پولیس اہلکار کے قتل نے محکمہ کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں پر سوال اٹھا دیئے
شواہد اور ایف آئی آر میں تضاد، مبینہ مغوی لڑکی کا کچھ پتہ نہیں، ملزم باآسانی بیرون ملک فرار
شہر قائد میں گزشتہ ماہ 21 نومبر کی شب ڈیفنس فیز فائیو ای اسٹریٹ عبداللہ شاہ غازی مزار کے قریب شاہین فورس کا اہلکار عبدالرحمٰن فائرنگ کے واقعہ میں شہید ہوگیا جبکہ فائرنگ کرنے والا ملزم واقعہ کے بعد گاڑی سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
پولیس جوان کے شہید ہونے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی دوڑیں لگ گئیں، جس کے بعد پولیس نے کچھ ہی دیر میں سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے فائرنگ کرنے والے ملزم خرم نثار کا سراغ لگا کر اس کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تو ملزم پہلے ہی فرار ہو چکا تھا۔
تاہم پولیس نے تلاشی کے دوران گھر سے ملزم کے زیر استعمال گاڑی، اسلحہ اور دستاویزات برآمد کرلیں جبکہ تحقیقات میں پتہ چلا کہ مفرور ملزم سوئیڈن کا مستقل رہائشی ہے اور 3 ہفتے قبل ہی سوئیڈن سے کراچی منتقل ہوا تھا۔ پولیس نے جب ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا تو اس کے بزرگ اور معذور والد نثار احمد موجود تھے۔
جنھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ سابق ڈپٹی کمشنر ہیں جبکہ تلاشی کے دوران ملزم کے گھر سے ایک پاسپورٹ کی کاپی بھی برآمد ہوئی۔ فوٹیجز اور موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو میں ملزم کی واضح شناخت اور پولیس کو اس بات کا پتہ چل جانے کے باوجود کہ وہ چند ہفتے قبل ہی سوئیڈن سے آیا تھا پولیس کی جانب سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔
واقعہ کے بعد پولیس افسران کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شاہین فورس کے اہلکار عبدالرحمن اور امین الحق گشت پر مامور تھے کہ انھوں نے ایک کار سوار کو خاتون اغوا کر کے لے جاتے ہوئے دیکھا، جس پر انھوں نے کار کا تعاقب کیا اور کچھ فاصلے پر جا کر مذکورہ کار کو روک لیا اور اس میں سوار ملزم خرم نثار نے شاہین فورس کے پولیس اہلکار عبدالرحمٰن کو فائرنگ کر نشانہ بنایا، جس میں گولی اس کے سر پر لگی اور وہ موقع پر ہی شہید ہوگیا۔
جس کے بعد پولیس نے شہید عبدالرحمٰن کے ہمراہ موجود کانسٹیبل امین الحق کی مدعیت میں ملزم خرم نثار کے خلاف قتل ، پولیس مقابلہ اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ سیون اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کرلیا، جس میں مدعی مقدمہ نے پولیس کو بیان دیا کہ وہ اور شہید کانسٹیبل عبدالرحمٰن شاہین فورس ساؤتھ میں تعینات اور شام 6 سے رات 2 بجے تک تھانہ درخشاں میں موٹر سائیکل گشت پر مامور تھے کہ خیابان شمشیرنزد 26 اسٹریٹ سگنل ڈیفنس فیز 5 پر رات ساڑھے گیارہ بجے ہمارے پاس سے ایک گاڑی تیزی سے گزری جس میں سے خاتون کے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔
اس دوران عبدالرحمٰن موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور میں عقب میں بیٹھا تھا، ہم نے کار کا تعاقب کیا لیکن سوار نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی ہم نے کلفٹن بلاک 4 عبداللہ شاہ غازی مزار کے قریب کار کو روکا اور کانسٹیبل عبدالرحمٰن دوڑ کر گاڑی کی اگلی نشست پر بیٹھ گیا۔
اس دوران گاڑی میں سوار خاتون گاڑی سے اتر کر بھاگ گئی گاڑی میں سوار شخص نے عبدالرحمٰن کے ساتھ گاڑی بھگا دی، ڈیفنس فیز 5 ایکسٹینشن میں گاڑی رکی اور گاڑی سوار اور کانسٹیبل دونوں گاڑی سے اترے اور گاڑی سوار نے فائرنگ کر دی جبکہ عبدالرحمٰن نے بھی گولی چلائی لیکن کار سوار کی فائرنگ سے عبدالرحمٰن زخمی ہو کر گر پڑا جبکہ گاڑی سوار وہاں سے فرار ہوگیا اور عبدالرحمٰن نے دم توڑ دیا۔
ڈیفنس میں کار سوار ملزم کے ہاتھوں پولیس اہلکار کے قتل پر محکمہ پولیس پر بھی کئی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں ، شاہین فورس کے اہلکار صرف 2 ہی کیوں تھے؟ کار سوار کو قابو کرنے کے لیے مدد گار 15 پولیس یا تھانے سے مدد کیوں طلب نہیں کی گئی؟ واقعہ کے وقت شہید اہلکار عبدالرحمٰن کے ہمراہ دوسرے اہلکار نے ملزم پر گولی کیوں نہیں چلائی؟ ملنے والے شواہد اور ایف آئی آر میں بھی تضاد پایا گیا۔
واقعہ کے بعد پولیس کی جانب سے دعویٰ سامنے آیا تھا کہ ملزم کسی لڑکی کو اغوا کر کے لے جا رہا تھا لیکن مبینہ طور پر اغوا کی جانے والی لڑکی کا بھی تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا، شاہین فورس کے قیام کے وقت کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہین فورس کے تمام اہلکار بلٹ پروف جیکٹ کا استعمال کریںگے اور کم از کم 2 موٹر سائیکلوں پر سوار 4 اہلکار ایک ساتھ گشت کریںگے۔
اہلکار جدید ہتھیاروں سے لیس اور ان کے پاس واکی ٹاکی بھی موجود ہوگا لیکن ڈیفنس میں پیش آنے والے واقعہ میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا جیسا کہ پولیس چیف نے دعویٰ کیا تھا، واردات کے بعد فوٹیجز اور موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پہلے کار سوار کا تعاقب کیا گیا اور اسے روک کر کار سوار سے تلخ کلامی ہوئی جس کی ویڈیو ساتھی اہلکار نے موبائل فون سے بنائی اور اس ویڈیو اور ملزم سے تلخ کلامی کا ایف آئی آر میں کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
ایک بار کار سوار کو قابو کر کے کار میں پولیس اہلکار عبدالرحمٰن کے بیٹھ جانے کے بعد بھی ساتھی اہلکار نے ہنگامی طور پر مدد گار 15 پولیس یا تھانے کو اطلاع کیوں نہیں دی۔
پولیس کی جانب سے پولیس اہلکار کو فائرنگ کا نشانہ بنانے والے ملزم کی گرفتاری اور بیرون ملک فرار کی کوشش روکنے کے لیے ساؤتھ پولیس کی جانب سے ایف آئی اے امیگریشن حکام کو بھی خط لکھا گیا جس میں ملزم کے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نمبر سمیت دیگر معلومات مہیا کی گئیں لیکن شاطر ملزم نے ایئر پورٹ پر اپنا غیر ملکی سوئیڈش پاسپورٹ پیش کیا اور وہ ساؤتھ پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسی رات واردات کے چند گھنٹوں کے بعد ہی قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
مفرور ملزم خرم نثار کی جانب سے بھی چند روز کے بعد ایک وضاحتی ویڈیو بیان منظر عام پر آیا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ میں نے اپنے دفاع میں پولیس اہلکار پر گولی چلائی جبکہ میرا مقصد اسے قتل کرنا نہیں تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ اصلی پولیس اہلکار ہے بھی یا نہیں اگر مجھے پولیس اہلکار کومارنا ہوتا تو میں پہلے ہی مار دیتا۔
شہید پولیس اہلکار عبدالرحمٰن سٹی ریلوے کالونی 10 نمبر گیٹ کے قریب کا رہائشی اور 4 بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا ، آبائی تعلق بونیر سے تھا جس کا نکاح ہوچکا تھا اور رواں ماہ دسمبر میں شادی طے تھی۔
مفرور ملزم خرم نثار کی گرفتاری کس طرح اور کب عمل میں لائی جائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکے گا تاہم شاطر ملزم جس طرح سے ساؤتھ زون پولیس کے افسران کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوا وہ بھی پولیس کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
پولیس جوان کے شہید ہونے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی دوڑیں لگ گئیں، جس کے بعد پولیس نے کچھ ہی دیر میں سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے فائرنگ کرنے والے ملزم خرم نثار کا سراغ لگا کر اس کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تو ملزم پہلے ہی فرار ہو چکا تھا۔
تاہم پولیس نے تلاشی کے دوران گھر سے ملزم کے زیر استعمال گاڑی، اسلحہ اور دستاویزات برآمد کرلیں جبکہ تحقیقات میں پتہ چلا کہ مفرور ملزم سوئیڈن کا مستقل رہائشی ہے اور 3 ہفتے قبل ہی سوئیڈن سے کراچی منتقل ہوا تھا۔ پولیس نے جب ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا تو اس کے بزرگ اور معذور والد نثار احمد موجود تھے۔
جنھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ سابق ڈپٹی کمشنر ہیں جبکہ تلاشی کے دوران ملزم کے گھر سے ایک پاسپورٹ کی کاپی بھی برآمد ہوئی۔ فوٹیجز اور موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو میں ملزم کی واضح شناخت اور پولیس کو اس بات کا پتہ چل جانے کے باوجود کہ وہ چند ہفتے قبل ہی سوئیڈن سے آیا تھا پولیس کی جانب سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔
واقعہ کے بعد پولیس افسران کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شاہین فورس کے اہلکار عبدالرحمن اور امین الحق گشت پر مامور تھے کہ انھوں نے ایک کار سوار کو خاتون اغوا کر کے لے جاتے ہوئے دیکھا، جس پر انھوں نے کار کا تعاقب کیا اور کچھ فاصلے پر جا کر مذکورہ کار کو روک لیا اور اس میں سوار ملزم خرم نثار نے شاہین فورس کے پولیس اہلکار عبدالرحمٰن کو فائرنگ کر نشانہ بنایا، جس میں گولی اس کے سر پر لگی اور وہ موقع پر ہی شہید ہوگیا۔
جس کے بعد پولیس نے شہید عبدالرحمٰن کے ہمراہ موجود کانسٹیبل امین الحق کی مدعیت میں ملزم خرم نثار کے خلاف قتل ، پولیس مقابلہ اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ سیون اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کرلیا، جس میں مدعی مقدمہ نے پولیس کو بیان دیا کہ وہ اور شہید کانسٹیبل عبدالرحمٰن شاہین فورس ساؤتھ میں تعینات اور شام 6 سے رات 2 بجے تک تھانہ درخشاں میں موٹر سائیکل گشت پر مامور تھے کہ خیابان شمشیرنزد 26 اسٹریٹ سگنل ڈیفنس فیز 5 پر رات ساڑھے گیارہ بجے ہمارے پاس سے ایک گاڑی تیزی سے گزری جس میں سے خاتون کے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔
اس دوران عبدالرحمٰن موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور میں عقب میں بیٹھا تھا، ہم نے کار کا تعاقب کیا لیکن سوار نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی ہم نے کلفٹن بلاک 4 عبداللہ شاہ غازی مزار کے قریب کار کو روکا اور کانسٹیبل عبدالرحمٰن دوڑ کر گاڑی کی اگلی نشست پر بیٹھ گیا۔
اس دوران گاڑی میں سوار خاتون گاڑی سے اتر کر بھاگ گئی گاڑی میں سوار شخص نے عبدالرحمٰن کے ساتھ گاڑی بھگا دی، ڈیفنس فیز 5 ایکسٹینشن میں گاڑی رکی اور گاڑی سوار اور کانسٹیبل دونوں گاڑی سے اترے اور گاڑی سوار نے فائرنگ کر دی جبکہ عبدالرحمٰن نے بھی گولی چلائی لیکن کار سوار کی فائرنگ سے عبدالرحمٰن زخمی ہو کر گر پڑا جبکہ گاڑی سوار وہاں سے فرار ہوگیا اور عبدالرحمٰن نے دم توڑ دیا۔
ڈیفنس میں کار سوار ملزم کے ہاتھوں پولیس اہلکار کے قتل پر محکمہ پولیس پر بھی کئی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں ، شاہین فورس کے اہلکار صرف 2 ہی کیوں تھے؟ کار سوار کو قابو کرنے کے لیے مدد گار 15 پولیس یا تھانے سے مدد کیوں طلب نہیں کی گئی؟ واقعہ کے وقت شہید اہلکار عبدالرحمٰن کے ہمراہ دوسرے اہلکار نے ملزم پر گولی کیوں نہیں چلائی؟ ملنے والے شواہد اور ایف آئی آر میں بھی تضاد پایا گیا۔
واقعہ کے بعد پولیس کی جانب سے دعویٰ سامنے آیا تھا کہ ملزم کسی لڑکی کو اغوا کر کے لے جا رہا تھا لیکن مبینہ طور پر اغوا کی جانے والی لڑکی کا بھی تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا، شاہین فورس کے قیام کے وقت کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہین فورس کے تمام اہلکار بلٹ پروف جیکٹ کا استعمال کریںگے اور کم از کم 2 موٹر سائیکلوں پر سوار 4 اہلکار ایک ساتھ گشت کریںگے۔
اہلکار جدید ہتھیاروں سے لیس اور ان کے پاس واکی ٹاکی بھی موجود ہوگا لیکن ڈیفنس میں پیش آنے والے واقعہ میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا جیسا کہ پولیس چیف نے دعویٰ کیا تھا، واردات کے بعد فوٹیجز اور موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پہلے کار سوار کا تعاقب کیا گیا اور اسے روک کر کار سوار سے تلخ کلامی ہوئی جس کی ویڈیو ساتھی اہلکار نے موبائل فون سے بنائی اور اس ویڈیو اور ملزم سے تلخ کلامی کا ایف آئی آر میں کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
ایک بار کار سوار کو قابو کر کے کار میں پولیس اہلکار عبدالرحمٰن کے بیٹھ جانے کے بعد بھی ساتھی اہلکار نے ہنگامی طور پر مدد گار 15 پولیس یا تھانے کو اطلاع کیوں نہیں دی۔
پولیس کی جانب سے پولیس اہلکار کو فائرنگ کا نشانہ بنانے والے ملزم کی گرفتاری اور بیرون ملک فرار کی کوشش روکنے کے لیے ساؤتھ پولیس کی جانب سے ایف آئی اے امیگریشن حکام کو بھی خط لکھا گیا جس میں ملزم کے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نمبر سمیت دیگر معلومات مہیا کی گئیں لیکن شاطر ملزم نے ایئر پورٹ پر اپنا غیر ملکی سوئیڈش پاسپورٹ پیش کیا اور وہ ساؤتھ پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسی رات واردات کے چند گھنٹوں کے بعد ہی قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
مفرور ملزم خرم نثار کی جانب سے بھی چند روز کے بعد ایک وضاحتی ویڈیو بیان منظر عام پر آیا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ میں نے اپنے دفاع میں پولیس اہلکار پر گولی چلائی جبکہ میرا مقصد اسے قتل کرنا نہیں تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ اصلی پولیس اہلکار ہے بھی یا نہیں اگر مجھے پولیس اہلکار کومارنا ہوتا تو میں پہلے ہی مار دیتا۔
شہید پولیس اہلکار عبدالرحمٰن سٹی ریلوے کالونی 10 نمبر گیٹ کے قریب کا رہائشی اور 4 بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا ، آبائی تعلق بونیر سے تھا جس کا نکاح ہوچکا تھا اور رواں ماہ دسمبر میں شادی طے تھی۔
مفرور ملزم خرم نثار کی گرفتاری کس طرح اور کب عمل میں لائی جائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکے گا تاہم شاطر ملزم جس طرح سے ساؤتھ زون پولیس کے افسران کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوا وہ بھی پولیس کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔