توشہ خانہ
غیر ملکی تحائف کے بارے میں تمام تفصیلات اور حقائق کا احاطہ کرتی تحریر
ان دنوں ملکی و غیرملکی، ہر سطح پر توشہ خانہ موضوع گفتگو بنا ہوا ہے اور ملک و قوم کے لئے جگ ہنسائی کا سبب بن رہا ہے۔
قطع نظر اس سے کہ کن ارباب اختیار، بااثر سرکردہ شخصیات نے کب کب اس سے فائدہ اُٹھایا، ہم یہاں اپنے قارئین کے لئے توشہ خانہ کے حوالے ایک معلوماتی تحریر پیش کر رہے ہیں جس میں توشہ خانہ کی تاریخ، قواعد و ضوابط اور دیگراہم معاملات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
توشہ خانہ فارسی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا لفظی ترجمہ '' اسٹور ہاؤس یعنی خزانے کاگھر '' ہے۔ پرانے زمانے میں توشہ خانہ درحقیقت ایک عمارت تھی جہاں عظیم خزانے رکھے جاتے تھے۔ جبکہ مغل دور حکمرانی میں توشہ خانہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں شہزادے تحائف اور اعزاز ات کو ذخیرہ کرتے تھے۔
پاکستان میں توشہ خانہ 1974 میں قائم کیا گیا جو کہ کابینہ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول کے تحت ایک محکمہ ہے، لیکن اس سے قبل یہ وزارت خارجہ کے ماتحت کام کرتا تھا۔
اس کا کام جذبہ خیر سگالی کے طور پر دیگر حکومتوں، ریاستوں اور غیر ملکی سفارت کاروں معززین اور سربراہوں کی طرف سے حکمرانوں، ارکان پارلیمنٹ، بیوروکریٹس اور دیگر حکام کو دیے گئے قیمتی تحائف کو رکھنا، ان کا ریکارڈ مرتب کرنا، دیکھ بھال کرنا اور ان کی قیمتوں کا تعین کرنا ہے۔
اس کے علاوہ اس عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے اور ان تحائف کی خریداری میں لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنانا ہے ۔
ان تحائف میں میں بلٹ پروف گاڑیوں سے لے کر سونے کی جڑاو یادگاریں، مہنگی پینٹنگز گھڑیاں، زیورات، قالین تلواریں, قیمتی بندقویں اور منفرد نوادرات تک انتہائی قیمتی سامان موجود ہو سکتا ہے۔
توشہ خانہ کا وجود عالمی سفارت کاری میں ایک انتہائی اہم سر گرمی کی نمائندگی کرتا ہے۔ جب بھی دو ممالک کے رہنما یا وفود ملتے ہیں تو تحائف کا تبادلہ کرنے کا رواج ہے۔
تاہم زیادہ تر جمہوری ریاستوں میں یہ تحائف ریاست کی ملکیت تصور کیے جاتے ہیں اور انہیں ممالک کے نمائنیدہ افراد وصول کرتے ہیں۔
نتیجے کے طور پر وہ یا تو عجائب گھروں، والٹس، ریاستی عمارتوں میں سجائے جاتے ہیں یا نیلام کردیئے جاتے ہیں۔ جب بھی یہ غیر ملکی معززین ان جگہوں کا دورہ کرتے ہیں تو وہ دیے گئے تحائف کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔
توشہ خانہ کیسے کام کرتا ہے؟
موجودہ توشہ خانہ سے متعلق قواعد و ضوابط کا ترمیمی خاکہ ''توشہ خانہ (منیجمنٹ اینڈ ریگولیشن) ایکٹ 2022کے عنوان سے سرکاری دستاویز میں بیان کیا گیا ہے۔
اس دستاویز کے مطابق توشہ خان کی تعریف ''ذخیرہ'' یا ''اسٹور'' کے طور پر کی گئی ہے جو پبلک آفس ہولڈرز کو ملنے والے تحائف کو ''رکھنے، محفوظ کرنے اور ذخیرہ کرنے'' کا مقصد پورا کرتی ہے۔
توشہ خانہ (مینجمنٹ اینڈ ریگولیشن) ایکٹ، 2022 کا اطلاق پورے ملک اور تمام پبلک آفس ہولڈرز پر ہے۔
پبلک آفس ہولڈرز میں صدر، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی، اراکین پارلیمنٹ، صوبائی سپیکرز و ڈپٹی اسپیکرز، اراکین صوبائی اسمبلیاں، وفاقی و سوبائی وزرائ، وزراء مملکت، مشیران، معاونین خصوصی، اٹارنی جنرلز پراسیکیوٹر جنرلز، ججز، تمام سرکاری ملازمین وفاقی و صوبائی (سول اور ملٹری) کنٹرولڈ کارپوریشنز کے ملازمین، خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کے ملازمین شامل ہیں۔
بنیادی طور پر جب وزیراعظم،صدر یا سرکاری وفود غیر ملکی دورے پر جاتے ہیں تو انہیں وہاں تحفے مل سکتے ہیں۔ یہ تحائف اس ملک کے سفارت خانے میں تعینات وزارت خارجہ کے حکام کے ذریعہ ریکارڈ میں لائے جاتے ہیں جہاں انکا دورہ ہوتا ہے۔
اسی طرح تمام وزرائ، سفارت کاروں اور فوجی حکام کے لیے بھی یہی عمل ہے۔لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جہاں چیزیں مشکل اور پیچدہ ہوجاتی ہیں۔
تحائف کی قیمتوں سے قطع نظر پبلک آفس ہولڈرز کو موصول ہونے والے تمام تحائف کی اطلاع کابینہ ڈویژن کو دیتے ہوئے توشہ خانہ میں فوری طور پر جمع کرایا جاتا ہے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا ہو اور اس بات کی جانچ پڑتال کرنے پر معلوم ہو کہ کسی فرد نے تحفے کی وصولی کی اطلاع نہیں دی تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔
اگر وزارت خارجہ کے پروٹوکول کا کوئی نمائندہ کسی دورے پر آنے والے یا غیر ملکی دورے پر جانے والے وفد میں شامل کیا گیا ہو تو یہ اس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ پبلک آفس ہولڈرز کے ناموں کے ساتھ موصول ہونے والے تحائف کی فہرست کابینہ ڈویژن کو فراہم کرے۔
اگر وفود یا آنے والے معززین جن کے ساتھ چیف آف پروٹوکول یا ان کا نمائندہ منسلک نہیں ہے تو دورے کی سرپرستی اور میزبانی کرنے والی وزارت موصول ہونے والے تحائف اور عوامی عہدے داروں کی فہرست کابینہ ڈویژن کو فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
جبکہ پاکستانی وفود کے بیرون ملک دوروں کی صورت میں متعلقہ ملک میں سفیر پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تحائف کی وصولی کی اطلاع پبلک آفس ہولڈرز کے نام کے ساتھ کابینہ ڈویژن کو وزارت خارجہ کے توسط سے دیں۔
درجہ چہارم کے سرکاری ملازمین کے علاوہ وفاقی یا صوبائی سرکاری ملازمین کو آنے والے معززین کی طرف سے نقد انعامات کو وصول کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے تحائف کولینے سے شائستگی سے انکار کیا جا سکتا ہے۔
تاہم اگر آنے والے شخص کو انکار کرنا ممکن نہ ہو تو تو یہ رقم فوری طور پر سرکاری خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے اور ٹریژری چالان کی کاپی توشہ خانہ انچارج کابینہ ڈویژن کو فراہم کی جاتی ہے۔
تحائف کی قیمت کا اندازہ کیسے لگایاجاتا ہے؟
(1) کابینہ ڈویژن ایف بی آر میں سرکاری شعبے کے ماہرین سے تحائف کی قیمت کا تعین کراتا ہے۔ اس کے علاوہ کابینہ ڈویژن اپنے پینل پر منظور شدہ پرائیویٹ تخمینہ لگانے والی فرموں یا اداروں کے ذریعہ بھی ان تحائف کی قیمت تعین کرتی ہے۔
(2) اگرمندجہ بالا دونوں ذرائع سے تحفہ کی لگائی گئی قیمت میں فرق 25% سے کم ہے تو اس قیمت قبول کر لیا جاتا ہے جو ذیادہ ہو۔ اگر ان قیمتوں میں فرق 25% یا اس سے زیادہ ہے تو سیکریٹری کابینہ کے ذریعہ تشکیل دی جانے والی ایک مخصوص کمیٹی اس کی حتمی قیمت کا فیصلہ کرتی ہے۔
(3)اس کے علاوہ قیمت طے کرتے وقت گفٹ آئٹمز میں کام کرنے والی معروف فرموں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔
4) کابینہ ڈویژن کے اس کے منظور شدہ پینل کو ہر تحفے کی تخمینہ لاگت کا 2 فیصد یا دو ہزار روپے، جو بھی کم ہو معاوضہ ادا کیا جاتا ہے ۔
دستاویز میں واضح طور پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ تمام تحائف کی قیمتوں سے قطع نظر ان کی وصولی کی اطلاع کابینہ ڈویژن کو دی جائے اور کابینہ ڈویژن کو جمع کرایا جائے۔
ان تحائف کا کیا ہوگا؟
اگر کوئی تحفہ 30,000 روپے یا اس سے کم کا ہے تو اسے وصول کنندہ بغیر کسی ادائیگی کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ لیکن یقیناً اس بات کا امکان موجود ہے کہ کوئی شخص تحائف کو اپنے رکھنے کے لیے ادائیگی سے بچنے کی کوشش کرے۔
اس صورت میں توشہ خانہ اوپر بیان کیے گئے طریقہ کار کے تحت ان تحائف کی قیمتوں کا اندازہ لگاتا ہے۔ البتہ ان تحائف کو حاسل کرنے کا پہلا حق ان کو حاصل ہے جنہیں وہ تحائف ملے ہوں۔ یہ بات تحفے کی قسم پر بھی منحصر ہے کہ اسے یا تو نیلام کیا جا سکتا ہے یا سرکاری استعمال کے لیے رکھا جا سکتا ہے۔
جو تحائف نمائش کے لیے موزوں ہوتے ہیں انہیں سرکاری عمارتوں، اداروں، سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کی سرکاری رہائش گاہوں میں ڈسپلے کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر صدر کو تحفے میں دیے گئے لگژری قالین صدارتی رہائش گا ہ کے استقبالیہ کمرے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح، پینٹنگز یا دیگر آرٹ ورک کو بھی عجائب گھروں یا دیگر مناسب سرکاری عمارتوں میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ قدیم اشیائ، نوادرات اور گاڑیوں کو وصول کنندگان کوہرگزخریدنے کی اجازت نہیں ہے۔
تحفے کے طور پر ملنے والی گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرائی جاتی ہیں تاکہ انہیں کابینہ ڈویژن یا ٹرانسپورٹ پروٹوکول پول میں منتقل کیا جا سکے۔ جو تحائف نمائش کے لیے موزوں نہیں ہیں ان کی نیلامی کی جاتی ہے۔ نیلامی کا پہلا حق سرکاری ملازمین اور فوجی حکام کو جاتا ہے اور اس کے بعد عام لوگوں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں توشہ خانہ کمیٹی ان اشیاء کی نیلامی کی بھی سفارش کرتی ہے جن کی قدر میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی کا خدشہ ہو۔ فروخت سے حاصل ہونے والی رقم حکومت کے کھاتے میں جمع کرائی جاتی ہے۔
قوانین میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام تحائف کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے اور ان پر خصوصی توجہ دی جائے جو تاریخی اہمیت کے حامل ہوں اور جن کی قدر میں کوئی کمی کا خدشہ نہ ہو۔
توشہ خانہ کے ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے لیے، دو رجسٹر ہوتے ہیں، ڈپازٹ رجسٹر اور ڈسپوزل رجسٹر۔ڈپازٹ رجسٹر جامع ہو تا ہے کیونکہ اس میں تمام تحائف کی قیمتیں اور مختصر تفصیل درج کی جاتی ہے۔رجسٹرز میں ہر اندراج کے خانے میں کمیٹی کے چیئرمین کے سیکرٹری کے دستخط ہوتے ہیں۔
ہر کیلنڈر سال کی پہلی سہ ماہی میں کابینہ ڈویژن کے مجاز افسر کے ذریعہ ان تحائف کی سالانہ تصدیق کی جا تی ہے اور یہ توشہ خانہ رجسٹری اور متعلقہ دفاتر یا اداروں کے اسٹاک رجسٹروں میں مناسب طریقے سے اندراج کیے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ 1974 سے توشہ خانہ کے ا ن تحائف کو صرف 15% ادئیگی کے بعد حاصل کیا جا سکتا تھا جنھیں مختلف ادوار میں تبدیل کیا جاتا رہا، تاہم 2013 کے بعد سے انہیں 20% ادائیگی کے بعد اپنے پاس رکھا جا سکتا تھا لیکن عمران خان کی حکومت نے اس میں ترامیم کرتے ہوئے اسے 50% کر دیا۔
اس وقت سابق وزیر اعظم عمران خان ایک طوفان کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر توشہ خانہ کی اشیاء فروخت کرنے کے بعد عمران خان کی آمدنی میں دوگنا اضافہ ہو اہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت کے ابتدائی چند ماہ کے دوران صرف 20 ملین روپے میں تقریبا 100 ملین روپے مالیت کے تحائف اپنے پاس رکھے۔
پاکستان میں توشہ خانہ پر حکمرانی تاریخی طور پر تنازعات کا شکار رہی ہے۔ اگرچہ اس وقت عمران خان ان الزامات کی زد میں ہیں درحقیقت وہ واحد پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں جنہیں اس طرح کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ سابق وزرائے اعظم،صدور، آرمی کے سربراہان،سول و ملٹری بیرو کریٹس و دیگر اعلی عہدداران پر بھی توشہ خانہ سے متعلق بے ضابطگیوں کے الزامات ہیں۔
اور شاید ہی کسی سابق وزیر اعظم، صدر، فوجی حکمران اور اہم عہدیداروں نے ملنے والے اپنے تمام قیمتی تحائف کی تفصیلات بتائی ہو اور انہیں توشہ خانہ میں جمع کرایا ہو۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس وقت اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ کے مبینہ غلط استعمال کے ریفرنسز زیر سماعت ہیں۔
توشہ کو خانہ کیس میں حالیہ دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے گھر لے جانے والوں سے تحائف وصول کرنے کے بارے کہا ہے کہ اگر جنرل مشرف، آصف علی زرداری، نواز شریف، شوکت عزیز اور دیگر سمیت سابق حکمرانوں کی جانب سے رکھے گئے توشہ خانہ تحائف سے متعلق معلومات کو عام کیا جائے تو یہ عمران خان کے حوالے سے پہلے سامنے آنے والی معلومات سے کہیں زیادہ شرمناک ہوگا۔
سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو ملنے والے تحائف کی کل تعداد 1126 سے زائد ہے جو وہ اپنے ساتھ لندن لے گئے۔ انہوں نے تحائف اپنے پاس رکھنے کے لیے صرف 29 لاکھ روپے ادا کیے جن کی اس وقت مالیت 2 کروڑ 60 لاکھ روپے تھی۔جبکہ پرویز مشرف نے تین کروڑ 30 لاکھ روپے مالیت کے تحائف اپنے پاس رکھنے کے لیے محض 51 لاکھ روپے ادا کیے۔
تاہم یہ عمل صرف ماضی کی بات نہیں ہے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران میزبانوں کی طرف سے دیئے گئے تحائف کو برقرار رکھا۔
زرداری نے 62 ملین روپے کے تحائف اپنے پاس رکھنے کے لئے صرف 9.3 ملین روپے ادا کیے۔ گیلانی سے متعلق اعداد و شمار کابینہ ڈویژن کے پاس دستیاب نہیں ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ انہوں نے وزیر اعظم کے عہدے پر پہلے دو سالوں کے دوران ملنے والے تحائف کو رکھنے کے لئے کتنی رقم ادا کی۔
جدول میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں توشہ خانہ کے تحائف صرف 415 ڈالر،برطانیہ 140پاونڈر اور ہندوستان 5000روپے کی مالیت تک کے تحائف حکمران ودیگر افراد رکھ سکتے ہیں اور اس سے زیادہ قیمت کے تحائف مارکیٹ ویلیو کے عین مطابق 100%ادائیگی کے بعد حاصل کیے جا سکتے ہیں جبکہ پاکستان جیسے غریب ترقی پذیر اور پسماندہ ملک میں یہ انتہائی قیمتی تحائف صرف چند ہزار روپوں کے عوض یہ لوگ اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔
یہ نہایت حیرت و افسوس کا مقام ہے کہ ہر دور میں ملک کے مقتدر طبقہ نے کبھی بھی توشہ خانہ کے قوانین پر غور وخوض نہیں کیا،کہ وہ انتہائی قیمتی چیزیں تقریبا مفت بٹور رہے ہیں اور حیف یہ روش ان تمام ارباب بااختیار میں موروثی طور پر منتقل ہوتی رہی ہے۔
قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ توشہ خانہ کے ان تحائف کواگر نیلام کرنا ضروری ہی تھا تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ملک و قوم کے بنیادی انتظامی ڈھانچے میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ضرورت مند طلبہ کے لئے اعلی تعلیمی وظائف کیلیے ان کو تصرف میں لایا جا سکتاتھا، ملک کے اندرونی وبیرونی قرضوں کو ایک حد تک اتارا جا سکتا تھا۔
قطع نظر اس سے کہ کن ارباب اختیار، بااثر سرکردہ شخصیات نے کب کب اس سے فائدہ اُٹھایا، ہم یہاں اپنے قارئین کے لئے توشہ خانہ کے حوالے ایک معلوماتی تحریر پیش کر رہے ہیں جس میں توشہ خانہ کی تاریخ، قواعد و ضوابط اور دیگراہم معاملات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
توشہ خانہ فارسی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا لفظی ترجمہ '' اسٹور ہاؤس یعنی خزانے کاگھر '' ہے۔ پرانے زمانے میں توشہ خانہ درحقیقت ایک عمارت تھی جہاں عظیم خزانے رکھے جاتے تھے۔ جبکہ مغل دور حکمرانی میں توشہ خانہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں شہزادے تحائف اور اعزاز ات کو ذخیرہ کرتے تھے۔
پاکستان میں توشہ خانہ 1974 میں قائم کیا گیا جو کہ کابینہ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول کے تحت ایک محکمہ ہے، لیکن اس سے قبل یہ وزارت خارجہ کے ماتحت کام کرتا تھا۔
اس کا کام جذبہ خیر سگالی کے طور پر دیگر حکومتوں، ریاستوں اور غیر ملکی سفارت کاروں معززین اور سربراہوں کی طرف سے حکمرانوں، ارکان پارلیمنٹ، بیوروکریٹس اور دیگر حکام کو دیے گئے قیمتی تحائف کو رکھنا، ان کا ریکارڈ مرتب کرنا، دیکھ بھال کرنا اور ان کی قیمتوں کا تعین کرنا ہے۔
اس کے علاوہ اس عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے اور ان تحائف کی خریداری میں لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنانا ہے ۔
ان تحائف میں میں بلٹ پروف گاڑیوں سے لے کر سونے کی جڑاو یادگاریں، مہنگی پینٹنگز گھڑیاں، زیورات، قالین تلواریں, قیمتی بندقویں اور منفرد نوادرات تک انتہائی قیمتی سامان موجود ہو سکتا ہے۔
توشہ خانہ کا وجود عالمی سفارت کاری میں ایک انتہائی اہم سر گرمی کی نمائندگی کرتا ہے۔ جب بھی دو ممالک کے رہنما یا وفود ملتے ہیں تو تحائف کا تبادلہ کرنے کا رواج ہے۔
تاہم زیادہ تر جمہوری ریاستوں میں یہ تحائف ریاست کی ملکیت تصور کیے جاتے ہیں اور انہیں ممالک کے نمائنیدہ افراد وصول کرتے ہیں۔
نتیجے کے طور پر وہ یا تو عجائب گھروں، والٹس، ریاستی عمارتوں میں سجائے جاتے ہیں یا نیلام کردیئے جاتے ہیں۔ جب بھی یہ غیر ملکی معززین ان جگہوں کا دورہ کرتے ہیں تو وہ دیے گئے تحائف کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔
توشہ خانہ کیسے کام کرتا ہے؟
موجودہ توشہ خانہ سے متعلق قواعد و ضوابط کا ترمیمی خاکہ ''توشہ خانہ (منیجمنٹ اینڈ ریگولیشن) ایکٹ 2022کے عنوان سے سرکاری دستاویز میں بیان کیا گیا ہے۔
اس دستاویز کے مطابق توشہ خان کی تعریف ''ذخیرہ'' یا ''اسٹور'' کے طور پر کی گئی ہے جو پبلک آفس ہولڈرز کو ملنے والے تحائف کو ''رکھنے، محفوظ کرنے اور ذخیرہ کرنے'' کا مقصد پورا کرتی ہے۔
توشہ خانہ (مینجمنٹ اینڈ ریگولیشن) ایکٹ، 2022 کا اطلاق پورے ملک اور تمام پبلک آفس ہولڈرز پر ہے۔
پبلک آفس ہولڈرز میں صدر، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی، اراکین پارلیمنٹ، صوبائی سپیکرز و ڈپٹی اسپیکرز، اراکین صوبائی اسمبلیاں، وفاقی و سوبائی وزرائ، وزراء مملکت، مشیران، معاونین خصوصی، اٹارنی جنرلز پراسیکیوٹر جنرلز، ججز، تمام سرکاری ملازمین وفاقی و صوبائی (سول اور ملٹری) کنٹرولڈ کارپوریشنز کے ملازمین، خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کے ملازمین شامل ہیں۔
بنیادی طور پر جب وزیراعظم،صدر یا سرکاری وفود غیر ملکی دورے پر جاتے ہیں تو انہیں وہاں تحفے مل سکتے ہیں۔ یہ تحائف اس ملک کے سفارت خانے میں تعینات وزارت خارجہ کے حکام کے ذریعہ ریکارڈ میں لائے جاتے ہیں جہاں انکا دورہ ہوتا ہے۔
اسی طرح تمام وزرائ، سفارت کاروں اور فوجی حکام کے لیے بھی یہی عمل ہے۔لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جہاں چیزیں مشکل اور پیچدہ ہوجاتی ہیں۔
تحائف کی قیمتوں سے قطع نظر پبلک آفس ہولڈرز کو موصول ہونے والے تمام تحائف کی اطلاع کابینہ ڈویژن کو دیتے ہوئے توشہ خانہ میں فوری طور پر جمع کرایا جاتا ہے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا ہو اور اس بات کی جانچ پڑتال کرنے پر معلوم ہو کہ کسی فرد نے تحفے کی وصولی کی اطلاع نہیں دی تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے ۔
اگر وزارت خارجہ کے پروٹوکول کا کوئی نمائندہ کسی دورے پر آنے والے یا غیر ملکی دورے پر جانے والے وفد میں شامل کیا گیا ہو تو یہ اس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ پبلک آفس ہولڈرز کے ناموں کے ساتھ موصول ہونے والے تحائف کی فہرست کابینہ ڈویژن کو فراہم کرے۔
اگر وفود یا آنے والے معززین جن کے ساتھ چیف آف پروٹوکول یا ان کا نمائندہ منسلک نہیں ہے تو دورے کی سرپرستی اور میزبانی کرنے والی وزارت موصول ہونے والے تحائف اور عوامی عہدے داروں کی فہرست کابینہ ڈویژن کو فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
جبکہ پاکستانی وفود کے بیرون ملک دوروں کی صورت میں متعلقہ ملک میں سفیر پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تحائف کی وصولی کی اطلاع پبلک آفس ہولڈرز کے نام کے ساتھ کابینہ ڈویژن کو وزارت خارجہ کے توسط سے دیں۔
درجہ چہارم کے سرکاری ملازمین کے علاوہ وفاقی یا صوبائی سرکاری ملازمین کو آنے والے معززین کی طرف سے نقد انعامات کو وصول کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے تحائف کولینے سے شائستگی سے انکار کیا جا سکتا ہے۔
تاہم اگر آنے والے شخص کو انکار کرنا ممکن نہ ہو تو تو یہ رقم فوری طور پر سرکاری خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے اور ٹریژری چالان کی کاپی توشہ خانہ انچارج کابینہ ڈویژن کو فراہم کی جاتی ہے۔
تحائف کی قیمت کا اندازہ کیسے لگایاجاتا ہے؟
(1) کابینہ ڈویژن ایف بی آر میں سرکاری شعبے کے ماہرین سے تحائف کی قیمت کا تعین کراتا ہے۔ اس کے علاوہ کابینہ ڈویژن اپنے پینل پر منظور شدہ پرائیویٹ تخمینہ لگانے والی فرموں یا اداروں کے ذریعہ بھی ان تحائف کی قیمت تعین کرتی ہے۔
(2) اگرمندجہ بالا دونوں ذرائع سے تحفہ کی لگائی گئی قیمت میں فرق 25% سے کم ہے تو اس قیمت قبول کر لیا جاتا ہے جو ذیادہ ہو۔ اگر ان قیمتوں میں فرق 25% یا اس سے زیادہ ہے تو سیکریٹری کابینہ کے ذریعہ تشکیل دی جانے والی ایک مخصوص کمیٹی اس کی حتمی قیمت کا فیصلہ کرتی ہے۔
(3)اس کے علاوہ قیمت طے کرتے وقت گفٹ آئٹمز میں کام کرنے والی معروف فرموں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔
4) کابینہ ڈویژن کے اس کے منظور شدہ پینل کو ہر تحفے کی تخمینہ لاگت کا 2 فیصد یا دو ہزار روپے، جو بھی کم ہو معاوضہ ادا کیا جاتا ہے ۔
دستاویز میں واضح طور پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ تمام تحائف کی قیمتوں سے قطع نظر ان کی وصولی کی اطلاع کابینہ ڈویژن کو دی جائے اور کابینہ ڈویژن کو جمع کرایا جائے۔
ان تحائف کا کیا ہوگا؟
اگر کوئی تحفہ 30,000 روپے یا اس سے کم کا ہے تو اسے وصول کنندہ بغیر کسی ادائیگی کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ لیکن یقیناً اس بات کا امکان موجود ہے کہ کوئی شخص تحائف کو اپنے رکھنے کے لیے ادائیگی سے بچنے کی کوشش کرے۔
اس صورت میں توشہ خانہ اوپر بیان کیے گئے طریقہ کار کے تحت ان تحائف کی قیمتوں کا اندازہ لگاتا ہے۔ البتہ ان تحائف کو حاسل کرنے کا پہلا حق ان کو حاصل ہے جنہیں وہ تحائف ملے ہوں۔ یہ بات تحفے کی قسم پر بھی منحصر ہے کہ اسے یا تو نیلام کیا جا سکتا ہے یا سرکاری استعمال کے لیے رکھا جا سکتا ہے۔
جو تحائف نمائش کے لیے موزوں ہوتے ہیں انہیں سرکاری عمارتوں، اداروں، سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کی سرکاری رہائش گاہوں میں ڈسپلے کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر صدر کو تحفے میں دیے گئے لگژری قالین صدارتی رہائش گا ہ کے استقبالیہ کمرے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح، پینٹنگز یا دیگر آرٹ ورک کو بھی عجائب گھروں یا دیگر مناسب سرکاری عمارتوں میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ قدیم اشیائ، نوادرات اور گاڑیوں کو وصول کنندگان کوہرگزخریدنے کی اجازت نہیں ہے۔
تحفے کے طور پر ملنے والی گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرائی جاتی ہیں تاکہ انہیں کابینہ ڈویژن یا ٹرانسپورٹ پروٹوکول پول میں منتقل کیا جا سکے۔ جو تحائف نمائش کے لیے موزوں نہیں ہیں ان کی نیلامی کی جاتی ہے۔ نیلامی کا پہلا حق سرکاری ملازمین اور فوجی حکام کو جاتا ہے اور اس کے بعد عام لوگوں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں توشہ خانہ کمیٹی ان اشیاء کی نیلامی کی بھی سفارش کرتی ہے جن کی قدر میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی کا خدشہ ہو۔ فروخت سے حاصل ہونے والی رقم حکومت کے کھاتے میں جمع کرائی جاتی ہے۔
قوانین میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام تحائف کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے اور ان پر خصوصی توجہ دی جائے جو تاریخی اہمیت کے حامل ہوں اور جن کی قدر میں کوئی کمی کا خدشہ نہ ہو۔
توشہ خانہ کے ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے لیے، دو رجسٹر ہوتے ہیں، ڈپازٹ رجسٹر اور ڈسپوزل رجسٹر۔ڈپازٹ رجسٹر جامع ہو تا ہے کیونکہ اس میں تمام تحائف کی قیمتیں اور مختصر تفصیل درج کی جاتی ہے۔رجسٹرز میں ہر اندراج کے خانے میں کمیٹی کے چیئرمین کے سیکرٹری کے دستخط ہوتے ہیں۔
ہر کیلنڈر سال کی پہلی سہ ماہی میں کابینہ ڈویژن کے مجاز افسر کے ذریعہ ان تحائف کی سالانہ تصدیق کی جا تی ہے اور یہ توشہ خانہ رجسٹری اور متعلقہ دفاتر یا اداروں کے اسٹاک رجسٹروں میں مناسب طریقے سے اندراج کیے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ 1974 سے توشہ خانہ کے ا ن تحائف کو صرف 15% ادئیگی کے بعد حاصل کیا جا سکتا تھا جنھیں مختلف ادوار میں تبدیل کیا جاتا رہا، تاہم 2013 کے بعد سے انہیں 20% ادائیگی کے بعد اپنے پاس رکھا جا سکتا تھا لیکن عمران خان کی حکومت نے اس میں ترامیم کرتے ہوئے اسے 50% کر دیا۔
اس وقت سابق وزیر اعظم عمران خان ایک طوفان کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر توشہ خانہ کی اشیاء فروخت کرنے کے بعد عمران خان کی آمدنی میں دوگنا اضافہ ہو اہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت کے ابتدائی چند ماہ کے دوران صرف 20 ملین روپے میں تقریبا 100 ملین روپے مالیت کے تحائف اپنے پاس رکھے۔
پاکستان میں توشہ خانہ پر حکمرانی تاریخی طور پر تنازعات کا شکار رہی ہے۔ اگرچہ اس وقت عمران خان ان الزامات کی زد میں ہیں درحقیقت وہ واحد پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں جنہیں اس طرح کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ سابق وزرائے اعظم،صدور، آرمی کے سربراہان،سول و ملٹری بیرو کریٹس و دیگر اعلی عہدداران پر بھی توشہ خانہ سے متعلق بے ضابطگیوں کے الزامات ہیں۔
اور شاید ہی کسی سابق وزیر اعظم، صدر، فوجی حکمران اور اہم عہدیداروں نے ملنے والے اپنے تمام قیمتی تحائف کی تفصیلات بتائی ہو اور انہیں توشہ خانہ میں جمع کرایا ہو۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس وقت اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ کے مبینہ غلط استعمال کے ریفرنسز زیر سماعت ہیں۔
توشہ کو خانہ کیس میں حالیہ دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے گھر لے جانے والوں سے تحائف وصول کرنے کے بارے کہا ہے کہ اگر جنرل مشرف، آصف علی زرداری، نواز شریف، شوکت عزیز اور دیگر سمیت سابق حکمرانوں کی جانب سے رکھے گئے توشہ خانہ تحائف سے متعلق معلومات کو عام کیا جائے تو یہ عمران خان کے حوالے سے پہلے سامنے آنے والی معلومات سے کہیں زیادہ شرمناک ہوگا۔
سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو ملنے والے تحائف کی کل تعداد 1126 سے زائد ہے جو وہ اپنے ساتھ لندن لے گئے۔ انہوں نے تحائف اپنے پاس رکھنے کے لیے صرف 29 لاکھ روپے ادا کیے جن کی اس وقت مالیت 2 کروڑ 60 لاکھ روپے تھی۔جبکہ پرویز مشرف نے تین کروڑ 30 لاکھ روپے مالیت کے تحائف اپنے پاس رکھنے کے لیے محض 51 لاکھ روپے ادا کیے۔
تاہم یہ عمل صرف ماضی کی بات نہیں ہے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران میزبانوں کی طرف سے دیئے گئے تحائف کو برقرار رکھا۔
زرداری نے 62 ملین روپے کے تحائف اپنے پاس رکھنے کے لئے صرف 9.3 ملین روپے ادا کیے۔ گیلانی سے متعلق اعداد و شمار کابینہ ڈویژن کے پاس دستیاب نہیں ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ انہوں نے وزیر اعظم کے عہدے پر پہلے دو سالوں کے دوران ملنے والے تحائف کو رکھنے کے لئے کتنی رقم ادا کی۔
جدول میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں توشہ خانہ کے تحائف صرف 415 ڈالر،برطانیہ 140پاونڈر اور ہندوستان 5000روپے کی مالیت تک کے تحائف حکمران ودیگر افراد رکھ سکتے ہیں اور اس سے زیادہ قیمت کے تحائف مارکیٹ ویلیو کے عین مطابق 100%ادائیگی کے بعد حاصل کیے جا سکتے ہیں جبکہ پاکستان جیسے غریب ترقی پذیر اور پسماندہ ملک میں یہ انتہائی قیمتی تحائف صرف چند ہزار روپوں کے عوض یہ لوگ اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔
یہ نہایت حیرت و افسوس کا مقام ہے کہ ہر دور میں ملک کے مقتدر طبقہ نے کبھی بھی توشہ خانہ کے قوانین پر غور وخوض نہیں کیا،کہ وہ انتہائی قیمتی چیزیں تقریبا مفت بٹور رہے ہیں اور حیف یہ روش ان تمام ارباب بااختیار میں موروثی طور پر منتقل ہوتی رہی ہے۔
قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ توشہ خانہ کے ان تحائف کواگر نیلام کرنا ضروری ہی تھا تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ملک و قوم کے بنیادی انتظامی ڈھانچے میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ضرورت مند طلبہ کے لئے اعلی تعلیمی وظائف کیلیے ان کو تصرف میں لایا جا سکتاتھا، ملک کے اندرونی وبیرونی قرضوں کو ایک حد تک اتارا جا سکتا تھا۔