غلطیاں بانچھ نہیں ہوتیں… سقوط ڈھاکا
یاد رکھیں غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتیں، اگر ان کو درست نہ کیا گیا تو تاریخ خود کو دہراتی رہے گی
51 سال پہلے 16دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا، ایک ایسا المناک سانحہ اور قومی المیہ ہے جس کے تذکرے سے ہی تلخیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
16 اگست 1947 کو پاکستان قائم ہوا تو وہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت تھا لیکن 24سال بعد اس کا ایک حصہ جو مشرقی پاکستان کہلاتا تھا، بنگلہ دیش بن گیا۔ 51 سال گزرنے کے باوجود ہم آج تک اس بات کا تعین نہیں کر سکے ہیں کہ مملکت پاکستان کے دولخت ہونے کی اصل اور مرکزی وجہ کیا ہے۔
1971 میں جب سقوط ڈھاکا ہوا تو یحییٰ خان متحدہ پاکستان کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔سقوط ڈھاکا ہوا، یحیٰ خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا، بعد میں ذوالفقار علی بھٹو صدر، وزیر اعظم اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا،پھربے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں۔ درمیان میں نواز شریف بھی آئے۔ پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی پانچ سال تک برسراقتدار رہی۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ اس وقت تک عوام سے پوشیدہ رہی جب تک انڈیا کے اخبارات نے اس کے کچھ مندرجات کو افشاء کرنا شروع کر دیا۔ صدر مشرف کو مجبوراً اس کے کچھ حصے پبلک کرنا پڑے۔ اس رپورٹ کے جو حصے پبلک کیے گئے، ان کے مطالعے سے یہ ثابت ہے کہ اس وقت پاکستان کا اقتدار یحییٰ خان اور اس کے حواریوںکے پاس تھاجو اس وقت ریاست اور ریاستی اداروں اور وزارتوں کو کنٹرول کررہے تھے جب کہ بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن سیاست کو کنٹرول کررہے تھے۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے سقوط ڈھاکا کے ہر پہلو کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر سقوط ڈھاکا کے کرداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے اور وہ کسی بھی طرح قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔
سقوط مشرقی پاکستان کے حقیقی عوامل سے جب تک پاکستان کا عام شہری با خبر نہ ہو گا اس وقت تک ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کیسے کر سکیں گے۔ جس طرح صحیح تشخیص کے بغیر علاج ممکن نہیں ہوتا، اسی طرح غلطیوں کا ادراک کیے بغیر اصلاح کیسے ممکن ہے؟ سقوط ڈھاکا ایک سوچی سمجھی بین الاقومی سازش تھی یا ہماری غلطیوں کا منطقی انجام، اس کا جواب حمود الرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دے دیا لیکن عام آدمی کی رسائی سے یہ رپورٹ دور ہے۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے بڑے واضح انداز میں ان صاحب اختیار لوگوں کی نشاندہی کی ہے جن پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلانا ضروری ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو پوری طرح آشکار کیا جائے۔ اسے ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ پاکستان توڑنے والے کرداروں پر مقدمات درج کیے جائیں۔ قوم یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ ممبران پارلیمنٹ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔
جب تک ہم اپنی تاریخ کے اس المناک ترین سانحے کے اسباب و عواقب اور حالات سے بے خبر رہیں گے، یہاں عوامی حاکمیت کا خواب پورا نہ ہو سکے گا۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم تاریخ پاکستان کے اس تلخ باب کے حقائق کو اس طرح سامنے لائیں کہ آیندہ آنے والی نسلیں اور حکومتیں ان غلطیوں کو نہ دہرائیں۔
یاد رکھیں غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتیں، اگر ان کو درست نہ کیا گیا تو تاریخ خود کو دہراتی رہے گی۔ تاریخ کا دھارا تسلسل سے رواں دواں رہتا ہے۔ سقوط ڈھاکا نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں۔آئین اور قانون کی حکمرانی کو اولیت دیں اور ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو فوقیت دیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین