سانحہ اے پی ایس جس نے قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد کیا

اس صدمے کو آٹھ سال بیت گئے لیکن چھلنی دلوں کو آج بھی قرار نہیں

اس صدمے کو آٹھ سال بیت گئے لیکن چھلنی دلوں کو آج بھی قرار نہیں ۔ فوٹو : فائل

پشتو کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ''زمکہ ھغہ سوازی چرتہ چہ اور بلیگی'' یعنی زمین وہ جلتی تڑپتی ہے جہاں پر آگ لگی ہو۔

ذرا ایک منٹ کے لیے بحیثیت ایک باپ، ایک ماں، ایک بہن اور بھائی کے کہ آپ صبح سویرے اپنے بچے یا اپنے بچوں کو نیند سے جگا کر انہیں منہ ہاتھ دھونے کے لیے کہیں، پھر اپنے ہاتھوں سے انہیں ناشتہ تیار کرکے رکھ دیں اور صاف ستھرے سکول یونیفارم میں ملبوس کرکے ان کا ماتھا چھوم کر گھر کے دروازے سے نکلنے تک انہیں خدا حافظ اور الوداع کہہ کر رخصت کریں۔

اور پھر کچھ دیر بعد اچانک آپ کو مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے یہ قیامت خیز خبر ملے کہ 'آرمی پبلک سکول پشاور' پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا ہے اور کئی معصوم کلیوں کو اپنے وحشی پاوں تلے روند ڈالاہے۔

تو بحثیت ایک باپ اور ماں کے انسان پر کیسی قیامت گذر جاتی ہے۔ یقیناً اس بات کا تصور کر کے ہی انسان کا دل کٹتا ہے۔ یہ معصوم تو کسی محاذ جنگ پر لڑنے نہیں گئے تھے لیکن ایک گھٹیا دشمن ایسا ہی اوچھا وار کیا کرتا ہے۔

لفظی ہمدردی کی مرہم پٹی اس سانحہ میں بے دردی سے شہید کر دئیے گئے بچوں کے والدین کو نہ تو مطمئن کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ ان کے لخت جگر کسی جہاد میں شریک ہوکر شہید کردیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ سانحہ آرمی پبلک سکول سے اور بھی بہت سے ایسے سوالات جڑے ہوئے ہیں جو جواب طلب اور تحقیق طلب ہیں، اور ان سوالوں کے جوابات کے لیے قتل کیے جانے والے معصوم بچوں کے والدین آج بھی انصاف کے اُمیدوار ہیں۔ یہاں تک کہ چند سال قبل سپریم کورٹ میں کیس بھی دائر کیا گیا لیکن آج تک اس مقدمے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

آٹھ سال پہلے یعنی سولہ دسمبر2014ء کو جب یہ ہولناک واقعہ پیش آیا تب سے اب تک مارے جانے والے بچوں کے والدین کی زندگی دیگر لوگوں کی طرح نارمل نہیں ہے۔

اْس وقت سے لیکر آج تک ان کی زندگی ریلیوں اور احتجاجوں میں گزری اور گزر رہی ہے ۔ان کی زندگی اپنے پیاروں کی قبروں پر جانے اور میڈیا کے سامنے پیش ہونے میں ہی گزر رہی ہے۔

حفضہ درانی نام کی ایک خاتون 'جن کے دو بھائی نوراللہ درانی اور سیف اللہ درانی آرمی پبلک سکول حملے میں جان کی بازی ہار گئے تھے' نے بتایا کہ ان کے لیے آج بھی کسی خوشی کی تقریب میں جانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ وہ یہی سوچتی رہتی ہیں کہ ہمارے بھائی اس خوشی میں شامل نہیں ہیں۔

متاثرہ اور غم زدہ خاندان کے افراد سے گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کی زندگی میں اور کچھ اہمیت نہیں رکھتا: یہ لوگ سوتے، جاگتے یہی سوچتے ہیں کہ اے پی ایس پر حملے میں ملوث افراد، ماسٹر مائنڈ اور وہ لوگ جنہوں نے غفلت برتی اور شدت پسندوں کی معاونت کرنے والوں کو کب کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے۔

حکومت کی حالیہ پالیسی اور کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کے بارے میں ان کا یہی ایک سوال ہے کہ ایک حکومت اْن لوگوں سے کیسے مذاکرات کر سکتی ہے جو ملک کے ہزاروں لوگوں کو مارنے کے ذمہ دار ہوں؟ان مذاکرات کے حوالے سے کئی سوالات اب بھی موجود ہیں۔

مثلاً یہ کہ حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں یا تعطل کا شکار ہیں یا پھر منسوخ کر دیے گئے ہیں۔؟ تمام متاثرہ اور غم زدہ خاندان یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ بچے تو ہمارے مرے ہیں، حکومت قاتلوں کو کیسے معاف کر سکتی ہے۔

 

اس کے علاوہ بھی حملوں میں کئی افراد شہید ہوئے، فوجی اور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانیں گئیں ہیں، تو ایسے حملہ آوروں کو کیسے معاف کیا جا سکتا ہے؟


دہشت گردی کے اس ایک واقعے کے شکار 100 سے زیادہ ان گھرانوں نے اب ایک بڑے خاندان کی شکل اختیار کر لی ہے ۔جہاں ان کے دکھ سکھ اب سانجھے ہیں۔ خوشی کے مواقع ہوں، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں، ان میں کوئی مشکلات کا شکار ہو یا کوئی غم یا فاتحہ ہو یہ خاندان اس میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔

یہ خاندان مہینے میں ایک یا دو بار ضرور ملتے ہیں، اپنے دل کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے غم اور خوشیوں کا اظہار ایک دوسرے سے کرتے ہیں لیکن ان باتوں میں زیادہ تر ذکر اپنے ان بچوں کا ہوتا ہے جو ان سب کو جوڑ گئے ہیں۔

ایک متاثرہ خاندان کے فرد نے بتایا کہ ان کے دل زخمی ہیں۔ 'ہم کہتے ہیں کہ آرمی پبلک سکول پشاور اور دہشت گردی کے مزید واقعات تب ہی رک سکتے ہیں جب اس جیسے واقعات کے ملزمان منظر عام پر لائے جائیں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور ان کو قرار واقعی سزائیں ملیں۔ جب بھی سولہ دسمبر کا دن آتا ہے تو قوم کے بچوں کی شہادت کا زخم تازہ ہو جاتا ہے۔

ابتداء میںپشتو کی جو کہاوت بیان کی گئی ہے '' زمین وہی جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو''اور یہ آگ آج بھی نہ صرف یہ کہ اے پی ایس کے معصوم شہداء کے والدین اور عزیز واقارب کے دلوں میں جل رہی ہے بلکہ ہمارے وطن کی زمین بھی دہشت گردی کی آگ میں جھلس رہی ہے۔

ملک کی تاریخ میں یہ دن ایک سیاہ دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ سانحہ اے پی ایس سے قبل یہ دن 1971ء میں بنگلہ دیش کی جدائی کا دن تھا۔ اور دشمن نے ہماری اذیت میں اضافہ کرنے کے لئے جان بوجھ کر اس دن کا انتخاب کیا۔

سانحہ آرمی پبلک سکول کو آٹھ سال بیت گئے لیکن چھلنی دلوں کو آج بھی قرار نہ مل پایا اور کیسے مل پاتا یہ تو زندگی بھر کا ایسا گھاؤ ہے جو ہوا کی ہلکی سی سرسراہٹ پر پھر سے ہرا ہو جائے گا، اس اندوہناک سانحے نے ناصرف ان بچوں کے والدین کوگھائل کر رکھا ہے بل کہ ہر پاکستانی کو خون کے آنسورلایا ہے۔

اس الم ناک اور غم ناک سانحے نے اگر ایک طرف پاکستانی قوم کے دل چھلنی چھلنی کردیئے ہیں تودوسری جانب ہمیں یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا، لازوال قربانی دے دی لیکن اے ہم وطنوہماری ان قربانیوں کو آپس کی اختلافات میں ضائع نہ کرنا اور آئندہ نسلوں کی سلامتی اور بقاء کے لیے اپنے دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا، دوسری بات یہ بھی کہ ان شہداء کے والدین یا عزیز و اقارب کو تب تک چین نہ آسکے گا جب تک من الحیث القوم ہم دہشت گردی کے اس ناسور کوجڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکتے اوران کی دلجوئی کے لیے حقائق سامنے نہیں لاتے۔

حقیقیت میں یہ پھول جیسے بچے ہی ہمارے ہیرو ہیں اور ان کے والدین کی ہمت وحوصلے سے ہمیں اتحاد واتفاق کا سبق ملتا ہے، کیوں کہ ان شہداء کے والدین آج عزم و حوصلے اور عظمت و استقلال کااستعارہ بن چکے ہیں، بچوں کی جدائی کا غم، ان کی پرنم آنکھوں اور افسردہ مگر پرعزم چہروں نے پوری قوم کوجگا دیا ہے، شہداء کے ناموں سے پہچان والدین کے لیے باعث فخر بن چکی ہے، خاص کر شہداؤں کی ماؤں کے حوصلے قابل دید ہیں۔

ایسی مائیں بھی منظر پر آئیں جنہوں نے وطن عزیز کے لیے اپنے اکلوتے لخت جگر کو قربان کر دیا، ہر دن ہر پل یاد ستانے کے باوجود شہید کی ماں اور شہید کا والد کہلوانا والدین کے لیے قابل فخر بن گیا ہے لیکن اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا کہ ان کے بچوں نے تو وطن کے لیے قربانی دے دی اب عسکریت پسندوں کا مکمل قلع قمع ہونا چاہیے۔

اس دل خراش سانحے نے پوری قوم پر سکتہ طاری کر دیا کہ دشمنوں نے قوم کے دل اور مستقبل پر وار کیا جس کے نتیجے میں پوری قوم، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی،فوجی قیادت کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی، نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر سب متفق ہوئے اور پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے اس ناسورکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ایک پرامن معاشرے کے قیام کے لیے راہیں متعین کیں۔

آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا، شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا ہونے لگا، اس سانحہ نے پوری قوم کومتحد کیا اور قوم ایک بحرانی کیفیت سے نکل آئی تھی لیکن اسی پر اکتفا کر کے ہمیں مطمئن ہو جانے کی بجائے دہشت گردی کے اس عفریت کا مکمل طور پر قلع قمع کرنے کے لیے ابھی مزید آگے جانا ہے۔

اب بھی کچھ سوالات تشنہ ہیں جن کے مکمل جوابات ملنے تک شہداء اور غازیوں کے والدین سمیت پوری قوم منتظر رہے گی،جب کہ یہ بھی مدنظررہنا چاہیے کہ اس سارے عرصے میں ان شہداء کے والدین اور پوری قوم پر کیا بیتی اور 16 دسمبر 2014ء کے بعد پوری قوم نے جس یک جہتی کامظاہرہ کیا اور جو اہداف رکھے گئے تھے کیا ہم اس جانب اسی رفتار سے آگے بڑھے ہیں اور اسے حاصل کیا ہے؟اتنا عرصہ والدین کی جانب سے جوڈیشل انکوائری کے مطالبے پر کیوں دیرسے عمل ہونا شروع ہوا؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کی جان کاری کے بعد ہی قوم اورشہداء کے والدین کو قرار مل سکتا ہے۔

آج بھی جب اس دل دوزاوردل خراش واقعے سے متعلق شہداء کے والدین اور عزیز و اقارب سے بات ہوتی ہے تو غم کے مارے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سولہ دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور میں پیش آنے والے دل خراش واقعہ کے بعد ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت اس وقت کی حکومت اور عسکری قیادت نے دو ٹوک الفاظ میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ملک سے دہشت گردؤں کا مکمل صفایا کرکے ہی دم لیں گے،اب کوئی اگر مگر،چوں کہ چناں چہ نہیں چلے گا۔

لہذا جب تک دہشت گردی کی مادی اور نظریاتی سپلائی لائن کو نہیں کاٹا جاتا تب تک ملک میں امن کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔
Load Next Story