جھلیا مُڑ کے ماں نئیں لبھدی
خدارا! اپنی جنت کو جیتے جی پہچان لیجیے، اپنے بزرگوں کو چھپ چھپ کو رونے مت دیجیے
کچھ لوگ بہت ساری سوچوں اور الجھنوں سے بچنے کےلیے خود کو حد سے زیادہ کام میں مصروف کرلیتے ہیں، لیکن مسلسل کام کام کام بھی انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا دیتا ہے۔ یہی کچھ گزشتہ دو مہینوں میں میرے ساتھ ہوا۔ اکتوبر کا آغاز ہوتے ہی امارات کی رونقیں، تہوار اور رنگارنگ تقریبات شروع ہوگئیں۔
گلوبل ویلیج جو کہ واقعی ایک چھوٹی سے دنیا ہے، جہاں آپ کو پاکستان کا مزارِ قائد اور مینارِ پاکستان نظر آئے گا، ہندوستان کا تاج محل، پیرس کا ایفل ٹاور، نیویارک کی مدر ٹریسا کا دیو قامت مجسمہ اور لندن کا ٹاور برج بھی ملے گا۔ لاکھوں پھولوں سے سجا دبئی کا مریکل گارڈن بھی سج جاتا ہے اور اس دفعہ تو شارجہ میں دنیا کا دوسرا بڑا سفاری پارک، جس کا حال ہی میں افتتاح کیا گیا ہے، وہ بھی سیاحوں کےلیے ایک بہترین جگہ ہے۔ خیر ہم بات کر رہے تھے کام کی۔
نومبر میں شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر جہاں بارہ دنوں میں بیس لاکھ کے قریب کتاب دوستوں نے شرکت کی۔ تقریب کے حوالے سے مجھے محکمانہ ذمے داریاں دی گئیں اور بعد ازاں متحدہ عرب امارات کے قومی دن کے حوالے سے خصوصی ٹرانسمیشن کےلیے چھٹی کے دنوں میں بھی کام کرنے کی وجہ سے نہ صرف میری صحت نے جواب دے دیا بلکہ دل اور دماغ نے بھی بریک لینے کا الارم بجا دیا۔ کچھ چھٹیاں بھی جمع ہوچکی تھیں لیکن چھٹیاں گھر میں گزارنا بھی ایک نئی آزمائش تھی۔ بچپن مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے پڑھتے گزرا تھا، سو بیگ پیک کیا اور سوچا چلو کسی اور دیس کو ایکسپلور کرتے ہیں۔
برطانیہ کی آکسفورڈ اسٹریٹ پر زیرو ڈگری کی سخت سردی میں جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہوئے میں مشرقی اور مغربی تہذیب کا موازنہ کرنے میں مصروف تھی۔ وہاں کی صفائی ستھرائی، حکومتوں کو عوام کا خیال اور سہولیات کا کس قدر احساس ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ مختلف اقوام اور وہاں کے عوام کو بھی دیکھا، بہت سی اچھی باتیں اور بہت سی نامناسب باتیں بھی مشاہدے میں آئیں۔ وہاں ٹرین اور بس میں نوجوان طبقے کو مطالعے میں مشغول بھی پایا اور سب ویز اور باہر فٹ پاتھ پر نشے کی لت میں گرفتار بھیک مانگتے بھی دیکھا۔ وہاں صرف کھایا پیا اور زندگی سے خوب لطف اٹھانے والا طبقہ بھی دیکھا اور 80 سال کی عمر کے بزرگوں کو چھوٹے چھوٹے کیفے نما ہوٹلوں میں چاق و چوبند ویٹرز کی نوکری کرتے بھی دیکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثریت وہاں مرنے تک بھرپور جینے کی کوشش کرتی ہے۔
میں اسی طرح کے خیالات میں گم سڑک کے کنارے موجود شورومز اور ریستورانوں کے سامنے سے گزر رہی تھی کہ دو بلڈنگز کے درمیان ایک انتہائی چھوٹی غالباً دو فٹ یا اس سے بھی کم جگہ، جو شاید کسی مشینری وغیرہ کو رکھنے کےلیے بنائی گئی تھی، وہاں مجھے سر جھکائے کوئی بیٹھا دکھائی دیا، جیسے کوئی سردی سے بچنے کےلیے کھلے میں بیٹھنے کے بجائے وہاں دبک کر بیٹھا ہو۔
میں اپنی فطرت سے مجبور ہوکر چند قدم آگے جانے کے بعد واپس پلٹی اور بالکل سامنے جاکر دیکھا تو مجھے اپنے دل کی بے چینی سمجھ آگئی۔ 80 اور 90 سال کی عمرکے درمیان سفید دودھ جیسا جھریوں بھرا چہرہ سر جھکائے میرے سامنے تھا۔ پتا نہیں کس کی ماں ہوگی؟ اس کی بھی تو کوئی اولاد ہوگی؟ کوئی تو بچہ ہوگا، خاندان ہوگا، جس کےلیے اس نے ساری زندگی لگادی ہوگی۔ حیرت انگیز طور پر وہ عام بھکاریوں کی طرح کچھ مانگ نہیں رہی تھی، بلکہ بالکل چپ تھی، یہاں تک کہ اس نے مجھے نظر اٹھا کر دیکھا تک نہیں، نہ وہ چونکی۔ میرے پاس اس وقت جو کچھ تھا میں نے گھٹنوں کے بل جھک کر اس کی جھولی میں رکھ دیا۔
میں اس کو دیکھنا چاہتی تھی، بات کرنا چاہتی تھی، اس کے ساتھ یادگار کے طور پرایک تصویر بنانا چاہتی تھی لیکن مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ میں دو قدم پیچھے ہٹ کر تھوڑا دور کھڑی ہوگئی۔ مجھے دیکھ کر ایک اور عورت بھی رکی اور اُس سے شاید کچھ ہوچھا اور پھر پانی کی ایک بوتل اس کو دے دی۔
میرے اردگرد نئے سال اور کرسمس کےلیے سجائی گئی لندن کی رنگارنگ سڑکیں روشنیاں اور میوزک ایک دم بے رونق اور خاموش ہوگیا۔ ایک ماں کا ہنستا چہرہ فیفا ورلڈ کپ کے دوران چند دن قبل ٹی وی اور اخبارات کی زینت تھا اور ایک ماں یہ جو بالکل خاموش سر جھکائے جھریوں سے پُر چہرے کے ساتھ یہاں موجود تھی۔ ایک ماں وہ بھی تھی جس کے بارے میں انور مسعود نے اپنی ایک سچی نظم میں اکرم نامی بیٹے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "مائی نوں اے مار دا اے، تے بڑا ڈاھڈا مار دا اے''۔
مشرقی اور مغربی تہذیب دونوں میں ماں کو اللہ نے شفیق اور قربانی دینے والا ہی بنایا۔ اور اولاد کو میں نے ان دونوں تہذیبوں میں ظالم پایا۔ مجھے اپنے مسلمان ہونے پر خوشی ہوئی کہ کم از کم ہمارے مذہب میں اللہ کی مقدس کتاب میں ماں اور باپ کا جو مقام، جو مرتبہ رکھا گیا ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں۔
ہمارے ایک عزیز والدہ کو ہر مہینے ایک مخصوص رقم بھیج دیا کرتے تھے اور خود یہاں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنی زندگی میں مشغول تھے۔ چند روز قبل وہ کافی عرصے کے بعد جب والدہ سے ملے تو پتا چلا تب تک بڑھاپے کی وجہ سے والدہ کی یادداشت جاچکی تھی۔ یہ اُن کا ہاتھ چومتے رہے، روتے رہے، لیکن وہ پوچھتی رہیں کہ تم کون ہو؟
اللہ ہم سب کے والدین کو اچھی صحت والی طویل عمر عطا کرے کہ ہم ان کے سارے خواب پورے کرسکیں، ان کو ساری خوشیاں دے سکیں۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ والدین ہم سے پہلے اس دنیا میں آئے ہیں اور شاید وہ ہم سے پہلے چلے بھی جائیں گے۔ لیکن کیا ضروری ہے کہ ہمیں والدین کے جانے، ان کے بالکل بوڑھے ہوجانے، خدانخواستہ معذور ہوجانے یا یادداشت کھو جانے کے بعد وقت کا احساس ہو؟ یہ واقعی حقیقت ہے کہ دنیا میں سب کچھ دوبارہ مل سکتا ہے لیکن والدین؛ ماں اور باپ دوبارہ نہیں ملتے۔ میں نے بہت بوڑھے بزرگوں کو بھی اپنے ماں باپ کو یاد کرکے بچوں کی طرح روتے دیکھا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ ہمیں ان رشتوں، جن کا کوئی بدل نہیں، ان کے جانے کے بعد ہی، وقت گزر جانے کے بعد ہی احساس ہو؟
بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کو یہ موقع مل پاتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو خود نہلائیں، ان کو اپنے ہاتھ سے کھلائیں اور بیماری کی حالت میں ان کے باتھ روم تک کے فرائض بنا ماتھے پر بل لائے ہنستے ہنستے ادا کریں۔ دنیا کے ہر ماں باپ نے اپنے بچوں کےلیے یہ سب ان کے بچپن میں ضرور کیا ہوتا ہے۔
خدارا اپنی جنتوں کو جیتے جی پہچان لیں۔ اپنے بزرگوں کو چھپ چھپ کو رونے مت دیں، بہت ساری حسرتیں دل میں لے کر مرنے مت دیں، ورنہ وقت گزر جانے کے بعد ہم سب کے پاس صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے، کیونکہ یہ وہ رشتے ہیں جو پھر دوبارہ نہیں ملتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
گلوبل ویلیج جو کہ واقعی ایک چھوٹی سے دنیا ہے، جہاں آپ کو پاکستان کا مزارِ قائد اور مینارِ پاکستان نظر آئے گا، ہندوستان کا تاج محل، پیرس کا ایفل ٹاور، نیویارک کی مدر ٹریسا کا دیو قامت مجسمہ اور لندن کا ٹاور برج بھی ملے گا۔ لاکھوں پھولوں سے سجا دبئی کا مریکل گارڈن بھی سج جاتا ہے اور اس دفعہ تو شارجہ میں دنیا کا دوسرا بڑا سفاری پارک، جس کا حال ہی میں افتتاح کیا گیا ہے، وہ بھی سیاحوں کےلیے ایک بہترین جگہ ہے۔ خیر ہم بات کر رہے تھے کام کی۔
نومبر میں شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر جہاں بارہ دنوں میں بیس لاکھ کے قریب کتاب دوستوں نے شرکت کی۔ تقریب کے حوالے سے مجھے محکمانہ ذمے داریاں دی گئیں اور بعد ازاں متحدہ عرب امارات کے قومی دن کے حوالے سے خصوصی ٹرانسمیشن کےلیے چھٹی کے دنوں میں بھی کام کرنے کی وجہ سے نہ صرف میری صحت نے جواب دے دیا بلکہ دل اور دماغ نے بھی بریک لینے کا الارم بجا دیا۔ کچھ چھٹیاں بھی جمع ہوچکی تھیں لیکن چھٹیاں گھر میں گزارنا بھی ایک نئی آزمائش تھی۔ بچپن مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے پڑھتے گزرا تھا، سو بیگ پیک کیا اور سوچا چلو کسی اور دیس کو ایکسپلور کرتے ہیں۔
برطانیہ کی آکسفورڈ اسٹریٹ پر زیرو ڈگری کی سخت سردی میں جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہوئے میں مشرقی اور مغربی تہذیب کا موازنہ کرنے میں مصروف تھی۔ وہاں کی صفائی ستھرائی، حکومتوں کو عوام کا خیال اور سہولیات کا کس قدر احساس ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ مختلف اقوام اور وہاں کے عوام کو بھی دیکھا، بہت سی اچھی باتیں اور بہت سی نامناسب باتیں بھی مشاہدے میں آئیں۔ وہاں ٹرین اور بس میں نوجوان طبقے کو مطالعے میں مشغول بھی پایا اور سب ویز اور باہر فٹ پاتھ پر نشے کی لت میں گرفتار بھیک مانگتے بھی دیکھا۔ وہاں صرف کھایا پیا اور زندگی سے خوب لطف اٹھانے والا طبقہ بھی دیکھا اور 80 سال کی عمر کے بزرگوں کو چھوٹے چھوٹے کیفے نما ہوٹلوں میں چاق و چوبند ویٹرز کی نوکری کرتے بھی دیکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثریت وہاں مرنے تک بھرپور جینے کی کوشش کرتی ہے۔
میں اسی طرح کے خیالات میں گم سڑک کے کنارے موجود شورومز اور ریستورانوں کے سامنے سے گزر رہی تھی کہ دو بلڈنگز کے درمیان ایک انتہائی چھوٹی غالباً دو فٹ یا اس سے بھی کم جگہ، جو شاید کسی مشینری وغیرہ کو رکھنے کےلیے بنائی گئی تھی، وہاں مجھے سر جھکائے کوئی بیٹھا دکھائی دیا، جیسے کوئی سردی سے بچنے کےلیے کھلے میں بیٹھنے کے بجائے وہاں دبک کر بیٹھا ہو۔
میں اپنی فطرت سے مجبور ہوکر چند قدم آگے جانے کے بعد واپس پلٹی اور بالکل سامنے جاکر دیکھا تو مجھے اپنے دل کی بے چینی سمجھ آگئی۔ 80 اور 90 سال کی عمرکے درمیان سفید دودھ جیسا جھریوں بھرا چہرہ سر جھکائے میرے سامنے تھا۔ پتا نہیں کس کی ماں ہوگی؟ اس کی بھی تو کوئی اولاد ہوگی؟ کوئی تو بچہ ہوگا، خاندان ہوگا، جس کےلیے اس نے ساری زندگی لگادی ہوگی۔ حیرت انگیز طور پر وہ عام بھکاریوں کی طرح کچھ مانگ نہیں رہی تھی، بلکہ بالکل چپ تھی، یہاں تک کہ اس نے مجھے نظر اٹھا کر دیکھا تک نہیں، نہ وہ چونکی۔ میرے پاس اس وقت جو کچھ تھا میں نے گھٹنوں کے بل جھک کر اس کی جھولی میں رکھ دیا۔
میں اس کو دیکھنا چاہتی تھی، بات کرنا چاہتی تھی، اس کے ساتھ یادگار کے طور پرایک تصویر بنانا چاہتی تھی لیکن مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ میں دو قدم پیچھے ہٹ کر تھوڑا دور کھڑی ہوگئی۔ مجھے دیکھ کر ایک اور عورت بھی رکی اور اُس سے شاید کچھ ہوچھا اور پھر پانی کی ایک بوتل اس کو دے دی۔
میرے اردگرد نئے سال اور کرسمس کےلیے سجائی گئی لندن کی رنگارنگ سڑکیں روشنیاں اور میوزک ایک دم بے رونق اور خاموش ہوگیا۔ ایک ماں کا ہنستا چہرہ فیفا ورلڈ کپ کے دوران چند دن قبل ٹی وی اور اخبارات کی زینت تھا اور ایک ماں یہ جو بالکل خاموش سر جھکائے جھریوں سے پُر چہرے کے ساتھ یہاں موجود تھی۔ ایک ماں وہ بھی تھی جس کے بارے میں انور مسعود نے اپنی ایک سچی نظم میں اکرم نامی بیٹے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "مائی نوں اے مار دا اے، تے بڑا ڈاھڈا مار دا اے''۔
مشرقی اور مغربی تہذیب دونوں میں ماں کو اللہ نے شفیق اور قربانی دینے والا ہی بنایا۔ اور اولاد کو میں نے ان دونوں تہذیبوں میں ظالم پایا۔ مجھے اپنے مسلمان ہونے پر خوشی ہوئی کہ کم از کم ہمارے مذہب میں اللہ کی مقدس کتاب میں ماں اور باپ کا جو مقام، جو مرتبہ رکھا گیا ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں۔
ہمارے ایک عزیز والدہ کو ہر مہینے ایک مخصوص رقم بھیج دیا کرتے تھے اور خود یہاں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنی زندگی میں مشغول تھے۔ چند روز قبل وہ کافی عرصے کے بعد جب والدہ سے ملے تو پتا چلا تب تک بڑھاپے کی وجہ سے والدہ کی یادداشت جاچکی تھی۔ یہ اُن کا ہاتھ چومتے رہے، روتے رہے، لیکن وہ پوچھتی رہیں کہ تم کون ہو؟
اللہ ہم سب کے والدین کو اچھی صحت والی طویل عمر عطا کرے کہ ہم ان کے سارے خواب پورے کرسکیں، ان کو ساری خوشیاں دے سکیں۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ والدین ہم سے پہلے اس دنیا میں آئے ہیں اور شاید وہ ہم سے پہلے چلے بھی جائیں گے۔ لیکن کیا ضروری ہے کہ ہمیں والدین کے جانے، ان کے بالکل بوڑھے ہوجانے، خدانخواستہ معذور ہوجانے یا یادداشت کھو جانے کے بعد وقت کا احساس ہو؟ یہ واقعی حقیقت ہے کہ دنیا میں سب کچھ دوبارہ مل سکتا ہے لیکن والدین؛ ماں اور باپ دوبارہ نہیں ملتے۔ میں نے بہت بوڑھے بزرگوں کو بھی اپنے ماں باپ کو یاد کرکے بچوں کی طرح روتے دیکھا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ ہمیں ان رشتوں، جن کا کوئی بدل نہیں، ان کے جانے کے بعد ہی، وقت گزر جانے کے بعد ہی احساس ہو؟
بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کو یہ موقع مل پاتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو خود نہلائیں، ان کو اپنے ہاتھ سے کھلائیں اور بیماری کی حالت میں ان کے باتھ روم تک کے فرائض بنا ماتھے پر بل لائے ہنستے ہنستے ادا کریں۔ دنیا کے ہر ماں باپ نے اپنے بچوں کےلیے یہ سب ان کے بچپن میں ضرور کیا ہوتا ہے۔
خدارا اپنی جنتوں کو جیتے جی پہچان لیں۔ اپنے بزرگوں کو چھپ چھپ کو رونے مت دیں، بہت ساری حسرتیں دل میں لے کر مرنے مت دیں، ورنہ وقت گزر جانے کے بعد ہم سب کے پاس صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے، کیونکہ یہ وہ رشتے ہیں جو پھر دوبارہ نہیں ملتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔