اس دشت میں اک شہر تھا
زیر نظر کتاب میں کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جسے چھوڑ دیا گیا ہو
کئی ماہ پہلے کی بات ہے کہ اقبال اے رحمن نے اپنی کتاب ''اس دشت میں اک شہر تھا'' مجھے دی تھی، ان دنوں میں کالم نہیں لکھ رہی تھی جب کہ آج مجھے یاد آیا کہ اک قرض واجب ہے، سو اسے ادا کردوں۔
یہ داستان ہے کراچی کے سنہرے دنوں کی، اس سے پہلے میں عثمان دموہی کی کتاب ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' پر کالم لکھ چکی ہوں جسے دموہی صاحب نے اپنی کتاب میں بھی شامل کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں کتابیں اس قابل ہیں کہ ان پر ایم فل کی ڈگری تو ضرور ملنی چاہیے۔
میں نے بھی نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سابق ایم ڈی جناب مظہرالاسلام کے ایما پر کراچی پر ایک گائیڈ بک لکھی تھی، جو حکومت بدلنے کی بنا پر میں نے خود شایع کی۔
زیر نظر کتاب میں کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جسے چھوڑ دیا گیا ہو۔ کتاب واقعی لائق تحسین ہے۔ فہرست مضامین دیکھ کر ہی حیرت ہوتی ہے، اقبال صاحب نے واقعی بڑی جاں فشانی سے کام کیا ہے۔ اس میں چوبیس ابواب ہیں اور تقریباً ایک سو اکیاون موضوعات ہیں۔
کتاب بہت دلچسپ اور معلومات سے بھرپور ہے۔ پہلے کراچی کیا تھا، پرانے علاقوں اور محلوں کے کیا نام تھے، کون سی جگہیں اجڑ گئیں اور کون سی رہ گئیں۔
چلیے آپ کا تعارف کراتے ہیں۔ کتاب کے ناشر زاہد علی خاں رقم طراز ہیں کہ ''یہ تاریخ ہے یا تحقیقی مقالہ یا افسانہ یا حقیقت۔ آپ بیتی ہے یا جگ بیتی، نوحہ حال ہے یا جگ بیتی یا تاب ناک ماضی۔'' فاضل مصنف نے کراچی کی تاریخ مرتب کرتے وقت ایسا شگفتہ اسلوب اختیار کیا ہے کہ آپ کو تاریخ میں کہانی کا مزہ آئے گا۔ آپ پڑھتے جائیے اور زقند بھرتے ہوئے کراچی کے اس خواب ناک ماضی میں پہنچ جائیے جسے ہم کراچی کا ''عہد زریں'' کہتے ہیں۔ ''یہ داستان ہے اس شہر نگاراں کی گلیوں کی، محلوں، برادریوں، شخصیات اور عمارتوں کی۔
اس کتاب میں تذکرہ ہے ان گم بے روزگار کا جنھوں نے اس شہر کو تعمیر کیا اور عالم اسلام کا دوسرا اور دنیا کا چوتھا بڑا شہر بنا دیا۔''
''اس نیپیئر روڈ کا ایک کوچہ ایسا ہے جس سے شہر کے حلوائی خوب واقف ہیں۔ کھویا گلی یا کھویا منڈی، تازہ دودھ کا ٹکڑ سامنے رکھا ہے مگر کھویا کہلاتا ہے۔
کھویا فارسی اور ماوا عربی سے آیا ہے۔ اس کھویا گلی میں روز کے روز تازہ کھویا آتا ہے، اتنا تازہ اور میٹھا کہ اس کا ٹکڑا منہ میں رکھیں تو قلاقند کا گمان ہوتا ہے۔ یہ بہت جلد خراب ہونے والی شے ہے۔ فریزر میں بھی نہیں سنبھلتی۔ بھینس کے دودھ کا کھویا سفید اجلا اور گائے کے دودھ کا مٹیالا، جو گلاب جامن بنانے کے کام آتا ہے۔''
''کھویا منڈی میں ایک بڑے صاحب ہیں، ان سے یاد اللہ ہے کھویا بھی اچھا اور آدمی بھی قاعدے کے۔ بڑی دلچسپ باتیں بتاتے ہیں۔ ''دیکھو وہ جو سامنے کواڑ نظر آ رہا ہے، اب تو اس میں دریوں کا گودام ہے، کبھی اس میں چنی بائی کا کوٹھا تھا، جب وہ گاتی تھیں یا تو لوگ مبہوت ہو جاتے تھے یا واہ واہ کرتے، مگر جب تک چنی گاتیں اپنی جگہ سے ہل نہ سکتے تھے۔
جودھپور کے ایک راجہ بھی گانا سننے کو اس کوٹھے پر آ چکے ہیں، یا پھر جو سامنے گیلری ہے یہ شمیم آرا کا گھر تھا، جہاں سردار رند آتے تھے، جنھوں نے بعد میں شمیم آرا سے شادی بھی رچا لی تھی۔ شادی پر یاد آیا کہ شمیم آرا کی شادیوں نے بھی خوب شہرت پائی۔
ہمارے ایک دوست عید کے دنوں میں اس علاقے میں کھڑے تھے، کیا دیکھتے ہیں کہ چار خوبصورت لڑکیاں چست لباس میں سڑک پار کر رہی ہیں، جن میں سے ایک نے سر پہ دوپٹہ جما رکھا تھا، لوگ ان کی جانب متوجہ تھے اور انھیں یہ حیرت ہو رہی تھی کہ ایسے نظارے تو یہاں عام ہیں پھر اتنی دلچسپی کیوں۔ اصل بات یہ تھی کہ جو لڑکی دوپٹہ سر پہ جمائے تھی وہ بابرہ شریف تھی، جو اپنی خالہ سے عید ملنے آئی تھی۔ اس بازار میں رشتے داروں میں بس خالہ ہی کا رشتہ پایا جاتا ہے، باقی سارے رشتے غلام گردشوں میں گم ہوجاتے ہیں۔
بابرہ شریف فلموں میں کامیاب ہو کر لاہور منتقل ہونے سے قبل اسی محلے کی شمشاد منزل کی دوسری منزل پر رہتی تھی۔
کراچی، لاہور اور ملتان کی طرح کوئی تاریخی شہر تو ہے نہیں، لیکن اس کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ مچھیروں کی اس بستی کو انگریزوں نے بسایا، پارسیوں نے اس کی آبیاری کی۔
میمن برادری نے سرمایہ لگایا، صنعتیں لگائیں، سر آدم جی اور باوانی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اقبال صاحب اہل زباں نہیں ہیں لیکن اردو اہل زباں والی لکھی ہے۔ اس موقع پر وہ محاورہ یاد آتا ہے ''جمال ہم نشیں در من اثر کرد۔''
اب آگے چلیے تو کبابوں کا مشہور نام بندو خاں کا ذکر آتا ہے جو پرانی نمائش سے قبل پارسی کالونی کے بالکل سامنے قدیم زمانے سے آباد ہے۔
بندو خاں میرٹھ کے تھے، ٹھیلے کی منزل سے آگے بڑھے تو بندوخاں کی اصل اور قدیم دکان ابتدا میں لکڑی سے بنے ایک وسیع ڈھابے کی صورت قائم ہوئی جیسے امریکا میں ساحل سمندر پر ہوتے ہیں۔ بندوخاں کے عکس میں الحمرا کھل گئی تھی جو بہاری کبابوں کا ہوٹل تھا، اس طرح شہر میں دہلی، میرٹھ اور بہار تینوں طرح کے کباب ملنے لگے۔''
لیکن یہاں یہ وضاحت کردوں کہ بندوخاں کے اب کئی ہوٹل کھل گئے ہیں اور جس ہوٹل کا ذکر اقبال صاحب نے کیا ہے وہ اب بند ہو گیا ہے۔
اب سپرہائی وے، گلشن اقبال، کلفٹن، گلستان جوہر وغیرہ میں بندوخاں کا نام چمکتا نظر آتا ہے، لیکن اب وہ ذائقہ نہیں جو وہ ان کے ٹھیلے والے کبابوں میں تھا، اس کے علاوہ یہ یاد رہے کہ بندوخاں نے اپنا کاروبار برنس روڈ پر وحید کے سامنے والی پٹی پہ شروع کیا تھا۔
ایمان دار اور محنتی آدمی تھے، اس لیے ٹھیلے سے ہوٹل تک کا کامیاب سفر انھوں نے جلد طے کرلیا۔ اب پتا نہیں چلتا کہ اصلی کون ہیں؟ اور کون فرنچائز ہیں۔
بلڈنگ کا کھلنڈرا ماحول برٹش راج کے زیر اثر کلچر کا عکاس تھا، برداشت تھی، رکھ رکھاؤ تھا، نہ تو انتہا پسندی تھی اور نہ ہی بات بے بات اسلامی لاحقے لگتے تھے۔
مگر خرابیاں بھی بہت تھیں، بلڈنگ کے مالک کریم سیٹھ اسی بلڈنگ کے پینٹ ہاؤس میں رہتے تھے۔ مگر جب کسی کو پینٹ ہاؤس کہنا نہ آتا تھا، کہا جاتا تھا کہ چھت پر سیٹھ نے بنگلہ بنا رکھا ہے۔ سیٹھ صاحب کی ایک بہن مریم کے نام پر یہ بلڈنگ تھی یعنی ''میری محل'' تھی اور دوسری بہن ممتاز جسے پیار سے وہ ملانی کہتے تھے۔
دوسری بلڈنگ ملانی مینشن تھی۔ معروف اداکار وحید مراد کے والد معروف فلمی تقسیم کار نثار مراد کے کریم سیٹھ سے مراسم تھے۔ انھی کی نسبت سے وحید مراد نے ممتاز ملانی کو بہن بنا لیا تھا اور تادم مرگ اس رشتے کو نبھایا بھی۔ ممتاز ملانی معروف ٹی وی آرٹسٹ انیتا ایوب اور امبر ایوب کی والدہ ہیں۔
فلموں کے ایک اور تقسیم کار ایور ریڈی پکچر کے مالک جگدیش چند آنند بھی کریم سیٹھ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ بہت نرم خو اور خوش گفتار تھے، ہندوستان کے معروف اداکار دیوآنند ان کے کزن تھے۔ معروف اداکارہ جوہی چاؤلہ جگدیش صاحب کی نواسی ہیں۔''
''یہی وہ دن تھے جب صدر ایوب خان نے بی ڈی ممبران کے انتخابات کروائے تھے، کراچی کی ایک ایک گلی اور ایک ایک کونہ، فاطمہ جناح کے انتخابی نشان لالٹین سے آویزاں تھا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ بھی اسی دور کا قصہ ہے۔
یہی وہ زمانہ تھا جب بکرے کا گوشت ایک روپے اور گائے کا گوشت آٹھ آنے سیر تھا۔ فارم کی مرغی تو تھی نہیں، دیسی مرغی بہت مہنگی سمجھی جاتی تھی یعنی 5 روپے سیر۔ بقر عید آتی تو بکرا 35 روپے میں اور گائے 40 روپے کی آتی تھی۔''
ایسا لگتا ہے قبل مسیح کے زمانے کی بات ہو رہی ہے، کتنی قدر تھی ہماری کرنسی کی، لیکن ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے اپنے خزانے بھرنے کے لیے مسلسل کرنسی کو پچھاڑ دیا ہے۔
ڈالر کو اوپر لے گئے ہیں اور ہمارے روپے کی کوئی اوقات ہی نہیں۔ اب تو فقیر بھی 50 روپے مانگتے ہیں۔ پتا نہیں کرنسی کی یہ گراوٹ کہاں جا کر دم لے گی؟