیں لیکن اسے کیا خبر تھی کہ ادھر ڈاکٹر امرود مردود بھی کسی ایسے ہی موقع کی تاک میں تھا جس نے علامہ بریانی کے چورن کے مقابلے میں اپنا ایک ڈائجسٹیو مکسچر ایجاد کر کے لانچ کیا ہوا تھا اور پروپیگنڈہ پھیلایا ہوا تھا کہ علامہ کا چورن پرانے زمانے میں تو کچھ نہ کچھ موثر ہو گا لیکن جدید دور کی ملاوٹی خوراکوں کو ہضم کرانے میں قطعی ناکام ہے جب کہ اس کا ڈائجسٹیو مکسچر جدید زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
ڈاکٹر امرود مردود کے اس ڈائجسٹیو مکسچر کا نام ''آل ان آل'' ہے اور علامہ کے برعکس اس نے ایک اور پینترہ بھی چلایا ہوا ہے کہ جب کوئی مریض اس کی دکان عرف کلینک میں آتا ہے تو سب سے پہلے اسے مفت میں مکسچر پلایا جاتاہے، چاہے وہ کسی بھی مرض میں مبتلا ہو چنانچہ اس موقع کو غنیمت جان کر ڈاکٹر امرود مردود نے ایک اور پینترہ یہ کھیلا کہ قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کورونا وائرس کو اپنا معاون خصوصی برائے اطلاعات مقررکر دیا اور قہرخداوندی کو تو آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنے اور ایجاد کرنے میں اس کا جواب نہیں ہے، یوں سمجھئے کہ پیدائشی معاون خصوصی ہے۔
اس پریشان حالی اور درماندگی میں علامہ نے ہمیں ساری صورتحال سے آگاہ کر کے مشورہ مانگا کہ اگر حکومتوں نے ''چورن'' کا کاروبار اپنے ہاتھ میں لیا تو اس کے چورن کا کیا بنے گا، اورہم نے چٹکی بجاتے ہی اس کا مسلہ حل کر دیا، معاونین خصوصی اور ان کے بیانوں کی ''حقیقت'' بتا کر کہ مایا ہے سب مایا ہے۔
بات چورن کی ہو اور علامہ بریانی عرف برڈفلو کے کان کھڑے نہ ہوں، یہ کیسے ممکن ہے؟ چنانچہ یہ خبرسن کر نہ صرف اس کے کان کھڑے ہوگئے بلکہ ان پر جوئیں بھی رینگنے لگیں، اگر حکومتوں نے ''چورن سازی'' شروع کی تو اس کا ''چورن اعظم'' پھر کون خریدے گا کہ اس کے سارے خریدار یہی حکومت کے چٹے بٹے تو ہیں۔
علامہ کے اس خاندانی چورن کے بارے میں ہم بتا چکے ہیں لیکن ساتھ ہی آپ کی یادداشت پر بھی ہمیں مکمل بھروسہ ہے کہ وہ فلم گجنی کے عامر خان سے بھی کم ہے، اس لیے ایک مرتبہ پھر بتانے میں کوئی حرج نہیں۔
اپنے والد محترم کی وفات ''مسرت'' آیات اور انتقال خوش خوشحال پر جب اس نے گدی سنبھالی تو اس کے خاندانی توشہ خانہ میں اس خاندانی چورن کا نسخہ بھی تھا جو اس خاندان کے بزرگ جمعہ، جمعرات اور چہلم سے نبردآزما ہونے کے بعد پھانکتے تھے۔
اس وقت اس چورن کا نام صرف خاندانی چورن تھا لیکن گدی سنبھالتے ہی علامہ کے موجدانہ اور ذہن رسا سے اسے ڈویلپ کر کے لکڑ ہضم، پتھر ہضم کے نام سے لانچ کیا تو محکمہ جنگلات اور معدنیات سے متعلق لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور کافی عرصے تک بیسٹ سیلر رہا ہے لیکن جب علامہ نے دیکھا کہ مارکیٹ میں چورن کی خریداری کچھ کم پڑ رہی ہے تو اسے نئے نام سڑک ہضم پل ہضم سے چلا دیا تو تعمیرات وتخریبات کے لوگ اور ٹھیکیدار بھی اس کے گاہک بن گئے جب اس کی مارکیٹنگ بھی کچھ ''ضغف'' کا شکار ہونے لگی تو ایک اور نام بجٹ ہضم فنڈ ہضم کے نام سے چلا دیا، یوں منتخب نمایندے اور اعلیٰ سرکاری افسر بھی اس کے خریدار بن گئے۔
وزیروں، مشیروں، معاونوں کو پتہ چلا تو علامہ سے رجوع ہوئے اور یوں چورن کا نام قرضہ ہضم ملک ہضم کے نام سے مارکیٹ میں اتارا گیا پھرجب علامہ کو پتہ چلا کہ کچھ خاص لوگ اب بھی اس چورن کے دائرے سے باہر ہیں تو اس کا نام، سب کچھ ہضم رکھ کر چلا دیا اور اب اسی نام سے بے پناہ رش لے رہاہے لیکن تازہ دم معاون خصوصی برائے ''سچ سچ'' کے اس بیان نے ان کو بڑی تشویش میں مبتلاکر دیا ہے۔
اگر حکومتوں نے بھی چورن سازی شروع کی تو اس کے تو سارے خریدار ٹوٹ جائینگے کیونکہ اس کے سارے خریدار تو حکومتوں ہی کے لاحق اور سابق لوگ ہیں۔ علامہ کو نہ کسی امپورٹڈ حکومت سے دلچسپی ہے اور نہ ایکسپورٹڈ یا کسی اور ''ٹڈ'' سے، اسے تو اپنے چورن سے تعلق ہے، حکومت کافروں کی ہو یا مسلمانوں کی، سرخوں کی ہو یا سبزوں کی، اس کی بلا سے، بس اس کا چورن کسی طرح بکے۔
اوپر سے علامہ کا جدی پشتی رقیب و حریف قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کورونا وائرس بھی سرگرم بلکہ ''منہ گرم'' زبان گرم ہو کر طرح طرح کی ہوائیاں اڑا رہاہے کہ، بس علامہ کاچورن گیا کہ اس کے سارے خریدار اب چورن کے معاملے میں خودکفیل ہو گئے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں علامہ کی دوڑ مسجد تک ہی ہوتی ہے چنانچہ مسجد میں اس نے ایک زبردست تقریر کی جس میں ہر قسم اور رنگ کی حکومتوں کی دھجیاں اڑا دیں اور ان کے چورنوں کو نقلی اور ملاوٹی ثابت کر کے اپنے چورن کی خوبیاں بیان کی گئی تھیں لیکن اسے کیا خبر تھی کہ ادھر ڈاکٹر امرود مردود بھی کسی ایسے ہی موقع کی تاک میں تھا جس نے علامہ بریانی کے چورن کے مقابلے میں اپنا ایک ڈائجسٹیو مکسچر ایجاد کر کے لانچ کیا ہوا تھا اور پروپیگنڈہ پھیلایا ہوا تھا کہ علامہ کا چورن پرانے زمانے میں تو کچھ نہ کچھ موثر ہو گا لیکن جدید دور کی ملاوٹی خوراکوں کو ہضم کرانے میں قطعی ناکام ہے جب کہ اس کا ڈائجسٹیو مکسچر جدید زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
ڈاکٹر امرود مردود کے اس ڈائجسٹیو مکسچر کا نام ''آل ان آل'' ہے اور علامہ کے برعکس اس نے ایک اور پینترہ بھی چلایا ہوا ہے کہ جب کوئی مریض اس کی دکان عرف کلینک میں آتا ہے تو سب سے پہلے اسے مفت میں مکسچر پلایا جاتاہے، چاہے وہ کسی بھی مرض میں مبتلا ہو چنانچہ اس موقع کو غنیمت جان کر ڈاکٹر امرود مردود نے ایک اور پینترہ یہ کھیلا کہ قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کورونا وائرس کو اپنا معاون خصوصی برائے اطلاعات مقررکر دیا اور قہرخداوندی کو تو آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنے اور ایجاد کرنے میں اس کا جواب نہیں ہے، یوں سمجھئے کہ پیدائشی معاون خصوصی ہے۔
اس پریشان حالی اور درماندگی میں علامہ نے ہمیں ساری صورتحال سے آگاہ کر کے مشورہ مانگا کہ اگر حکومتوں نے ''چورن'' کا کاروبار اپنے ہاتھ میں لیا تو اس کے چورن کا کیا بنے گا، اورہم نے چٹکی بجاتے ہی اس کا مسلہ حل کر دیا، معاونین خصوصی اور ان کے بیانوں کی ''حقیقت'' بتا کر کہ مایا ہے سب مایا ہے۔