ہم کہاں کھڑے ہیں

بڑے کاروباری طبقات حکومت کے سامنے دہائی دے چکے ہیں کہ ان حالات میں معاشی ترقی کے نعرے سوائے جذباتیت کے اور کچھ نہیں

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کا بنیادی نوعیت کا مسئلہ سیاسی و معاشی استحکام ہے ۔ ایسا استحکام جو لوگوں میں موجود غیر یقینی اور بداعتمادی کے ماحول کو ختم کرنے کا سبب بنے۔ کیونکہ جو بھی ریاست یا اس سے جڑا نظام ہوگا اس کی کامیابی کی بنیادی شرط یا ساکھ ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد سازی یا بھروسہ سے جڑی ہوتی ہے۔

جب ریاست اور شہریوں کے درمیان برابری ، مساوات، سیاسی ،سماجی ، قانونی اور معاشی انصاف کے طور پر رشتہ یا تعلقات ہونگے تو لوگ ریاست کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ عمل محض جذباتیت یا سیاسی شعبدہ بازی یا نعرے بازی کی بنیاد پر کسی بھی صورت ممکن نہیں ہوسکتا۔لوگ زندہ رہنا چاہتے ہیں اور وہ بھی عزت اور احترام کے ساتھ اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جو ان کے ریاستی سطح پر بنیادی حقوق ہوتے ہیں۔

ان کی ریاستی امور اور حکمرانی کا نظام ضمانت دے ۔وگرنہ دوسری صورت میں لوگ ریاست کے ساتھ کسی بھی طور پر کھڑے نہیں ہوتے بلکہ تواتر کے ساتھ اپنے تحفظات کا سیاسی مقدمہ پیش کرتے ہیں ۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈولیپمنٹ اکنامکس )پائیڈ(اسلام آباد معاشی امور سے متعلق ایک اہم ادارہ ہے۔ اس کا کام معاشی امور کی نگرانی وتجزیہ، منصوبہ بندی اور تحقیق کی بنیاد پر اپنا مقدمہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ ان کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ''پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والے 40فیصد افراد جب کہ دیہی علاقوں سے 36فیصد افراد بیرون ملک یا کسی اچھے ملک میں جانے کے خواہش مند ہیں ۔''ان میں سے بہت ہی بڑی تعداد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے ۔

وہ نوجوان جنھوں نے پاکستان میں بیٹھ کر معاشی عمل میں اپنے لیے اور ملک کے لیے بھی نئے معاشی مواقع اور امکانات کو پیدا کرنا تھا وہ اس ملک کے مستقبل سے مایوس نظر آتے ہیں ۔اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں تسلسل کے ساتھ سیاسی اور معاشی عدم استحکام اور معاشی تفریق سمیت معاشی ناہمواریاں ہیں۔

نوجوانوں کو لگتا ہے کہ پاکستان میں ہمارا مستقبل غیر محفوظ ہے اور ہمیں ملک سے باہر جاکر کچھ نئے متبادل راستے تلاش کرنے ہیں ۔


مسئلہ محض نوجوانوں تک محدود نہیں اس وقت وہ افراد بھی جو کسی نہ کسی طرح سے معاشی سرگرمیوں یا سرکاری یا غیر سرکاری روزگار سے وابستہ ہیں وہ بھی بدحالی کا ماتم کررہے ہیں۔ جو بڑا سنگین نوعیت کا بحران لوگوں کو درپیش ہے وہ تین سطحوں پر موجود ہے۔

اول ایک طبقہ وہ ہے جو بہتر روزگار کی تلاش میں ہے اور بے روزگاری کی وجہ سے ان کی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ دوئم، وہ طبقہ ہے جو روزگار سے وابستہ تو ہے مگر اس میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔

سوئم، آمدن اور اخراجات میں بڑھتا ہوا بڑا عدم توازن ہے ، یعنی آمدن کم اور اخراجات میں اضافے نے اس کی زندگیوں میں مشکلات پیدا کردی ہیں ۔معاشی بدحالی کی ایک بڑی وجہ جہاں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ اور دوسری جانب نجی شعبہ جات میں ریگولیٹری اتھارٹیوں کی بدعنوانی اور نااہلی کی داستان ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ نجی شعبہ تعلیم، صحت اور دیگر معاملات میں لوگوں کے مزید معاشی استحصال کا سبب بن رہا ہے ۔پچھلے کچھ عرصہ میں مجھے کئی 17سے 20گریڈ کے سرکاری افسران یا نجی شعبہ میں اچھی بھلی تنخواہ پر کام کرنے والے افراد سے ملنے کا موقع ملتا ہے ۔ یہ طبقہ عمومی طور پر ایک خوشحال طبقہ سمجھا جاتا ہے۔لیکن اب اس طبقہ نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں ۔

ان کے بقول جائز تنخواہ میں بچوں کی مہنگی تعلیم، صحت، بجلی و گیس کی قیمتیں ، پٹرول اور ڈیزل سمیت روزمرہ کی اشیا میں جو اضافہ ہورہا ہے اس کی وجہ سے ہم بھی پرکشش تنخواہ اور مراعات کے باوجود سنگین بحران کا شکار ہیں ۔

بالخصوص چھوٹا کاروباری طبقہ کے بقول اگر ہم نے واقعی کاروبار چلانا ہے تو ان حالات یا پالیسیوں میں ممکن نہیں اوراس کی بہتری کے لیے حکومتی سطح پر غیر معمولی اصلاحات اور مراعات درکار ہیں ۔بڑے کاروباری طبقات حکومت کے سامنے دہائی دے چکے ہیں کہ ان حالات میں معاشی ترقی کے نعرے سوائے جذباتیت کے اور کچھ نہیں۔
Load Next Story