یہ میرا پاکستان ہے…
آنیوالی نئی نسلوں کو منفی سوچ دینے والے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں ۔۔۔
ایک چینی کہاوت ہے ''اگر کسی درخت کے پاس جا کر اسے برا بھلا کہو تو اسے کاٹنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی وہ خود ختم ہو جائے گا'' بالکل ایسے ہی ہم اپنے مسائل کا رونا روتے ہیں مگر اپنے مثبت عمل کے ساتھ ایک قدم بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں مسائل ضرور ہیں مگر ان کے ساتھ ہمارے پاس ان مسائل کے حل بھی موجود ہیں صرف مثبت سوچ اور عمل کی ضرورت ہے۔
میرا پاکستان اللہ کی طرف سے دیا ہوا وہ تحفہ ہے جو ہر صلاحیت کے ہر اعتبار سے منفرد اور بہترین مثال رکھتا ہے یہاں سارے موسم سردی، گرمی، خزاں، بہار تو ہیں ہی سمندر، پہاڑ، چشمے، ندیاں، نمک، کوئلہ، گیس، سنگ مرمر اور جپسم کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ زرعی زمین ہونے کے سبب پھل پھول اناج کپاس اور دیگر اشیا قدرتی ہوا اور سورج کی بھرپور روشنی سے ذائقے میں بہت عمدہ اور غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں اس ملک کے لوگوں میں اتنی صلاحیتیں ہیں کہ ہر مشکل سے مشکل دور میں بھی پاکستان کو بہترین ملک ثابت کر سکتے ہیں۔ یہ وہی قوم ہے جو پاکستان بننے کے بعد جب یہاں آئی تو ہمارے پاس کچھ نہ تھا دفاتر میں استعمال کے لیے فرنیچر اور اسٹیشنری تک موجود نہ تھی یوں سمجھ لیں ایک چٹیل میدان تھا۔
آج تو اس مالک کا احسان ہے اس ملک میں بہترین سے بہترین اشیا موجود ہیں اس کے باوجود ہم اپنے وسائل کی طرف نظر ڈالنے کے بجائے دوسروں سے امید لگا کے بیٹھے ہیں ہمارے ملک نے پچھلے گیارہ سالوں میں امریکا سے تقریباً 11 بلین ڈالرز کا قرضہ لیا ہے جو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا تھا مگر افسوس عوام پر ہی ٹیکسوں کی صورت یہ بوجھ ڈال گیا گیا۔ ہم ایک طرف مہنگائی کا رونا روتے ہیں کہ عوام کچل کے رہ گئی ہے اور حکمران جن کی حفاظت اور گارڈز کا خرچہ ہی لاکھوں میں ہے غریب ملک کے پارلیمنٹ ہاؤس میں وزراء کی تعداد حد سے کہیں زیادہ ہے۔ جب کہ اسی پارلیمنٹ ہاؤس کے باغیچوں کا خرچہ بے تحاشا ہے تو وزراء کا عالم کیا ہو گا۔
غریب کے پھول جیسے بچے غربت کی چکی میں پسیں، مائیں بچوں کو جان سے مارنے پر مجبور ہو جائیں یا باپ انھیں سڑک پر بیچنے جائیں غریب خود سوزی کرے یا بھوک کی آگ میں جلے حکمرانوں کی جیبیں تو گرم ہیں تو اس کا حل بھی ہمیں ہی نکالنا ہے ہم عوام جو اپنی اپنی بستیوں میں بٹے ہوئے ہیں پنجابی، پشتون، مہاجر، سندھی، بلوچی، میمن، سنی، شیعہ اور دیگر ہونے کو ایک پاکستانی ہونے پر ترجیح دیتے ہوئے بے بنیاد تعصبات کی جنگ لڑ رہے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس ملک کا کیا ہو گا اگر یہ قوم ایک ہو جائے تو ارض وطن کے پرچم کو ایسا سربلند کرتی ہے کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی پرچم بنانے کا اعزاز حاصل کر لیتی ہے یہ نمونہ تو محض چند ہزار نوجوانوں کے اتحاد کا تھا پھر پوری قوم کا نوجوان یکجا ہو جائے تو اس ملک کو ترقی کی راہ پے چلنے سے کون روک سکتا ہے۔ یہ بات بھی عرض کر دوں کہ یہ وہ ملک ہے جہاں نوجوانوں کی شرح تعداد ساری دنیا میں سب سے زیادہ ہے نئی نسل اور نئی مثبت سوچ نیک اور سچے حکمرانوں کو ایوانوں تک پہنچانے میں مثالی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس دور میں جب مایوسی پر پھیلائے اس ملک کو نگلنے کے فراق میں ہے تو یقینا قائد اعظم کا قول کام، کام اور صرف کام وہ بھی اتحاد، تنظیم اور نظم و ضبط کے ساتھ لازمی ہو گیا ہے اور یہ ایوانوں میں بیٹھے منتخب نمایندوں سے لے کر کسی دفتر کے کلرک تک اور وہاں سے کسی کچرہ چننے والے تک سب پر لاگو ہوتا ہے۔
اس ملک میں بجلی نہیں ہے، پٹرول مہنگا ہے، سی این جی کئی کئی دن تک دستیاب نہیں اور جب ملے تو لمبی قطاروں میں وقت کا ضیاع اور مہنگائی کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں احساس محرومی اور جھنجھلاہٹ بڑھتی ہے قیام پاکستان سے اب تک جو بویا ہے وہی کاٹ رہے ہیں اپنے صحیح ووٹ کا استعمال اس ملک کی ایک بے مثال تاریخ رقم کر سکتا ہے اور ہے اس سب کے باوجود ایسا نہیں کہ پاکستان نے کوئی ترقی نہیں کی آج اس ملک کی تقدیر آپ کے اپنے ہاتھ ہے یہ ملک آج بھی اپنے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ سولر انرجی، کوئلہ، سوئی گیس توانائی کے بحران پر قابو پا سکتے ہیں تو اپنی توانائیوں میں اضافے کے لیے ڈیم بھی بنائے جا سکتے ہیں اس سب میں حکومتوں کے ساتھ عوام بھی کہیں نہ کہیں قصور وار ہیں۔ بجلی چوری ایک عام سی بات بن گئی ہے کوئی تقریب ہو یا میلاد مجلس کوئی تہوار ہو یا جشن پاکستان ہر موقعے پر پورے پورے شہر سجا کر وہ بھی چوری کی بجلی سے اس ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں کوئی غیر ملکی یہ کام نہیں کرتا آپ خود اس کے ذمے دار ہیں۔
پاکستان تھرکے مقام پر کوئلے کے ذخائر میں دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے جو 175 بلین ٹن ہے اس کے استعمال سے 300 سال تک بجلی بنائی جا سکتی ہے اس سلسلے میں تھرپارکر میں ایک منصوبہ لگایا گیا ہے جس سے 2020سے بجلی کی پیداوار کی توقع ہے اسی ضلعے میں اربوں روپے سے سندھ فیسٹیول منعقد کیا گیا تو ایک رخ یہ بھی ہے کہ تھر کی عوام قحط سالی کا شکار ہے اس تین مہینے میں 121 بچے بھوک سے مر چکے ہیں 60 ہزار بوری گندم سرکاری گوداموں میں پڑی ہی رہ گئی۔
اس ملک میں غنڈہ گردی، چوری، ڈکیتی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، لاشوں کا ملنا، اغوا برائے تاوان، آبرو فروشی، منشیات فروشی، رشوت، بے ایمانی اور دھوکہ دہی کا راج ہے تو اسی ملک کی رگوں میں اسلام خون بن کے دوڑتا ہے سب مسلم بن کے سوچیں تو سب پل بھر میں ٹھیک ہو سکتا ہے ۔
ایک طرف اقوام عالم کا دباؤ ہے تو پاکستان بھی محض زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ یہ لاکھوں انسانوں کی قربانی اور خون سے لکھی وہ داستان ہے جو Atomic Power بن چکی ہے اس کی عوام آج بھی اس ملک کی خاطر جان تک دینے کو تیار ہیں اور کسی صورت اس پاک دھرتی کو اغیار کے ہاتھوں سونپنے کو تیار نہیں۔
ایک طرف ہم اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے زہر اگلتے ہیں کہ پاکستان کا سسٹم ہی خراب ہے۔ یہاں پورے ملک میں ایک نصاب کرنے کے لیے کئی سالوں سے صرف کمیٹیاں ہی بن رہی ہیں اور صرف امرا کی اولادیں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں ڈاکٹر، انجینئر، ایم۔بی۔اے وغیرہ کی تعلیم غریب کی استطاعت سے باہر ہو چکی ہے۔ کرپشن نے میرٹ کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دی ہیں ڈگریاں اور نشستیں بکتی ہیں یہاں تک کہ اس ملک کے رکھوالے ایوانوں میں بیٹھے بہت سے ایم این اے اور ایم پی اے کی ڈگریاں جعلی نکلیں۔
غریب کا بچہ سڑک پر ان ہی امرا کی گاڑیوں کو دھوتا اور پنکچر لگاتا نظر آتا ہے کچرا چنتے اور مزدوری کرتے یہ بچے بھی ہمارا مستقبل ہیں جب کہ ہمارے آئین کی شق نمبر 11 کے مطابق 14 سال سے کم عمر بچے سے مزدوری کروانا قانوناً جرم ہے کیا ہم نے ان غریب بچوں میں سے کسی کا سہارا بننے اس کی اسکول کی فیس کا خرچہ اٹھانے کی ذمے داری قبول کی اگر ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جائے تو ان میں بھی ٹیلنٹ کی کمی نہیں کیا پتہ ان میں سے کون بچہ عارفہ کریم، شافع توبانی ، عمیمہ عادل، بابر اقبال، موسیٰ فیروز، ستارہ اکبر، شایان انیق بنے یا ایسا ہی کوئی اور ذہن پاکستان کے نام کو روشن کر دکھائے۔
آنیوالی نئی نسلوں کو منفی سوچ دینے والے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ آج ان کے پاس ان کے باپ دادا سے کہیں زیادہ سہولیات اور آسائشیں ہیں کہیں زیادہ خوشحال ہیں اگر ایسا نہیں تو بازاروں میں اتنی رونقیں نہ ہوتیں جگہ جگہ فوڈ اسٹریٹ نہ ہوتیں ریسٹورنٹ اور فاسٹ فوڈ سینٹر نہ ہوتے اگر کوئی بھوکا مر رہا ہے تو کوئی عیاشی سے زندگی گزار رہا ہے لیکن غربت کے خاتمے کے لیے تعلیم ضروری ہے جو ہم کسی غریب کو دینے کو تیار نہیں تو قصور وار ہم بھی ہیں صرف حکومتیں نہیں، تعلیم کے ذریعے اس مسئلے کا حل کیا جاسکتا ہے اگر ہم قدم آگے بڑھائیں مثبت سوچ کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے، ہر امیر آدمی اپنی پوری زکوٰۃ نکالے تو اس ملک سے غربت کا خاتمہ ہو جائے یہی ملک ہے جہاں ایدھی، چھیپا، سیلانی ویلفیئر، انصار برنی جیسے ٹرسٹ اور ادارے قائم ہیں۔
کسی اوورسیز پاکستانی سے پوچھیں کیسے دوسرے درجے کے شہری بن کے رہتے ہیں اس ملک کی حفاظت کریں اسے سراہیں اور اس کی ہر اچھی پروڈکٹ کو پروموٹ کریں تا کہ آپ اور میں یہ فخر سے کہہ سکیں یہ میرا پاکستان ہے۔