رسوم و رواج کی جبریت…
اگر لڑکیوں کے لیے اسکولز قائم کر بھی دیے جاتے ہیں تو وہ اسکولز مقامی وڈیرے کے پالتو جانور باندھنے کے کام آتے ہیں ۔۔۔
خواتین پر صدیوں سے روا رکھے جانے والے ظلم و جبر کا سلسلہ اب اختتام پذیر ہونا چاہیے۔ یہ ظلم و جبر کسی ایک شکل میں نہیں بلکہ بے شمار اشکال میں موجود ہے۔ زمانہ جہالت میں تو ایک انسان کا دوسرے انسان پر ظلم و ستم کرنا سمجھ میں آتا ہے کہ اس دور میں انسان تہذیب ناآشنا تھا۔ لیکن آج کے جدید دور میں انسان اس قدر بے حس کیوں ہے؟ یہ بات ناقابل فہم ہے۔ آج ہم خواتین پر ہونے والے مظالم کا تذکرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں بے جوڑ شادیوں کا۔ بے جوڑ شادی وہ ہوتی ہے جس میں میاں بیوی کی عمروں میں بہت زیادہ فرق ہو۔ اس بارے میں بھی ظلم خاتون پر ہی ہوتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں شادی کے معاملے میں اگر لڑکی کی عمر لڑکے سے ایک دو برس بھی زیادہ ہو تو اعتراض کیا جاتا ہے کہ لڑکی کی عمر تو دیکھو پوری دو برس لڑکے سے بڑی ہے لیکن جب معاملہ مرد یا لڑکے کا ہو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھا نہیں ہوتے۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ عرض کرتا ہوں جو کہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ ایک پرانے جاننے والے سے ہماری ملاقات کوئی چار برس بعد ہوئی۔ یہ صاحب رنڈوے تھے۔ بیوی ایک بیٹی اور ایک بیٹے کو ان کے حوالے کر کے جہان فانی سے کوچ فرما چکی تھیں۔ حال احوال کے بعد ہم نے دریافت کیا بچوں کی شادی کر دی؟ فرمانے لگے بچوں کی شادیاں بھی کر دیں اور اپنی شادی بھی کر لی۔ ان کی عمر اس وقت پچپن برس کے آس پاس تھی۔ ہم نے بے تکلف ہوتے ہوئے کہا۔ بھئی! اس عمر میں کس کی قسمت پھوڑ دی؟ جواب میں خفا ہوتے ہوئے وہ صاحب بولے۔ اسلم صاحب! میرے 2 لاکھ روپے خرچ ہو گئے، آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے۔ پھر وہ صاحب خود ہی بتانے لگے کہ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے تو لڑکی کے والدین کو عیوزہ دیا ہے کیونکہ ہمارے قبیلے میں رواج ہے کہ یا تو بدلے کی شادی ہوتی ہے یعنی لڑکی کے بدلے لڑکی دی جاتی ہے اگر بدلے میں لڑکی نہیں دے سکتے تو پھر رقم دو۔ یہ رقم ''عیوزہ'' کہلاتی ہے۔ باتوں باتوں میں ہم نے دریافت کیا لڑکی کی عمر کیا ہے؟ فرمانے لگے چودہ برس۔ اس جواب پر ہمارے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا کہ حد ہوتی ہے جہالت کی۔ اس قسم کی بے جوڑ شادی کے جو نتائج نکل سکتے ہیں وہ بڑے ہی بھیانک ہوتے ہیں۔ یہ کمسن دلہن غلطی سے کسی مرد سے بات کرتے ہوئے بھی دیکھی جائے تو انجام کاروکاری ہے۔
جس کی سزا صرف موت ہے۔ یہ موت بھی بے حد سنگین طریقے سے دی جاتی ہے۔ یعنی ایک گڑھا کھودا جاتا ہے لڑکی کو اس کے کنارے کھڑا کر دیا جاتا ہے اور گولی مار دی جاتی ہے اس امر کا پورا خیال رکھا جاتا ہے کہ گولی لگنے کے بعد لڑکی گڑھے میں گرے۔ لڑکی کے گرنے کے ساتھ ہی اس کے مرنے کا انتظار کیے بنا اس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے اور مرنے کے بعد بھی اس کی سزا برقرار رکھی جاتی ہے۔ اس سزا کی شکل یہ ہے کہ نہ تو اس لڑکی کے لیے دعائے خیر کی جاتی ہے نہ ہی اس لڑکی کے ورثا سے کوئی تعزیت کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کاروکاری کی موت مرنے والے لوگوں کے لیے قبرستان بھی الگ ہوتا ہے۔ یہ تو لڑکی یا خاتون کی سزا ہے۔ اب اس مرد کا احوال بھی ملاحظہ ہو۔ اس مرد کی سزا یہ ہے کہ اسے بھی کارو کاری کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے یا پھر پنچایت کے فیصلے کے مطابق اس کو سزا دی جاتی ہے۔ یہ سزا رقم کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے جو کہ ہر قبیلے کی الگ الگ مقرر ہے۔ ملک کے دو مشہور قبائل کی اگر خاتون ہو تو یہ رقم ساڑھے 6 لاکھ روپے ہے۔ یہ قبائل کہاں آباد ہیں اگر یہ لکھ دوں تو بات ذاتیات تک چلی جائے گی۔ اگر وہ مرد رقم ادا کرنے سے قاصر ہو تو پھر اس کی بہن، بیٹی یا قریبی رشتے دار خاتون بدلے میں دی جاتی ہے۔ کبھی کبھی کمسن ترین معصوم بچیاں بھی بدلے میں دی جاتی ہیں کہ جب بڑی ہوں تو ان سے شادی کی جا سکے۔
گزشتہ برس یعنی 2013 میں پاکستان میں 892 خواتین کو کاروکاری یا غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ اعداد و شمار کی بات ہو رہی ہے تو گزشتہ برس خواتین پر تشدد کے 605 ، تیزاب پھینکنے کے 101، زنا بالجبر کے 116 ، اجتماعی زیادتی کے 415، گھریلو تشدد کے 591، ٹارگٹ کلنگ 413 اور جنسی ہراساں کرنے کے 280 کیسز سامنے آئے اور اس قسم کے واقعات میں دو ہزار خواتین قتل ہوئیں۔ اسی قسم کے واقعات میں پڑوسی ملک بھارت میں گزشتہ برس یعنی 2013ء میں سات ہزار خواتین لقمہ اجل بن گئیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک اور رسم بد پائی جاتی ہے۔ وہ ہے بدلے کی شادیاں۔ مطلب یہ کہ اگر رشتہ مطلوب ہے تو پھر بدلے میں رشتے دو۔ اس قسم کی رشتے داری کو وٹہ سٹہ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی رشتے داری میں بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ غلطی ایک انسان کرتا ہے لیکن خمیازہ چار افراد کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو تشدد کا نشانہ بنائے تو اس کی بیوی کا بھائی جو تشدد کرنے والے مرد کا بہنوئی بھی ہے لازماً اپنی بیوی کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ دونوں صورتوں میں مظلوم خواتین ہی ہوتی ہیں۔ ایک اور بد ترین رسم بھی پاکستان میں کافی فروغ پا چکی ہے۔
وہ ہے ونی کی رسم۔ یہ انتہائی ظالمانہ رسم ہے۔ اس رسم کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب 2 قبائل یا خاندان باہمی دشمنی سے تنگ آ کر صلح کر لیں تو پھر تیسرے فریق سے فیصلہ لیا جاتا ہے کہ ایک دوسرے کے نقصانات کا ازالہ کیسے کیا جائے۔ پھر پنچایت یا جرگہ فیصلہ کرتا ہے۔ یہ قبیلہ دوسرے قبیلے والوں کو اتنی لڑکیاں دے۔ اس رسم بد کی ادائیگی کے دوران افسوس ناک پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ ماں کی گود میں کھیلنے والی معصوم بچیاں جن کی عمریں 2 یا 3 سال ہوں وہ بچیاں بھی ونی کی رسم کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔ اب ان معصوم بچیوں و دیگر لڑکیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا یا کیا سلوک ہوتا ہے اس کی کون فکر کرے؟ ویسے بھی دشمن قبیلے کی لڑکیوں سے کون حسن سلوک کرتا ہے؟ ویسے تو خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم کی فہرست کافی طویل ہے لیکن بے جوڑ شادیوں، ونی، کاروکاری کے علاوہ بھی انسانیت سوز مظالم روا رکھے جاتے ہیں۔
ان میں وراثت سے محرومی، جہیز نہ لانے پر ساری عمر کے طعنے، اچھی خوراک سے محرومی۔ عام تصور ہمارے معاشرے میں یہی پایا جاتا ہے کہ لڑکوں نے تو سخت محنت کرنا ہوتی ہے چنانچہ اچھی خوراک لڑکوں کا حق ہے۔ ایک اور قابل شرم، قابل مذمت رسم خبیث ہے۔ اس رسم کا تعلق صرف جاہلانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ لیکن اس رسم کو جوڑا جاتا ہے مذہب سے۔ جی یہ رسم ہے قرآن سے شادی۔ (نعوذ باللہ من ذالک) اس رسم میں لڑکی کو ایک قرآن پاک دے کر الگ تھلگ کمرے میں بند کر دیا جاتا ہے اور مشہور کر دیا جاتا ہے کہ لڑکی نے قرآن پاک سے شادی کر لی ہے۔ اب حالت یہ ہوتی ہے یہ کمرہ ہی اس لڑکی کا تا دم مرگ مسکن ہوتا ہے۔ یہ حربہ لڑکی کو وراثت سے محروم رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تعلیم سے محرومی بھی لڑکیوں کا مقدر بنا دیا جاتا ہے۔
اول تو ہمارے ملک میں اسکولز کی تعداد انتہائی کم ہے بالخصوص لڑکیوں کے اسکولز کی۔ اگر لڑکیوں کے لیے اسکولز قائم کر بھی دیے جاتے ہیں تو وہ اسکولز مقامی وڈیرے کے پالتو جانور باندھنے کے کام آتے ہیں لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بنتے جب کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں لڑکیوں کے لیے قائم کردہ تمام ہی اسکولز دہشت گردوں نے بارودی مواد سے تباہ کر دیے ہیں تا کہ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جائے اور وہ جاہل مائیں بنیں اور جاہل اولاد ہی پیدا کریں۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکی ہی ایک اچھی ماں ثابت ہو سکتی ہے۔ ہماری حکومتی ارکان اسمبلی سے گزارش ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے اور خواتین پر مظالم کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے۔ خواتین کے تحفظ کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے اور پہلے سے موجود جو قوانین ہیں ان پر مکمل عملدرآمد کیا جائے تا کہ خواتین معاشرے میں ایک با وقار مقام حاصل کر سکیں اور ہم بہ حیثیت پاکستانی قوم بین الاقوامی برادری میں ایک اچھی شناخت بنا سکیں، کاش ایسا ہو جائے!