سیاسی تقسیم سے جڑے مسائل
یہ سیاسی تقسیم محض سیاست، سیاسی جماعتوں، قیادت، سیاسی کارکنوں، ان کے سپورٹرز تک محدود نہیں
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قومی سیاسی تاریخ میں سیاسی تقسیم کی جڑیں جتنی آج زیادہ گہری ہیں ماضی میں اس کی جھلک کم نظر آتی ہے۔
ممکن ہے یہ جھلک ماضی میں بھی ہو لیکن سوشل میڈیا اور ابلاغ کے نئے جہتوںمیں جو سیاسی تقسیم کا کھیل اس حالیہ سیاسی وسماجی زمانے میں ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے وہ ایک بڑی سیاسی حقیقت کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ سیاسی تقسیم محض سیاست، سیاسی جماعتوں، قیادت، سیاسی کارکنوں، ان کے سپورٹرز تک محدود نہیں بلکہ سماج میں موجود تمام فریقین یا شعبہ جات میں موجود عام یا خواص افراد یا اداروں کو اس نے اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت کی سیاسی تقسیم کی وجہ سے ہمیں محازآرائی ، ٹکراؤ، تعصب، نفرت، تنقید کے مقابلے میں تضحیک، سیاسی اختلاف کے مقابلے میں سیاسی کشیدگی یا سیاسی دشمنی ، مکالمہ کی جگہ اپنی بات کو طاقت سے منوانا ، عدم برداشت اور سیاسی ، سماجی و مذہبی انتہا پسندی سے جڑے معاملات سرفہرست نظر آتے ہیں ۔یہ عمل سماج یا قوم کو یکجا کرنے کے بجائے ان میں ایسی تقسیم کے عمل کو پیدا کررہا ہے جو ہمیں آگے کی طرف لے جانے کے بجائے پیچھے کی طرف دکھیل رہی ہے ۔
سیاسی اختلاف، تنقید اور ایک خاص سیاسی ، سماجی یا مذہبی نقطہ نظر سے تعلق رکھنا بھی ہر فرد کا انفرادی حق ہے۔ اختلافات یا متبادل سوچ، فکر پر بحث کے لیے ہمیں مکالمہ درکار ہوتا ہے۔ مکالمہ سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ ہمیں دوسروں کو فتح کرنا ہے۔
مکالمہ اپنا نقطہ نظر پیش کرنے اور دوسروں کے نقطہ نظر کو سننے کا ہی عمل ہوتا ہے او راسی بنیاد پر ایک صحت مند مکالمہ اور معاشرے کی پرورش ہوتی ہے۔ متبادل سوچ اورنقطہ نظر رکھنا معاشرے میں حسن ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر معاشرے کی اعلیٰ اقدار یا ان کی ساکھ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ایک بنیاد یہ بنائی جاتی ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد یہ مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔
پہلی تصحیح ہمیں یہ کرنی چاہیے کہ یہ مسئلہ سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے کا ہے البتہ سوشل میڈیا نے اس کا عکاسی بھی کی او راس کی شدت میں آضافہ بھی کیا۔ میڈیا میں ایک رائے یہ دی جاتی ہے کہ سوشل میڈیا پر جو لوگ ہیں ان کی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے او رنہ تو مکالمہ کے آداب کا ان کو معلوم ہے او رنہ ہی ان کی سیاسی ،سماجی سوچ اور فکر پختہ ہے۔
لیکن اگر دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو سوشل میڈیا میں انتہا پسند رجحانات اور منفی باتوں کی تشہیر یا تنقید یا تضحیک کو سمجھے بغیر لکھنے ، بولنے والے افراد میں ایسے ایسے بڑے نام بھی ہیں جو رسمی میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس لیے مسئلہ رسمی یا غیررسمی کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہمارے مزاج میں انتہا پسندانہ رجحانات یا ایک دوسرے کے بارے میں سیاسی انتہا پسندی یا عدم برادشت کا معاملہ بالادست نظر آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے افراد او روہ سیاسی کارکن جو دائیں یا بائیں بازو ، یا اسلامی و سیکولر تحریکوں یا وہ جو لبرل ازم کا پرچار کرتے ہیں۔
ان کا انداز گفتگو بھی دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ پڑھا لکھے سیاسی وچ والے افراد بھی کہاں جا کر کھڑے ہوگئے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نے پہلے سے ایک سیاسی پوزیشن لے لی ہے ا و رجو بھی اس پوزیشن کے حامی ہیں یا ان کے جو بھی مخالف ہیں ہم نے اپنی حمایت یا مخالفت کی رائے کو بنیاد بنا کر اپنی رائے دینی ہے۔
ہم کچھ بھی لکھیں یا بولیں یہ اس موضوع پر نہ تو سوال اٹھاتے ہیں یا جواب دیتے ہیں البتہ سیاسی ، سماجی اورمذہبی معاملات میں یا الزام تراشیوں میں یہ لوگ آپ کو ہر جگہ یا ہر مقام پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ہمارے ہاں دلیل سے گفتگو کرنا یا شواہد کی بنیاد پر اپنی رائے دینے کا عمل کمزور جب کہ جذباتیت ، سیاسی جگالی یا سیاسی تنقید کے نام پر تضحیک یا جگت بازی کا کھیل نمایاں ہوگیا ہے۔ جو سیاسی وسماجی کلچر کو تباہ کررہا ہے ۔
ہمارے ٹاک شوز سیاسی جمود یا بے تکے موضوعات کا شکار ہوگئے ہیں اور سنجیدہ مکالمہ کرنے والے افراد پیچھے چلے گئے ہیں یا ان کو جان بوجھ کر نظرانداز یا پیچھے کیا گیا ہے ۔
ٹاک شوز میں بھی تجربہ کار اینکرز یا تجزیہ کاروں کا کھیل بھی عملا ریٹنگ یا وڈیو وائرل کے کھیل سے جڑ گیا ہے۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں او رعلمی و فکری اداروں سمیت تعلیم سے جڑے اداروں میں بھی مکالمہ کا کلچر کمزور ہوا ور تحقیق یا جستجو کے مقابلے میں جذباتیت یا منفی خبروں سمیت پروپیگینڈا نے اپنی جگہ بنالی ہے۔اس سیاسی تقسیم میں ہم نے لوگوں کو مختلف فریقین یا سیاسی جماعتوں کی حمایت اور مخالفت میں تقسیم بھی کردیا ہے۔
ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت لوگوں کو اسٹیج پر بلایا یا بٹھایا جاتا ہے اوران کو کہا جاتا ہے کہ آپ کی حمایت او رمخالفت کا دائرہ کار یہ ہے او راس حدود سے باہر نہ نکلا جائے کیونکہ یہ ہی ہمارے اسکرپٹ کا حصہ ہے ۔
سیاسی تقسیم برا عمل نہیں لیکن اس کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے خلاف تضحیک آمیز رویے، طرزعمل، بہتان تراشی، الزام تراشی ، فتوی بازی ، ذاتیات کو نشانہ بنانا ، کسی کی کردار کشی کرنا ، جھوٹ پر مبنی مہم چلانا کسی بھی لحاظ سے ہماری سیاست ، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سمیت ملک میں تہذیب اور شائشتگی کو پروان نہیں چڑھاسکے گا۔ یہ تحریک ہمیں اپنے تعلیمی اداروں ، دینی مدارس اور اہل علم یا رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے افراد یا اداروں کی کی بنیاد پر چلانی ہوگی۔
اس تحریک میں شاعر، ادیب، دانشور، مصنف، استاد، سیاست دان ، علمائے کرام، وکیلوں سمیت سب ہی کو حصہ دار بننا ہوگا۔ہمیں مسائل یا ایشوز کی بنیاد پر بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانا ہے تاکہ غیر ضروری اور فروحی مسائل پر ہم اپنی توانائیاں لگانے یا ضایع کرنے کے بجائے ایسے معاملات پر توجہ دیں جو ہم کو بطور ریاست آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو۔
ہمیں اپنے نقطہ نظر یا سوچ اور فکر کی بنیاد پر مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ ہم خود مسائل کو پیدا کرنے یا پہلے سے موجود مسائل کو بگاڑنے میں حصہ دار بن جائیں۔ قوم کو اپنے عمل سے تقسیم کرنے کے بجائے اس کو جوڑنے کے عمل میں شامل ہوتاکہ ہم بطور ریاست اپنے داخلی اور خارجی چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکیں۔
ہمارے پڑھے لکھے افراد جو رائے عامہ تشکیل دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنا داخلی احتساب بھی کریں کہ ان کا طرز عمل کس طرح سے معاشرے کو فائدہ دے رہا ہے ۔ اسی سچائی کی بنیاد پر ہی ہم اپنا مستقبل تلاش کرسکتے ہیں اور ان ہی مسائل کے حل سے ہمارے معاملات جڑے ہوئے ہیں۔