وکھری ٹائپ

جھوٹ، فریب، مکاری، یوٹرن اور دغا بازی ہماری پہچان ہے، جیسے عوام ویسے حکمران، ایسے میں غلط کون ہیں؟

latifch@express.com.pk

ہم پاکستانی وکھری ٹائپ کے لوگ ہیں' اس میں امیر و غریب' حکمران اور عوام کے مابین کوئی فرق نہیں ہے' جسے کاٹو وہ اندر سے لال ہی نکلے گا' اس کرہ ارض پر شاید ہی کسی اور ملک کے لوگ ہمارا مقابلہ کرسکیں۔

دیکھیں ناں!پاکستان ایٹمی قوت ہے لیکن افغانستان جیسا بدحال ملک بھی ہم سے ڈرتا نہیں ہے، ابھی کل ہی افغان طالبان نے ہمارے چمن کو اجاڑنے کی کوشش کی ہے، لیکن ہم نے صبر شکر کا مظاہرہ کیا۔ سبط علی ضیاء کا شعر حالات کی درست ترجمانی کر رہا ہے۔

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی

لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے

آپ کسی سرکاری دفتر میں چلے جائیں،ہر ملازم ویلا لیکن حد سے زیادہ مصروف نظر آئے گا، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دفتروں میں ملازمین کی تربیت یوں کی جاتی ہے کہ ''کرو کچھ نہ لیکن نظر مصروف آؤ''۔

بجلی والوں کے دفتر چلے جائیں، رش اتنا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ لوگ الصبح بجلی کے بل ٹھیک کرانے پہنچ جاتے ہیں اور سہ پہر تک اسی کار خیر میں مصروف رہتے ہیں۔

وہاں ملازم کو دیکھیں تو وہ بھی باتیں کر کرکے ہلکان نظر آئے گا لیکن کام نہیں ہو رہا ہے، اسے کہتے ہیں ''ویلے بھی اور مصروف بھی '' ۔ ایسا لگتا ہے کہ سائل کو بھی کوئی کام نہیں ہے، وہ سارا دن وہیں گزار کر بغیر بل ٹھیک کرائے گھر چلا جائے گا اور اگلی صبح پھر آدھمکے گا، ہمارے ہاںلوگ دفتر کو کام کرنے کی نہیں بلکہ آرام اور گپ شپ کرنے کی جگہ سمجھتے ہیں۔

مجھے اکثر دوست فون کرکے حال احوال پوچھتے ہیں،پھر فرماتے ہیں، یار تم ملتے ہی نہیں ہو، اکٹھے بیٹھ کر چائے پینے اور باتیں کرنے کو بڑا دل کررہا ہے ۔

بندہ سمجھتا ہے کہ کسی کافی شاپ میں ملنے کی دعوت دے گا لیکن پھر آپ حیران بلکہ پریشان ہوجائیں گے ، جب وہ کہے گا، ''میں تمھارے دفتر کے قریب ہی ہوں، بس پانچ منٹ میں پہنچ رہا، تم چائے کا آرڈر کردو''۔ اب آپ سوائے صبر کے کچھ نہیں کرسکتے۔

دوست کی دوستی چیک کریں ، ملنے اور چائے پینے کو اس کا دل کر رہا، لیکن میزبانی کا شرف مجھے بخش رہا ہے ، اسے کہتے ہیں چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو۔ بتائیں ایسے رمز شناس دوست اور ایسے دفتر کسی اور ملک میں دستیاب ہوسکتے ہیں؟

پاکستان میں بینکنگ سسٹم قدرے بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن آپ چیک کیش کرانے کے لیے بینک میں چلے جائیں ،مشینی ٹوکن لیں اور انتظار فرمائیں،کیش کاونٹر پر تین چار ہوں گے لیکن کام ایک بندہ کررہا ہوگا، باقی حضرات نہ جانے کیا کررہے ہوں گے،اس کا آپ کو پتہ نہیں ہوگا۔

اﷲ اﷲ کرکے آپ کیش کاونٹر تک پہنچے تو جناب کیشئرصاحب اپنی نشست سے اٹھ کر ساتھ والے کولیگ سے باتیں کررہے ہیں،کم از کم دس منٹ کا انتظار تو لازم ہے، موصوف جب واپس سیٹ پر بیٹھے تو سامنے پڑے نوٹ گننے میں جت گئے،پھر جاکر کہیں آپ کی باری آتی ہے۔

اس وقت صاحب کے تیور دیکھنے والے ہوتے ہیں، چیک ایسے پکڑیں گے جیسے کسٹمر پرکوئی احسان کررہے ہیں۔ ہے نہ مزے کی بات، اپنے پیسے لینے کے لیے اتنی بے عزتی، کسی اور ملک میں ہوتی ہے تو پلیز میرے علم میں بھی اضافہ فرمائیں۔

پاکستان غریب ملک ہے لیکن تقریباً ہر بندہ ٹچ موبائل ہاتھ میں تھامے ، اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی پنگا کرتا ہوا نظر آتا ہے ،کوئی دفتر ہو، دکان ہو یا گھر ، بچے، بوڑھے اور جوان موبائل فون پر نظریں گاڑے بیٹھے ملیں گے۔ ایسے واقعے بھی ہوئے ہیں کہ پورا گھرانہ موبائل اور کمپیوٹر کے ساتھ مصروف تھا، اس دوران چور گھر کا صفایا کرگئے۔


میرے ایک صحافی دوست کے پاس مہنگا ٹچ موبائل تھا، ایک رات موصوف موبائل فون پر ''کچھ دیکھتے'' ہوئے خراماں خراماں پیدل ہی گھر کو جارہے تھے ، اچانک موٹر سائیکل سوار دو راہزنوں نے انھیں روک کر پستول دکھایا اور موبائل چھین لیا اور فرار ہوتے ہوئے مفت مشورہ بھی دے گئے۔

بھائی صاحب! اتنا مہنگا ٹچ موبائل خریدنے کے بجائے موٹر سائیکل خرید لیتے تاکہ پیدل خواری سے تو بچ جاتے اور گھر بھی جلدی پہنچ جاتے۔آپ خود بتائیں دنیا کے کسی اور ملک میں ایسے ''دیالو'' راہزن پائے جاتے ہیں؟

ہم لوگ برسراقتدار حکومت کو جی بھر کر گالیاں دیتے ہیں اور سابق حکمرانوں کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں۔ یہ ہمارا قومی کریکٹر ہے ، جب عمران خان اقتدار میں تھا ، سب کا ایک ہی رونا تھا، یار مہنگائی ہوگئی، بجلی کے بلز نے کمر توڑ دی ہے، دوائیں بہت مہنگی ہو گئی ہیں، خرچے پورے نہیں ہوتے، پتہ نہیں عمران خان سے ہماری جان کب چھوٹے گی ۔

اب جب جان چھوٹ گئی ہے تو عمران خان کو یاد کرکے وزیراعظم شہباز شریف کے گریباں کو آئے ہوئے ہیں۔اسحاق ڈار کو ایسے ایسے خطابات سے نواز جارہا ہے کہ توبہ توبہ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی مارکیٹ میں یہی مال دستیاب ہے۔جو چلا گیا، وہ دغا باز تھا اور جوآیا ہے، اسے بھی معلوم نہیں کہ وفا کیا ہوتی ہے اور جو آئے گا، اس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوگا۔ غالب نے کیا خوب یاد دلایا ہے ؎

ہم کو ان سے ہے وفا کی امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

جھوٹ، فریب، مکاری، یوٹرن اور دغا بازی ہماری پہچان ہے، جیسے عوام ویسے حکمران،ایسے میں غلط کون ہیں؟میرا خیال ہے، غلط وہ ہیں، جو ہم پر اعتبار کرتے ہیں۔امریکا، یورپ،جاپان، سعودی عرب وغیرہ ہماری رگ رگ سے واقف ہیں لیکن ہمارا کمال دیکھیں،ہم آج بھی ان کی جیب سے پیسے نکلوا لیتے ہیں،اس سے بڑی ہنرمند قوم اور کون ہے؟ ایک صاحب نے بڑے پتے کی بات کی،کہنے لگے۔

یار!گوشت کی دکان پر چلے جائیں تو رش، سبزی والے کے پاس جاؤ تو وہاںبھیٹر، کسی اسٹور کا رخ کریںتو گاڑی کھڑی کرنے کے لیے جگہ نہیں ملتی، پوش ایریاز کے ریستورانز میں ٹیبل نہیں ملتی، گلی محلوں میں تکے،شوارمے اور نہاری کھانے والے لائن میں لگے ہیں۔

اس پر ہائے مہنگائی ، وائے مہنگائی کا سیاپا۔ جس طرح ہمارے حکمران قرض لینے سے نہیں گھبراتے ، ہم عوام بھی قرضہ لینے میں دیر نہیں لگاتے ۔ امیر لوگوں کی سنیں تو فیکٹری قرضے سے تعمیر ہوئی۔

دوکنال کا بنگلہ بینک سے لون لے کر بنایا، دو گاڑیاں لیز پر ہیں، بچے مہنگے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں، سال میں یورپ کا ایک وزٹ بھی کرناہے لیکن مہنگائی کا رونا بھی لازمی رونا ہے، غریب گھرانوں پر نظر دوڑائیں ، موٹر سائیکل، واشنگ مشین اور فریج قسطوں پر لے رکھے ہیں، اوپر سے کمیٹیاں بھی ڈال رکھی ہیں،پھر رونا یہی ہے ، خرچے پورے نہیں ہوتے ۔

باتیں بنانا بھی کوئی ہم سے سیکھے، ایک محفل میں پاکستان کی عالمی تنہائی پر بحث ہورہی تھی'سب کہہ رہے تھے کہ دنیا کا کوئی ملک اور مالیاتی ادارہ پاکستان کو منہ نہیں لگا رہا،اس پر ایک ستم ظریف بولا، پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوہی نہیں سکتا، دنیا ہمارے ساتھ تعلقات ختم بھی نہیں کر سکتی ۔

سب نے حیرانی سے پوچھا !کیوں بھائی؟ ستم ظریف نے کمال کا جملہ پھینکا، یار! بندے بندے دے تے اسیں پیسے دینے نیں،سانوں دنیا کیویں چھڈ سکدی اے ۔ اس پر حاضرین محفل فکر مند اور شرمندہ ہونے کے بجائے قہقہہ بار ہو گئے۔ اب آپ ہی بتائیں' کیا اس رویے کو بلیک کامیڈی نہیں کہا جائے گا۔ اب ایک اور واقعہ سنئے! پولیس اہلکاروں نے چند بھکاریوں کو پکڑ رکھا تھا۔ تھانیدار غصے سے انھیں کہہ رہا تھا کہ تمہیں پتہ ہے۔

بھیک مانگنا قانونی جرم ہے اور مذہباً گناہ بھی' جاؤ محنت کرکے کماؤ ۔ اس پر ایک دل جلے بھکاری نے ہاتھ جوڑ کر کہا! سرجی! آپ نے ہمیں تو قانون سمجھا بھی دیا اور ہم پر نافذ بھی کر دیا' مہربانی کر کے پاکستان کے حکمرانوں کو بھی اس قانون اور مذہبی حکم کے بارے آگاہ کر دیں کیونکہ ہمارے وزیراعظم اور وزیر خزانہ روزانہ کی بنیاد پر بھیک مانگنے کبھی سعودی عرب، کبھی امریکا اور کبھی لندن جاتے ہیں ، آپ پولیس والے بھی تو ناکے لگا کر بھیک ہی مانگتے ہیں،اگر ہم بھکاری ٹریفک سگنل پر کھڑے ہوکر بھیک مانگیں تو ہماری گرفتاریاں ہو جاتی ہیں' یہ کہاں کا انصاف ہے۔

میں قریب کھڑا یہ سب دیکھ اور سن رہا تھا' میرا بھی اس تھانیدار کی طرح دل چاہ رہا تھا کہ اس گستاخ اور بدتمیز بھکاری کے کانوں کے نیچے ایک جڑوں ، یہ دو ٹکے کا بھکاری ہمیں لاجواب کر رہا ہے۔
Load Next Story