صحافت کا پُرخطر راستہ اور صحافی خواتین

صحافت بالخصوص ترقی پذیر ملکوں میں ایک خطرناک پیشہ بن گیا ہے

zahedahina@gmail.com

سال کے اختتام کے قریب ہی دنیا کی مختلف تنظیمیں اپنے اعداد و شمار جاری کرنے لگتی ہیں۔ کل انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ نے فہرست جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے 67 صحافیوں نے اپنی جان سے ہاتھ دھوئے جن میں سے 5 صحافی پاکستانی تھے۔ ان میں حسنین شاہ، ضیاء الرحمن فاروقی، افتخار احمد، محمد یونس اور صدف نعیم شامل ہیں، یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔

اس وقت مجھے پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے ایک سیمینار میں پڑھا جانے والا اپنا ایک مضمون یاد آرہا ہے۔ میں نے جس میں بہادر خواتین صحافیوں کا ذکر کیا تھا۔ 1908 میں لکھنے والی عورتوں کے لیے دلی سے رسالہ ''عصمت'' کا پہلا شمارہ شایع ہوا۔

اس سے پہلے انیسویں صدی میں ''اخبار النسائ'' اور ''تہذیب نسواں'' نکل چکے تھے۔ میںجب رسالہ ''عصمت'' کا پہلا شمارہ دیکھتی ہوں تو نگاہ بنت باقر کے مضمون ''ایک دلچسپ مکالمہ''پر پڑتی ہے۔ وہ بعدمیں نذر سجاد حیدر کے نام سے مشہور ہوئیں۔

میں اپنی بات 100 برس یا اس سے بھی پہلے اس لیے شروع کررہی ہوں کہ اردو ادب اور صحافت کے سنگم نے ہماری بہترین ادیب اورصحافی خواتین کو جنم دیا۔ 20ئ، 30ء اور 40ء کی دہائی میں نذر سجاد حیدر کالا پانی یعنی جزائر انڈمان سے وہاں کے لوگوں کے بارے میں رپورٹیں بھیج رہی تھیں۔

شائستہ اکرام اللہ بیسویں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی میں لندن لیٹر لکھ رہی تھیں اور ان کے علاوہ بہت سی خواتین تھیں جن کی صحافیانہ تحریریں اور ان کے لکھے ہوئے فیچر اور رپوتاژ ہمارے مشہور مرد ادیبوں سے داد وصول کررہے تھے۔

ان لکھنے والیوں کو کسی سیمینار اور ورکشاپ میں تربیت نہیں دی گئی تھی، لیکن آج اگر ہم ان تحریروں کو پڑھیں، ان کا تجزیہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اس رسمی تربیت کے نہ ملنے کے باوجود ان کا سماجی شعور کتنا پختہ تھا اور ان کی تحریریں آج کے معیارات پر بڑی حد تک پوری اترتی ہیں۔

آپ کو شاید یہ خیال آئے کہ آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ان گزری ہوئی خواتین کے ذکر سے کیا فائدہ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ حال کی تعمیر اور مستقبل کی تعبیر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنا رشتہ اپنے ماضی سے نہ جوڑیں۔

میں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز ''اخبار خواتین '' سے1966 میں کیا جب اس جریدے کا آغاز ہوا تھا۔ یہ وہ کثیر الاشاعت ہفت روزہ تھا جس کی پیشانی پر چھپتا تھا ''خواتین کا وہ رسالہ جسے مرد بھی پڑھتے ہیں'' اور واقعی مرد اس کو پڑھتے تھے، کچھ چھپ کر اور کچھ کھلے بندوں۔ اس رسالے میں لکھنے والی خاتون صحافیوں کی کوئی تربیت نہیںکی گئی تھی لیکن ان کی تحریروں میں کہیں ایک ایسا توازن پایا جاتا تھا کہ وہ قدامت پسند عورتوں اور مردوں کے ساتھ ہی جدید رجحانات رکھنے والوں کے درمیان بھی اپنا راستہ بنالیتی تھیں۔

تاہم یہ درست ہے کہ آج صحافت سے وابستہ ہونے والی خواتین کی زندگی پہلے سے بہت مشکل ہوچکی ہے۔ صحافت اب مردوں کے لیے ہی نہیں خواتین کے لیے بھی ایک خطرناک پیشہ بن گیا ہے۔ ہمارے یہاں انتہا پسندی، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا وہ سیلاب امڈ آیا ہے جس میں جہاں بہت سی خوبصورت قدریں بہہ گئیں، وہیںصحافیوں کی جان پر بن آئی ہے۔

انتہا پسندی کو نئے اور ترقی پسند خیالات سے ڈر لگتا ہے، سچی خبریں ان کی دشمن ہیں۔ وہ عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کو ختم کردیں جن کے ہاتھ میں قلم ہے۔ یہ درست ہے کہ ابھی تک پاکستان میں کوئی صحافی خاتون رپورٹنگ کرتے ہوئے یا اپنے خیالات کا بے دھڑک اظہار کرتے ہوئے قتل نہیں ہوئی لیکن حالات جس طرف جارہے ہیں اس میں کسی بھی دن ایساہوسکتا ہے۔ صحافت سے وابستہ مرد اور خواتین دونوں ہی نہایت مشکل میں ہیں۔

عورتوں کے خلاف گھریلو اور جنسی تشدد کی ایسی اونچی لہر اٹھی ہے جس نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور وہ لوگ جو دیہی علاقوں سے ایسے واقعات کی رپورٹنگ کررہے ہیں ان کی جان ہتھیلی پر ہے۔

صفیہ بی بی اور مختاراں مائی جیسے واقعات کی درست رپورٹنگ کرنا کارے دارد ہوچکا ہے۔ زندگی بھر میرا تعلق اردو صحافت سے رہا ہے، لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ یہ لکھا جائے کہ انگریزی صحافت سے وابستہ خواتین نے جتنی ہمت اور بہادری سے لکھا اور موضوعات کے انتخاب میں جتنا تنوع اختیار کیا، اس کے لیے انھیںداد ملنی چاہیے۔


اردواور سندھی صحافت سے وابستہ ہونے خواتین اگر اپنے سامنے انگریزی اخبارات اور جرائد سے وابستہ خواتین کی تحریروں اور رپورٹوں کو سامنے رکھیں تو یہ تحریریں بھی ان کی عمومی تربیت میں بہت کام آسکتی ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ صحافی خواتین یہ سمجھنا چھوڑ دیں کہ وہ صرف عورتوں یا ان سے متعلق معاملات و موضوعات پر ہی لکھ سکتی ہیں۔ موضوعات کا آسمان ان کے سامنے ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ طاقت پرواز ہونی چاہیے۔ انھیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ اگر وہ عورت ہیں تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ صرف خواتین کے ساتھ ہونے والے تشدد، گھریلو ٹوٹکوں، خواتین کے انٹرویو یا کھانے پکانے اور آپ کیسے دلکش نظر آسکتی ہیں جیسے موضوعات تک محدود ہوکر رہ جائیں۔

دنیا ان کے سامنے جس طرح کھل گئی ہے اس کے افق جس طرح وسیع ہوئے ہیں۔ اس میں پرواز ہی انھیں نت نئے موضوعات کا پتہ دے گی اور پھر تحریروں کو بہتر سے بہترین کرکے وہ آج کے ایوارڈ جیسے کئی ملکی اور غیر ملکی ایوارڈ لے سکیں گی۔

زبیدہ مصطفی ہماری صحافت کا ایک اہم نام ہیں، انھوںنے کتنے ہی غیر ملکی ایوارڈ لیے ہیں جو انھیں مختلف موضوعات پر ان کی تحریروں کے حوالے سے دیے گئے ہیں۔

معاشیات جیسے مشکل شعبے میںافشاںصبوحی انٹرنیشنل ایوارڈ لے چکی ہیں۔ رضیہ بھٹی کو زندگی میں اور بعد از مرگ کئی ایوارڈ دیے گئے۔ یہ صرف چند نام ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ہماری متعدد خواتین نے خطرناک موضوعات پر فیچر لکھے ہیں۔

وہ ڈاکوؤں کے علاقے میں گئیں۔ انھوں نے منشیات کے سوداگروں اور غیر قانونی اسلحے کی تجارت کرنے والوں کے بارے میں لکھا ہے۔

نسلی اور لسانی تنازعات کے بارے میں ان کے لکھی ہوئی رپورٹیں ملک میں اور بیرون ملک حوالے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ عائشہ صدیقہ آغا نے جن موضوعات پر جو لکھا اور جن خطرات سے دوچار ہوئیں ان سے ہم سب آگاہ ہیں۔ آج ہم جس خوفناک انتہا پسندی اور متشدد رویوں کا شکار ہیں اس کے بارے میں بھی خواتین صحافیوں نے اپنے قلم کو آرام نہیں دیا ہے۔

اردو اور سندھی صحافت سے وابستہ خواتین کو بہ طور خاص یہ جاننا چاہیے کہ انیسویں صدی سے مصر، ترکی، شام اور لبنان میں صحافت سے خواتین کی وابستگی نے کیا رنگ اختیار کیا اور اس کے کیا نتائج سامنے آئے۔ یہ حنہ نوفل تھیں جن کا تعلق شامی عیسائیوں کے خاندان سے تھا۔ ان کی ماں مریم نوفل کی عورتوں سے متعلق ایک کتاب 1870میں شایع ہوچکی تھی۔

حنہ نوفل نے 1892 میں عورتوں کے لیے عربی کا ایک جریدہ شروع کیا تھا۔ 1892 سے 2009 تک زمانہ کیسی زقندیں لگا چکا ۔اب عورتیں مرد ووٹروں کے ووٹ سے منتخب ہوکروزیر اعظم اور صدر بنتی ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی میں اگر ہم شام، ترکی، ایران، ہندوستان اور پاکستان کی خواتین صحافیوں کا ایک سرسری جائزہ لیں تو کئی بڑے نام سامنے آتے ہیں۔

ہندوستان جس سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں۔ اس میں انگریزی، ہندی، بنگلہ، تامل، تیلگو، مراٹھی زبانوں میں اہم صحافی خواتین کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان کا مطالعہ بھی ہماری نئی صحافی خواتین کی تربیت میں بہت مدد گار ثابت ہوگا۔

یہاں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ ان نوجوان خاتون صحافیوں کا ذکر ہونا چاہیے جنھوں نے عراق اور افغانستان میں محاذ جنگ سے رپورٹیں بھیجیں۔ 1989 میں کابل اور قندھار کے گرم محاذ کومیں نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے بارے میںلکھا۔

صحافت بالخصوص ترقی پذیر ملکوں میں ایک خطرناک پیشہ بن گیا ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پاکستان کی خواتین صحافی بھی اس پُرخطر راہ پر آگے بڑھ رہی ہیں۔
Load Next Story