دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اٹھانے لگا

خطے اور دنیا میں قیام امن کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اور حمایت جاری رکھنی چاہیے

خطے اور دنیا میں قیام امن کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اور حمایت جاری رکھنی چاہیے۔ فوٹو: فائل

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ بلوچستان کے عوام کی سلامتی اور تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی تاکہ پائیدار امن اور خوشحالی کے نتیجے میں سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے سازگار ماحول کو یقینی بنایا جا سکے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف نے بلوچستان (کوئٹہ اور تربت) کا دو روزہ دورہ کیا۔ آرمی چیف نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ اور اسکول آف انفنٹری اینڈ ٹیکٹکس کے دورہ کے موقع پر نوجوان افسران اور انسٹرکٹرز سے بات چیت کی اور انھیں مستقبل کے میدان جنگ کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پیشہ ورانہ مہارت پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت کی۔

پاکستانی فوج کے نئے سپہ سالار چیف جنرل عاصم منیر نے ایک ایسے وقت یہ منصب سنبھالا ہے جب ہمیں ملک میں بگڑتی ہوئی داخلی سلامتی کی صورت حال سامنا ہے ، یہی وہ اہم نقطہ ہے جس پر سپہ سالار نے اپنی توجہ مرکوزکی ہے۔

ان کے منصب سنبھالنے سے ایک دن قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے جنگ بندی ختم کر دی اور اپنے جنگجوؤں کو پورے پاکستان میں حملے کرنے پر ابھارا ہے۔

دوسری طرف بلوچستان میں نسلی علیحدگی پسند بغاوت کم شدت سے ایک طویل خطرے میں تبدیل ہو گئی ہے جو پورے بلوچستان اور اس سے باہر خصوصاً کراچی میں خودکش اور کمانڈو طرز کے گوریلا حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ، بلاشبہ سپہ سالار نے دو روزہ دورہ بلوچستان اسی تناظر میں کیا ہے۔

نئے آرمی چیف کو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے عفریت سے نمٹنے کے لیے فوری فیصلے کرنے ہوں گے، تاہم اس ضمن میں قومی آہنگی بنیادی اہمیت کی حامل ہو گی جس کے لیے ان کو پارلیمنٹ کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔حالیہ دنوں میں افغانستان سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان نے متعدد مواقعے پر افغانستان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے۔ درحقیقت افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی پاکستان کے لیے نئے چیلنجز کا باعث بن چکی ہے، افغان طالبان کی فتح نے پاکستان میں دہشت گرد گروپوں کے حوصلوں کو بلند کرنے اور ممکنہ طور پر اْن کے لیے مادی فوائد میں اضافے کا باعث بنی ہے۔

اگست 2021 کے بعد پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حملوں میں اضافہ ہوا جس کے بعد مبینہ طور پر افغان طالبان کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی گئی اور جنگ بندی کا ایک معاہدہ بھی ہوا تاہم 2022کے آخر میں اِسے ختم کردیا گیا ہے۔

افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں کا پاکستان کے خلاف متحرک ہونا ہماری سلامتی کے لیے چیلنج ہے۔ اب پاکستان کی طرف سے افغانستان کو اس سلسلے میں رسمی احتجاج کرنے کے بجائے واضح اور دو ٹوک انداز میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔

ان دہشت گردوں کو یقینی طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہوگی۔ گزشتہ برس جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ، لیکن اس کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے افغانستان میں رہتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہے۔

ماضی قریب میں جب سی پیک منصوبوں کا آغاز ہوا تو بعض ممالک نے اس کی شدید مخالفت کی اور چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے خلاف سازشی مفروضے پیش کرنا شروع کر دیے۔ مغربی ممالک کی طرف سے پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ ان منصوبوں سے علیحدہ ہو جائے ، لیکن حکومت نے ان منصوبوں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

بھارت بھی سی پیک منصوبوں کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے ، وہ پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور جدید انفرا اسٹرکچر قائم ہونے پر پریشان ہے ، سیدھی سی بات ہے پاکستان کی ترقی بھارت کوایک آنکھ نہیں بھاتی۔ بھارت ، چین اور پاکستان کی مستحکم دوستی سے پریشان ہے ، جب بھارت سی پیک منصوبوں کو نہ رکوا سکا ، اس نے دوبارہ دہشت گردی کا سہارا لیا۔ ان منصوبوں اور چینی ماہرین کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

جس وقت دنیا کنفیوژن کا شکار تھی، پاکستان نے ایک دوٹوک اور واضح پالیسی بنائی ، افغانستان اور پاکستان کے بارڈر پر چھپے دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز شروع کیے، جامع حکمت عملی ترتیب دی اور دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا۔


ایک طرف القاعدہ اور دولت اسلامیہ جیسی تنظیموں کا نیٹ ورک تھا جو، عرب ممالک ، افریقہ اور بعض یورپی ممالک میں پھیلا ہوا تھا۔ داعش یورپ اور افریقہ سے دہشت گردوں کو بھرتی کر کے شام اور عراق بھیج رہی تھی اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا باعث بن رہی تھی۔

دوسری طرف بھارت ، پاکستان کے خلاف دہشت گرد تنظیموں کی مدد کر رہا تھا۔ ان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) اور بعض دوسری علیحدگی پسند تنظیمیں شامل تھیں۔ یہ تنظیمیں سرکاری تنصیبات اور بے گناہ شہریوں ، سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہی تھیں۔

دہشت گردی کا یہ نیٹ ورک بھارت کی سرپرستی میں افغانستان سے چلایا جا رہا تھا۔ پاکستان نے اس معاملے کوکئی بار بین الاقوامی فورمز اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اٹھایا ، بھارتی دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت بھی اقوام متحدہ کے حوالے کیے۔

ہمیں اب تک اس بات کا انتظار ہے کہ عالمی برادری بھارتی دہشت گردی کا نوٹس لے گی اور بھارت پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

پاکستانی قوم یہ سوال بھی پوچھ رہی ہے کہ کیا عالمی برادری دہشت گرد تنظیموں کی مدد کرنے کے جرم میں بھارت پر پابندیاں لگانے کے لیے پاکستان کی مدد کرے گی ؟ کیا ایف اے ٹی ایف بھارت کو بلیک لسٹ کرے گی یا امریکا اور مغربی ممالک چین سے دشمنی کے چکر میں بھارت کی مدد جاری رکھیں گے؟اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ پاکستان کی ہر قابل تصور موضوع پر بہت سی پالیسیاں ہیں۔ تاہم ، مخمصہ یہ ہے کہ عمل درآمد کا فقدان ہے۔

اس طرح پالیسی کے بنیادی مقاصد پورے نہیں ہو رہے ہیں۔ یہ مسئلہ بہت زیادہ سول، ملٹری، قانون نافذ کرنے والے اداروں ، اور بیوروکریسی کی دیگر اقسام کی موجودگی میں مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جو پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے تربیت یافتہ اور تجربہ کار ہیں۔ پالیسی کی تشکیل اور اس کے نفاذ کے درمیان ایک قطعی رابطہ منقطع ہے ۔

خطے اور دنیا میں قیام امن کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اور حمایت جاری رکھنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے جو بچے کھچے گروپ رہ گئے ہیں۔

ان کا بھی صفایا کیا جاسکے۔ پاکستان دہشت گرد تنظیموں سے لڑنے اور انھیں شکست دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے ، یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ امریکا اور نیٹو نے دہشت گردی کے خلاف جتنے وسائل اور ڈالرز ضایع کیے پاکستان نے اس کا صرف ایک فیصد خرچ کرکے دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا۔

امریکی میڈیا اور امریکی حکام اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ افغان فوج کو اس قابل نہیں بنا سکے کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرسکیں ، وقت آنے پر افغان فوجی ہتھیار ڈال کر اپنے گھروں کو چلے گئے۔ افغانستان میں امریکا اور نیٹو فورسز کو جس مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی اپنے بیان میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ وہ افغان فوج میں لڑنے کا جذبہ پیدا نہیں کرسکے۔

امریکا کی تمام تر کوششوں کے باوجود القاعدہ اور داعش ، افریقہ ، لیبیا ، شام اور عراق میں موجود ہے۔ پاکستان کی دلیر اور با ہمت آرمڈ فورسز کی وجہ سے ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کا نیٹ ورک ختم کیا جا چکا ہے۔ بھارت نے افغانستان کا ٹھیکیدار بننے کی کوشش کی لیکن افغان عوام نے اسے دھتکار دیا ، جلد ہی امریکا کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا کہ افغانستان کی بدلتی صورتحال میں بھارت کا کردار '' بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ '' کا ہے۔

بھارت کا نہ افغانستان سے کوئی تعلق تھا اور نہ افغانیوں سے، لیکن شادی میں شریک بھانڈوں کی طرح سب سے زیادہ شور وہ مچا رہا تھا ، جب دنیا کو اس بات کا احساس ہوا تو اسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا گیا۔

دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابی کو سراہا اور تسلیم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اگر دہشت گردوں بشمول القاعدہ کا مقابلہ کامیابی سے نہ کرتا آج دنیا میں امن نہ ہوتا۔ دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کی قربانیوں اور کردار کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ہماری فوج اور فوج کے ذیلی ادارے جیسے ایف سی، رینجرز، لیویز پاک سرحدوں کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں اور مجرموں کا داخلہ بھی بند کرسکتے ہیں، اسی طرح منظم دستے ریاست کے خلاف سرکشی ، بغاوت کرنے والے عناصر کی سرکوبی بھی کرسکتے ہیں ، مگر سیاسی ، فرقہ وارانہ منظم اور غیر منظم جرائم پیشہ افراد کا محاسبہ کرنے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کو ہی کام کرنا پڑے گا۔ طویل المدتی انتظامات میں تعلیم ، صحت ، روزگار کی فراہمی ، زراعت ، صنعت کی ترقی سے ملک میں خوشحالی آئے گی۔

انتہا پسندانہ سوچ کا خاتمہ ہوگا، دہشت گردوں کو معاشرے میں دہشت گردی کے لیے خام مال میسر نہیں آئے گا، جو لازماً دہشت گردی کی لعنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارے کا باعث بنے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی سے پاک کر کے ، پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
Load Next Story