خشونت سنگھ رہے نہ وہ دنیا رہی آخری حصہ

سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے خشونت نے اپنے دولت مند والد اوروالدہ کی ناز برداریوں میں ابتدائی زندگی گزاری


Zahida Hina April 02, 2014
[email protected]

KARACHI: یہ خشونت سنگھ کی خوش بختی تھی کہ وہ 1915 کے ہندوستان میں پیدا ہوئے جہاں مسلمانوں، ہندوئوں اور سکھوں کی گنگا جمنی تہذیب پر برٹش ایمپائر کے سائے دھوپ چھائوں کا کھیل دکھا رہے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ہندوستانی اشرافیہ نے ایک ایسی زندگی بسر کی جو خوابوں کی سی تھی۔ ایک طرف غریب، پس ماندہ اور اپنی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے والے ہندوستانی تھے اور دوسری طرف وہ ہندو مسلم اور سکھ اشرافیہ جن کے بارے میں بڑی بوڑھیاں یہ کہتی تھیں کہ ان کے تو کتے بھی حلوہ کھاتے ہیں۔ ملازم ان کتوں کو شیمپو سے نہلاتے، انھیں ریشمی گدیلوں پر سلاتے اور خود گھٹیا صابن کی ٹکیہ اور پھٹی پرانی چادر کے لیے بھی ترستے۔

سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے خشونت نے اپنے دولت مند والد اور والدہ کی ناز برداریوں میں ابتدائی زندگی گزاری۔ قانون کی تعلیم کے لیے انگلستان گئے۔ وہاں سے واپس آئے تو لاہور کے طبقہ اعلیٰ میں سے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے حالات اور واقعات نے ان پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان دنوں بہت سے ہندوستانی انگریز دشمنی میں ہٹلر اور مسولینی کی حمایت کرتے جس سے خوشونت کو اختلاف تھا۔ اس بارے میں انھوں نے لکھا ہے کہ''میرا نقطۂ نظر فسطائیوں کے سخت خلاف تھا اور مجھے اس بات کا یقین تھا کہ ہندوستان اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتا جب تک ہٹلر، مسولینی اور ان کے یورپی حلیفوں کو شکست نہ دی جائے۔ اکثر ہندوستانی فسطائی قوتوں کی کامیابی پر خوش ہوتے تھے اس لیے نہیں کہ وہ نازیوں اور فاشسٹوں کو چاہتے تھے بلکہ اس لیے کہ وہ انگریز حکمرانوں کے سخت مخالف تھے۔

جب سبھاش چندر بوس نے انڈین نیشنل آرمی کی کمان سنبھالی تو مجھے جاپانی ارادوں پر پوری طرح بھروسہ نہیں تھا۔ بوس کسی کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بننے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا تھا اس لیے کہ وہ مضبوط آدمی تھا۔ مگر اس کے اور اس کی آئی این اے کے متعلق بھی مجھے شکوک تھے۔ میرے کمیونسٹ خیالی پیکر اس وقت ہوا میں تحلیل ہوگئے جب اسٹالن نے ہٹلر سے سمجھوتہ کرلیا۔ مگر جب ان دونوں میں لڑائی ہوئی تب کسی حد تک میرے شکوک ختم ہوئے۔ میں مسلمانوں کے اس مطالبے کے حق میں تھا کہ جہاں وہ اکثریت میں ہیں انھیں حکومت ملنی چاہیے۔ مجھے یقین تھاکہ ہندوستان ایک غیر منقسم ملک رہے گا۔ جس میں دونوں سروں پر دو خود مختار مسلم اکثریتی حکومتیں ہوں گی۔ میں ہندوئوں اور سکھوں کی مخالفت یا مسلم دشمنی پر بھی یقین نہیں رکھتا تھا۔''

یہ خیالات رکھنے والا شخص ہی مذہبی دیوانگی سے لہولہان ہوجانے والے پنجاب کے شہروں اور قصبوں، بلوائیوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کردیے جانے والے مسلمانوں اور سکھوں سے بھری ہوئی ریل گاڑیوں کے ڈبوں کو دیکھ کر بھی اپنے ہوش و حواس پر قابو رکھ سکتا تھا اور ''اے ٹرین ٹو پاکستان'' جیسا ناول لکھ سکتا تھا۔ وہ سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن تاعمر انسان رہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی نے ان کے دل میں ایک خاص نرم گوشہ پیدا کیا۔ وہ اپنی مذہبی تاریخ کے حوالے سے بھی بابا گرو نانک کی اس روایت سے جڑے ہوئے تھے جس کے سبب بابا فرید الدین گنج شکر کے اشعار کو پانچویں گرو ارجن سنگھ نے یکجا کیا اور پھر انھیں گرو گرنتھ صاحب میں شامل کرلیا۔ آج تک ہر سکھ کا یہ مذہبی فرض ہے کہ وہ بابا گنج شکر کے کلام کی اسی طرح حفاظت کرے جس طرح بابا نانک کے کلام کی ہوتی ہے: جو گرو گرنتھ صاحب کے نام سے موسوم ہے۔

جنم ساکھی بھائی بالا میں یہ بات بابا گرونانک سے منسوب ہے کہ چاروں کتابیں الہامی ہیں۔ خشونت نے یہ سب کچھ پڑھا تھا، وہ تمام سکھ روایات سے واقف تھے تب ہی وہ زندگی کے کئی برس صرف کر کے دو ضخیم جلدوں میں سکھوں کی تاریخ لکھ سکے۔ وہ جانتے تھے کہ امرتسر میں گرو دوارہ ہر مندر صاحب کی بنیاد حضرت میاں کے ہاتھوں رکھنے کی دعوت گرو ارجن دیو نے دی تھی اور یہ بنیاد حضرت میاں میر اورگرو ارجن سنگھ کے ہاتھوں رکھی گئی تھی۔ سکھ روایات میں بھگت کبیر کی کس قدر اہمیت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گرو دوارہ ہر مندر صاحب کی دیوار پر بھگت کبیر کی شبیہہ بنائی گئی تھی اور سکھ زائرین پر اس کا احترام واجب تھا۔ خشونت کا ذہن ان روایات سے سیراب ہوا تھا، وہ اردو اور فارسی کی انسان دوست شعری روایت سے وابستگی رکھتے تھے۔

یہی وہ آگہی تھی جس نے 1947ء میں ہونے والے قتل عام کی تفہیم ان کے لیے ناممکن بنادی جس میں دونوں فریق شریک تھے۔ ان کے دل سے اس جنون اور دیوانگی کا دکھ کبھی نہیں گیا۔ ''اے ٹرین ٹو پاکستان'' اسی صدمے کا پرتو ہے اور اسی ناول سے ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہوا۔ انھوں نے دیکھا تھا کہ ہندوستانیوں نے کس بڑے پیمانے پر ''ہندوستان چھوڑ دو'' کی تحریک چلائی تھی۔ انگریزوں سے ہندوستانیوں کو جس قدر گہری نفرت تھی۔ اس سے بھی وہ بہ خوبی واقف تھے لیکن 15 اگست 1947 کو جب ہندوستان کی آزادی وجود میں آرہی تھی اور لارڈ مائونٹ بیٹن لال قلعہ اس تقریب میں شرکت کے لیے آرہے تھے جس میں برطانیہ کا یونین جیک اترنے اور ترنگا لہرانے والا تھا تو ہندوستانیوں نے انگریزوں اور برٹش راج کے بارے میں جس جذباتیت کا مظاہرہ کیا، اس کا تذکرہ انھوں نے ایک ایسے انداز میں کیا جس کی زیریں سطح پر ہمیں استہزا کی ایک لہر ملتی ہے۔ خشونت نے لکھا :

'' لارڈ اور لیڈی مائونٹ بیٹن اپنی چھ گھوڑوں والی وائسرے کی گاڑی میں سوار ہوکر آئے۔ لوگوں نے طے کیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے گاڑی کھینچیں گے۔ بہت سے انگریزوں کو لوگوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھالیا تھا۔تقریباً ایک ہی رات میں وہی انگریز جن سے شدید نفرت کی جاتی تھی، ہندوستانیوں کے بہت ہی پیارے غیر ملکی ہوگئے تھے۔''

انھوں نے تاریخ لکھی، تہذیب لکھی، ناول لکھے اور سکھوں کے لطیفے مرتب کیے۔ کالم تو وہ لکھتے ہی تھے لیکن انھوں نے لوگوں کو اپنے بارے میں کیسی کیسی بدگمانیوں میں مبتلا رکھا۔ بدمعاش ہے، بلا نوش ہے، عورتوں کا رسیا ہے لیکن خشونت جو کچھ بھی تھے ان سب پر فوقیت اس بات کی تھی کہ وہ اعلیٰ اقدار کا احترام کرنے والے انسان تھے۔ اب سے 25 برس پہلے انھوں نے ایک شاندار ناول ''دہلی'' لکھا۔ یہ ناول اس شہر سے عشق کے بغیر نہیں تحریر کیا جاسکتا تھا۔ اس ناول کا قصہ خواں ایک ایسا شخص ہے جو شہر دلی اور بھاگ متی کے عشق میں گرفتار ہے۔

خشونت سنگھ کا شاندار ناول ''دہلی'' اشاعت کے چند دنوں بعد بازار میں دستیاب نہ تھا۔ یہ ایک ایسا ناول ہے جس کے بارے میں خشونت نے لکھا ہے کہ 6 صدیوں کی اس کہانی کو میں نے 25 برسوں میں جستہ جستہ لکھا ہے۔ اس ناول کو لکھنے کے لیے وہ اس کے بازاروں، گلی کوچوں، تکیوں اور آستانوں میں پھرے۔ متروک مسجدیں، بھلا دیے جانے والے مزار، ویران مٹھ۔ ایک شہر جس پر سے گزرنے والی چھ صدیوں کا قصہ خشونت نے لکھا اور اس کے پڑھنے والوں سے آرزو کی کہ وہ اس شہر کی روح کو پہچانیں، یہ جانیں کہ یہاں خون کے کیسے دریا بہے اور اس سے کس کس نے انتقام لیا ، جس کے صفحوں پر نادر شاہ درانی کے قتل عام کا قصہ ہے۔ وہ قتل عام جس کا شکار ہونے والوں کی اکثریت مسلمان تھی۔ قاتل بھی مسلمان اور مقتول بھی۔

دلی میں نادر شاہ کی سپاہ کے ہاتھوں ہونے والا وہ قتل عام جس کی تاریخ میں نظیر ذرا کم ملتی ہے، وہ ناول کے صفحوں پر اپنی جھلک دکھاتا ہے کہ جب نادر شاہ اپنے جاں نثاروں کے جھرمٹ میں چاندنی چوک کی طرف چلا اور شہر والوں نے اس پر پتھر برسائے اور اسے برا بھلا کہا تو وہ مسجد روشن الدولہ کی سیڑھیوں پر اپنے گھوڑے سے اترا اور مسجد کے ایک جھروکے میں جابیٹھا کسی طرف سے حملہ ہوا اور نادر شاہ کا مگس راں (مکھی جھلنے والا) ہلاک ہوااور اس کا خون بادشاہ کے لباس کو رنگین کر گیا۔ اس کے بعد نادر شاہ نے اپنی تلوار میان سے نکال لی اور دلی والوں کا وہ قتل عام شروع ہوا جس نے گھوڑوں کے سم خون میں ڈبو دیے۔ ایک مگس راں کی جان کے عوض چاندنی چوک اور دریبہ کے ہر مرد، عورت اور بچے کو ذبح کردیا گیا۔ ہر گھر مسمار کردیا گیا۔ ایسے میں ایک طوائف نوربائی، نادر شاہ سے یہ پوچھنے کی جرأت کرتی ہے کہ ''حضور! آپ نے اتنے لوگ قتل کردیے لیکن کیوں؟''اور نادر شاہ اس کے سامنے اپنی گردن جھکا دیتا ہے۔

اس ناول میں کتنے ہی قتل کتنی ہی خوں ریزی ہے۔ کبھی نادر شاہی کبھی گورا شاہی، کبھی مہاتما گاندھی کے قتل اور اندرا گاندھی کے قتل کی۔ گولڈن ٹمپل پر ٹینکوں کی یلغار اور دلی میں ہونے والا سکھوں کا وہ قتل عام جس کے بعد خشونت سنگھ نے پدم بھوشن کا اعزاز امرتسر کے گولڈن ٹمپل کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واپس کیا تھا۔ ایک دیوانگی انھوں نے 47 میں دیکھی تھی جب سکھ، ہندوئوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو قتل کررہے تھے اور ایک دیوانگی 1984کی تھی جب سکھ، ہندوئوں کے ہاتھوں قتل ہورہے تھے۔ خشونت آخری سانس تک انسان کی تلاش میں رہے جو انھیں نہ مل سکا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں