نظام انصاف میں پنپتی کرپشن …
پولیس اور ٹھیکوں میںکرپشن کے الزامات نئے نہیں۔ سرکاری ٹھیکہ بغیر 15 فیصد کمیشن کے حاصل ہی نہیں کیا جا سکتا
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پولیس کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دیا ہے۔ ٹینڈرنگ یا کنٹریکٹ مطلب سرکاری ٹھیکے دینے والے ادارے کرپشن میں دوسرے جب کہ عدلیہ اور شعبہ تعلیم تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔
اس رپورٹ میں تشویشناک بات نظام انصاف میں کرپشن کی بلند شرح کا ہونا ہے۔ عدالتی نظام میں کرپشن پورے ریاستی نظام کو زہریلا بنا رہی ہے۔
پولیس اور ٹھیکوں میںکرپشن کے الزامات نئے نہیں۔ سرکاری ٹھیکہ بغیر 15 فیصد کمیشن کے حاصل ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ممبران اسمبلی چاہے، قومی ہوں یا صوبائی یا سینیٹ کے وہ بھی اپنی ترقیاتی اسکیموں کے ٹھیکے بغیر کمیشن لیے نہیں دیتے۔
غرض ٹھیکے میں رشوت 'کرپشن، غیر معیاری سامان کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ ابھی حال ہی میں صوبہ سندھ میں ایک موٹر وے پروجیکٹ میں اربوں کی کرپشن سامنے آئی ہے جس میں ایک ڈپٹی کمشنر کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
پشاور کے سب سے بڑے منصوبے پشاور بی آر ٹی کو بھی کرپشن الزامات کا سامنا ہے۔ پولیس بھی کرپشن میں کافی بدنام ہے۔ عام لوگ ہر روز تھانوں میں خوار ہوتے ہیں۔ سرراہ پولیس کے اہلکار رشوت لیتے نظر آتے ہیں اور شہری روزانہ ایسے مناظر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تھانے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اب خرچہ شروع۔ بڑے بڑے جرائم تو چھوڑیئے صرف کریکٹر سرٹیفیکیٹ اور ڈومیسائل کی تصدیق کے لیے بھی پولیس رشوت لیتی ہے۔
خیبرپختونخوا کے حوالے سے تشویشناک بات یہ ہے کہ یہاں کرپشن انڈیکس میں نظام انصاف، پولیس اور ٹھیکیداری نظام کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
انصاف فراہم کرنے والے نظام اور اداروں پر سرکاری خزانے سے اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی عام شہریوں کی شکایات اور مشکلات میں کمی نہ ہو سکی۔ خصوصاً ماتحت عدالتوں میں تو رشوت ستانی اور دھونس بہت زیادہ ہے۔ طاقتور تو جلد فیصلے لے لیتے ہیں لیکن۔ عام شہری انتقال وراثت (Succession Certificate) کے حصول میں سالوں انتظار کی اذیت سے گذرتے ہیں جب کہ سنگین سے سنگین جرم میں ملوث ملزم ایک دو ماہ میں ضمانت پر رہا ہو کر پھر سے گلی محلے میں دندناتا پھرتا ہے۔
اگر خدانخواستہ کسی کا والد، شوہر وفات ہو جائے اور اس کے اکاؤنٹ میں پڑے 50 ہزار روپے وصول کرنے کے لیے بھی انتقال وراثت لازمی ہے۔ پہلے یہ کام پٹواری کرتے تھے ، پھر عدالت اور اب نادرا کے پاس ہے۔ اب ہوتا ایسا ہے کہ پہلے نادرا سے سرٹیفکیٹ لینا ہو گا کیونکہ نادرا انتقال وراثت نہیں کرسکتا، اس کے بعد آپ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں، نادرا سرٹیفکیٹ کے بغیر آپ عدالت بھی نہیں جا سکتے اور پھر پیشی کا انتظار کریں اور یہ بھی دعا کریں کہ اس دن وکلاء کی ہڑتال نہ ہو۔ قانون کے مطابق یہ ایک معمولی سا کیس ہے۔
آپ درخواست جمع کروا دیں، عدالتی بیلف دو دن میں اس کی تصدیق کر لیتا ہے، پھراگلی پیشی پر ڈگری جاری ہوجاتی ہے۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ 50 ہزار اپنے مرحوم والد کے اکاؤنٹ سے نکالتے نکالتے نادرا میں خجل خواری، وکیل کی فیس اور عدالت آنے جانے میں آپ کا 25 ہزار سے زائد کا خرچہ ہو جاتا ہے، نتیجتاً عام شہری کا عدالتی نظام پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔
ایسے معمولی معمولی کیسز کو التواء میں ڈال کر وکیل کی فیس میں تو اضافہ ہو سکتا ہے ،کوئی اور مقصد نظر نہیں آتا۔ ماتحت عدالتوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑے وکیلوں کے کیسزکو ترجیح دی جاتی ہے۔ نئے وکیل اپنی درخواست دینے کے لیے بھی انتظار کی اذیت سے گذرتے ہیں۔
ہیروئن، قتل، چوری اور ڈکیتی کے ملزمان اتنی جلدی ضمانت پر آ جاتے ہیں کہ لوگ حیران ہوتے ہیں جب کہ میاں بیوی کی طلاق کے بعد ان کی اولاد کی حوالگی کا کیس اتنا کیوں لٹک جاتا ہے ،جب فریقین میں کوئی تنازعہ ہی نہیں صرف سرکاری دستاویزات کو مکمل کرنے کے لیے اس عدالتی عمل کی ضرورت ہے۔
جب عدالتیں ٹال مٹول سے کام لیتی ہیں تو پھر وکیل کا کردار شروع ہو جاتا ہے۔ وہ جلد پیشی، جلد ضمانت اور جلد کیس ختم کرانے کے لیے منہ مانگی فیس وصول کرتا ہے اور سائل بھی فیس ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
شاید اسی لیے کرپشن انڈیکس میں خیبرپختونخوا میں نظام انصاف پہلے نمبروں میں ہے۔کچھ مہینے پہلے شاہ پور کے علاقے میں اپنے مخالف کو ذبح کرنے کے بعد اس کا سر گھمانے والے کو بھی ضمانت پر رہائی مل گئی حالانکہ مقتول کے لواحقین نے سربریدہ لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا تھا اور اسی دباؤ کے نتیجے میں ملزم مقتول کے ورثاء کو سر واپس کرنے پر تیار ہوا تھا۔
سوچیں ایسے لوگوں کو بھی ضمانت کی سہولت ملے تو پھر نظام انصاف پر سوالات تو اٹھیں گے۔ اس چشم کشا رپورٹ کے بعد نظام انصاف کے ذمے داروں اور حکومت کو نظام کی اصلاح کرنا ہو گی۔سب کو یاد ہوگا کہ سابقہ فاٹا اور ملاکنڈ میں طالبان نے نظام انصاف کی خرابیوں کا نعرہ لگا کر خود کو مستحکم کیا تھا۔
اس رپورٹ میں تشویشناک بات نظام انصاف میں کرپشن کی بلند شرح کا ہونا ہے۔ عدالتی نظام میں کرپشن پورے ریاستی نظام کو زہریلا بنا رہی ہے۔
پولیس اور ٹھیکوں میںکرپشن کے الزامات نئے نہیں۔ سرکاری ٹھیکہ بغیر 15 فیصد کمیشن کے حاصل ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ممبران اسمبلی چاہے، قومی ہوں یا صوبائی یا سینیٹ کے وہ بھی اپنی ترقیاتی اسکیموں کے ٹھیکے بغیر کمیشن لیے نہیں دیتے۔
غرض ٹھیکے میں رشوت 'کرپشن، غیر معیاری سامان کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ ابھی حال ہی میں صوبہ سندھ میں ایک موٹر وے پروجیکٹ میں اربوں کی کرپشن سامنے آئی ہے جس میں ایک ڈپٹی کمشنر کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
پشاور کے سب سے بڑے منصوبے پشاور بی آر ٹی کو بھی کرپشن الزامات کا سامنا ہے۔ پولیس بھی کرپشن میں کافی بدنام ہے۔ عام لوگ ہر روز تھانوں میں خوار ہوتے ہیں۔ سرراہ پولیس کے اہلکار رشوت لیتے نظر آتے ہیں اور شہری روزانہ ایسے مناظر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تھانے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اب خرچہ شروع۔ بڑے بڑے جرائم تو چھوڑیئے صرف کریکٹر سرٹیفیکیٹ اور ڈومیسائل کی تصدیق کے لیے بھی پولیس رشوت لیتی ہے۔
خیبرپختونخوا کے حوالے سے تشویشناک بات یہ ہے کہ یہاں کرپشن انڈیکس میں نظام انصاف، پولیس اور ٹھیکیداری نظام کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
انصاف فراہم کرنے والے نظام اور اداروں پر سرکاری خزانے سے اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی عام شہریوں کی شکایات اور مشکلات میں کمی نہ ہو سکی۔ خصوصاً ماتحت عدالتوں میں تو رشوت ستانی اور دھونس بہت زیادہ ہے۔ طاقتور تو جلد فیصلے لے لیتے ہیں لیکن۔ عام شہری انتقال وراثت (Succession Certificate) کے حصول میں سالوں انتظار کی اذیت سے گذرتے ہیں جب کہ سنگین سے سنگین جرم میں ملوث ملزم ایک دو ماہ میں ضمانت پر رہا ہو کر پھر سے گلی محلے میں دندناتا پھرتا ہے۔
اگر خدانخواستہ کسی کا والد، شوہر وفات ہو جائے اور اس کے اکاؤنٹ میں پڑے 50 ہزار روپے وصول کرنے کے لیے بھی انتقال وراثت لازمی ہے۔ پہلے یہ کام پٹواری کرتے تھے ، پھر عدالت اور اب نادرا کے پاس ہے۔ اب ہوتا ایسا ہے کہ پہلے نادرا سے سرٹیفکیٹ لینا ہو گا کیونکہ نادرا انتقال وراثت نہیں کرسکتا، اس کے بعد آپ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں، نادرا سرٹیفکیٹ کے بغیر آپ عدالت بھی نہیں جا سکتے اور پھر پیشی کا انتظار کریں اور یہ بھی دعا کریں کہ اس دن وکلاء کی ہڑتال نہ ہو۔ قانون کے مطابق یہ ایک معمولی سا کیس ہے۔
آپ درخواست جمع کروا دیں، عدالتی بیلف دو دن میں اس کی تصدیق کر لیتا ہے، پھراگلی پیشی پر ڈگری جاری ہوجاتی ہے۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ 50 ہزار اپنے مرحوم والد کے اکاؤنٹ سے نکالتے نکالتے نادرا میں خجل خواری، وکیل کی فیس اور عدالت آنے جانے میں آپ کا 25 ہزار سے زائد کا خرچہ ہو جاتا ہے، نتیجتاً عام شہری کا عدالتی نظام پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔
ایسے معمولی معمولی کیسز کو التواء میں ڈال کر وکیل کی فیس میں تو اضافہ ہو سکتا ہے ،کوئی اور مقصد نظر نہیں آتا۔ ماتحت عدالتوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑے وکیلوں کے کیسزکو ترجیح دی جاتی ہے۔ نئے وکیل اپنی درخواست دینے کے لیے بھی انتظار کی اذیت سے گذرتے ہیں۔
ہیروئن، قتل، چوری اور ڈکیتی کے ملزمان اتنی جلدی ضمانت پر آ جاتے ہیں کہ لوگ حیران ہوتے ہیں جب کہ میاں بیوی کی طلاق کے بعد ان کی اولاد کی حوالگی کا کیس اتنا کیوں لٹک جاتا ہے ،جب فریقین میں کوئی تنازعہ ہی نہیں صرف سرکاری دستاویزات کو مکمل کرنے کے لیے اس عدالتی عمل کی ضرورت ہے۔
جب عدالتیں ٹال مٹول سے کام لیتی ہیں تو پھر وکیل کا کردار شروع ہو جاتا ہے۔ وہ جلد پیشی، جلد ضمانت اور جلد کیس ختم کرانے کے لیے منہ مانگی فیس وصول کرتا ہے اور سائل بھی فیس ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
شاید اسی لیے کرپشن انڈیکس میں خیبرپختونخوا میں نظام انصاف پہلے نمبروں میں ہے۔کچھ مہینے پہلے شاہ پور کے علاقے میں اپنے مخالف کو ذبح کرنے کے بعد اس کا سر گھمانے والے کو بھی ضمانت پر رہائی مل گئی حالانکہ مقتول کے لواحقین نے سربریدہ لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا تھا اور اسی دباؤ کے نتیجے میں ملزم مقتول کے ورثاء کو سر واپس کرنے پر تیار ہوا تھا۔
سوچیں ایسے لوگوں کو بھی ضمانت کی سہولت ملے تو پھر نظام انصاف پر سوالات تو اٹھیں گے۔ اس چشم کشا رپورٹ کے بعد نظام انصاف کے ذمے داروں اور حکومت کو نظام کی اصلاح کرنا ہو گی۔سب کو یاد ہوگا کہ سابقہ فاٹا اور ملاکنڈ میں طالبان نے نظام انصاف کی خرابیوں کا نعرہ لگا کر خود کو مستحکم کیا تھا۔