دسمبر کی تلخ یادیں
بات دسمبر کے سرد موسم سے شروع کی تھی، ایک ایسا ہی سرد دسمبر تھا جب پاکستان دولخت ہوا تھا
دسمبر کے سرد مہینے میں ملک کی سیاست میں گرما گرمی بہت بڑھ گئی ہے۔ حکومت اور اس کی واحد اپوزیشن عمران خان اور ان کے پارٹی رہنماؤں کی جانب سے تند و تیز بیانات ، الزامات اور ان کے جوابات کا ایک نہ ختم ہونے والے سلسلہ جاری ہے ۔
ہمارے کسی بھی سیاسی رہنماء کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ عوام کی زندگی کن مشکلات میں پھنس چکی ہے اوران رہنماؤں کو معیشت کی بحالی کے لیے کوئی مربوط اور قابل عمل لائحہ عمل واضح کرنا چاہیے۔
اس وقت ملک کی ضرورت الیکشن ہر گز نہیں ہیں، الیکشن تو ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن ملک کی معیشت ڈوب گئی تو پھر کون سے الیکشن اور کون حکمران۔ ان دگرگوں حالات کے باوجود ایک سیاسی پارٹی کرسی بچانے کی کوشش میں ہے اور دوسری پارٹی اپنی چھینی ہوئی کرسی واپس لینے کے لیے بے چین ہے ۔ اسی چھینا جھپٹی میں ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ چکی ہے لیکن سب مزے میں ہیں۔
بات دسمبر کے سرد موسم سے شروع کی تھی، ایک ایسا ہی سرد دسمبر تھا جب پاکستان دولخت ہوا تھا ۔ وہ دسمبر ہماری تاریخ کی تلخ ترین یاد ہے' یہ ایک ایسی تلخ یاد ہے جو بھلائے نہیں بھولتی۔ قیام پاکستان ہی ہندوستان کے لیے ناقابل قبول تھا۔
اس کی کوشش تھی کہ یہ نیا ملک ناکام ہو جائے ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک طویل جدو جہد کے بعد ایک آزاد ملک حاصل ہوا تھا، ا س کی کامیابی ان کے لیے زندگی و موت کا مسئلہ تھی، اس لیے جیسے تیسے کر کے کسمپرسی کی حالت میں نئے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ہر وہ پاکستانی اپنا حصے ڈالنے میں پیش پیش تھا جس کے پاس وسائل تھے۔
لیکن قیام پاکستان کے24 برس بعد ہندوستان نے اپنی سازشوں سے پاکستان کے مشرقی بازو میں ایسے حالات پیدا کر دیے کہ وہاں پر سب کچھ ویسا نہ رہا جیسا کہ مغربی پاکستان میں تھا۔ ان حالات میں اندرونی طور پر کون قصور وار تھا۔
اس کا فیصلہ 1971 سے آج تک نہیں ہو سکا سوائے اپنے ان زخموں کو تازہ رکھنے کے جو ہر دسمبر میں بے طرح یاد آجاتے ہیں۔
ہمارے سابقہ سپہ سالار جنرل قمر باجوہ بھی جاتے جاتے بلا ضرورت یہ کہہ گئے کہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی۔
ادھر ہم ادھر تم کے نعرے بھی ہم نے سنے۔ لیکن ماضی کی ان تلخ یادوں سے من الحیثت القوم ہم نے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی سوائے ایک ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنھوں نے ہالینڈ میں بیٹھ کر اپنے آپ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اپنے ملک پر آیندہ ایسی کوئی صورتحال نہیں آنے دیں گے اور انھوں نے یہ وعدہ وفا کر دکھایا ۔ اپنی او ر اپنے ساتھیوں کی محنت اور ذہانت سے ملک کو ایٹم بم بنانے کی صلاحیت دے دی۔
جو دشمن پاکستان کے دولخت ہونے پر بہت خوش تھے کہ یہ خطرناک ملک اب ٹوٹ کر آ دھا ہو چکا ہے اور اس کے جغرافیے کے ساتھ اس کے عوام کی ہمت بھی ٹوٹ چکی ہو گی اور اب یہ صرف ایک ایسا ملک رہ گیا ہے جس کے ناخن نہیں ہیں ۔
لیکن ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں کی شبانہ روز محنت سے پاکستان ناقابل تسخیر ہی نہیں اس خطے کا ایک سرکردہ ملک بن گیا جس کے مقابلے کی اب کسی میں جرات نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے ان اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا جنھوں نے اس ملک کی معاشی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اسے مشرقی خطے کے ایک برائے نام ملک میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بزرگوں سے سنتے ہیں کہ پاکستان کے دولخت ہونے کا سانحہ اتنا بڑا تھا کہ مغربی پاکستان کے گھروں میں کئی دنوں تک چولہے نہیں جلائے گئے تھے ۔ ماؤں بہنوں کے آنسو خشک ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔
اس موقع پر جماعت اسلامی کا ذکر نہ کرنازیادتی ہو گی جس کے درویش لیڈر آخری وقت تک متحدہ پاکستان کے داعی رہے اور بعد میںانھوں نے نہ صرف قیدو بند کی تکالیف کو برداشت کیابلکہ متحدہ پاکستان کی حمایت کے جرم میں پھانسی کے پھندے ان کے گلے کا ہار بھی بنے۔
اس بات سے قطع نظر کہ سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمے دار کون تھا اورجس ملک کو اس کے دشمنوں نے قریب قریب ختم کر دیا تھا اور اسے توڑ کر جان نکال دی تھی لیکن اس کے غیرت مند اور ہنر مند شہریوں کو اپنی یہ کمزور حیثیت قبول نہ تھی، یہ تو ممکن نہ تھا کہ عالمی اور جغرافیائی حالات میں اس ملک کو پھر سے جوڑ دیا جائے لیکن جو بچ گیا تھا۔
اس میں اتنی طاقت جمع کی جا سکتی تھی کہ اس کی کمزوری کو طاقت میں بدل دیا جائے چنانچہ غیرت مند پاکستانی ماہرین اور سائنس دانوں نے اس کمزوری کا حل تلاش کر لیا اور ٹوٹے ہوئے بددل ملک کو ایک عالمی طاقت میں بدل دیا اور ملک بچ گیا تھا ، اس کو دنیا کی ایٹمی طاقت بنا کر اس کے دشمنوں کے منہ میں خاک ڈال دی، وہ ملک پھر سے زندہ ہی نہیں ہوا بلکہ پہلے سے طاقت ور اور ایک عظیم قوت بن گیا۔
یہ آج کا پاکستان ہے جس کے دشمن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، کسی فوجی یلغار میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ایٹمی ملک کو بری نظر سے دیکھ بھی سکے۔ ہمارے رہنماؤں سے گزارش ہی کی جا سکتی ہے، آپس کے سیاسی تنارعات کو ملکی مفاد پر ترجیح نہ دیں اور دسمبر کی یہ تلخ یادیں سامنے رکھیں اور اپنی اصلاح کریں۔
ہمارے کسی بھی سیاسی رہنماء کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ عوام کی زندگی کن مشکلات میں پھنس چکی ہے اوران رہنماؤں کو معیشت کی بحالی کے لیے کوئی مربوط اور قابل عمل لائحہ عمل واضح کرنا چاہیے۔
اس وقت ملک کی ضرورت الیکشن ہر گز نہیں ہیں، الیکشن تو ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن ملک کی معیشت ڈوب گئی تو پھر کون سے الیکشن اور کون حکمران۔ ان دگرگوں حالات کے باوجود ایک سیاسی پارٹی کرسی بچانے کی کوشش میں ہے اور دوسری پارٹی اپنی چھینی ہوئی کرسی واپس لینے کے لیے بے چین ہے ۔ اسی چھینا جھپٹی میں ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ چکی ہے لیکن سب مزے میں ہیں۔
بات دسمبر کے سرد موسم سے شروع کی تھی، ایک ایسا ہی سرد دسمبر تھا جب پاکستان دولخت ہوا تھا ۔ وہ دسمبر ہماری تاریخ کی تلخ ترین یاد ہے' یہ ایک ایسی تلخ یاد ہے جو بھلائے نہیں بھولتی۔ قیام پاکستان ہی ہندوستان کے لیے ناقابل قبول تھا۔
اس کی کوشش تھی کہ یہ نیا ملک ناکام ہو جائے ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک طویل جدو جہد کے بعد ایک آزاد ملک حاصل ہوا تھا، ا س کی کامیابی ان کے لیے زندگی و موت کا مسئلہ تھی، اس لیے جیسے تیسے کر کے کسمپرسی کی حالت میں نئے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ہر وہ پاکستانی اپنا حصے ڈالنے میں پیش پیش تھا جس کے پاس وسائل تھے۔
لیکن قیام پاکستان کے24 برس بعد ہندوستان نے اپنی سازشوں سے پاکستان کے مشرقی بازو میں ایسے حالات پیدا کر دیے کہ وہاں پر سب کچھ ویسا نہ رہا جیسا کہ مغربی پاکستان میں تھا۔ ان حالات میں اندرونی طور پر کون قصور وار تھا۔
اس کا فیصلہ 1971 سے آج تک نہیں ہو سکا سوائے اپنے ان زخموں کو تازہ رکھنے کے جو ہر دسمبر میں بے طرح یاد آجاتے ہیں۔
ہمارے سابقہ سپہ سالار جنرل قمر باجوہ بھی جاتے جاتے بلا ضرورت یہ کہہ گئے کہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی۔
ادھر ہم ادھر تم کے نعرے بھی ہم نے سنے۔ لیکن ماضی کی ان تلخ یادوں سے من الحیثت القوم ہم نے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی سوائے ایک ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنھوں نے ہالینڈ میں بیٹھ کر اپنے آپ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اپنے ملک پر آیندہ ایسی کوئی صورتحال نہیں آنے دیں گے اور انھوں نے یہ وعدہ وفا کر دکھایا ۔ اپنی او ر اپنے ساتھیوں کی محنت اور ذہانت سے ملک کو ایٹم بم بنانے کی صلاحیت دے دی۔
جو دشمن پاکستان کے دولخت ہونے پر بہت خوش تھے کہ یہ خطرناک ملک اب ٹوٹ کر آ دھا ہو چکا ہے اور اس کے جغرافیے کے ساتھ اس کے عوام کی ہمت بھی ٹوٹ چکی ہو گی اور اب یہ صرف ایک ایسا ملک رہ گیا ہے جس کے ناخن نہیں ہیں ۔
لیکن ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں کی شبانہ روز محنت سے پاکستان ناقابل تسخیر ہی نہیں اس خطے کا ایک سرکردہ ملک بن گیا جس کے مقابلے کی اب کسی میں جرات نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے ان اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا جنھوں نے اس ملک کی معاشی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اسے مشرقی خطے کے ایک برائے نام ملک میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بزرگوں سے سنتے ہیں کہ پاکستان کے دولخت ہونے کا سانحہ اتنا بڑا تھا کہ مغربی پاکستان کے گھروں میں کئی دنوں تک چولہے نہیں جلائے گئے تھے ۔ ماؤں بہنوں کے آنسو خشک ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔
اس موقع پر جماعت اسلامی کا ذکر نہ کرنازیادتی ہو گی جس کے درویش لیڈر آخری وقت تک متحدہ پاکستان کے داعی رہے اور بعد میںانھوں نے نہ صرف قیدو بند کی تکالیف کو برداشت کیابلکہ متحدہ پاکستان کی حمایت کے جرم میں پھانسی کے پھندے ان کے گلے کا ہار بھی بنے۔
اس بات سے قطع نظر کہ سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمے دار کون تھا اورجس ملک کو اس کے دشمنوں نے قریب قریب ختم کر دیا تھا اور اسے توڑ کر جان نکال دی تھی لیکن اس کے غیرت مند اور ہنر مند شہریوں کو اپنی یہ کمزور حیثیت قبول نہ تھی، یہ تو ممکن نہ تھا کہ عالمی اور جغرافیائی حالات میں اس ملک کو پھر سے جوڑ دیا جائے لیکن جو بچ گیا تھا۔
اس میں اتنی طاقت جمع کی جا سکتی تھی کہ اس کی کمزوری کو طاقت میں بدل دیا جائے چنانچہ غیرت مند پاکستانی ماہرین اور سائنس دانوں نے اس کمزوری کا حل تلاش کر لیا اور ٹوٹے ہوئے بددل ملک کو ایک عالمی طاقت میں بدل دیا اور ملک بچ گیا تھا ، اس کو دنیا کی ایٹمی طاقت بنا کر اس کے دشمنوں کے منہ میں خاک ڈال دی، وہ ملک پھر سے زندہ ہی نہیں ہوا بلکہ پہلے سے طاقت ور اور ایک عظیم قوت بن گیا۔
یہ آج کا پاکستان ہے جس کے دشمن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، کسی فوجی یلغار میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ایٹمی ملک کو بری نظر سے دیکھ بھی سکے۔ ہمارے رہنماؤں سے گزارش ہی کی جا سکتی ہے، آپس کے سیاسی تنارعات کو ملکی مفاد پر ترجیح نہ دیں اور دسمبر کی یہ تلخ یادیں سامنے رکھیں اور اپنی اصلاح کریں۔