جبری گمشدگیاں
اگر ان میں سے کوئی بھی جنگ میں کام آ جاتا تو پوری عمر کسی کو بھی معلوم نہ پڑتا کہ وہ کہاں گئے تھے
اسی کی دہائی میں افغان جہاد عروج پر تھا۔ پاکستان کے دینی اور ریاستی حلقوں نے نوجوانوں کو جہاد کی دعوت دینے کے حد درجہ موثر طریقے استوار کر لیے تھے۔ ڈالر کی لین دین ایک طرف مگر جوانوں کے جھتے ' جہاد کے لیے جانا خوش قسمتی گردانتے تھے۔
لاہور کے ایک پروفیشنل کالج میں طالب علم تھا۔ جس کا لڑائی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ چھٹیوں میں معلوم ہوا کہ ہمارے ہی کالج سے دس بارہ طالب علم ' جہاد کی غرض سے جا چکے ہیں۔
ان میں سے دو کو اچھی طرح جانتا تھا۔ ان دونوںنے افغانستان جانے کے لیے اپنے والدین سے کسی قسم کی اجازت نہیں لی تھی بلکہ کانوں کان خبر تک نہ ہونے دی تھی۔ خیر دو چار مہینے بعد زندہ واپس آ گئے۔ بذریعہ ٹیلی فون' اپنے بزرگوں کو چکمہ دینے میں کامیاب رہے کہ لاہور میں ہی ہیں اور امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔
اگر ان میں سے کوئی بھی جنگ میں کام آ جاتا تو پوری عمر کسی کو بھی معلوم نہ پڑتا کہ وہ کہاں گئے تھے۔کیا کر رہے تھے۔ لازم ہے کہ گمشدہ لوگوں کی فہرست میں آ جاتے۔ بلکہ ہمارے چند حد درجہ محیر العقول دلیل دینے والے اہم افراد ان کو جبری گمشدگی کے زمرے میں ڈال دیتے۔ ایک بات ذمے داری سے عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے کالج سے یہ نوجوان اپنی ذاتی بھرپور رضا مندی سے جہاد پر روانہ ہوئے تھے۔
گمشدگیاں بلکہ جبری گمشدگیاں ہمارے ہاں ایک حد درجہ نازک مسئلہ ہے۔ اس پر مختلف طرح کی متضاد آراء موجود ہیں، مگر چند نکات ایسے ہیں' جو ہمارے چند جغادری بڑی آسانی سے فراموش کر دیتے ہیں، بلکہ ان کا ذکر ہی نہیں کرتے۔آج کل یہ فیشن ہے کہ ہم اپنے ریاستی اداروں کو صبح سے شام تک ہر معاملے میں رگیدتے ہیں۔
عرض کرنے دیجیے کہ پوری دنیا کے ریاستی رٹ کو بحال رکھنے والے ادارے بے شمار غلطیاں کرتے ہیں۔ جن سے بہرحال انسانی زندگی متاثر ہوتی ہے، مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔ مگر کیا اس تصویر کے دیگر پہلوؤں پر بات نہیں ہونی چاہیے۔
مگر ہمارے ملک میں گمشدگیوں کے معاملے میں ریاستی جبر کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہوتی۔ بلکہ اگر کوئی کرنے کی کوشش کرے تو اسے تنقیدی جملوں سے نوازا جاتا ہے۔
تیس برس سے زیادہ انتظامی کیریئر میں مجھے پاکستان کے ہر ریاستی ادارے کے ساتھ سرکاری کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ ہمارے ریاستی اداروں کا کام حد درجہ مشکل ' جان لیوا اور حساس ہے۔
یہ ہمارے ملک کی پہلی اور آخری ڈیفنس لائن ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو یقین فرمائیے۔ ہمارے دشمن عناصر ہمیں حلوے کی طرح چٹ کر جائیں۔ سب سے پہلے تو یہ یاد رکھیے کہ یہ ریاستی ادارے ہمارے ہی ملک اور شہریوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔
لازم ہے کہ کام کے دوران ' غلطی کرنے کا امکان موجود ہے۔ مگر اس غلطی کی بنا پر آپ ان پر بے جواز تنقید نہیں کر سکتے۔تنقید ضرور فرمائیے مگر صرف اور صرف دلیل کی بنیاد پر۔ مگر نہیں' ہمارے چند دانشور لٹھ لے کر ان کے پیچھے ایسے پڑے ہوئے ہیں ۔
جیسے یہ ادارے ہمارے ملک کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ خدانخواستہ ہندوستان کے لیے کام کر رہی ہیں۔ عرض کرتا چلوں کہ دہشت گردی کے واقعات کو حد درجہ گہرائی سے جانچئے ۔ اگر ایک بندہ خودکش جیکٹ پہن کر' درجنوں بے گناہ شہریوں کو شہید کر دیتا ہے اور خود بھی مارا جاتا ہے ۔ تو ذرا بتایئے کہ واردات کا ثبوت کیا ہو گا۔
کیسے تعین ہو گا کہ اس خودکش بمبار نے یہ قبیح حرکت کیوں کی ہے۔ اس کا صرف ایک جواب ہے کہ اس کے ''ہینڈلرز'' تک پہنچا جائے۔ یہ مشن صرف اور صرف ریاستی اداروں کے ذمے آتا ہے، اور یہ حد درجہ مشکل کام ہے۔
سمندر میں سے سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ۔ یہ کام کتنا صبر آزما اور محنت مانگتا ہے' اس پر آج تک کسی دانشور نے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ لازم ہے کہ کسی بھی دہشت گرد نیٹ ورک پر جب ہاتھ ڈالا جائے گا ' تو خیال ہے کہ وہ تمام ثبوت منہ پر سجا کر ہمارے اداروں کو پیش کر دے گا۔ قطعاً نہیں۔ جیسے ہی کسی ''دہشت گرد سے منسلک فرد'' کو پکڑا جاتا ہے۔ تو سب سے پہلے قیامت خیز شور مچایا جاتا ہے کہ جناب یہ توظلم ہو رہا ہے۔
آئین پاکستان کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ ریاستی ادارے قانون سے ماورا کام کر رہے ہیں۔ نناوے فیصد کیسوں میں میڈیا پر یہی نفسیاتی ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے ۔ بلکہ اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے۔ ایک لمحہ میں یہ خبر سوشل میڈیا پر آ جاتی ہے کہ فلاں شخص' ریاستی اداروں کے جبر کا شکار ہو گیا، مگر اس کے محرکات پر قطعاً بات نہیں کی جاتی۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ریاستی اداروں کو میڈیا پر بولنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔
وہ اپنا کیس کسی بھی موثر طریقہ سے لوگوں کے سامنے پیش نہیں کر سکتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی اکثریت' سوشل میڈیا کی یک طرفہ باتوں پر یقین کر لیتی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کا بھی یہی حال ہے۔سماج دشمن عناصر کے خلاف' اداروں کی حددرجہ محنت کو ظلم کا رنگ بآسانی دے دیا جاتا ہے۔
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ دہشت گردی کا ایک واقعہ بتایئے جس میں ان ظالموں نے ہر ثبوت مٹانے کی کوشش نہ کی ہو۔ لازم ہے کہ اب دہشت گرد تنظیمیں' ہر طرح کے وسائل سے لیس ہیں۔ انھیں جدید ترین آلات' ہماری دشمن قوتیں مفت مہیا کرتی ہیں۔
ثبوت ختم کرنا تو اب ان کے لیے کافی آسان ہو گیا ہے، مگر جب ریاستی ادارے' ہینڈلرز تک پہنچتے ہیں ' انھیں گرفتار کرتے ہیں تو عدالتیں بھی بڑے آرام سے انھیں چھوڑ دیتی ہیں کہ ان کے خلاف شواہد تو حد درجہ کمزور ہیں۔ پشاور کی ایک معزز عدالت نے تو گرفتار شدہ سیکڑوں لوگوں کو بری کر دیا کہ ان کے خلاف تو کوئی واضح ثبوت نہیں ہیں۔
یہ دنیا کے مہذب ممالک میں ناممکنات میں سے ہے۔ ذرا سوچیے۔ امریکا یا برطانیہ اپنے ملکی مفادات کے خلاف' اپنی کونسی عدالت کی بات مانتا ہے۔ دہشت گردی کا ڈنگ نکالنے کے بعد' بہر حال عدالتیں' بیس پچیس برس بعد چند لوگوں کو چھوڑ دیتی ہیں۔ مگر اس کے پیچھے بھی پورا ایک ان دیکھا نظام ہے جو ملکی مفادات کے لیے کام کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلوچستان اور کے پی کے چند علاقوں میں' ہندوستان حد درجہ مداخلت کر رہا ہے۔ ڈالروں سے لے کرتربیت اور جدید ترین اسلحہ سے لے کر جاسوسی کے جدید ترین ہتھیار بے دھڑک فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ہر صوبے کی طرح' وہاں بھی نوجوانوں کی خاص طرح کی برین واشنگ کا سلسلہ تواتر سے جار ی ہے۔
ذاتی طور پر سالہاسال بلوچستان رہا ہوں۔ وہاں کے حالات سے بخوبی واقف ہوں۔ وہاں جس طرح ملک دشمن قوتیں کام کر رہی ہیں۔ اگر ایف سی اور ریاستی اداے نہ ہوں تو یہ عام شہریوں کو فوراًموت کے الاؤ کا ایندھن بنا دیں۔
ایک نوجوان ' جس کے پاس روزگار کے مواقعے قدرے کم ہوں۔ مالی معاملات بھی کمزورہوں' ان کی منظم برین واشنگ کے منفی اثرات میں آنا قطعاً قابل حیرت نہیں ہے۔ ہمارے کمزور سیاسی' اخلاقی 'علمی ' سماجی اور مذہبی ڈھانچے کا فائدہ ہر طرح سے ملک دشمن قوتیں اٹھانے میں مصروف کار رہتی ہیں۔ اور انھیں اپنے مطلب کے لوگ ہر جگہ سے دستیاب ہوتے رہتے ہیں۔ ڈالر کی بے پناہ تقسیم کا بھی اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔
خود فیصلہ فرمایئے کہ اگر واردات کرنے سے پہلے ' ان عناصر پر ہاتھ ڈالا جائے تو کیا یہ ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ بالکل ہے۔ مگر جیسے ہی کسی پر آہنی ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو ہمارا ایک مخصوص طبقہ قیامت خیر بیان دینے شروع کر دیتا ہے۔
احتجاجی کیمپ لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ملکی سیاست دان' اپنی سیاست چمکانے کے لیے ' ان کیمپوں میں ہمدردانہ وعظ فرمانا شروع ہو جاتے ہیں۔ مگر کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ ریاست کا مفاد سب سے بالاتر ہے۔ اگر ایک شخص ہزاروں کلو بارود بنانے کی تربیت دینے میں مصروف ہے ' خود کش جیکٹیں بنا کر فروخت کرتا ہے۔
عام شہریوں کو ذبح کرتا ہے۔ ان کے سروں سے فٹ بال کھیلتا ہے۔ تو بتائیے۔ ریاست کونسا راستہ اختیار کرے۔ انھیں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا کر کیک پیسٹری کھلائے؟ انھیں شاباش دے۔ یا اپنی پوری قوت کے ساتھ ان کی بیخ کنی کرے۔
دہشت گردی کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ ہر امر کا نہ کوئی ثبوت ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت فراہم کرتا ہے۔ یہ کام صرف اور صرف ہمارے ریاستی ادارے محنت شاقہ سے سرانجام دیتے ہیں۔ مگر انھیں پروپیگنڈے کے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
ان کے کام کی ہر دم توہین کی جاتی ہے۔ قطعاً یہ نہیں عرض کر رہا کہ ریاستی ادارے' ریڈ لائن کراس نہیں کرتے ہیں، مگر قومی مفادات میں تو دنیا کے تمام سرکاری ادارے اسی طرح کام کرتے ہیں۔ اور ہاں، انڈیا میں را کے خلاف ''جبری گمشدگیوں '' کے کیمپ لگتے ہیں۔ ذرا سوچ کر جواب دیجیے؟
لاہور کے ایک پروفیشنل کالج میں طالب علم تھا۔ جس کا لڑائی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ چھٹیوں میں معلوم ہوا کہ ہمارے ہی کالج سے دس بارہ طالب علم ' جہاد کی غرض سے جا چکے ہیں۔
ان میں سے دو کو اچھی طرح جانتا تھا۔ ان دونوںنے افغانستان جانے کے لیے اپنے والدین سے کسی قسم کی اجازت نہیں لی تھی بلکہ کانوں کان خبر تک نہ ہونے دی تھی۔ خیر دو چار مہینے بعد زندہ واپس آ گئے۔ بذریعہ ٹیلی فون' اپنے بزرگوں کو چکمہ دینے میں کامیاب رہے کہ لاہور میں ہی ہیں اور امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔
اگر ان میں سے کوئی بھی جنگ میں کام آ جاتا تو پوری عمر کسی کو بھی معلوم نہ پڑتا کہ وہ کہاں گئے تھے۔کیا کر رہے تھے۔ لازم ہے کہ گمشدہ لوگوں کی فہرست میں آ جاتے۔ بلکہ ہمارے چند حد درجہ محیر العقول دلیل دینے والے اہم افراد ان کو جبری گمشدگی کے زمرے میں ڈال دیتے۔ ایک بات ذمے داری سے عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے کالج سے یہ نوجوان اپنی ذاتی بھرپور رضا مندی سے جہاد پر روانہ ہوئے تھے۔
گمشدگیاں بلکہ جبری گمشدگیاں ہمارے ہاں ایک حد درجہ نازک مسئلہ ہے۔ اس پر مختلف طرح کی متضاد آراء موجود ہیں، مگر چند نکات ایسے ہیں' جو ہمارے چند جغادری بڑی آسانی سے فراموش کر دیتے ہیں، بلکہ ان کا ذکر ہی نہیں کرتے۔آج کل یہ فیشن ہے کہ ہم اپنے ریاستی اداروں کو صبح سے شام تک ہر معاملے میں رگیدتے ہیں۔
عرض کرنے دیجیے کہ پوری دنیا کے ریاستی رٹ کو بحال رکھنے والے ادارے بے شمار غلطیاں کرتے ہیں۔ جن سے بہرحال انسانی زندگی متاثر ہوتی ہے، مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔ مگر کیا اس تصویر کے دیگر پہلوؤں پر بات نہیں ہونی چاہیے۔
مگر ہمارے ملک میں گمشدگیوں کے معاملے میں ریاستی جبر کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہوتی۔ بلکہ اگر کوئی کرنے کی کوشش کرے تو اسے تنقیدی جملوں سے نوازا جاتا ہے۔
تیس برس سے زیادہ انتظامی کیریئر میں مجھے پاکستان کے ہر ریاستی ادارے کے ساتھ سرکاری کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ ہمارے ریاستی اداروں کا کام حد درجہ مشکل ' جان لیوا اور حساس ہے۔
یہ ہمارے ملک کی پہلی اور آخری ڈیفنس لائن ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو یقین فرمائیے۔ ہمارے دشمن عناصر ہمیں حلوے کی طرح چٹ کر جائیں۔ سب سے پہلے تو یہ یاد رکھیے کہ یہ ریاستی ادارے ہمارے ہی ملک اور شہریوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔
لازم ہے کہ کام کے دوران ' غلطی کرنے کا امکان موجود ہے۔ مگر اس غلطی کی بنا پر آپ ان پر بے جواز تنقید نہیں کر سکتے۔تنقید ضرور فرمائیے مگر صرف اور صرف دلیل کی بنیاد پر۔ مگر نہیں' ہمارے چند دانشور لٹھ لے کر ان کے پیچھے ایسے پڑے ہوئے ہیں ۔
جیسے یہ ادارے ہمارے ملک کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ خدانخواستہ ہندوستان کے لیے کام کر رہی ہیں۔ عرض کرتا چلوں کہ دہشت گردی کے واقعات کو حد درجہ گہرائی سے جانچئے ۔ اگر ایک بندہ خودکش جیکٹ پہن کر' درجنوں بے گناہ شہریوں کو شہید کر دیتا ہے اور خود بھی مارا جاتا ہے ۔ تو ذرا بتایئے کہ واردات کا ثبوت کیا ہو گا۔
کیسے تعین ہو گا کہ اس خودکش بمبار نے یہ قبیح حرکت کیوں کی ہے۔ اس کا صرف ایک جواب ہے کہ اس کے ''ہینڈلرز'' تک پہنچا جائے۔ یہ مشن صرف اور صرف ریاستی اداروں کے ذمے آتا ہے، اور یہ حد درجہ مشکل کام ہے۔
سمندر میں سے سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ۔ یہ کام کتنا صبر آزما اور محنت مانگتا ہے' اس پر آج تک کسی دانشور نے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ لازم ہے کہ کسی بھی دہشت گرد نیٹ ورک پر جب ہاتھ ڈالا جائے گا ' تو خیال ہے کہ وہ تمام ثبوت منہ پر سجا کر ہمارے اداروں کو پیش کر دے گا۔ قطعاً نہیں۔ جیسے ہی کسی ''دہشت گرد سے منسلک فرد'' کو پکڑا جاتا ہے۔ تو سب سے پہلے قیامت خیز شور مچایا جاتا ہے کہ جناب یہ توظلم ہو رہا ہے۔
آئین پاکستان کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ ریاستی ادارے قانون سے ماورا کام کر رہے ہیں۔ نناوے فیصد کیسوں میں میڈیا پر یہی نفسیاتی ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے ۔ بلکہ اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے۔ ایک لمحہ میں یہ خبر سوشل میڈیا پر آ جاتی ہے کہ فلاں شخص' ریاستی اداروں کے جبر کا شکار ہو گیا، مگر اس کے محرکات پر قطعاً بات نہیں کی جاتی۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ریاستی اداروں کو میڈیا پر بولنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔
وہ اپنا کیس کسی بھی موثر طریقہ سے لوگوں کے سامنے پیش نہیں کر سکتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی اکثریت' سوشل میڈیا کی یک طرفہ باتوں پر یقین کر لیتی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کا بھی یہی حال ہے۔سماج دشمن عناصر کے خلاف' اداروں کی حددرجہ محنت کو ظلم کا رنگ بآسانی دے دیا جاتا ہے۔
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ دہشت گردی کا ایک واقعہ بتایئے جس میں ان ظالموں نے ہر ثبوت مٹانے کی کوشش نہ کی ہو۔ لازم ہے کہ اب دہشت گرد تنظیمیں' ہر طرح کے وسائل سے لیس ہیں۔ انھیں جدید ترین آلات' ہماری دشمن قوتیں مفت مہیا کرتی ہیں۔
ثبوت ختم کرنا تو اب ان کے لیے کافی آسان ہو گیا ہے، مگر جب ریاستی ادارے' ہینڈلرز تک پہنچتے ہیں ' انھیں گرفتار کرتے ہیں تو عدالتیں بھی بڑے آرام سے انھیں چھوڑ دیتی ہیں کہ ان کے خلاف شواہد تو حد درجہ کمزور ہیں۔ پشاور کی ایک معزز عدالت نے تو گرفتار شدہ سیکڑوں لوگوں کو بری کر دیا کہ ان کے خلاف تو کوئی واضح ثبوت نہیں ہیں۔
یہ دنیا کے مہذب ممالک میں ناممکنات میں سے ہے۔ ذرا سوچیے۔ امریکا یا برطانیہ اپنے ملکی مفادات کے خلاف' اپنی کونسی عدالت کی بات مانتا ہے۔ دہشت گردی کا ڈنگ نکالنے کے بعد' بہر حال عدالتیں' بیس پچیس برس بعد چند لوگوں کو چھوڑ دیتی ہیں۔ مگر اس کے پیچھے بھی پورا ایک ان دیکھا نظام ہے جو ملکی مفادات کے لیے کام کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلوچستان اور کے پی کے چند علاقوں میں' ہندوستان حد درجہ مداخلت کر رہا ہے۔ ڈالروں سے لے کرتربیت اور جدید ترین اسلحہ سے لے کر جاسوسی کے جدید ترین ہتھیار بے دھڑک فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ہر صوبے کی طرح' وہاں بھی نوجوانوں کی خاص طرح کی برین واشنگ کا سلسلہ تواتر سے جار ی ہے۔
ذاتی طور پر سالہاسال بلوچستان رہا ہوں۔ وہاں کے حالات سے بخوبی واقف ہوں۔ وہاں جس طرح ملک دشمن قوتیں کام کر رہی ہیں۔ اگر ایف سی اور ریاستی اداے نہ ہوں تو یہ عام شہریوں کو فوراًموت کے الاؤ کا ایندھن بنا دیں۔
ایک نوجوان ' جس کے پاس روزگار کے مواقعے قدرے کم ہوں۔ مالی معاملات بھی کمزورہوں' ان کی منظم برین واشنگ کے منفی اثرات میں آنا قطعاً قابل حیرت نہیں ہے۔ ہمارے کمزور سیاسی' اخلاقی 'علمی ' سماجی اور مذہبی ڈھانچے کا فائدہ ہر طرح سے ملک دشمن قوتیں اٹھانے میں مصروف کار رہتی ہیں۔ اور انھیں اپنے مطلب کے لوگ ہر جگہ سے دستیاب ہوتے رہتے ہیں۔ ڈالر کی بے پناہ تقسیم کا بھی اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔
خود فیصلہ فرمایئے کہ اگر واردات کرنے سے پہلے ' ان عناصر پر ہاتھ ڈالا جائے تو کیا یہ ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ بالکل ہے۔ مگر جیسے ہی کسی پر آہنی ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو ہمارا ایک مخصوص طبقہ قیامت خیر بیان دینے شروع کر دیتا ہے۔
احتجاجی کیمپ لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ملکی سیاست دان' اپنی سیاست چمکانے کے لیے ' ان کیمپوں میں ہمدردانہ وعظ فرمانا شروع ہو جاتے ہیں۔ مگر کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ ریاست کا مفاد سب سے بالاتر ہے۔ اگر ایک شخص ہزاروں کلو بارود بنانے کی تربیت دینے میں مصروف ہے ' خود کش جیکٹیں بنا کر فروخت کرتا ہے۔
عام شہریوں کو ذبح کرتا ہے۔ ان کے سروں سے فٹ بال کھیلتا ہے۔ تو بتائیے۔ ریاست کونسا راستہ اختیار کرے۔ انھیں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا کر کیک پیسٹری کھلائے؟ انھیں شاباش دے۔ یا اپنی پوری قوت کے ساتھ ان کی بیخ کنی کرے۔
دہشت گردی کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ ہر امر کا نہ کوئی ثبوت ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت فراہم کرتا ہے۔ یہ کام صرف اور صرف ہمارے ریاستی ادارے محنت شاقہ سے سرانجام دیتے ہیں۔ مگر انھیں پروپیگنڈے کے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
ان کے کام کی ہر دم توہین کی جاتی ہے۔ قطعاً یہ نہیں عرض کر رہا کہ ریاستی ادارے' ریڈ لائن کراس نہیں کرتے ہیں، مگر قومی مفادات میں تو دنیا کے تمام سرکاری ادارے اسی طرح کام کرتے ہیں۔ اور ہاں، انڈیا میں را کے خلاف ''جبری گمشدگیوں '' کے کیمپ لگتے ہیں۔ ذرا سوچ کر جواب دیجیے؟