پولیس کا اہم شعبہ نظر انداز کیوں
ہماری پولیس آج بھی پچاس سال پرانے روایتی انداز میں کام کر رہی ہے جب شریف لوگ اس نام سے بھی گھبراتے تھے
گیارہ اگست 1985 میں ڈھوک کھبہ میں ہونے والی واردات کا مقدمہ تھانہ وارث خان میں درج ہوا۔ یہ مقدمہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے دل خراش، سنسنی خیز اور کسی حد تک عجیب بھی تھا۔ اس مقدمے کا ملزم گلاب خان تھا جو ایبٹ آباد کا رہائشی تھا۔ اس پر 9 افراد کے قتل کا اور تین افراد کو زخمی کرنے کا مقدمہ تھا۔
دراصل یہ تمام قتل کے ہی مقدمات تھے لیکن ان میں سے صرف ایک خوش نصیب بچ سکا تھا۔ باقی افراد بعد میں فوت ہوگئے تھے۔ اس کا چالان عدالت میں 1988 اپریل میں پیش کیا گیا تھا اور آخر کار گلاب خان کو 1996 جولائی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جملہ مقدمات سے بری کردیا تھا۔
گلاب خان چھوٹی موٹی چوری کی وارداتیں کیا کرتا تھا۔ وہ گرفتار بھی ہوا، اس نے اپنی وارداتوں میں ہتھوڑے کو اسلحے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا اور یوں اس نے اپنی کارروائیوں کو بقول گلاب خان خون سے رنگنا شروع کیا اور اس اکیلے انسان نے اسپائیڈر مین کی مانند گھر کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو کر گیارہ افراد کا خون کردیا، یہ ایک عادی چور تھا۔
ایک ایسا شخص جس کو چوری کرنے سے غرض تھی اور پھر اس کے ہاتھ سے گیارہ خون ہوگئے، گو ان میں سے ایک بچ گیا تھا ورنہ اس نے تو پورے گیارہ کے گیارہ پار لگانے تھے۔ پرانے زمانے میں سنا جاتا تھا کہ چور صرف لنگوٹ پہن کر اور پورے جسم پر تیل لگا کر واردات کرنے جاتے تھے، تیل لگانے کی وجہ یہ تھی کہ اگر دوران واردات وہ پکڑا بھی جائے تو تیل کے باعث لوگوں کے ہاتھ سے پھسل جائے گا۔ گلاب خان کا یہ روایتی انداز بھی یہ ظاہر کر رہا تھا جو اس وقت رات کو ٹیکسلا کے ایک گھر کی چھت پر موجود تھا۔
خاتون خانہ کو شک تھا کیونکہ اسے آہٹ محسوس ہوئی تھی لیکن اس کے جھانکنے پر میاں بیوی نے شور مچا دیا۔ لوگوں نے اس کا پیچھا کیا، کاشت کاروں کے اس علاقے میں لوگ جلدی اٹھ جاتے تھے لہٰذا گلاب خان کا فرار ہونا ممکن نہ رہا، وہ پکڑا گیا اور زخمی ہو گیا۔ اسپتال میں اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے بچنے کی امید کم ہے تو اس نے ایک بڑے پولیس افسر کے سامنے انکشاف کرنے کی خواہش کی۔
بہرحال اعلیٰ حکام کو اطلاع دی گئی اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے ٹیکسلا پہنچ کر گلاب خان کا بیان ریکارڈ کرایا گیا۔ اس بارے میں لوگوں کی مختلف آرا تھیں، مثلاً یہ کہ ایک عام سا انسان کس طرح گیارہ افراد کے قتل کا مرتکب ہو سکتا ہے اور وہ اس گھر میں کیسے اور کس نیت سے داخل ہوا تھا، کیا چوری کی واردات کی نیت سے یا قتل کے ارادے سے؟
یہ ایک عجیب سی واردات تھی جس کے بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہمارے ملک میں پولیس کے لیے بہت سی مہمات کو سر کرنا اس لیے ہی ضروری نہیں کہ ان کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہے بلکہ انھیں اپنی نوکری بھی بچانا ضروری ہے اور اسے بچانے کے لیے وہ اسی طرح سے کام کرتے ہیں جس طرح دیگر سرکاری ملازمین۔ پھر پولیس پر اس قدر کے الزامات کیوں؟ تو اس کا جواب بہت مشکل ہے۔گلاب خان کا کیس ایک مثال ہے۔ اس وقت لوگوں میں اور میڈیا میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ گلاب خان ایک ڈمی ہے۔
ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے ایسے قتل کے اعتراف کیوں کیا۔ ایک جانب ہم پولیس پر بہت سارے اعتراضات کرتے رہتے ہیں لیکن دوسری جانب اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ ہمارے یہاں اب بھی دقیانوسی طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یعنی ایک مجرم جو گرفتاری میں آگیا ہے، چھترول لگا کر وہ بھی اگلوا لیا جائے جو اس نے کیا ہی نہیں۔ ایک عام پولیس والا اتنا ہی سادہ لوح ہے جتنا ایک عام شہری۔ لیکن مجرم ہمیشہ شاطر ہے اور خاص کر عادی مجرم۔
ہمارے یہاں اب بھی تفتیش کے لیے روایتی پرانے طریقے ہیں لیکن اب یہ شعور بیدار ہو رہا ہے کہ پولیس کے محکمے میں تیز تر نتیجہ خیز نتائج کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں ضلع شہید بے نظیر آباد، نوشہرو فیروز اور سانگھڑ کے تفتیشی افسران اور ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ نیاز احمد صدیقی نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس شہید بے نظیر آباد محمد یونس چانڈیو کی صدارت میں ایک آگاہی سیمینار میں اس اہم سلسلے پر روشنی ڈالی۔
اس سیمینار میں بیرسٹر شاہدہ حسن اور کنسلٹنٹ فارنزک فوزیہ طارق نے بھی خطاب کیا۔یہ سمینار اس حوالے سے بہت اہم تھا جس میں تفتیش کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور ایویڈنس تفتیش فارنزک اور جائے وقوعہ کے متعلق آگاہی بھی دی گئی۔
ریٹائرڈ آئی جی سندھ نیاز احمد صدیقی نے تفتیش کے طریقوں میں جہاں ٹیکنالوجی اور فارنزک جانچ پر زور دیا وہیں بہت تلخ اور سچی باتیں بھی کہیں۔ ایف آئی آر درج کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جہاں عوام میں اس کا درج کرانے کا شعور نہیں ہے، وہیں پولیس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کرنے کے لیے نت نئے بہانے گھڑے جاتے ہیں، رشوت طلب کی جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں ایف آئی آر درج ہی نہیں کراتے اور جب ایف آئی آر درج نہیں کرائی جاتی تو ظاہر ہے کہ وہ علاقہ کرائم فری قرار دے دیا جاتا ہے جب کہ اس علاقے میں جرم کی شرح دوسرے علاقوں سے کم نہیں ہوتی۔
صدیقی صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ جرم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا عوام ایف آئی آر ضرور درج کرائیں۔ آج ہم پولیس پر بہت سے الزامات لگا کر اپنا دل جلاتے رہتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ اصل وجہ وہی ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے تھی اور آج بھی وہی ہے۔ کبھی زیادہ کبھی کم۔ انصاف کے حصول کے لیے سرگرم عوام چکر پہ چکر لگاتے رہتے ہیں لیکن جس اصل حقیقت سے ہم سب نظریں چراتے ہیں وہ بدرجہ اتم اپنی جگہ موجود ہے۔
قیام پاکستان سے قبل انگریز حکمرانی کے دور میں پولیس کی کارکردگی اور غلامی کا طوق اتار دینے کے بعد کی کارکردگی میں کیا فرق ہے اس کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہماری پولیس آج بھی پچاس سال پرانے روایتی انداز میں کام کر رہی ہے جب شریف لوگ اس نام سے بھی گھبراتے تھے۔ چاقو باز بہت بڑے غنڈے، بدمعاش سمجھے جاتے تھے۔ بلم باز بڑے دھاک دار کہلاتے تھے۔ آج جرائم پیشہ جدید اسلحہ، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں لیکن ہماری پولیس۔۔۔!
بہرحال ہر حوالے سے یہ اہم ادارہ توجہ کا مستحق ہے۔ جدید سائنسی خطوط پر تفتیش کے طریقے اختیار کرنا بہت ضروری ہے تو ذہنی اور اخلاقی شعور کی اصلاح کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام اور پولیس کے درمیان خوف کے بجائے اعتماد کی فضا قائم ہو۔ دراصل مجرمانہ ذہنیت والے خوف کی فضا کو اسی لیے قائم رکھنے کے جتن کرتے ہیں کہ ان کا اپنا دھندا چلتا رہے اور گلاب خان کی طرح کی کہانی چلتی رہے۔ ہر دور میں کسی نہ کسی روپ میں۔
دراصل یہ تمام قتل کے ہی مقدمات تھے لیکن ان میں سے صرف ایک خوش نصیب بچ سکا تھا۔ باقی افراد بعد میں فوت ہوگئے تھے۔ اس کا چالان عدالت میں 1988 اپریل میں پیش کیا گیا تھا اور آخر کار گلاب خان کو 1996 جولائی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جملہ مقدمات سے بری کردیا تھا۔
گلاب خان چھوٹی موٹی چوری کی وارداتیں کیا کرتا تھا۔ وہ گرفتار بھی ہوا، اس نے اپنی وارداتوں میں ہتھوڑے کو اسلحے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا اور یوں اس نے اپنی کارروائیوں کو بقول گلاب خان خون سے رنگنا شروع کیا اور اس اکیلے انسان نے اسپائیڈر مین کی مانند گھر کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو کر گیارہ افراد کا خون کردیا، یہ ایک عادی چور تھا۔
ایک ایسا شخص جس کو چوری کرنے سے غرض تھی اور پھر اس کے ہاتھ سے گیارہ خون ہوگئے، گو ان میں سے ایک بچ گیا تھا ورنہ اس نے تو پورے گیارہ کے گیارہ پار لگانے تھے۔ پرانے زمانے میں سنا جاتا تھا کہ چور صرف لنگوٹ پہن کر اور پورے جسم پر تیل لگا کر واردات کرنے جاتے تھے، تیل لگانے کی وجہ یہ تھی کہ اگر دوران واردات وہ پکڑا بھی جائے تو تیل کے باعث لوگوں کے ہاتھ سے پھسل جائے گا۔ گلاب خان کا یہ روایتی انداز بھی یہ ظاہر کر رہا تھا جو اس وقت رات کو ٹیکسلا کے ایک گھر کی چھت پر موجود تھا۔
خاتون خانہ کو شک تھا کیونکہ اسے آہٹ محسوس ہوئی تھی لیکن اس کے جھانکنے پر میاں بیوی نے شور مچا دیا۔ لوگوں نے اس کا پیچھا کیا، کاشت کاروں کے اس علاقے میں لوگ جلدی اٹھ جاتے تھے لہٰذا گلاب خان کا فرار ہونا ممکن نہ رہا، وہ پکڑا گیا اور زخمی ہو گیا۔ اسپتال میں اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے بچنے کی امید کم ہے تو اس نے ایک بڑے پولیس افسر کے سامنے انکشاف کرنے کی خواہش کی۔
بہرحال اعلیٰ حکام کو اطلاع دی گئی اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے ٹیکسلا پہنچ کر گلاب خان کا بیان ریکارڈ کرایا گیا۔ اس بارے میں لوگوں کی مختلف آرا تھیں، مثلاً یہ کہ ایک عام سا انسان کس طرح گیارہ افراد کے قتل کا مرتکب ہو سکتا ہے اور وہ اس گھر میں کیسے اور کس نیت سے داخل ہوا تھا، کیا چوری کی واردات کی نیت سے یا قتل کے ارادے سے؟
یہ ایک عجیب سی واردات تھی جس کے بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہمارے ملک میں پولیس کے لیے بہت سی مہمات کو سر کرنا اس لیے ہی ضروری نہیں کہ ان کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہے بلکہ انھیں اپنی نوکری بھی بچانا ضروری ہے اور اسے بچانے کے لیے وہ اسی طرح سے کام کرتے ہیں جس طرح دیگر سرکاری ملازمین۔ پھر پولیس پر اس قدر کے الزامات کیوں؟ تو اس کا جواب بہت مشکل ہے۔گلاب خان کا کیس ایک مثال ہے۔ اس وقت لوگوں میں اور میڈیا میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ گلاب خان ایک ڈمی ہے۔
ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے ایسے قتل کے اعتراف کیوں کیا۔ ایک جانب ہم پولیس پر بہت سارے اعتراضات کرتے رہتے ہیں لیکن دوسری جانب اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ ہمارے یہاں اب بھی دقیانوسی طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یعنی ایک مجرم جو گرفتاری میں آگیا ہے، چھترول لگا کر وہ بھی اگلوا لیا جائے جو اس نے کیا ہی نہیں۔ ایک عام پولیس والا اتنا ہی سادہ لوح ہے جتنا ایک عام شہری۔ لیکن مجرم ہمیشہ شاطر ہے اور خاص کر عادی مجرم۔
ہمارے یہاں اب بھی تفتیش کے لیے روایتی پرانے طریقے ہیں لیکن اب یہ شعور بیدار ہو رہا ہے کہ پولیس کے محکمے میں تیز تر نتیجہ خیز نتائج کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں ضلع شہید بے نظیر آباد، نوشہرو فیروز اور سانگھڑ کے تفتیشی افسران اور ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ نیاز احمد صدیقی نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس شہید بے نظیر آباد محمد یونس چانڈیو کی صدارت میں ایک آگاہی سیمینار میں اس اہم سلسلے پر روشنی ڈالی۔
اس سیمینار میں بیرسٹر شاہدہ حسن اور کنسلٹنٹ فارنزک فوزیہ طارق نے بھی خطاب کیا۔یہ سمینار اس حوالے سے بہت اہم تھا جس میں تفتیش کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور ایویڈنس تفتیش فارنزک اور جائے وقوعہ کے متعلق آگاہی بھی دی گئی۔
ریٹائرڈ آئی جی سندھ نیاز احمد صدیقی نے تفتیش کے طریقوں میں جہاں ٹیکنالوجی اور فارنزک جانچ پر زور دیا وہیں بہت تلخ اور سچی باتیں بھی کہیں۔ ایف آئی آر درج کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جہاں عوام میں اس کا درج کرانے کا شعور نہیں ہے، وہیں پولیس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کرنے کے لیے نت نئے بہانے گھڑے جاتے ہیں، رشوت طلب کی جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں ایف آئی آر درج ہی نہیں کراتے اور جب ایف آئی آر درج نہیں کرائی جاتی تو ظاہر ہے کہ وہ علاقہ کرائم فری قرار دے دیا جاتا ہے جب کہ اس علاقے میں جرم کی شرح دوسرے علاقوں سے کم نہیں ہوتی۔
صدیقی صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ جرم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا عوام ایف آئی آر ضرور درج کرائیں۔ آج ہم پولیس پر بہت سے الزامات لگا کر اپنا دل جلاتے رہتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ اصل وجہ وہی ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے تھی اور آج بھی وہی ہے۔ کبھی زیادہ کبھی کم۔ انصاف کے حصول کے لیے سرگرم عوام چکر پہ چکر لگاتے رہتے ہیں لیکن جس اصل حقیقت سے ہم سب نظریں چراتے ہیں وہ بدرجہ اتم اپنی جگہ موجود ہے۔
قیام پاکستان سے قبل انگریز حکمرانی کے دور میں پولیس کی کارکردگی اور غلامی کا طوق اتار دینے کے بعد کی کارکردگی میں کیا فرق ہے اس کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہماری پولیس آج بھی پچاس سال پرانے روایتی انداز میں کام کر رہی ہے جب شریف لوگ اس نام سے بھی گھبراتے تھے۔ چاقو باز بہت بڑے غنڈے، بدمعاش سمجھے جاتے تھے۔ بلم باز بڑے دھاک دار کہلاتے تھے۔ آج جرائم پیشہ جدید اسلحہ، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں لیکن ہماری پولیس۔۔۔!
بہرحال ہر حوالے سے یہ اہم ادارہ توجہ کا مستحق ہے۔ جدید سائنسی خطوط پر تفتیش کے طریقے اختیار کرنا بہت ضروری ہے تو ذہنی اور اخلاقی شعور کی اصلاح کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام اور پولیس کے درمیان خوف کے بجائے اعتماد کی فضا قائم ہو۔ دراصل مجرمانہ ذہنیت والے خوف کی فضا کو اسی لیے قائم رکھنے کے جتن کرتے ہیں کہ ان کا اپنا دھندا چلتا رہے اور گلاب خان کی طرح کی کہانی چلتی رہے۔ ہر دور میں کسی نہ کسی روپ میں۔