این آر او کے ثمرات اور عمران خان
عمران خان کی کھیل اور سیاست کی پوری زندگی مختلف دوستوں کے فیض پر ہی گذری ہے
لاہور کے ہمارے عزیزی نوجوان صحافی کا سلیمان شہباز کی پاکستان آمد اور ان کے مستقبل کی سیاسی حکمت اور لائحہ عمل کے سوال اٹھانے اور ان کو عمران خان کی جانب سے این آر او ٹو دیے جانے پر جب میں نے دنیا کی سیاست میں وراثت کو منتقل کرنے کی بات کی تو اسی لمحے مجھے ایک مرحوم اعلی افسر کے لگائے گئے غیر سیاسی پودے عمران خان کی سیاسی بصیرت اور ان کو اسٹبلشمنٹ سے نوازے گئے این آر او یاد آگئے، جن میں مالم جبہ اسکینڈل اور بی آر ٹی اسکینڈل کے اربوں روپے کے علاوہ منی لانڈرنگ کیس پر این آر او کی زبان زدعام داستانیں نظروں کے سامنے آگئیں۔
ہماری سیاسی تاریخ میں ایک دوسرے پر بے سروپا الزامات کے سلسلے کوئی نئے نہیں اور نہ ہی لگائے گئے الزامات کے سچ ثابت ہونے کی کوئی بہت قابل قدر مثال ہے۔
عمران خان نے اپنے اقتدار کے پورے عرصے میں اپوزیشن پر این آر او لینے کی خواہش کے اظہار کی گردان مسلسل لگائے رکھی اور قومی مفاہمتی یاداشت(این آر او) لینے کو اپوزیشن کی کرپشن چھپانے کا ذریعہ بتاتے رہے جب کہ کڑے احتساب کے علمبردار عمران خان کے ارادے اقتدار کے پورے عرصے میں ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔
البتہ زمانے نے دیکھا کہ عمران خان کے احتساب کے نعروں میں تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت میں مالم جبہ اسکینڈل، ملین ٹری اسکینڈل اور بی آر ٹی میں کرپشن کے کیسز نیب کے کڑے احتساب کے قانون کی گرفت میں آنے کے بجائے ''کرامات'' سے این آر او دے کر ختم کر دیے گئے۔ عمران خان کی کھیل اور سیاست کی پوری زندگی مختلف دوستوں کے فیض پر ہی گذری ہے، کرکٹ میں لانے کا فیصلہ ماجد خان کی طرف سے ہوا۔
پھر شادی کے فیض سے گولڈ اسمتھ نے فیضیاب کیا اور جمائمہ کے فیض نے ان کی شہرت میں چار چاند لگا دیے، اسی دوران آمر جنرل ضیا نے عمران کی خواہش کو بھانپتے ہوئے ایک اپنے اعلی افسر کو فیض پہنچانے کا کہا اور یوں سیاست کے خار دار میں یہ فیض سلسلہ در سلسلہ جاری و ساری رہا اور پھر اسی فیضیابی کی بدولت الیکشن میں مطلوبہ ارکان کے نہ ہوتے ہوئے اقتدار کا فیضان عمران خان پر جاری و ساری رہا، عمران خان پر صرف اسٹبلشمنٹ ہی نہیں بلکہ ان کی پارٹی کے بنیادی ارکان بھی گاہے گاہے فیض کرتے رہے۔
جن میں ایس اکبر بابر کا فیض ان کی سیاسی زندگی کی ایسی جونک بن گیا کہ اس کے نتیجے میں عمران خان نہ صرف منی لانڈر کہلائے بلکہ الیکشن کمیشن نے بیرونی ممنوعہ فنڈ لینے کے ثبوت ملنے پر عمران خان کو ڈی سیٹ کیا اور یوں وہ ممبر قومی اسمبلی بھی نہ رہے۔سابقہ اسٹبلشمنٹ کی جانب سے ممنوعہ فارن فنڈ میں عمران خان کو دیے جانے والے این آر اوکے حقائق حالیہ دنوں میں موقر اخبارات کے معتبر صحافی حضرات سامنے لائے ہیں۔
جن کے مطابق ''تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کو سابقہ اسٹبلشمنٹ نے نہ صرف روکا بلکہ الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالا گیا کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ عمران خان کے خلاف نہ سنایا جائے۔''اسلام آباد کے سینئر صحافی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ ''عمران خان کی سیاسی حمایت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس میں تاخیر پیدا کرنے کا ''بندوبست'' کیا گیا تھا۔ تاہم باخبر ذریعے کے مطابق فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف سنانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر کوئی دباؤ نہیں تھا اور یہ کہ عمران خان کا الیکشن کمیشن پر الزام غلط ہے۔
اس کے برعکس عمران خان متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ الیکشن کمیشن سے ''کہا'' گیا تھا کہ ان کے اور پارٹی کے خلاف کیسز کا فیصلہ سنایا جائے، لیکن ذرائع کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس میں تاخیر کے معاملے میں سابقہ اسٹیبلشمنٹ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ رپورٹ کے موجب جب الیکشن کمیشن اپنی مرضی کی مالک ہوگئی اور اس نے کیس کا فیصلہ میرٹ پر سنا دیا۔ پی ٹی آئی کے خلاف فنڈنگ کیس نومبر 2014 سے زیر التواء تھا۔
اس وقت پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے پاکستان اور بیرون ملک سے پارٹی کی فنڈنگ کے حوالے سے سنگین مالی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا تھا۔ کیس کا فیصلہ سنانے کے معاملے میں غیر معمولی تاخیر کی گئی کیونکہ اس وقت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان برسوں کا رشتہ اپنے عروج پر تھا۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے رکن اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے 14 نومبر 2014 کو درخواست دائر کی۔
جس میں مسلسل تعطل کے بعد18 مئی 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے میں آٹھ سال تاخیر کا سوال پوچھا،جس پر 21 جون 2022 کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا۔اسی دوران 29 جولائی 2022 کو فنانشل ٹائمز میں خبر شائع ہوئی کہ ایک کاروباری شخصیت نے خیراتی کرکٹ میچ کا اہتمام کیا تھا جس سے ہونے والی کمائی کو پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں جمع (بینک رول) کرایا گیا۔ 30 جولائی 2022 کو عمران خان نے اصرار کیا کہ اس طرح آنے والے تمام فنڈز بینکاری چینل سے آئے تھے لہٰذا انھیں افشاء کیا گیا ہے۔
یکم اگست 2022 کو الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ وہ اگلے دن کیس کا فیصلہ سنانے جا رہا ہے جس کے بعد دو اگست کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے فیصلہ سنایا اور بتایا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ وصول کی ہے اور اس ضمن میں پی ٹی آئی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنے کا اعلان کیا اور پوچھا کہ کیوں نہ کمیشن پارٹی کے فنڈز ضبط کرلے،جس کا تحریک انصاف کے وکلا ہنوز جواب دینے سے قاصر ہیں۔
تحریک انصاف کے ایسوں کی دروغ گوئی کے متعلق ہماری سندھی کی کہاوت ہے کہ''اگ وٹھنڑ''یعنی ''طوفان آنے سے پہلے بند باندھ دینا''سو اس حقیقت سے انکار نہیں کہ عمران خان اور ان کے چاہنے والے یوتھیے پروپیگنڈہ کے ذریعے پہلے ہی دفاعی پوزیشن پر بڑی مستقل مزاجی سے لگ جاتے ہیں جو دراصل فوجی اصطلاح میں دفاع سے پہلے حملہ کرنے کی وہ تربیت ہے جو عمران خان اور تحریک انصاف کے مربی اعلی افسر کی سکھائی ہوئی ترکیب ہے۔
اسی بنا مالم جبہ،بی آر ٹی،ملین ٹری غبن اور فارن فنڈنگ میں ''این آر او'' لینے والی تحریک انصاف آجکل تواتر سے موجودہ پی ڈی ایم اور شریف خاندان کو ''این آر او ٹو'' لینے کا شور و غوغا کرکے دراصل عوام کی نظروں سے اسٹبلشمنٹ کی جانب سے خود حاصل کیے گئے۔
این آر اوز سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے پنجاب کی سیاسی بساط میں سلمان شہباز کی شکل میں شہباز شریف کی سیاسی وراثت کا پر خطرہ مہرہ سمجھتی ہے لہذا تحریک انصاف نے سلمان شہباز کی آمد پر شدو مد سے این آر او ٹو کی گردان ڈال رکھی ہے،قرائن بتاتے ہیں کہ پنجاب کی آیندہ سیاست میں سلمان شہباز کوئی اہم کردار ادا کریں گے۔
ہماری سیاسی تاریخ میں ایک دوسرے پر بے سروپا الزامات کے سلسلے کوئی نئے نہیں اور نہ ہی لگائے گئے الزامات کے سچ ثابت ہونے کی کوئی بہت قابل قدر مثال ہے۔
عمران خان نے اپنے اقتدار کے پورے عرصے میں اپوزیشن پر این آر او لینے کی خواہش کے اظہار کی گردان مسلسل لگائے رکھی اور قومی مفاہمتی یاداشت(این آر او) لینے کو اپوزیشن کی کرپشن چھپانے کا ذریعہ بتاتے رہے جب کہ کڑے احتساب کے علمبردار عمران خان کے ارادے اقتدار کے پورے عرصے میں ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔
البتہ زمانے نے دیکھا کہ عمران خان کے احتساب کے نعروں میں تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت میں مالم جبہ اسکینڈل، ملین ٹری اسکینڈل اور بی آر ٹی میں کرپشن کے کیسز نیب کے کڑے احتساب کے قانون کی گرفت میں آنے کے بجائے ''کرامات'' سے این آر او دے کر ختم کر دیے گئے۔ عمران خان کی کھیل اور سیاست کی پوری زندگی مختلف دوستوں کے فیض پر ہی گذری ہے، کرکٹ میں لانے کا فیصلہ ماجد خان کی طرف سے ہوا۔
پھر شادی کے فیض سے گولڈ اسمتھ نے فیضیاب کیا اور جمائمہ کے فیض نے ان کی شہرت میں چار چاند لگا دیے، اسی دوران آمر جنرل ضیا نے عمران کی خواہش کو بھانپتے ہوئے ایک اپنے اعلی افسر کو فیض پہنچانے کا کہا اور یوں سیاست کے خار دار میں یہ فیض سلسلہ در سلسلہ جاری و ساری رہا اور پھر اسی فیضیابی کی بدولت الیکشن میں مطلوبہ ارکان کے نہ ہوتے ہوئے اقتدار کا فیضان عمران خان پر جاری و ساری رہا، عمران خان پر صرف اسٹبلشمنٹ ہی نہیں بلکہ ان کی پارٹی کے بنیادی ارکان بھی گاہے گاہے فیض کرتے رہے۔
جن میں ایس اکبر بابر کا فیض ان کی سیاسی زندگی کی ایسی جونک بن گیا کہ اس کے نتیجے میں عمران خان نہ صرف منی لانڈر کہلائے بلکہ الیکشن کمیشن نے بیرونی ممنوعہ فنڈ لینے کے ثبوت ملنے پر عمران خان کو ڈی سیٹ کیا اور یوں وہ ممبر قومی اسمبلی بھی نہ رہے۔سابقہ اسٹبلشمنٹ کی جانب سے ممنوعہ فارن فنڈ میں عمران خان کو دیے جانے والے این آر اوکے حقائق حالیہ دنوں میں موقر اخبارات کے معتبر صحافی حضرات سامنے لائے ہیں۔
جن کے مطابق ''تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کو سابقہ اسٹبلشمنٹ نے نہ صرف روکا بلکہ الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالا گیا کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ عمران خان کے خلاف نہ سنایا جائے۔''اسلام آباد کے سینئر صحافی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ ''عمران خان کی سیاسی حمایت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس میں تاخیر پیدا کرنے کا ''بندوبست'' کیا گیا تھا۔ تاہم باخبر ذریعے کے مطابق فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف سنانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر کوئی دباؤ نہیں تھا اور یہ کہ عمران خان کا الیکشن کمیشن پر الزام غلط ہے۔
اس کے برعکس عمران خان متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ الیکشن کمیشن سے ''کہا'' گیا تھا کہ ان کے اور پارٹی کے خلاف کیسز کا فیصلہ سنایا جائے، لیکن ذرائع کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس میں تاخیر کے معاملے میں سابقہ اسٹیبلشمنٹ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ رپورٹ کے موجب جب الیکشن کمیشن اپنی مرضی کی مالک ہوگئی اور اس نے کیس کا فیصلہ میرٹ پر سنا دیا۔ پی ٹی آئی کے خلاف فنڈنگ کیس نومبر 2014 سے زیر التواء تھا۔
اس وقت پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے پاکستان اور بیرون ملک سے پارٹی کی فنڈنگ کے حوالے سے سنگین مالی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا تھا۔ کیس کا فیصلہ سنانے کے معاملے میں غیر معمولی تاخیر کی گئی کیونکہ اس وقت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان برسوں کا رشتہ اپنے عروج پر تھا۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے رکن اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے 14 نومبر 2014 کو درخواست دائر کی۔
جس میں مسلسل تعطل کے بعد18 مئی 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے میں آٹھ سال تاخیر کا سوال پوچھا،جس پر 21 جون 2022 کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا۔اسی دوران 29 جولائی 2022 کو فنانشل ٹائمز میں خبر شائع ہوئی کہ ایک کاروباری شخصیت نے خیراتی کرکٹ میچ کا اہتمام کیا تھا جس سے ہونے والی کمائی کو پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں جمع (بینک رول) کرایا گیا۔ 30 جولائی 2022 کو عمران خان نے اصرار کیا کہ اس طرح آنے والے تمام فنڈز بینکاری چینل سے آئے تھے لہٰذا انھیں افشاء کیا گیا ہے۔
یکم اگست 2022 کو الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ وہ اگلے دن کیس کا فیصلہ سنانے جا رہا ہے جس کے بعد دو اگست کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے فیصلہ سنایا اور بتایا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ وصول کی ہے اور اس ضمن میں پی ٹی آئی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنے کا اعلان کیا اور پوچھا کہ کیوں نہ کمیشن پارٹی کے فنڈز ضبط کرلے،جس کا تحریک انصاف کے وکلا ہنوز جواب دینے سے قاصر ہیں۔
تحریک انصاف کے ایسوں کی دروغ گوئی کے متعلق ہماری سندھی کی کہاوت ہے کہ''اگ وٹھنڑ''یعنی ''طوفان آنے سے پہلے بند باندھ دینا''سو اس حقیقت سے انکار نہیں کہ عمران خان اور ان کے چاہنے والے یوتھیے پروپیگنڈہ کے ذریعے پہلے ہی دفاعی پوزیشن پر بڑی مستقل مزاجی سے لگ جاتے ہیں جو دراصل فوجی اصطلاح میں دفاع سے پہلے حملہ کرنے کی وہ تربیت ہے جو عمران خان اور تحریک انصاف کے مربی اعلی افسر کی سکھائی ہوئی ترکیب ہے۔
اسی بنا مالم جبہ،بی آر ٹی،ملین ٹری غبن اور فارن فنڈنگ میں ''این آر او'' لینے والی تحریک انصاف آجکل تواتر سے موجودہ پی ڈی ایم اور شریف خاندان کو ''این آر او ٹو'' لینے کا شور و غوغا کرکے دراصل عوام کی نظروں سے اسٹبلشمنٹ کی جانب سے خود حاصل کیے گئے۔
این آر اوز سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے پنجاب کی سیاسی بساط میں سلمان شہباز کی شکل میں شہباز شریف کی سیاسی وراثت کا پر خطرہ مہرہ سمجھتی ہے لہذا تحریک انصاف نے سلمان شہباز کی آمد پر شدو مد سے این آر او ٹو کی گردان ڈال رکھی ہے،قرائن بتاتے ہیں کہ پنجاب کی آیندہ سیاست میں سلمان شہباز کوئی اہم کردار ادا کریں گے۔