خبر یا افواہ
امید یہی کرنی چاہیے کہ یہ ایک غیرمصدقہ یا جان بوجھ کر پھیلائی جانے والی ایک غلط خبر ہو
فیس بک پر لگائی جانے والی پوسٹوں میں بیان کی جانے والی باتوں اورخبروں کی تصدیق کا کوئی باقاعدہ طریقہ کار نہ ہونے کی وجہ سے انھیں من و عن تسلیم کرنا یا آگے بڑھانا بعض اوقات بہت سی غلط فہمیوں اور بدمزگیوں کی وجہ بھی بن جاتا ہے کہ بہت سے مہربان محض توجہ طلبی، اسکینڈل بازی یا بدنیتی کی وجہ سے بہت سے واقعات اور کرداروںکے بارے میں جان بوجھ کر ایسی غلط اطلاعات فراہم کرتے ہیں جن سے غلط اور من گھڑت اطلاعات بعض اوقات حقائق اور شواہد کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں اور ان سے متعلق بے گناہ لوگوں کو خوامخواہ کی وضاحتیں پیش کرنا پڑتی ہیں اور کسی نہ کسی حد تک ان کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔
اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ا بھی ابھی فیس بک پر ایسی ہی ایک خبر نظر سے گزری ہے جس کے مطابق واشنگٹن کی وزارت خارجہ کی ایک ایسی عمارت کو وزیراعظم میاں شہباز شریف نے 68لاکھ ڈالر میں فروخت کی اجازت دے دی ہے جس کی صرف تزئین و آرائش پر ہی 70لاکھ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔
پوسٹ لگانے والے صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ خود رئیل اسٹیٹ کا کام کرتے ہیں اور یہ عمارت 12ملین یعنی 120لاکھ میں خریدنے کو تیار ہیں لیکن موصوف نے کسی قسم کا کوئی ثبوت پوسٹ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بہرحال اگر یہ وہی عمارت ہے جہاں میں غالباً 2015میں اعزاز چوہدری صاحب کی سفارت کاری کے زمانے میں اُن سے ملا تھا تو بلاشبہ وہ ایک انتہائی شاندار اور غیرمعمولی عمارت تھی جسے اگر کسی وجہ سے بیچنا پڑ ہی جائے تو وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے لیے بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
سو، امید یہی کرنی چاہیے کہ یہ ایک غیرمصدقہ یا جان بوجھ کر پھیلائی جانے والی ایک غلط خبر ہو۔ اتفاق سے مجھے شعر و ادب کے حوالے سے دنیا کے بہت سے ممالک کی سیاحت کا موقع ملا ہے اور بعض ممالک میں تو دس سے بھی زیادہ بار جانے کا اتفاق ہوا ہے۔
امریکا، برطانیہ، یو اے ای، انڈیا، قطر اور سعودی عرب کا شمار اسی فہرست میں ہوتا ہے اور میری ہرممکن کوشش ہوتی ہے کہ کم از کم ایک بار اپنے سفارت خانے میں ضرور حاضری دی جائے کہ اس کے درودیوار سے وطن کی خوشبو آتی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ جہاں جہاں پہلے کی خریدی یا تعمیر کردہ عمارتیں ہیں، اُن کا ماحول اور فضا ہی الگ سی ہے۔
اس ضمن میں ہالینڈ کے پاکستانی سفارت خانے کی شاندار تاریخی عمارت خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اتفاق سے وہاں بھی جانا اُن دنوں میں ہوا جب برادرم اعزاز احمد چوہدری سفیر پاکستان کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ پچاس کی دہائی میں جب بیگم رعنا لیاقت علی خان یہاں سفیر بن کر آئیں تو اُن کی ذاتی دوستی وہاں کی ملکہ سے اس قدر بڑھی کہ ملکہ نے اپنا ایک محل اُن کو بطور تحفہ پیش کر دیا۔
اب یہ کمال اور بڑائی بیگم رعنا لیاقت علی کی ہے کہ انھوں نے یہ بے حد قیمتی ذاتی تحفہ حکومت پاکستان کو سفارت خانے کی عمارت کے طور پر مفت پیش کر دیا اور یوں اپنے مرحوم شوہر کی روائت کو آگے بڑھایا جنھوں نے ایک ریاست کا مالک ہونے کے باوجود پاکستان کی محبت میں سب کچھ قربان کر دیا اور مرتے وقت ان کے بینک اکائونٹ میں صرف چند سو روپے تھے۔
ایک زمانے میں پی آئی اے کی طرح ہمارا فارن آفس بھی تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ایک مثال ہوا کرتا تھا اور سفارت خانے کا عملہ اُس ملک میں موجود یا مقیم پاکستانیوں کے لیے ایک گھر کا سا درجہ رکھتا تھا مگر بدقسمتی سے سیاسی بدنظمی اور اقربا پروری کی وجہ سے محکمے کے باہر سے من پسند لوگوں کو سفارتی ذمے داریاں سونپنے کا رواج ایک بدعت کی شکل اختیار کرگیا کہ اس راستے سے آنے و الے بیشتر لوگ نہ تو اس ذمے داری کے اہل تھے اور نہ ہی اپنے کام کے تقاضے سمجھنے اور سیکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
زیادہ تر کے لیے یہ پوسٹنگ اعلیٰ عہدے اور معاشی مفادات کا ایک پیکیج تھی جو انھیں کسی ناجائز دبائو کی وجہ سے مل گیا تھا۔ سو، وہ اپنی منصبی ذمے د اری نبھانے کے بجائے سارا کام ماتحتوں پر چھوڑ کر سوائے وقت گزاری کے اور کچھ نہیں کرتے تھے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود عمومی طور پر ہماری باقاعدہ فارن سروس سے متعلق احباب نے صورتِ حال کو بہت حد تک سنبھالے رکھا اورہمیں عالمی برادری میں شرمندہ نہیں ہونے دیا ۔
بات شروع ہوئی تھی ان خبروں کے حوالے سے جوسوشل میڈیا پر بغیر کسی تحقیق کے یا جان بوجھ کر افواہ پردازی کے انداز میں پھیلائی جاتی ہیں اور جن سے بعض اوقات کچھ لوگوں کی زندگیوں میں خوامخواہ کی اور بعض اوقات بہت خطرناک پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں جن کی نہ صرف روک تھام بہت ضروری ہے بلکہ ایسے غیرمحتاط اور تماشبین نما لوگوں کو بھی یہ سمجھانا ہم سب کا فرض ہے کہ اُن کے اس مبنی برمذاق ایڈونچر کا نتیجہ کس قدر خوفناک ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان خبروں پر فوراً یقین کرنے اور انھیں آگے پھیلانے والوں کے لیے بھی لازمی ہے کہ وہ اس معاملے کی نزاکت کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور کسی بھی اطلاع یا افواہ پر آنکھیں بند کرکے یقین نہ کیا کریں۔ اس حوالے سے ایک مختصر پرانی نظم
ہاں سنو دوستو
جو بھی دنیا کہے اُس کو پر کھے بنا مان لینا نہیں
ساری دنیا یہ کہتی ہے
پربت پہ چڑھنے کی نسبت اُترنا بہت سہل ہے
کس طرح مان لیں
تم نے دیکھا نہیں سرفرازی کی دُھن میں کوئی آدمی
جب بلندی کے رستے پہ چلتا ہے تو
سانس تک ٹھیک کرنے کو رکتا نہیں
اور اُسی شخص کا
عمر کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے پائوں اُٹھتا نہیں!
اس لیے دوستو
جو بھی دنیا کہے اُس کو پر کھے بنا مان لینا نہیں
اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ا بھی ابھی فیس بک پر ایسی ہی ایک خبر نظر سے گزری ہے جس کے مطابق واشنگٹن کی وزارت خارجہ کی ایک ایسی عمارت کو وزیراعظم میاں شہباز شریف نے 68لاکھ ڈالر میں فروخت کی اجازت دے دی ہے جس کی صرف تزئین و آرائش پر ہی 70لاکھ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔
پوسٹ لگانے والے صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ خود رئیل اسٹیٹ کا کام کرتے ہیں اور یہ عمارت 12ملین یعنی 120لاکھ میں خریدنے کو تیار ہیں لیکن موصوف نے کسی قسم کا کوئی ثبوت پوسٹ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بہرحال اگر یہ وہی عمارت ہے جہاں میں غالباً 2015میں اعزاز چوہدری صاحب کی سفارت کاری کے زمانے میں اُن سے ملا تھا تو بلاشبہ وہ ایک انتہائی شاندار اور غیرمعمولی عمارت تھی جسے اگر کسی وجہ سے بیچنا پڑ ہی جائے تو وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے لیے بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
سو، امید یہی کرنی چاہیے کہ یہ ایک غیرمصدقہ یا جان بوجھ کر پھیلائی جانے والی ایک غلط خبر ہو۔ اتفاق سے مجھے شعر و ادب کے حوالے سے دنیا کے بہت سے ممالک کی سیاحت کا موقع ملا ہے اور بعض ممالک میں تو دس سے بھی زیادہ بار جانے کا اتفاق ہوا ہے۔
امریکا، برطانیہ، یو اے ای، انڈیا، قطر اور سعودی عرب کا شمار اسی فہرست میں ہوتا ہے اور میری ہرممکن کوشش ہوتی ہے کہ کم از کم ایک بار اپنے سفارت خانے میں ضرور حاضری دی جائے کہ اس کے درودیوار سے وطن کی خوشبو آتی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ جہاں جہاں پہلے کی خریدی یا تعمیر کردہ عمارتیں ہیں، اُن کا ماحول اور فضا ہی الگ سی ہے۔
اس ضمن میں ہالینڈ کے پاکستانی سفارت خانے کی شاندار تاریخی عمارت خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اتفاق سے وہاں بھی جانا اُن دنوں میں ہوا جب برادرم اعزاز احمد چوہدری سفیر پاکستان کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ پچاس کی دہائی میں جب بیگم رعنا لیاقت علی خان یہاں سفیر بن کر آئیں تو اُن کی ذاتی دوستی وہاں کی ملکہ سے اس قدر بڑھی کہ ملکہ نے اپنا ایک محل اُن کو بطور تحفہ پیش کر دیا۔
اب یہ کمال اور بڑائی بیگم رعنا لیاقت علی کی ہے کہ انھوں نے یہ بے حد قیمتی ذاتی تحفہ حکومت پاکستان کو سفارت خانے کی عمارت کے طور پر مفت پیش کر دیا اور یوں اپنے مرحوم شوہر کی روائت کو آگے بڑھایا جنھوں نے ایک ریاست کا مالک ہونے کے باوجود پاکستان کی محبت میں سب کچھ قربان کر دیا اور مرتے وقت ان کے بینک اکائونٹ میں صرف چند سو روپے تھے۔
ایک زمانے میں پی آئی اے کی طرح ہمارا فارن آفس بھی تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ایک مثال ہوا کرتا تھا اور سفارت خانے کا عملہ اُس ملک میں موجود یا مقیم پاکستانیوں کے لیے ایک گھر کا سا درجہ رکھتا تھا مگر بدقسمتی سے سیاسی بدنظمی اور اقربا پروری کی وجہ سے محکمے کے باہر سے من پسند لوگوں کو سفارتی ذمے داریاں سونپنے کا رواج ایک بدعت کی شکل اختیار کرگیا کہ اس راستے سے آنے و الے بیشتر لوگ نہ تو اس ذمے داری کے اہل تھے اور نہ ہی اپنے کام کے تقاضے سمجھنے اور سیکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
زیادہ تر کے لیے یہ پوسٹنگ اعلیٰ عہدے اور معاشی مفادات کا ایک پیکیج تھی جو انھیں کسی ناجائز دبائو کی وجہ سے مل گیا تھا۔ سو، وہ اپنی منصبی ذمے د اری نبھانے کے بجائے سارا کام ماتحتوں پر چھوڑ کر سوائے وقت گزاری کے اور کچھ نہیں کرتے تھے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود عمومی طور پر ہماری باقاعدہ فارن سروس سے متعلق احباب نے صورتِ حال کو بہت حد تک سنبھالے رکھا اورہمیں عالمی برادری میں شرمندہ نہیں ہونے دیا ۔
بات شروع ہوئی تھی ان خبروں کے حوالے سے جوسوشل میڈیا پر بغیر کسی تحقیق کے یا جان بوجھ کر افواہ پردازی کے انداز میں پھیلائی جاتی ہیں اور جن سے بعض اوقات کچھ لوگوں کی زندگیوں میں خوامخواہ کی اور بعض اوقات بہت خطرناک پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں جن کی نہ صرف روک تھام بہت ضروری ہے بلکہ ایسے غیرمحتاط اور تماشبین نما لوگوں کو بھی یہ سمجھانا ہم سب کا فرض ہے کہ اُن کے اس مبنی برمذاق ایڈونچر کا نتیجہ کس قدر خوفناک ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان خبروں پر فوراً یقین کرنے اور انھیں آگے پھیلانے والوں کے لیے بھی لازمی ہے کہ وہ اس معاملے کی نزاکت کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور کسی بھی اطلاع یا افواہ پر آنکھیں بند کرکے یقین نہ کیا کریں۔ اس حوالے سے ایک مختصر پرانی نظم
ہاں سنو دوستو
جو بھی دنیا کہے اُس کو پر کھے بنا مان لینا نہیں
ساری دنیا یہ کہتی ہے
پربت پہ چڑھنے کی نسبت اُترنا بہت سہل ہے
کس طرح مان لیں
تم نے دیکھا نہیں سرفرازی کی دُھن میں کوئی آدمی
جب بلندی کے رستے پہ چلتا ہے تو
سانس تک ٹھیک کرنے کو رکتا نہیں
اور اُسی شخص کا
عمر کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے پائوں اُٹھتا نہیں!
اس لیے دوستو
جو بھی دنیا کہے اُس کو پر کھے بنا مان لینا نہیں