بھٹو میرا آئیڈیل پہلا حصہ

بھٹو پلے بوائے نہیں رہے، وہ پیسہ ضایع نہیں کرتے تھے اور اپنا قیمتی وقت ان کاموں پر خرچ کرتے تھے ۔۔۔

بچپن سے میں ایک شخصیت کو دیکھتا آ رہا تھا پھر اس کے ساتھ 1970کے الیکشن میں کام کیا اور ایک دن جب 1973 میں مجھے سندھ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ لاڑکانہ میں اسٹینوگرافر کے طور پر بھرتی کیا گیا تو ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھنے کا بار بار موقع ملتا رہا۔ لاڑکانہ جہاں بھٹو اکثر آتے رہتے تھے اور عام لوگوں سے ضرور ملتے تھے جس کے لیے وہ کھلی کچہری بھی لگاتے تھے۔ بھٹو کی شخصیت کو بڑے قریب سے کام کرتے ہوئے دیکھ کر وہ میری پسندیدہ شخصیت بن گئے۔

بھٹو کا پروفائل تو تقریباً آتا رہتا ہے مگر اس میں سے مجھے جو باتیں پسند آئیں جن کی وجہ سے عام آدمی جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں آج بھی بھٹو سے بے تحاشا پیار اور عقیدت رکھتے ہیں۔ پورے ملک میں لوگ اس سے اتنا پیار کرتے تھے کہ اگر لاڑکانہ کا کوئی بھی بندہ لاہور، پشاور، کوئٹہ، ملتان، فیصل آباد وغیرہ چلا جائے تو اسے سر آنکھوں پر بٹھا دیتے تھے۔ میں جب لاہور کی فلمی دنیا دیکھنے گیا تو وہاں میں بالکل اجنبی تھا اور فلمی اسٹوڈیوز کے باہر فلمی اداکاراؤں کو دیکھنے کے لیے گیٹ پر کھڑا ہو جاتا تھا۔ ایک دن جب میں نے گیٹ کے چوکیدار کو بتایا کہ میں لاڑکانہ سے آیا ہوں تو پھر اس نے مجھے سارے دوستوں سے ملوایا، اب میرے لیے فلمی اسٹوڈیو سینما ہاؤسز، ہوٹلز فری ہو گئے۔ لوگ جن میں فلمی اداکار بھی شامل تھے، بھٹو کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے۔

بھٹو چاہے تھری پیس پہن کر آ جائیں یا پھر شلوار قمیض ہر کپڑا ان کو جچتا تھا، ان کی آنکھوں اور آواز میں ایک اپنی طرف کھینچنے والی طلسماتی طاقت تھی اس کے بات کرنے کا انداز، ایمانداری اور قد اور شخصیت ملنے والے کو جکڑ دیتی تھی۔ وہ مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ وہ جب المرتضیٰ میں آنگن میں کرسیاں ڈال کر لوگوں سے ملتے تھے تو کوئی بھی اٹھ کر جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ ایک بہادر اور دلیر تھا جس نے اپنی جان دے دی مگر اپنا سر ایک آمر کے سامنے نہیں جھکایا۔ اس کے یہ تاریخی الفاظ ابھی بھی مجھے یاد ہیں ''میں ایک آمر کے ہاتھوں مرنا تو پسند کروں گا، مگر تاریخ میں مرنا پسند نہیں کروں گا۔''

بھٹو کو جانوروں اور پرندوں سے بھی بڑا پیار تھا اور وہ جب بھی اپنے گھر المرتضیٰ ہاؤس آتے تو سیدھا پرندوں، جانوروں اور پھولوں کو دیکھنے جاتے تھے اور اگر زیادہ عرصہ گزر جاتا تھا اور آنا نہیں ہوتا تو فون پر ملازموں سے ان کے بارے میں معلومات لیتے رہتے تھے۔ وہ کھیلوں کو بڑا پسند کرتے تھے جس میں انھیں کرکٹ سے بڑا لگاؤ تھا اور وہ خود بھی بچپن میں کرکٹ کھیلتے تھے۔ پاکستان کے اچھے اور بڑے کھلاڑیوں کو دعوت دے کر اپنے پاس بلاتے تھے اور بلے پر ان کے آٹو گراف بھی لیتے تھے۔ ایک مرتبہ انھیں معلوم ہوا کہ لاڑکانہ اسٹیڈیم میں کرکٹ کا ٹورنامنٹ ہو رہا ہے تو وہ سیدھے اسٹیڈیم میچ دیکھنے آ گئے۔ لاڑکانہ اسٹیڈیم انھوں نے بنوایا تھا۔ اس کے علاوہ انھیں فلموں سے بھی دلچسپی تھی اور وہ جب بمبئی میں تھے تو اکثر فلمی اسٹوڈیو میں جا کر فلموں کی شوٹنگ دیکھتے تھے اور اداکارہ نرگس ان کی پسندیدہ اداکارہ تھی اور خاص طور پر اداکار منور ظریف کی اداکاری۔ وہ وزیر اعظم ہو کر بھی اداکار منور ظریف کے گھر لاہور پہنچ گئے اور منور ظریف کو مبارک باد دی۔


بھٹو اکثر پروگراموں میں پاکستانی کلچر کو دیکھتے تھے، ایک مرتبہ اداکار مصطفی قریشی کی بیگم روبینہ سے غیر ملکی مہمانوں کے لیے سندھی لوک گیت سننے کی فرمائش کی جس کی دھن پر انھوں نیخود مہمانوں کے ساتھ سندھی جھومر گا کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ایک مرتبہ ایک دوسرے پروگرام میں کتھک ڈانسر ناہید علی سے کتھک ڈانس دیکھا۔ فلمی دنیا کو پروموٹ کرنے کے لیے نیشنل ایوارڈز کو کامیاب کیا اور فلموں کے لیے ہر ممکن مدد کی۔ جب تک وی سی آر نہیں آیا تھا تو وہ تاریخی فلمیں پروجیکٹر پر دیکھتے تھے۔ بھٹو کا کہنا تھا کہ فلموں سے بھی بہت کچھ حاصل ہوتا ہے اور انسان کی قابلیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بھٹو کو طلعت محمود بہت پسند تھے اور مہدی حسن کو بھی شوق سے سنتے تھے، کئی مرتبہ خاص دعوت میں نصرت بھٹو ان سے گانا گانے کی فرمائش کرتی تھیں۔ اسے ہر خوبصورت چیز اچھی لگتی تھی اور صاف ستھرے، پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ غریب اور اچھے انسانوں سے بہت محبت تھی۔

وہ مچھلی کھانا پسند اس لیے نہیں کرتے تھے کہ اس کے کھانے سے ہاتھوں اور منہ میں بدبو ہو جاتی تھی، وہ اکثر ڈرائی فروٹ اور انگیٹھی پر پکا ہوا گوشت کھانا پسند کرتے تھے مگر صرف دو سے تین چھوٹی بوٹی سے زیادہ نہیں کھاتے تھے۔ وہ سوتے کم تھے اور کام زیادہ کرتے تھے اور وہ اپنا زیادہ تر وقت کتابیں پڑھنے اور عوام کی بھلائی کے لیے، ملک کی معیشت کو بہتر بنانے اور Foriegn Policy کو بہتر بنانے پر سوچتے اور کام کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ شروع سے اپنی جیب خرچ سے زیادہ تر کتابیں خریدتے تھے۔ انھوں نے دنیا کے بڑے بڑے لوگوں، آمروں اور ڈکٹیٹرز کی بھی کتابیں پڑھیں کیونکہ انھیں تاریخ سے بڑا پیار تھا اور وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنے ملک اور قوم کو فیوڈل نظام سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کریں تا کہ ملک کا ہر فرد خاص طور پر غریب لوگ غربت اور جہالت کے اندھیرے سے نکل آئیں۔ جب بھی وہ کراچی شہر کی ایلفی اسٹریٹ سے کتابیں، کپڑے خریدتے تھے تو اس کے ساتھ فروٹ ضرور خریدتے تھے اور خاص طور پر آم جو ان کا پسندیدہ فروٹ تھا۔ سگار پینا اسے بہت پسند تھا اور اسے اچھی ڈریسز پہننے پر فرسٹ پرائز بھی مل چکے تھے۔ اسے صبح اور شام نہانا پسند تھا اور وہ کپڑے موسم اور موقعے کے حساب سے پہنتے تھے لیکن جب غریبوں سے ملنا ہو تو وہ اپنے قیمتی کپڑوں کا بھی خیال نہیں رکھتے اور ان سے گلے ملتے تھے۔

بھٹو پلے بوائے نہیں رہے، وہ پیسہ ضایع نہیں کرتے تھے اور اپنا قیمتی وقت ان کاموں پر خرچ کرتے تھے جس سے کچھ اچھا حاصل ہو۔ اس نے مغرب میں تعلیم ضرور حاصل کی تھی مگر وہ ایک سچا مسلمان تھے اور وہ مسلمانوں کی اہمیت کو پوری دنیا میں منوانا چاہتے تھے جس کے لیے انھوں نے اقتدار میں آتے ہی مسلمان ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے OIC بنائی، اسلامک بینک کا Proposal بنایا۔ وہ کہتے تھے کہ کبھی بھی فاشسٹ بننے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ وہ بچپن ہی سے مسلمانوں کی باتیں سنتے رہے اور ان کے کارناموں سے متاثر تھے۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ وہ مسلمانوں کو بین الاقوامی طور پر ایک مضبوط طاقت بنائیں۔ انھیں لوگوں کو دعوت پر بلانا اچھا لگتا تھا اور وہ رومانٹک تھے اور سیاست سے بھی عشق کرتے تھے۔

بھٹو کی والدہ کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا اس لیے وہ بھٹو کو بچپن ہی سے غریبوں کے ساتھ پیار کرنا سکھاتی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ جب غریبوں کو جھگیوں میں سخت گرمی میں تپتی دھوپ میں دیکھتے تھے تو ان کے پاس جا کر ان کی مدد کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مغربی دعویٰ غلط ہے کہ مسلمان عورتوں کی عزت نہیں کرتے۔ (جاری ہے)
Load Next Story