این ایل سی اسکینڈل جنرل کیانی کا آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کا فیصلہ

پاکستان آرمی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ریٹائرڈ افسروں کو واپس لا کر ان کے خلاف تحقیقات کی ہے۔

مسلح افواج کسی استثنیٰ کے بغیر فوجی قوانین کے تحت چلتی ہیں، یہ کہنا درست نہیں کہ ایک ہی نوعیت کے جرم سے 2مختلف قوانین کے تحت نمٹا جا رہا ہے. فوٹو: فائل

چیف آف آرمی اسٹاف نے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت این ایل سی کیس میں کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پاکستان آرمی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ریٹائرڈ افسروں کو واپس لا کر ان کے خلاف تحقیقات کی ہے۔

آئی ایس پی آر کے ایک عہدیدار نے این ایل سی کے معاملے پر جمعہ کو تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ این ایل سی نیشنل لاجسٹک بورڈ کے ماتحت کام کرتا ہے جو پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈویژن سے منسلک ادارہ ہے اور ڈویژن کا سربراہ وزیر منصوبہ بندی و ترقی ہوتا ہے جبکہ اس کے ارکان میں خزانہ، منصوبہ بندی و ترقی، مواصلات، زراعت اور لائیو اسٹاک کے وفاقی سیکریٹری، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن اور آفیسر انچارج این ایل سی شامل ہیں۔


بیان کے مطابق فروری 2009ء میں پبلک اکائونٹس کمیٹی نے ڈرافٹ پیرا 214 پر بحث کی اور کہا کہ این ایل سی کی انتظامیہ نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف ان لسٹڈ کمپنیوں/اداروں کے حصص کی خریداری کے ذریعے اسٹاک ایکس چینجز میں سرمایہ کاری کی جس کے بعد سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈویژن میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک تفتیشی کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کے تفتیشی نتائج کو جنوری 2010ء میں حتمی شکل دی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسروں سے متعلق پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈویژن کی تفتیش کی سفارشات 20 ستمبر 2010ء کو وزارت دفاع کے ذریعے جی ایچ کیو کو بھیجی گئیں۔

سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈویژن کی کورٹ آف انکوائری نے این ایل سی کے کسی عہدیدار پر خوردبردیا مالی بے ضابطگیوں کا الزام عائد نہیں کیا گیا بلکہ قواعد وضوابط پر عملدرآمد پر ناکامی اور شفافیت کی کمی کا ذمے دار ٹھہرایا۔ یہ حقائق پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ بیان کے مطابق جی ایچ کیو میں وزارت دفاع کا خط ملنے پر چیف آف آرمی اسٹاف کو مقرر افسر کے طور پر فیصلہ کرنا تھا کہ ملزمان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے یا نیب/سول کورٹ کے ذریعے۔ آرمی چیف نے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیان کے مطابق اب تک شواہد کی چار سمریوں کی ریکارڈنگ مکمل ہوچکی ہے جن پر مجاز حکام غور کر رہے ہیں۔ آرمی چیف ان شواہد کی ساکھ کی بنیاد پر اگلی قانونی کارروائی کا فیصلہ کریں گے۔

بیان میں دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ مقدمہ مکمل طور پر قانونی عمل کے مطابق ہو گا اور جو بھی مجرم پایا گیا اس کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ بیان میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ شواہد کی ریکارڈنگ کے لیے ضروری تھا کہ ملزمان افسران کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت لایا جاتا اس وجہ سے ملزم ریٹائرڈ افسروں کو دوبارہ فوج میں لایا گیا۔ ملزمان افسروں کو نہ تو بحال کیا گیا ہے نہ ان کی خدمات پھر سے حاصل کی گئی ہیں اور تفتیشی مقاصد کے لیے انہیں واپس لانے سے نہ تو وہ تنخواہ نہ دیگر استحقاق کے حقدار ہیں۔آن لائن کے مطابق میجر جنرل خالد ظہیر اختر،لیفٹیننٹ جنرل خالد منیر اورلیفٹیننٹ جنرل مظفر افضل کو آرمی ایکٹ سیکشن 92کے تحت واپس بلاکر تحقیقات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
Load Next Story