9 دسمبر
اسے اینٹی کرپشن ڈے کا نام دیا گیا ہے جس کا آسان اُردو ترجمہ انسدادِ رشوت ستانی ہے
اب شاید سال کے 365دنوں میں چند ہی دن ہوں جنھیں کسی چیز کا عالمی دن مقرر نہ کیا گیا ہو لیکن جن چند دنوں کا انسانی زندگی، معاشروں کی تعمیر، بنیادی اخلاقیات اور اندھی ہوسِ زر سے ہے، اُن میں 9دسمبر بہت اہم ہے کہ اسے اینٹی کرپشن ڈے کا نام دیا گیا ہے جس کا آسان اُردو ترجمہ انسدادِ رشوت ستانی ہے۔
مجھے اس کے ڈی جی ندیم سرور صاحب نے اس موقع پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مدعو کیا اور میری معذرت کو بھی قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے کہ یہ میرا چائے کا کپ نہیں ہے۔
گزشتہ ہفتے کراچی آرٹس کونسل کی سالانہ ادبی کانفرنس میں شرکت کے دوران دوبار گرنے کی وجہ سے میں ذہنی ا ور جسمانی طور پر بھی ا س کے لیے تیار نہیں تھا، اس پر ستم یہ ہوا کہ گاڑی میں بیٹھنے سے کچھ پہلے ٹھوکر لگنے سے میں پھر گِر پڑا اور اس بار ٹخنے اور گھٹنے پر لگنے والی ضرب پہلے سے شدید تھی۔
گرم گرم چوٹ کی وجہ سے نقصان کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا اور میں نے اس حالت میں الحمرا ہال میں جانے کا غلط فیصلہ کر لیا، وہاں پہنچ کر درد کی شدّت اور بڑھ گئی مگر معذرت کرکے واپسی کی صورت اس لیے نہ بن سکی کہ ایک میزبان مقرر کے سوا دوسرے دونوں ساتھی محترمہ ناصرہ اقبال اور ڈاکٹر اصغر زیدی نے آخری لمحے پر ذاتی وجوہات کے باعث معذرت کرلی.
مہمانِ خصوسی چیف منسٹر پنجاب کی آمد بارہ بج کر دس منٹ پر متوقع تھی جس میں ابھی ایک گھنٹہ پڑا تھا ،میں نے تو کھینچ تان کر پندرہ بیس منٹ نکال لیے لیکن باقی کا پون گھنٹہ جس طرح میزبان مقرّر نے نکالا اس کے لیے مین آف دی میچ کا انعام ان کا حق بنتا تھا۔
یہ ساری تفصیل میں نے اس لیے درج کی ہے ہمارے سامعین کو جو بہت بڑی تعداد میں موجود تھے، اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں پر کیا گزر رہی ہے۔ میں نے ذہن پر زور دیا تو رشوت ستانی اور محکمہ انسدادِ رشوت ستانی کے بارے میں جو باتیں فوری طور پر ذہن میں آئیں، ان سب میں مزاح کا ایک ایسا پہلو نکلتا تھا جو شاید اس محفل کے لیے موزوں نہیں تھا کہ مقصد رشوت کے نقائص اور اس کی روک تھام کے طریقوں کو اجاگر کرنا بھی تھا، مثال کے طور پر پہلی بات جو ذہن میں آئی وہ دلاور فگار مرحوم کا ایک زندہ جاوید مصرعہ تھا کہ ''لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا''
اب ظاہر ہے کہ ''دے کے رشوت چھوٹ جا'' کا اشارہ جس طرف کیا گیا تھا ان میں سے کچھ کا تعلق ہال میں موجود سامعین سے تھا دوسری مثال جو سامنے آئی وہ میں اپنے کسی ڈرامے میں ایک سین کی شکل میں پیش کر چکا تھا کہ ایک آدمی اپنی فائل کا پتہ کرنے کے لیے متعلقہ کلرک کے پاس جاتا ہے تو وہ اس میں پہیے لگانے کا مشورہ دیتا ہے، وضاحت طلب کرنے پر اسے بتایا جاتا ہے کہ قوم اپنے قائد محمد علی جناح سے بہت محبت کرتی ہے، سو اگر تم ان کی تصویروں والے کچھ نوٹ اس فائل میں رکھو گے تو وہ پہیئے کا کام دیں گے اور تمہاری فائل دوڑتی بھاگتی ہوئی تمام متعلقہ میزوں کو کراس کرکے تمہارے پاس واپس پہنچ جائے گی اور تمہارا کام ہوجائے گا۔
قائد کی تصویر کی طرح ہماری اور بھی بہت سی خوب صورت اخلاقی اقدار اسی لالچ اور طمع کی بھینٹ چڑھ کر معاشرے کو ایک ایسی بے حیائی کے حوالے کر گئی ہیںکہ برائی کرنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اس عمل کی بدولت اپنے ایمان، اولاد، معاشرے اورضمیر کے ساتھ کیا خوفناک کھیل کھیل رہا ہے ۔
اب جہاں تک معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر رشوت ستانی کا تعلق ہے تو اس کی جڑیں کئی ہزار سال پیچھے تک پھیلی ہوئی ہیں، تاریخ کے ہر دور میں ہمیں رشوت لینے اور دینے والوں کے ساتھ انھیں برا سمجھنے اور ان کی روک تھام کرنے والے لوگ بھی ملتے ہیں مگر زندگی کا دائرہ محدود ہونے کی وجہ سے ان کی موجودگی کا تاثر زیادہ شدید نہیں تھا۔
مجھے ا چھی طرح یاد ہے ہمارے بچپن تک اگر محلے میں کوئی گھر اچانک اپنے وسائل سے زیادہ امیر ہونا شروع ہوتا تھا تو محلے کے بزرگ اپنے بچوں کو ان سے دُور رہنے کی تلقین کرتے تھے کہ ان کی یہ نمائشی ترقی اس حرام مال کی وجہ سے جو یہ لوگ اپنے ایمان اور اقدار کو بیچنے کے عوض میں حاصل کر رہے ہیں ۔
وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی آمد پر عمران خان کے ایک پیغام پر مشتمل آٹھ منٹ کی وڈیو دکھائی گئی جس میں انھوں نے بتایا کہ جب بڑے اور طاقتور لوگ چوری کرنے کے بعد پکڑے نہیں جاتے تو ان کی دیکھا دیکھی نچلے طبقوں اور سرکاری دفتروں میں بھی یہ زہر پھیل جاتا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی نے بھی اپنے خطاب میں اس دلیل کو دہرایا مگر یہ اس سوال کا جزوی جواب تو ہے مکمل جواب نہیں کہ اخلاقی انحطاط نے پورے معاشرے کو ہر سطح پر اس طرح سے گھیر رکھا ہے کہ ہر آدمی اپنے لیے رشوت کو جائز سمجھنے لگا ہے، ایسے میں اینٹی کرپشن محکمے کا دائرہ کار نہ صرف بہت زیادہ بڑھ گیا ہے بلکہ الجھ بھی گیا ہے کہ طاقتور لوگ کسی نہ کسی طرح اپنی ناجائز ذرایع سے جمع کی ہوئی دولت جس میں رشوت بھی شامل ہوتی ہے قانون کے ہاتھوں سے بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور معاشرے کے دیگر افراد اس عمل میں کبھی کبھار پکڑے جانے کو اس کھیل کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔
سو ضرورت اس بات کی ہے کہ 9دسمبر کو صرف ایک عالمی ذمے داری سمجھ کر نہ منایا جائے بلکہ اسے اپنے معاشرے کے ماحول، تضادات، مجبوریوں اور بے انصافی کو سامنے رکھتے ہوئے اس شعبے کے ماہرین کی مدد سے ایک ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں سب سے پہلے نئی نسل کو اس کی خرابیوں سے آگاہ کیا جائے اور اس کے بعد دیگر شعبوں میں معاشی اور معاشرتی انصاف کی مدد سے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ اس کام کو کرنے کے لیے اگر کوئی الہ دین کا جن ممکن ہے تو وہ ہم ہی ہیں۔
مجھے اس کے ڈی جی ندیم سرور صاحب نے اس موقع پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مدعو کیا اور میری معذرت کو بھی قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے کہ یہ میرا چائے کا کپ نہیں ہے۔
گزشتہ ہفتے کراچی آرٹس کونسل کی سالانہ ادبی کانفرنس میں شرکت کے دوران دوبار گرنے کی وجہ سے میں ذہنی ا ور جسمانی طور پر بھی ا س کے لیے تیار نہیں تھا، اس پر ستم یہ ہوا کہ گاڑی میں بیٹھنے سے کچھ پہلے ٹھوکر لگنے سے میں پھر گِر پڑا اور اس بار ٹخنے اور گھٹنے پر لگنے والی ضرب پہلے سے شدید تھی۔
گرم گرم چوٹ کی وجہ سے نقصان کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا اور میں نے اس حالت میں الحمرا ہال میں جانے کا غلط فیصلہ کر لیا، وہاں پہنچ کر درد کی شدّت اور بڑھ گئی مگر معذرت کرکے واپسی کی صورت اس لیے نہ بن سکی کہ ایک میزبان مقرر کے سوا دوسرے دونوں ساتھی محترمہ ناصرہ اقبال اور ڈاکٹر اصغر زیدی نے آخری لمحے پر ذاتی وجوہات کے باعث معذرت کرلی.
مہمانِ خصوسی چیف منسٹر پنجاب کی آمد بارہ بج کر دس منٹ پر متوقع تھی جس میں ابھی ایک گھنٹہ پڑا تھا ،میں نے تو کھینچ تان کر پندرہ بیس منٹ نکال لیے لیکن باقی کا پون گھنٹہ جس طرح میزبان مقرّر نے نکالا اس کے لیے مین آف دی میچ کا انعام ان کا حق بنتا تھا۔
یہ ساری تفصیل میں نے اس لیے درج کی ہے ہمارے سامعین کو جو بہت بڑی تعداد میں موجود تھے، اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں پر کیا گزر رہی ہے۔ میں نے ذہن پر زور دیا تو رشوت ستانی اور محکمہ انسدادِ رشوت ستانی کے بارے میں جو باتیں فوری طور پر ذہن میں آئیں، ان سب میں مزاح کا ایک ایسا پہلو نکلتا تھا جو شاید اس محفل کے لیے موزوں نہیں تھا کہ مقصد رشوت کے نقائص اور اس کی روک تھام کے طریقوں کو اجاگر کرنا بھی تھا، مثال کے طور پر پہلی بات جو ذہن میں آئی وہ دلاور فگار مرحوم کا ایک زندہ جاوید مصرعہ تھا کہ ''لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا''
اب ظاہر ہے کہ ''دے کے رشوت چھوٹ جا'' کا اشارہ جس طرف کیا گیا تھا ان میں سے کچھ کا تعلق ہال میں موجود سامعین سے تھا دوسری مثال جو سامنے آئی وہ میں اپنے کسی ڈرامے میں ایک سین کی شکل میں پیش کر چکا تھا کہ ایک آدمی اپنی فائل کا پتہ کرنے کے لیے متعلقہ کلرک کے پاس جاتا ہے تو وہ اس میں پہیے لگانے کا مشورہ دیتا ہے، وضاحت طلب کرنے پر اسے بتایا جاتا ہے کہ قوم اپنے قائد محمد علی جناح سے بہت محبت کرتی ہے، سو اگر تم ان کی تصویروں والے کچھ نوٹ اس فائل میں رکھو گے تو وہ پہیئے کا کام دیں گے اور تمہاری فائل دوڑتی بھاگتی ہوئی تمام متعلقہ میزوں کو کراس کرکے تمہارے پاس واپس پہنچ جائے گی اور تمہارا کام ہوجائے گا۔
قائد کی تصویر کی طرح ہماری اور بھی بہت سی خوب صورت اخلاقی اقدار اسی لالچ اور طمع کی بھینٹ چڑھ کر معاشرے کو ایک ایسی بے حیائی کے حوالے کر گئی ہیںکہ برائی کرنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اس عمل کی بدولت اپنے ایمان، اولاد، معاشرے اورضمیر کے ساتھ کیا خوفناک کھیل کھیل رہا ہے ۔
اب جہاں تک معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر رشوت ستانی کا تعلق ہے تو اس کی جڑیں کئی ہزار سال پیچھے تک پھیلی ہوئی ہیں، تاریخ کے ہر دور میں ہمیں رشوت لینے اور دینے والوں کے ساتھ انھیں برا سمجھنے اور ان کی روک تھام کرنے والے لوگ بھی ملتے ہیں مگر زندگی کا دائرہ محدود ہونے کی وجہ سے ان کی موجودگی کا تاثر زیادہ شدید نہیں تھا۔
مجھے ا چھی طرح یاد ہے ہمارے بچپن تک اگر محلے میں کوئی گھر اچانک اپنے وسائل سے زیادہ امیر ہونا شروع ہوتا تھا تو محلے کے بزرگ اپنے بچوں کو ان سے دُور رہنے کی تلقین کرتے تھے کہ ان کی یہ نمائشی ترقی اس حرام مال کی وجہ سے جو یہ لوگ اپنے ایمان اور اقدار کو بیچنے کے عوض میں حاصل کر رہے ہیں ۔
وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی آمد پر عمران خان کے ایک پیغام پر مشتمل آٹھ منٹ کی وڈیو دکھائی گئی جس میں انھوں نے بتایا کہ جب بڑے اور طاقتور لوگ چوری کرنے کے بعد پکڑے نہیں جاتے تو ان کی دیکھا دیکھی نچلے طبقوں اور سرکاری دفتروں میں بھی یہ زہر پھیل جاتا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی نے بھی اپنے خطاب میں اس دلیل کو دہرایا مگر یہ اس سوال کا جزوی جواب تو ہے مکمل جواب نہیں کہ اخلاقی انحطاط نے پورے معاشرے کو ہر سطح پر اس طرح سے گھیر رکھا ہے کہ ہر آدمی اپنے لیے رشوت کو جائز سمجھنے لگا ہے، ایسے میں اینٹی کرپشن محکمے کا دائرہ کار نہ صرف بہت زیادہ بڑھ گیا ہے بلکہ الجھ بھی گیا ہے کہ طاقتور لوگ کسی نہ کسی طرح اپنی ناجائز ذرایع سے جمع کی ہوئی دولت جس میں رشوت بھی شامل ہوتی ہے قانون کے ہاتھوں سے بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور معاشرے کے دیگر افراد اس عمل میں کبھی کبھار پکڑے جانے کو اس کھیل کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔
سو ضرورت اس بات کی ہے کہ 9دسمبر کو صرف ایک عالمی ذمے داری سمجھ کر نہ منایا جائے بلکہ اسے اپنے معاشرے کے ماحول، تضادات، مجبوریوں اور بے انصافی کو سامنے رکھتے ہوئے اس شعبے کے ماہرین کی مدد سے ایک ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں سب سے پہلے نئی نسل کو اس کی خرابیوں سے آگاہ کیا جائے اور اس کے بعد دیگر شعبوں میں معاشی اور معاشرتی انصاف کی مدد سے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ اس کام کو کرنے کے لیے اگر کوئی الہ دین کا جن ممکن ہے تو وہ ہم ہی ہیں۔