منی لانڈرنگ اور  اثاثہ جات  کیسز میں سلیمان شہباز کی حفاظتی ضمانت منظور

عمران خان چار سال طاقت میں رہے، کیسز ثابت کیوں نہیں کر سکے؟ شہزاد اکبر نے ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا، میڈیا سے گفتگو

عدالت نے سلیمان شہباز کو گرفتار کرنے سے روک دیا (فوٹو فائل)

منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیسز میں سلیمان شہباز کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی گئی۔

وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہزاد کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق کے روبرو سلیمان شہباز پیش ہوئے۔ ان کے وکیل امجد پرویز نے ایف آئی اے لاہور کی عدالت میں سرنڈر کرنے کے لیے حفاظتی ضمانت کی درخواست کی۔

عدالت نے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں سلیمان شہباز کی 14 دن کی حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا۔ واضح رہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں عدم حاضری پر سلیمان شہباز اشتہاری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سلیمان شہباز کو پاکستان پہنچنے پر گرفتار کرنے سے روک دیا

بعد ازاں سلیمان شہباز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کے مقدمے کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کی۔ عدالت نے اس کیس میں بھی سلیمان شہباز کی 14 روز کی حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے نیب کو ان کی گرفتاری سے روک دیا۔

واضح رہے کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں بھی عدم حاضری پر سلیمان شہباز احتساب عدالت لاہور سے اشتہاری ہیں۔ احتساب عدالت میں سرنڈر کرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سلیمان شہباز کی حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور کرلی ہے۔

قبل ازیں عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سلیمان شہباز نے کہا کہ آج 4 سال 2 ماہ بعد پاکستان واپس آیا ہوں۔ ہم نے اپنے آپ کو عدالت کے سامنے سرنڈر کردیا ہے۔ پچھلے 4 سال میں جو کھیل تماشا عمران خان نے ملک اور میری فیملی کے ساتھ کیا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ رانا ثنا اللہ پر ہیروئن کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا جس میں بریت سے تھپڑ پڑا ہے۔

سلیمان شہباز کا کہنا تھا کہ شریف فیملی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔ شریف فیملی کے لوگوں کو گرفتار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب یہاں فیئر انوائرمنٹ ہے۔بشیر میمن اپ رائٹ ڈی جی ایف آئی اے تھے ان کو کس طرح پریشرائز کیا گیا۔ عمران خان نے ڈی جی ایف آئی اے کے ساتھ بدتمیزی کی۔


مزید پڑھیں: نئے انتخابات کا فیصلہ فوج نے نہیں، الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، سلیمان شہباز

انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر پاکستان سے بھاگے ہوئے ہیں، انہوں نے بھی کھلواڑ کیا پاکستان کے ساتھ۔ عمران خان برطانیہ کے نظام انصاف کی مثالیں دیتے نہیں تھکتا۔ برطانیہ میں حکومت پاکستان کے کہنے پر مقدمہ بنا اور 18 مہینے چلا۔ عمران خان خود قوم کے پیسے پر چکر لگاتے رہے، عیاشی کرتے رہے۔ مجھے اور میرے والد کو این سی اے نے انٹیروگیٹ کیا۔ این سی اے نے عمران خان کے منہ پر تھپڑ مارا اور ہمیں بری کیا۔

سلیمان شہباز کا کہنا تھا کہ ڈیلی میل میں آرٹیکل لکھنے والے ڈیوڈ روز کو شہزاد اکبر نیب کے سیل میں لائے۔ جھوٹی بریفنگ دلوا کر اسٹوری کو انگلینڈ کے اخبار میں چھپوایا گیا۔ آرمی چیف کی تعیناتی پر پورے ملک کا وقت برباد کیا اور ڈرامے بازی کی۔ 4 برس میں 25 ہزار ارب کا قرضہ لیا اور گھڑیاں چوری کرتا رہا۔ گھڑی بیچ کر پیسے واپس لانے کی ٹرانزیکشن دکھائے۔

عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے سلیمان شہباز نے کہا کہ سائفر کا بیانیہ بنا کر بعد میں امریکا کے پاؤں پڑ گیا۔ ہم اس کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرے۔ قوم دیکھ رہی ہے کہ کب ان کیسز میں سزا ملے گی۔ 190 ملین پاؤنڈ کا جو ڈاکا پڑا، اس کے عوض فوائد اٹھائے۔ عمران خان کو ٹیریان خان کے کیس کا بھی بتانا پڑے گا کہ اس سے کیا تعلق ہے؟۔

اپنے خلاف مقدمات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 4 سال طاقت تھی، 2 صوبے، وزارت عظمیٰ تھی، پراسیکیوٹ کرتا۔ سول ملٹری ریلیشن شپ آئیڈیل ہونے کا کہتا رہا۔ جنرل باجوہ کو سب سے ڈیموکریٹک جنرل کہتا رہا اور پھر منافق گردانا۔ ہیلی کاپٹر کے پیسوں کا حساب نہ ہونے کا بل پیش کیا گیا۔ یہ اس کے باپ کے پیسے ہیں کہ حساب کتاب نہیں ہو سکتا۔

سلیمان شہباز نے کہا کہ سعودیہ نے خانہ کعبہ کے مونوگرام کی ایک ہی گھڑی بنائی جو بیچ دی۔ یہ ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے۔ فرح گوگی کو کیوں ملک سے بھگایا۔ آپ کے پاس طاقت تھی تو کیسز ثابت کرتے؟ ۔ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف، حمزہ شہباز، احسن اقبال کے ساتھ کیا کچھ ہوا؟ ۔ اب روتے ہو کہ فرح گوگی پبلک آفس ہولڈر نہیں، میں بھی تو پبلک آفس ہولڈر نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر اور دیگر کو عبرتناک سزائیں ملنی چاہییں۔ اس کے پاس انٹیلی جنس ایجنسیاں تھیں، بلیک میلنگ کر کے بھی کچھ نہیں کیا گیا۔ شہزاد اکبر کا پتا تو لیں کہ وہ آج کل کہاں پر ہیں؟۔ شہزاد اکبر آج کل ایک محل میں برتن دھو رہے ہیں۔

 
Load Next Story