علم روحانیت کیا ہے
روحانیت کی اصطلاح میں جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے اسے مراقبہ کہا جاتا ہے
انسانی شخصیت کے دو پہلو ہیں ایک ظاہری پہلو اور دوسرا باطنی پہلو۔ ظاہری پہلو کو جسم اور باطنی پہلو کو روح کا نام دیا جاتا ہے۔ جس طرح جسم کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اسی طرح روح کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ روح کے تقاضوں کے مطالعے کو علم روحانیت کا نام دیا جاتا ہے۔
آئیے اصطلاحات کی مدد سے علم روحانیت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ روحانیت کے نقطہ نظر سے انسان کے چار وجود ہیں۔ وجود ناسوتی، وجود ملکوتی، وجود جبروتی اور وجود لاہوتی۔ وجود کو علم کا نام بھی دیا جاتا ہے جس کے معنی نشانیاں کے ہیں۔ جس کائنات میں ہم رہ رہے ہیں ،اس کو عالم ناسوت کا نام دیا جاتا ہے۔
اس کا فعل حواس خمسہ جیسے کھانا، پینا، دیکھنا، سننا، بولنا وغیرہ۔ عالم ملکوتی یہ صوفیا کا عالم ہے یہ عالم طبعی حاجات سے پاک ہے۔ عالم جبروت سے مراد حق تعالیٰ کے اسماء صفات کا عالم ہے اس کا فعل صفات حمیدہ۔ جیسے ذوق، شوق، طلب، سکر، صحو اور محو وغیرہ ہیں۔
عالم لاہوت اس کے معنی عالم ذات کے ہیں، یہ عالم مادیت سے بالاتر ہے۔ رب تعالیٰ کی قربت کے حصول کے لیے ان چاروں وجود کی تعلیم و تربیت کے لیے الگ الگ نصاب مقرر کیے گئے ہیں۔ عالم ناسوت کی تعلیم تربیت کے لیے علم شریعت اور اعمال شریعت کا نصاب مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے مجموعہ قوانین کو علم شریعت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی تدریس کی ذمے داری علما کرام پر عائد ہے۔
وجود ملکوتی کی تعلیم و تربیت کے لیے علم طریقت اور اعمال طریقت کا نصاب مقرر ہے۔ انسان کا اپنے باطن میں اخلاص پیدا کرنے کا نام طریقت ہے۔ اس میں سالک اپنے ظاہر کے ساتھ اپنے باطن پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ اس کی تدریس کی ذمے داری پیر کامل کے ہاتھ میں ہے۔ وجود جبروتی کی تعلیم و تربیت کے نصاب کا نام علم معرفت اور اعمال معرفت ہے۔ معرفت کے لفظی معنی تدبر و تفکر سے شے کا ادراک کرنے کے ہیں۔ روحانی اصطلاح میں معرفت وہ چراغ ہے جس کی روشنی سے خیر اور شر کو پہچانا جاسکے۔ اس نصاب کی ذمے داری بھی پیر کامل پر ہے۔
وجود لاہوتی کے معنی تعلیم و تربیت کا نصاب علم حقیقت اور اعمال حقیقت ہے جس کے ذریعے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کی تدریس کی ذمے داری پیر کامل کے ذمے ہے۔ اس علم کی بدولت سالک اللہ تعالیٰ کی بندگی کے نتیجے میں بھید الٰہی سے آگاہ ہوجاتا ہے اور انسان نفس شیطانی اور حب دنیا کے شر سے نجات پا جاتا ہے۔تحریر میں پیر کامل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ پیر کامل اس انسان کامل کو کہتے ہیں جو شریعت پر عامل طریقت پر کامل اور حقیقت کا حامل ہو اور سلسلہ بیعت اس کا آخری نبی کریمؐ تک صحیح ہو۔ صوفیا کی زبان میں اسے شیخ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
بغیر کسی شعوری کوشش کے کسی واقعے یا شے کے بارے میں علم ہو جانا وجدان کہلاتا ہے۔ اسے چھٹی حس بھی کہتے ہیں۔ صوفیائے کرام کے نزدیک وجدان وہ واردات تجلیات ہیں جو بارگاہ الٰہی سے سالک کے قلب پر وارد ہوتی ہے جس سے سالک بھید الٰہی سے واقف ہو جاتا ہے۔
علم روحانیت میں ایک اصطلاح نفس کی استعمال کی جاتی ہے۔ عقلی قوتوں کا سرچشمہ دماغ ہے اور اثر پذیر قوتوں کا مرکز دل (قلب) ہے۔ ذہن اور روح کے اس متبادل لفظ کو نفس کا نام دیا جاتا ہے۔ صوفی کی زبان میں نفس خواہشات کے حصول کا دوسرا نام ہے۔ ذہن کا وہ حصہ جس میں پیدائشی طور پر لاشعوری جبلی خواہشات ہوتی ہیں جوکہ فوری تسکین چاہتی ہیں اس سے شر سے متعلقہ قوتیں غالب ہوتی ہیں اسے نفسیات کی زبان میں (ID) Evil Selfکہا جاتا ہے، روحانی اصطلاح میں نفس امارہ کہا جاتا ہے۔
ایسی قوت جس میں فرد میں نیکی اور بدی کی قوتیں بیک وقت کام کر رہی ہوتی ہیں یعنی ان میں کشمکش جاری رہے اس کی سوچ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اچھائی اور برائی دونوں میں کشش محسوس ہوتی ہے اسے علم نفسیات میں EGO اور روحانیت میں نفس لوامہ کا نام دیا جاتا ہے۔
ذہن کا وہ حصہ جو اخلاقی تربیت کے زیر اثر پیدا ہوتا ہے اس میں فرد پر اچھائی کی قوت مکمل طور پر غالب آ جاتی ہے۔ ایسا فرد برائی کی طرف بالکل مائل نہیں ہوتا۔ یعنی یہ لذت پسندی ID اور مصلحت پسندی EGO کے بجائے تکمیل پسندی Super EGO کی کوشش کرتا ہے، یعنی جب انسانی ذات پر خیر کی قوت غالب آجائے اور شر سے محفوظ ہو جائے تو یہ نفس مطمئنہ کہلاتا ہے۔ یہاں شر اور خیر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
دنیاوی لحاظ سے خیر کو موقع اور شر کو حادثہ کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ روحانی اصطلاح میں خیر وہ شے ہے جو فطرت کے تقاضوں کے طور پر طلب کرے اور بشر وہ شے ہے جو اعلیٰ مقاصد مسرت اور عمومی فلاح میں رکاوٹ ڈالتی ہو۔
روحانیت میں ایک اصطلاح ذکر کی استعمال کی جاتی ہے۔ ذکر نسیاں یعنی بھول کی ضد کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ روحانیت کی اصطلاح میں رب تعالیٰ کو یاد کرنے کا نام ذکر ہے۔ جو ذکر زبان سے کیا جائے وہ ذکر لسانی جو ذکر دل سے کیا جائے وہ ذکر قلبی اور جو ذکر سارے جسم سے کیا جائے، وہ ذکر روحی کہلاتا ہے۔
ذکر کے حوالے سے علم روحانیت میں کچھ اصول اور ضابطے میں جن کو پیر کامل کی رہنمائی میں انجام دیا جاتا ہے۔ نفسیات کی زبان میں ایک چیز شعور اور دوسری لاشعور ہوتی ہے۔ لاشعور کو روحانیت کی اصطلاح میں کیفیت یا حالت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے سات درجے ہیں جن کو رغبت، محبت، عشق، وصل، فنا، حیرت اور بقا کے عنوانات کے تحت جانا جاتا ہے۔
روحانیت کی اصطلاح میں نیکی پر چلنے والے کو سالک کہتے ہیں۔ جب جذبہ الٰہی میں سالک ایسی کیفیت یا حالت میں مبتلا ہو جائے کہ وہ سلوک کے قواعد پر عمل نہ کر سکے ایسے شخص کو مجذوب کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ قابل تقلید نہیں ہوتے اور نہ ہی ان پر شریعت کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔
ذہنی قوتوں کا کسی ایک نکتے یا تصور پر مرکوز کر دینا مراقبہ کہلاتا ہے۔ روحانیت کی اصطلاح میں جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے اسے مراقبہ کہا جاتا ہے۔ مجاہدہ کے معنی خود کو محنت اور مشقت میں ڈالنے کے ہیں۔ روحانیت کی اصطلاح میں نفس کو کنٹرول کرنے کا نام مجاہدہ ہے۔ اسے ریاضت بھی کہتے ہیں اس کے ذریعے روحانی اوصاف کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے۔
روحانیت میں ایک لفظ مقام کا استعمال ہوتا ہے جس کے لفظی معنی منزل کے ہیں۔ اصطلاح میں مقام سے مراد بندے کا اپنے معبود کے لیے عبادات، مجاہدات اور ریاضت بجا لانا۔ اس عمل کے نتیجے میں رب تعالیٰ کی طرف سے جو درجہ ملتا ہے اسے مقام کہتے ہیں۔ اہل اللہ، اہل حق، صالحین، ابدال اور قطب وغیرہ وہ درجے ہیں جنھیں مقام کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو ملتا ہے۔