کلیات جاوید اور نقش برآب پر ایک نظر

کلیاتِ جاوید عبداللہ جاوید کے چار شعری مجموعوں، موج صد رنگ، حصار امکاں، خواب سماں اور اشراق پر مشتمل ہے

nasim.anjum27@gmail.com

اکادمی بازیافت سے دو کتابیں بہ عنوانات ''کلیاتِ جاوید'' اور ''نقش ِ برآب'' چند عرصہ قبل شایع ہوئی ہیں۔ کلیاتِ جاوید عبداللہ جاوید کے چار شعری مجموعوں، موج صد رنگ، حصار امکاں، خواب سماں اور اشراق پر مشتمل ہے۔

''کلیات جاوید'' 787 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ عبداللہ جاوید کی علم و ادب، شعر و سخن اور تراجم کے حوالے سے علیحدہ شناخت ہے، انھوں نے جہاں شاعری میں اپنا نام پیدا کیا، وہاں نثر بھی ان کا خاص حوالہ ہے۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے ہیں ،مت سہل ہمیں جانو، آگ کا دریا، تنہائی کے سو سال، مذاق، بھاگتے لمحے (افسانے) عبداللہ جاوید نے دیار غیر میں رہتے ہوئے اردو کی خدمت کی اور گلستان ادب میں اپنے نام کا سکہ جمالیا۔

وہ اس دنیائے آب و گل سے 16 مارچ 2022 کو سوئے عدم روانہ ہوگئے۔ بے شک ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ان کے انتقال پر ان کے اہل و عیال بے حد رنجیدہ تھے۔ شہناز خانم عابدی ان کی زوجہ آج تک اپنے محبوب شوہر کے دکھ سے باہر نہیں آسکی ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے اپنے خط میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے، اتنا پیارا ساتھی جو اچانک خاموشی سے جدا ہوگیا۔ بقول میر:

اس کے گئے پہ دل کی خرابی نہ پوچھیے
جیسے کسی کا کوئی نگر ہو لٹا ہوا

ان کے شعر و سخن کے حوالے سے رضی مجتبیٰ نے اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔

''مجھے جاوید صاحب کی شاعری پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوا کہ جیسے قطرہ آب سمندر سے اور سمندر قطرہ آب سے محو گفتگو ہے۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پرچھائیاں سنگلاخ فصیلوں کے حصار کے حصار کے اس پار نکل رہی ہوں، ان کی شاعری اس پار اور اس پار دونوں کی شاعری ہے اور کبھی کبھی اس پار اور اس پار حصار کے پار کی بھی۔ یہ Beyondness ان کی شاعری کے Spiritual Dimension کی غماز ہے۔ کتاب پر دیوندراِسّر، ڈاکٹر جمیل جالبی، شمس الرحمن فاروقی اور عقیل دانش کی بھی آراء درج ہیں۔ کلیات میں شامل پہلا شعری مجموعہ ''موج صد رنگ'' ہے۔ عبداللہ جاوید پیش لفظ میں شاعری کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں:

''میری رائے میں شاعری صناعی نہیں بلکہ خلاقی ہے اور خلاقی کو خالص شعوری عمل سمجھنا قرین قیاس نہیں۔ ہنری جیمس کہتا ہے ''ہم تاریکی میں کام کرتے ہیں'' شعر وارد ہوتا ہے، لایا نہیں جاتا۔ جب وہ آتا ہے تو اپنے ساتھ وہ سب کچھ لاتا ہے جس کو ہم فارم، اسلوب، آہنگ اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔ فارم کا اپنے طور پر کوئی وجود ہے نہ مصرف۔ اس تاریک دنیا میں جب شعر کی تخلیق ہوتی ہے تو فارم کے ساتھ ہوتی ہے۔ کوئی فارم اپنے طور پر نہ اچھا ہوتا ہے نہ برا، نہ تنگ ہوتا ہے اور نہ وسیع۔ عبداللہ جاوید نے یہ مفصل مضمون 15 مارچ 1968 کو لکھا تھا۔ کتاب کی ابتدا غزلیات سے ہوئی ہے۔ آغاز میں ایک شعر قارئین کو متاثر کرنے کا باعث ہے۔

صنف محبوب غزل کا تو وتیرہ ہے یہی
ہر نئے دور میں یہ تازہ جوانی مانگے

ایک اور شعر:

ہم نے اس صنف کو پرکھا تو سمندر پایا
لوگ کہتے ہیں دامانِ غزل تنگ بھی ہے

عبداللہ جاوید کی تمام شاعری ان کے دل کی وہ ساز و آواز ہے جو قاری کے دل میں اترتی ہے اور اپنے اثر کے باعث چند منٹوں یا گھنٹوں میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ ان کی غزلیں سچے جذبوں اور موسیقیت کے رنگ سے مرصع ہیں۔ چند اشعار نذر قارئین۔مطلع ہے:

چمکا جو چاند ،رات کا چہرہ نکھر گیا
مانگے کا نور بھی تو بڑا کام کر گیا

ساحل پہ لوگ یوں ہی کھڑے دیکھتے رہے
دریا میں ہم جو اترے تو دریا اُتر گیا


ایک اور خوبصورت معنویت سے پرغزل:

ترا خیال بہت دور لے گیا مجھ کو

زمانہ دیر تلک ڈھونڈتا رہا مجھ کو

مرے نصیب کہ کھل کر گناہ بھی نہ کیے
ہر ایسے وقت میں یاد آیا خدا مجھ کو

بے شک مومن کی یہی شان ہے اپنی غلطی پر نادم بھی ہوتا ہے اور گناہ کے خیال سے ہی تائب ہو جاتا ہے کہ کہیں اس کی پکڑ نہ ہو جائے۔ رب کی ناراضگی کی وجہ نہ بن جائے۔ عبداللہ جاوید بہت نیک اور باصلاحیت انسان تھے، یہ میرا خیال نہیں ہے بلکہ شہناز عابدی صاحبہ نے اپنے مضمون ''مجھے بھی کچھ کہنا ہے'' میں اس بات کا اظہار کیا ہے۔

جاوید ایک اچھے آدمی اور بہت اچھے انسان ہیں، ہر ایک کے دکھ درد کو اپنا بنا لیتے ہیں۔

ان کے شعری مجموعہ ''اشراق'' کی شاعری سے چیدہ چیدہ اشعار:

دل رنجور ہے اور کربلا ہے
شب عاشور ہے اور کربلا ہے

زمین پیاسی نہیں جو آب برسے
برستا نور ہے اور کربلا ہے

عبداللہ جاوید کی شاعری ان کے تجربات کا نچوڑ اور معاشرتی المیوں اور دل کے نازک جذبوں کو اجاگر کرتی ہے، یاسیت کے اندھیروں نے ان کا حال دل اور سینہ چیر کر رکھ دیا ہے۔ اسی شکست و ریخت کو انھوں نے اپنی شاعری میں جرأت اظہار کے ساتھ بیان کیا ہے۔

ان کی زیادہ تر شاعری حزن و ملال کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ محبوب سے جدائی کی کیفیت، نہ ملنے کا غم اور بچھڑنے کے احساس کو خون دل سے رقم کیا ہے۔

رفاقت عارضی تھی' مختصر تھی
ہم ان کے ساتھ کم لکھے ہوئے تھے

جناب عبداللہ صاحب بہترین شاعر، نثرنگار اور مترجم تھے۔ اللہ غریق رحمت کرے (آمین)

''نقش برآب'' شہناز خانم عابدی کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ صفحہ قرطاس پر 19 افسانوں میں زندگی کی کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ میں نے شہناز خانم عابدی کے کئی افسانے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے۔ ان کے انداز تحریر نے ایک نئے ذائقے سے متعارف کرایا۔ بے شک موضوعات تو سب کے لیے ایک سے ہی ہوتے ہیں لیکن انداز تحریر و تخلیق اپنا اپنا ہوتا ہے۔ ان کے افسانے 'میری گورڈن، جھوٹ، کالی فائل، جنبش لب اور زریاب اور بھی کئی افسانے جن کا شمار اپنی بنت، کردار نگاری اور ماحول سازی کے اعتبار سے بہترین افسانوں میں ہوتا ہے۔ شہناز عابدی نے رشتوں، ناتوںاور کرداروں کے احساسات و جذبات کی عکاسی عمدہ طریقے سے کی ہے۔ میری گورڈن ایک خوبصورت افسانہ ہے۔ ایک 80 سالہ بزرگ اور ایک نوجوان خاتون کی دوستی کو امر ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے، اپنی خصوصی انفرادیت اور کشش کے باعث قارئین کے دل و دماغ پر تادیر حکمرانی کرنے کا وصف رکھتا ہے۔ مغرب کے ماحول کی پردہ کشائی مصنفہ نے اچھوتے انداز میں کی ہے جہاں مغربی معاشرے نے شرم و حیا کی دھجیاں بکھیر دیں وہاں ایسے گھرانے بھی آباد ہیں جو تہذیب و شرافت کے دائرے میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ افسانہ ''جھوٹ'' دلچسپ ہونے کے ساتھ اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ مغرب کے لوگ اپنی خوشی اور تفریح کے لیے نت نئے جتن کرتے ہیں۔ شہناز عابدی نے بہت دلکش اور سماجی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے افسانے تخلیق کیے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کا اثر دیرپا ہے۔ مبارکباد!
Load Next Story