خلیج اور 16دسمبر
یہ خونی سانحہ، جس نے دُنیا بھر کو تڑپا کر رکھ دیا تھا
آج 16دسمبر ہے۔ یہ دن طلوع ہوتے ہی کئی دلخراش اور خوں رنگ کہانیاں یاد آکے رہ جاتی ہیں اور دل کو تڑپا جاتی ہیں ۔
یہ وہی منحوس تاریخ اور مہینہ ہے جب آٹھ سال پہلے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں نے بیدردی اور سفاکی سے خون کی ہولی کھیلی تھی اور سورج کی روشنی میں مذکورہ اسکول کے عملے اور معصوم بچوں کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیا تھا۔
سارا اسکول مقتل بن گیا تھا۔ 150افراد شہید کر دیے گئے تھے۔اِن میں132معصوم بچے اور باقی اساتذہ کرام تھے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے ان سیکڑوں معصوم بچوں کے مرکزی قاتلوں کو آج تک سزا نہیں دی جا سکی ۔ وہ دندناتے ہُوئے شہدا کے وارثوں اور والدین کے سینے پر مونگ دَل رہے ہیں۔ ہم سب اس سفاکی پر اپنی بے بسی اور بیکسی کا اظہار کررہے ہیں ۔
یہ خونی سانحہ ، جس نے دُنیا بھر کو تڑپا کررکھ دیا تھا، ایسے ایام میں وقوع پذیر ہُوا تھا جب اسلام آباد میں اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر جناب عمران خان نے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف دھرنا دیا ہُوا تھا۔
کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ آٹھ برس گزرنے کے بعد آج بھی جناب عمران خان وفاقی حکومت اور وزیر اعظم شہباز شریف، کے خلاف میدان سجائے بیٹھے ہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ خان صاحب کل بھی اپوزشن لیڈر تھے اور آج بھی اپوزیشن لیڈر ہیں ۔
16دسمبر ہی وہ ملعون اور منحوس تاریخ اور مہینہ ہے جب51 برس قبل پاکستان دو لخت ہُوا تھا۔ جب ہم اپنے ازلی دشمن، بھارت، سے شکست کھا گئے تھے اور ہمارے ہزاروں فوجی جوان اور افسر جنگی قیدی بن کر بھارتی قبضے میں چلے گئے تھے۔
نصف صدی سے زائدعرصہ گزرنے کے باوجود ہمارے ہاں ابھی تک یہ لایعنی بحث ہو رہی ہے کہ 16دسمبر1971 کا سانحہ عظیم ہماری سیاسی شکست تھی یا فوجی ؟ حالانکہ اِس سانحہ بارے لکھی گئی اپنوں اور غیروں کی کتابیں کچھ اور بتاتی ہیں، مثال کے طور پر معروف امریکی مصنف (Garry J Bass) کی سانحہ مشرقی پاکستان کے آخری ایام بارے عینی شہادتوں پر مبنی ضخیم کتاب (The Blood Telegram) ہی پڑھ لیجیے۔
حال ہی میں ریٹائر ہونے والے سابق آرمی چیف نے اپنے آخری خطاب میں کہا کہ پاکستان کا دو لخت ہونا فوجی نہیں ، سیاسی شکست تھی ۔ اُنہیں ایسا ہی کہنا چاہیے تھا لیکن ان کے بیان نے ایک بار پھر بحث کے نئے دروازے کھول دیے ہیں ۔
اِس بحث کا دو حصوں میں منقسم ہونا ہی جنرل موصوف کے بیان کی کامیابی ہے ۔ اور کامیابی یہ ہے کہ اس سانحہ بارے کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کی بجائے کنفیوژن اور اُلجھاؤ پیدا کیے رکھا جائے ۔
سپریم کورٹ کے ہمارے قابلِ فخر جج، عزت مآب جسٹس فائز عیسیٰ ، نے اگلے روز ممتاز و معزز امریکی یونیورسٹی ( ہاورڈ) میں امریکی اسکالرز اور پاکستانی طلبا کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہُوئے غیر مبہم الفاظ میں فرمایا:'' (16دسمبر1971 کو) ملک ٹوٹنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ ملک میں جمہوریت نہیں تھی اور ملک میں آمرانہ حکومت تھی۔'' واقعہ بھی یہی ہے کہ جب پاکستان دو لخت ہُوا ، اُس وقت بھی اور اس سے ایک عشرہ پہلے بھی ملک غیر منتخب حکمرانوں کے زیر نگیں تھا۔
بلاول بھٹو زرداری، نے اپنے ایک مفصل بیانئے میں یہی بات دہرائی ہے ۔ سابق نائب امیرِ جماعتِ اسلامی ، محترم خرم جاہ مراد صاحب مرحوم، کی عینی شہادتوں اور ذاتی مشاہدات پر مشتمل معرکہ آرا تصنیف ( ''لمحات'') بھی ہمیں بہت کچھ بتاتی ہے ۔
یہ چشم کشا کتاب اس لیے بھی زیادہ قابلِ اعتبار ہے کہ جس وقت پاکستان ٹوٹ رہا تھا، مصنف مشرقی پاکستان ہی میں تھے۔ افواجِ پاکستان کے ایک سابق افسر، میجر آفتاب احمد، کی چشم کشا کتاب ('' مٹی کی کہانی'') بھی بہت کچھ بتاتی ہے ۔
سانحہ مشرقی پاکستان سے متعلقہ ہمارے جتنے بھی لوگ بروئے کار تھے، انھوں نے شومئی قسمتی سے اس بارے اپنے مشاہدات و تاثرات قوم کے سامنے پیش نہیں کیے ۔
اِسے المیہ کہا جانا چاہیے ۔ اِس حوالے سے حال ہی میں پبلشر، کالم نگار، سیاح ، اینکر اور معروف پولیٹیکل ایکٹوسٹ برادرم فرخ سہیل گوئندی صاحب نے مجھے ایک دلکشا کتاب بھجوائی ہے ۔اِس کتاب کا نام ''خلیج'' ہے۔ مصنف جناب خالد فتح محمد ہیں ۔''خلیج'' دراصل پونے دو سو صفحات پر مشتمل ایک ناول ہے۔
اِسے فرخ سہیل گوئندی صاحب کے ادارے ( جمہوری پبلی کیشنز) نے شائع کیا ہے ۔ خالد فتح محمد صاحب کا یہ دوسرا ناول پڑھنے کا مجھے اعزاز ملا ہے۔ اُن کے پہلے ضخیم ناول( وقت کی باگ) نے مجھے کئی دنوں تک اپنے سحر میں جکڑے رکھا تھا۔
گوجرانوالہ کے مضافات میں رہائش پذیر خالد فتح محمد کا زیر نظر ناول ''خلیج'' مشرقی پاکستان کے اُن آخری اور دلدوز ایام کو محیط ہے جب ہمارا یہ مشرقی بازُو ہم سے جدا ہو رہا تھا۔ تسلیم کرنا چاہیے کہ ناول نگار نے ''خلیج'' کے توسط سے بڑے احسن اسلوب میں اپنے جملہ کرداروں کی زبانی ہمیں یہ بتایا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب کیا تھے۔
چونکہ خالد فتح محمد خود بھی سابق فوجی افسر ہیں ، اس لیے اُنہوں نے بہتر فوجی اصطلاحات اورفکشن کی سحر انگیز اور داستانوی زبان میں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا المناک قصہ بیان کیا ہے۔
''خلیج'' اسم بامسمیٰ ہے۔اپنے عنوان کا پر تَو۔یہ درحقیقت خلیجِ بنگال کے کنارے کھڑے مشرقی پاکستان مرحوم کی ایسی یاس انگیز کہانی ہے جب مغربی حکمرانوں کی نالائقیوں اور نااہلیوں کے کارن مشرق اور مغرب کے درمیان ایک گہری خلیج حائل ہو گئی تھی۔
ایسی خلیج جو بھائیوں کے بہتے خون کی ندی سے بھی پاٹی نہ جا سکی۔چار حصوں میں بٹا یہ ناول اُسی خلیج کی داستانِ پُر نم ہے جو پنجاب سے بھرتی ہونے والے ایک دیہاتی پس منظر رکھنے والے لیفٹیننٹ (افضل) کی داخلی کشمکش کی عکاس بھی ہے،ایسی باطنی اور نفسیاتی کشمکش جو بھائی کو بھائی پر گولی چلاتے وقت جنم لیتی ہے۔''خلیج'' ایک ایسے متردّد نوجوان فوجی افسر کی تصوراتی کہانی ہے جسے اجنبی سیاسی فضا، اجنبی زبان، اجنبی ثقافت اوراجنبی موسموں میں اچانک اپنے وطن کی حفاظت پر مامور کر دیا گیا تھا۔
خالد فتح محمد نے بڑی چابکدستی سے ''خلیج'' میں اس کشمکش کی تصویر کشی کی ہے۔ یہ تصویر شیخ مجیب الرحمن، بھارت اور مکتی باہنی کے سہ فریقی و سازشی اتصال سے مکمل ہوتی ہے۔
مشرقی پاکستان کی اشکبار جدائی پر اُردو ادب میں بہت کم لکھا گیا ہے۔خالد فتح محمد نے'' خلیج'' لکھ کر یہ کمی اور گلہ کسی قدر دُور کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ دسمبر کے افسردہ ایام میں'' خلیج'' پڑھتے ہوئے دل پر بوجھ بڑھ جاتا ہے اور احساسِ زیاں فزوں تر !